ڈاکٹر محمد مشتاق ، ممتاز ماہر قانون

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 4 )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر محمد مشتاق :

پہلے یہ پڑھیے

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 1 )

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 2 )

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 3 )

پس چہ باید کرد ؟ اس سارے قضیے سے نمٹنے کےلیے حکمتِ عملی کیا ہو؟
اس سوال کے جواب میں دو پہلوؤں ، علمی اور عملی ، پر بحث کی ضرورت ہے۔

علمی پہلو پر حقوقِ انسانی کے پورے ڈسکورس کے بارے میں تنقیدی اور تحلیلی تجزیے کے بعد ایک سوچا سمجھا موقف اپنانا ضروری ہے۔ صرف اتنا کہنا کافی نہیں ہے کہ یہ سارے حقوق تو ہم صدیوں پہلے دے چکے ہیں، یا اس سے بہتر حقوق دے چکے ہیں۔ حقوقِ انسانی کا پورا ڈسکورس لادینیت، بلکہ الحاد، پر مبنی ہے اور اس کا سامنا کرنے کے یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آپ جزئیات کو الگ الگ لے کر ان کی اسلام سے مطابقت، یا اسلام کی ان سے مطابقت پیش کریں۔ مکرر عرض ہے کہ ہمارا اپنا تصورِ جہاں ہی بالکل مختلف ہے اور ہمارے نظام کی اقدار اور ان اقدار کی ترتیب ہی الگ ہے۔

اس لیے ہمارے نزدیک سب سے اہم کام یہ ہے کہ پہلے اس حقیقت کا اعتراف کیا جائے کہ بین الاقوامی قانون مغربی تہذیب کی پیداوار ہے اور اس کے اقدار اسلامی قانون کے اقدار سے مختلف ہیں۔ (واضح رہے کہ ہم انھیں ’ مختلف ‘ کہہ رہے ہیں جس کا لازمی مطلب ’ متعارض ‘ نہیں ہوتا ۔) جب تک اختلاف کا اقرار نہیں کیا جاتا، اختلاف ختم کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جاسکتا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ان دونوں نظام ہائے قوانین میں موجود اختلاف معمولی نوعیت کا نہیں بلکہ یہ اختلاف اساسی امور پر ہے اور اقداری سطح پر ہے۔

اس لیے پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ اسلامی قانون کو بھی اپنی اقدار کو آفاقی اقدار کے طور پر پوری دنیا کے انسانوں کے سامنے پیش کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ بہ الفاظِ دیگر، دونوں نظام ہائے قوانین کے درمیان آزادانہ مسابقت ہونی چاہیے۔ جب تک بین الاقوامی قانون اپنے مقابل کے طور پر اسلامی قانون کا یہ حق نہیں مانتا، مسلمانوں اور مغرب کے درمیان ہونے والا کوئی بھی مکالمہ لایعنی اور بے مقصد ہے۔

جب تک ایسے آزادانہ مسابقت کا ماحول پیدا نہ ہوجس میں اسلامی قانون کو اپنی اقدار پوری دنیا کے سامنے آفاقی اقدار کے طور پر پیش کرنے کا موقع ہو، کم از کم یہ کیا جاسکتا ہے کہ دونوں نظام ہائے قوانین کے درمیان کوئی ’ مشترک نکتہ ‘ یا ’ کلمۃ سوآء ‘ تلاش کیا جائے لیکن اختلاف کی نفی کیے بغیر! کوئی بھی بامعنی مکالمہ اختلاف کی نفی کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔ فریقین کو حالت ِ انکار (state of denial)سے نکلنا ہوگا۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اسلامی قانون روزِ اول سے ہی فرد سے مخاطب ہے اور کسی اعتباری شخصیت کا پردہ انسانوں کو اسلامی قانون کے خطاب سے نہیں روک سکا۔ مغربی بین الاقوامی قانون نے صدیوں کے سفر کے بعد بالآخر یہ راز پالیا ہے کہ جب تک وہ اعتباری شخصیت کا پردہ چاک کرکے براہِ راست انسان کو مخاطب نہ کرے، مسائل حل نہیں ہوں گے۔

چنانچہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں اسے ریاست کی اعتباری شخصیت کے پردے میں چھید کرنے پڑے اور یوں حقوق ِ انسانی کے بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی فوجداری قانون نے جنم لیا۔ اس لیے یہ دونوں قوانین کم از کم اس بنیادی سطح پر اسلامی قانون سے قریب ہیں اور ان کو مشترک نکتے یا کلمۃ سوآء کے طور پرلیا جاسکتا ہے۔ ان دونوں قوانین پر بامعنی مکالمے کی ضرورت ہے۔
ایسا کوئی بھی مکالمہ تک تب تک بامعنی نہیں ہوسکتا جب تک یہ دو باتیں تسلیم نہ کی جائیں:

ایک یہ کہ دونوں نظام ہائے قوانین کے اقدار ایک دوسرے سے مختلف ہیں؛ اور
دوسری یہ کہ دونوں نظام ہائے قوانین کے اقدار میں ترتیب بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اس آخری نکتے پر وضاحت کی ضرورت ہو تو حقوق انسانی کے بین الاقوامی میں اظہار رائے کی آزادی کے حق کا موازنہ اسلامی قانون کے تصورِ توہین رسالت کے ساتھ کیجیے۔ ذرا سے تامل سے ہی معلوم ہوجائے گاکہ اقدار کی ترتیب پر اختلاف ہو تو قانون کی تفصیلات میں اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں؟

توہینِ رسالت کے مسئلے پر مغربی اقدار اور اسلامی اقدار کا فرق جب تک واضح نہ ہو، اس مسئلے کی نوعیت اور شدت کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا ۔ ” توہینِ مذہب کے حق “ کے متعلق مغربی طرزِ فکر کو سمجھنے کےلیے زیادہ نہیں تو دو صفحات کا ایک مضمون پڑھنے کی تجویز دوں گا جو مشہور امریکی فلسفیِ قانون رونالڈ ڈوورکن نے The Right to Ridicule ( تضحیک کا حق ) کے عنوان سے نیو یارک ٹائمز کےلیے لکھا تھا اور 23 جون 2006ء کو شائع ہوا تھا۔

ڈوورکن کے مضمون کا پس منظر یہ ہے کہ 2006ء میں ڈنمارک کے بعض اخبارات نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق توہین آمیز خاکے شائع کیے تھے جس پر مسلم دنیا میں شدید ردعمل ہوا تھا۔ بعد میں بعض برطانوی اور امریکی اخبارات نے بھی یہ خاکے شائع کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم مسلمانوں کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے انھوں نے یہ فیصلہ منسوخ کردیا اور یہ خاکے شائع نہیں کیے۔

ڈوورکن یہ اہم سوال اٹھاتا ہے کہ خواہ عملی نتائج کے اعتبار سے کارٹونوں کی اشاعت روکنے کا فیصلہ حکیمانہ نظر آتا ہو ، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کے حق پر بالخصوص ” کثیر الثقافتی معاشرے “ کے تناظر میں قدغن لگائی جاسکتی ہے؟ کیا کسی مذہب کےلیے جو بات توہین آمیز یا مضحکہ خیز ہو ، اسے جرم قرار دیا جانا چاہیے؟

وہ پوری صراحت کے ساتھ یہ دعوی کرتا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی مغربی ثقافت کی کوئی امتیازی خصوصیت نہیں ہے جسے دوسری ثقافتوں کی خاطر، جو اسے نہیں مانتیں، محدود کیا جاسکے، بالکل اسی طرح جیسے مسیحی علامات کے ساتھ ہلال یا منارے کےلیے گنجائش پیدا کی جائے۔ اس کے برعکس اس کا کہنا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی حکومت کے جواز کی شرط ہے! (Free speech is a condition of legitimate government.) کوئی قانون اور کوئی پالیسی اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک اسے جمہوری طریقے سے نہ بنایا جائے اور جب کسی کو کسی قانون یا پالیسی کے متعلق اپنی رائے کے اظہار سے روکا جائے تو جمہوریت بے معنی ہوجاتی ہے۔

وہ مزید کہتا ہے کہ تضحیک اظہار کا ایک خاص پیرایہ ہے اور اگر اس کی نوک پلک درست کرنے یا اصلاح کی کوشش کی جائے تو وہ پیرایہ غیرمؤثر ہوجاتا ہےاور اسی وجہ سے صدیوں سے اچھے یا برے ہر طرح کے مقاصد کےلیے کارٹون اور تضحیک کے ہتھیار استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ چنانچہ اس بنیاد پر ڈوورکن یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ جمہوریت میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے، خواہ وہ کتنا ہی طاقتور یا کتنا ہی کمزور ہو، کہ اس کی توہین یا تضحیک نہیں کی جائے گی۔

یہاں ڈوورکن اس بات کی وضاحت کےلیے ، کہ کیوں جمہوریت میں اظہار رائے کے حق پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی، کہتا ہے کہ اگر کمزور اور غیرمقبول اقلیتیں یہ چاہتی ہیں کہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو اور اکثریت محض اپنی اکثریت کی وجہ سے ان کے حقوق سلب نہ کرسکے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اظہار رائے کے حق پر کوئی قدغن نہ مانیں خواہ اس کے نتیجے میں خود انھیں بھی تضحیک کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ اقلیت میں ہونے اور کمزور ہونے کے باوجود اظہار رائے کے حق کے ذریعے وہ کسی بھی قانون یا پالیسی کے خلاف کھل کر بات کرسکیں گے۔

اسی استدلال پر وہ مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اظہار رائے پر قدغن سے ان کو نقصان ہوگا ۔ اس ضمن میں وہ اس بات پر بھی بحث کرتا ہے جس کی طرف مسلمان عام طور پر توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ کئی یورپی ممالک میں دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل عام سے انکار کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے اور اظہار رائے پر اس قدغن کو عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

مسلمان بالعموم اسے دوغلی پالیسی اور منافقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ڈوورکن کہتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ اعتراض بالکل درست ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اظہار رائے پر ایک اور قدغن بھی مان لیں۔ اس کے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ مذکور قدغن بھی دور کردی جائے ۔

ڈوورکن مزید یہ کہتا ہے کہ اگر مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ ایسے قوانین اور پالیسیاں ختم کی جائیں جو مسلمانوں کی پروفائلنگ کو جواز دیں یا جن کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے سے دکھائی دینے والے لوگوں کی نگرانی کی جائے کیونکہ ان پر دہشت گردی کا شبہ ہوتا ہے ، تو پھر مسلمانوں کو اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی رائے کو بھی برداشت کرنا پڑے گا جو انھیں دہشت گردی سے منسلک کرتے ہیں اور کارٹونوں کے ذریعے ان کی تضحیک کرتے ہیں، خواہ ان لوگوں کی یہ بات کتنی ہی بے بنیاد اور بذات خود مضحکہ خیز ہو !

آخر میں وہ ساری بحث کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کرتا ہے :
Religion must observe the principles of democracy, not the other way around. No religion can be permitted to legislate for everyone about what can or cannot be drawn any more than it can legislate about what may or may not be eaten. No one’s religious convictions can be thought to trump the freedom that makes democracy possible.

( مذہب پر لازم ہے کہ وہ جمہوریت کے اصولوں کی پابندی کرے ، نہ کہ الٹا جمہوریت کو مذہب کا پابند بنایا جائے۔ کسی مذہب کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ سب کےلیے یہ قانون بنا سکے کہ وہ کیسا خاکہ بناسکتے ہیں اور کیسا نہیں، بالکل اسی طرح جیسے وہ ہر کسی کےلیے یہ قانون نہیں بنا سکتی کہ وہ کیا کھا سکتے ہیں اور کیا نہیں ۔ کسی کے مذہبی اعتقادات کے متعلق یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ وہ اس آزادی کو فتح کرلیں گے جو جمہوریت نے ممکن بنادی ہے ۔ )

ڈوررکن کے اس اقتباس کو بار بار پڑھیے اور اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا مذہب کو جمہوریت کے اصولوں کی پابندی اختیار کرنی چاہیے یا جمہوریت کو مذہبی قیود کی پابندی تسلیم کرنی چاہیے؟ جب تک اس بنیادی مسئلے پر بحث نہیں کی جائے گی، ضمنی سوالات پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسی سوال پر بحث سے ناروے یا دیگر مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی مجبوریاں بھی سمجھ میں آجاتی ہیں اور یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کیوں وہ صبر و تحمل اور اعراض کا رویہ اپنانے کی تلقین کرتے ہیں؟

یاد رکھیے کہ ناروے ، یا کہیں اور ، پولیس یا دیگر ادارے اگر اس طرح کی حرکتیں روکنے کی کوشش کریں تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے قانون کی رو سے ” توہینِ مذہب “ جرم یا ان کے اخلاقی پیمانے پر یہ برا کام ہے۔ ان کےلیے اصل معیار ” جمہوریت “ اور ” حقوقِ انسانی “ کا معیار ہے اور اس معیار پر اس کام کو وہ برا نہیں سمجھتے۔ یہ کام صرف تب برا بنتا ہے جب اس کی وجہ سے ” خوفِ فسادِ خلق “ پیدا ہو۔

ڈیڑھ سال قبل جب ناروے میں قرآن جلانے کی کوشش کی جارہی تھی اور ایک نوجوان شامی مسلمان عمر نے اس بدبخت پر حملہ کیا تھا، تو اس کے بعد کیا ہوا تھا ؟ ناروے پولیس نے جو کارروائی کی ، اس کا تعلق ” توہینِ مذہب “ سے نہیں بلکہ ” نفرت انگیز“ تحریر و تقریر یا حرکات سے ہے اور دونوں باتوں میں اصولی طور پر بہت بڑا فرق ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کےلیے صرف اس بات پر توجہ کریں کہ اگر ایسی تحریر و تقریر یا حرکات کو آپ ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلیں ، یعنی ان پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے اعراض کا رویہ اختیار کرلیں، تو یہ معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث نہیں رہیں گی اور اس وجہ سے ان کو ” نفرت انگیز“ نہیں مانا جائے گا اور قانون ان کو تحفظ فراہم کرے گا۔

اس لحاظ سے دیکھیں تو شامی نوجوان عمر نے جو کچھ کیا اس کا کم سے کم فائدہ یہ ہے کہ ایسی تحریر و تقریر و حرکات کو بدستور نفرت انگیز اور معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث سمجھا جاتا رہے گا اور اس وجہ سے پولیس ان کو روکنے پر خود کو مجبور پائے گی۔ اگر عمر کی طرح کے ” جنونی “ اور ” جذباتی “ مسلمان مفقود ہوجائیں تو پھر ناروے کی پولیس یا دیگر ادارے کبھی اس کام میں مداخلت نہیں کریں گے بلکہ اس کام میں مداخلت کرنے والوں کو مجرم اور برا سمجھیں گے۔

اب آئیے عملی پہلو کی طرف۔

توہینِ مذہب کے مسئلے پر مغرب کے ساتھ مکالمے کا فورم کیا ہے؟ کہاں بات کی جائے؟ کیا اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی یا سلامتی کونسل میں؟ کیا بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں؟ کیا حقوقِ انسانی کی کمیٹی میں؟ کیا یورپی پارلیمنٹ میں؟ کیا یورپی عدالت برائے حقوقِ انسانی میں؟

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تمام رکن ممالک موجود ہوتے ہیں اور ہر ایک کا ایک ہی ووٹ ہوتا ہے۔ اس میں قرارداد لائی جاسکتی ہے اور غالب امکان ہے کہ منظور بھی ہوجائے گی، اگر تھوڑی سنجیدگی سے لابنگ کی جائے۔ جنرل اسمبلی میں ویٹو کا کوئی امکان بھی نہیں ہوتا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جنرل اسمبلی سے منظور شدہ قرارداد کوئی الزامی (binding) حیثیت نہیں رکھتی۔ اس کی حیثیت صرف ایک خواہش کے اظہارکی ہوتی ہے، لیکن پھر بھی اگر 57 اسلامی ممالک مل کر ایک خواہش کا اظہار کریں اور اس خواہش کے اظہار میں ان کے ساتھ دیگر ممالک شامل ہوجائیں اور جنرل اسمبلی کی اکثریت اس کا اعلان کرے، تو اس کا اثر یقیناً بہت زیادہ ہوگا۔ یہ کام مشکل ضرور ہے، اس کےلیے اچھی خاصی محنت اور لابنگ کی ضرورت ہوگی، لیکن یہ ناممکن ہرگز نہیں ہے۔ بارہا جنرل اسمبلی سے امریکا، اسرائیل اور مغربی ممالک کی بدمعاشی کے خلاف قراردادیں منظور ہوتی رہی ہیں۔

اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، اسرائیل اور ان کے ساتھیوں کی بھرپور مخالفت کے باوجود جنرل اسمبلی نے قرارداد منظور کرکے بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے، جو اقوامِ متحدہ کی عدالت ہے، یہ قانونی سوال پوچھا کہ وہ واضح کرے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کی جانب سے دیوار کی تعمیر کی قانونی حیثیت کیا ہے، بحیثیتِ قابض طاقت کیا اس کے پاس یہ اختیار ہے، اس دیوار کی تعمیر کے قانونی نتائج کیا ہیں؟

پھر بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے اس معاملے کا تفصیلی جائزہ لے کر اس پر بین الاقوامی قانون کی رو سے اپنا فیصلہ دیا ۔ کیا یہی طریقہ توہینِ مذہب کے معاملے میں اختیار نہیں کیا جاسکتا؟ یقیناً کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ ایک دو دھاری تلوار ہے اور اچھی خاصی تیاری کے بغیر، اور انتہائی ماہر متخصصین کی ٹیم بنائے بغیر اس آپشن کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف کسی قانونی مسئلے پر جواب بین الاقوامی قانون کی روشنی میں دیتی ہے۔ یہ درست ہے کہ اس عدالت کے منشور میں یہ مذکور ہے کہ فیصلوں میں یہ ان قواعدِ عامہ کو بطورِ ماخذ دیکھے گی جو ” مہذب اقوام “ نے تسلیم کیے ہیں لیکن ، جیسا کہ ہم تفصیل سے بتاچکے ہیں، مہذب اقوام سے مراد مغربی اقوام ہی تھے اور بڑی مشکل سے غیر مغربی اور غیر مسیحی اقوام کو اس نظام میں قبول کیا گیا ہے۔ اس قبولیت کے بعد بھی فیصلوں میں عملاً برطانوی کامن لا یا فرانسیسی سول لا کے اصولوں کی طرف ہی دیکھا جاتا ہے اور اسلامی اصولوں کا ذکر شاذ و نادر ہی آپ کو ملے گا، اور جہاں اسلامی اصول کبھی ذکر بھی کیے گئے ہیں تو محض خانہ پری کےلیے اور انتہائی سطحی انداز میں!

یہ باوجود اس کے کہ اس عدالت کے منشور میں یہ بھی مذکور ہے کہ عدالت کے ججز میں دنیا کے تمام بڑے نظام ہائے قوانین کو نمائندگی دی جائے گی اور اس وجہ سے عموماً کوئی ایک مسلمان جج ضرور عدالت میں ہوتا ہے، مگر یہ ایک الگ المیہ ہے کہ خود مسلمان ججز میں کتنے ہوتے ہیں جو اسلامی قانون اور اس کے اصولوں کی روشنی میں فیصلہ کرسکتے ہوں، یا ایسا کرنا ضروری سمجھتے ہوں! اس لیے بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے بین الاقوامی قانون برائے حقوقِ انسانی کی ایسی تشریح حاصل کرنا، جس کی رو سے توہینِ رسالت کا راستہ رک جائے، اس وقت تک محض خواب و خیال ہی رہے گا جب تک خود مسلمان اہل علم اور قانون دان اس پر محنت نہ کریں اور مسلمان ریاستوں کی جانب سے انھیں بھرپور تعاون اور مدد حاصل نہ ہو۔

بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں مقدمات کی ایک اور قسم بھی ہوتی ہے ۔ اگر دو یا زائد ریاستوں کے درمیان تنازعہ ہو اور دونوں اس تنازعے کا فیصلہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے کرانے پر آمادہ ہوں، تو یہ عدالت اس مقدمے کا فیصلہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں، یا کسی ایسے ماخذ کی روشنی میں جس پر فریقین کا اتفاق ہو، کرسکتی ہے۔

کیا پاکستان اور فرانس، یا پاکستان اور یورپی یونین یہ راستہ اختیار کرنے پر آمادہ ہوسکتے ہیں؟ کہنے دیجیے کہ موجودہ عالمی صورت حال میں یہ محض ایک خواب ہی ہے اور اس خواب کا عملی صورت میں وقوع پذیر ہونا اس پچھلے والے خواب کی بہ نسبت زیادہ مشکل ہے۔

اور ہاں۔ جب جنرل اسمبلی کوئی سوال بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں بھیجتی ہے تو اس صورت میں متعلقہ ریاست کی مرضی ضروری نہیں ہوتی، جیسے اسرائیل کی مرضی کے خلاف عدالت کو سوال بھیجا گیا اور عدالت نے اس کا جواب دے دیا۔ البتہ متعلقہ ریاست کا ایک ایڈ ہاک جج ضرور عدالت میں ہوتا ہے۔

جہاں تک اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا تعلق ہے، تو وہاں سے کوئی توقع نہیں ہے کیونکہ ایک تو اس کے مستقل ارکان میں، جن کے پاس ویٹو کا اختیار ہے، ایک بھی مسلمان ملک نہیں ہے۔ دوسرے، سلامتی کونسل کا تعلق ” بین الاقوامی امن کے تحفظ اور اس کی بحالی“ سے ہے اور کم از کم اس وقت تک بین الاقوامی امن کو توہینِ رسالت سے کوئی واقعی خطرہ پیدا نہیں ہوا ہے۔

ہاں، اگر مسلمان ممالک نے توہینِ رسالت کو جنگی اقدام قرار دے کر اس کے خلاف جنگ کو اپنا حق قرار دیا، جیسا کہ شرعاً حکم ہے، تو اس صورت میں یقیناً سلامتی کونسل کو ہنگامی بنیادوں پر اس جنگ کو روکنے کےلیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ لیکن سوال وہی ہے۔ کیا مسلمان ممالک ایسا کرسکتے ہیں؟

مسلمان ممالک، پاکستان سمیت، تو اس وقت یہ تک نہیں کرپا رہے کہ حقوقِ انسانی کی کمیٹی میں ہر سال رپورٹ پیش کرتے وقت یہ موقف اختیار کریں کہ توہینِ رسالت ( اور اسی طرح حدود اور دیگر اسلامی احکام) کے معاملے میں ہم اسلامی اصولوں پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ یہاں تک کہ جب پچھلی دفعہ پاکستان سے ہم جنس پرستی کے متعلق تحفظات کا اظہار کیا گیا، تو پاکستان نے جواب دینے کے بجائے ” Noted “ کا موقف اختیار کیا۔

ایسی صورت میں کیسے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ یورپی پارلیمنٹ کے سامنے توہینِ رسالت کے متعلق اپنا موقف دلائل کے ساتھ پیش کرسکیں گے؟ یہ الگ بات ہے کہ پیش کر بھی لیں تو کیا یہ موقف یورپی پارلیمنٹ مان لے گی؟

پچھلی تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ اقدار اور تصورِ جہاں کے اختلاف کا ہے اور یہ اتنی آسانی سے حل ہونے والا نہیں ہے کہ آپ ایک دو تقریریں کرکے، یا ایک دو مضامین لکھ کر، یا چند کتب لکھ کر ان کو اپنا موقف تبدیل کرنے پر آمادہ کرلیں گے۔ یہ صدیوں سے جاری تنازعہ ہے جس کے فوری حل کا کوئی امکان نہیں ہے۔

ہاں۔ جسے یقین نہ ہو، وہ ایک اور کوشش کرکے دیکھ لے۔ کوئی مسلمان فرد، جو یورپ میں مقیم ہو، وہ یورپ میں، بالخصوص فرانس میں، ہونے والےتوہینِ رسالت کے مسئلے کو حقوقِ انسانی کا مسئلہ بنا کر یورپی عدالت براے حقوقِ انسانی میں مقدمہ لے جائے اور وہاں سے منوانے کی کوشش کرلے کہ اس توہین سے اس کے حقوق متاثر ہوئے ہیں، اس لیے اس توہین کا سلسلہ رکوایا جائے!

یورپ میں مقیم مسلمان اس محاذ پر کوشش کرکے دیکھ تو لیں کہ اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔ چونکہ یہ ایک خالصتاً قانونی مقدمہ ہوگا، اس لیے اسے قانونی انداز میں لڑا جائے اور یورپ میں مسلمانوں کی تنظیمیں اس پر پورے وسائل لگالیں۔ ساتھ ہی مسلمان ریاستوں کی جانب سےعالمی سطح پر لابنگ ہو۔ کیا پتہ آپ منوا ہی لیں!
( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں