جسٹس مقبول باقر ، حامد خان

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 9 )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر محمد مشتاق ، ممتاز ماہر قانون :

پہلے یہ پڑھیے
قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 1 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 2 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 3 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 4 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 5 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 6 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 7)

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 8 )

22 اپریل 2021ء (بدھ) کے دن جناب حامد خان صاحب کو دلائل دینے کا موقع دیا گیا۔ وہ سپریم کورٹ بار اور بلوچستان بار کی نمائندگی کررہے تھے اور اس وجہ سے انھیں تفصیلی دلائل دینے کا حق تھا لیکن جسٹس بندیال کی جانب سے ان کو کئی دفعہ درمیان میں ہی ٹوک کر، اور ایک جگہ بہت تلخی کے ساتھ، یہ کہا گیا کہ وہ صرف bullet points کی صورت میں اپنے نکات بیان کریں اور تفصیل میں نہ جائیں۔

اس کے باوجود جناب حامد خان نے نہایت تحمل کے ساتھ اپنے دلائل بہت ہی اچھے انداز میں پیش کیے اور تقریباً سوا گھنٹے میں اپنے دلائل مکمل کرلیے۔ اس وجہ سے انھیں نہ صرف جسٹس بندیال، بلکہ پورے بنچ کی جانب سے خراجِ تحسین بھی پیش کیا گیا۔

ان کے دلائل میں ایک اہم بات یہ تھی کہ جب دس رکنی بنچ نے بالاتفاق ریفرنس کو بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی قرار دے کر ختم کردیا تو اس کے بعد سپریم جیوڈیشل کونسل کےلیے یہ معاملہ ختم ہوگیا۔ اس کے بعد ایف بی آر کو حکم دینا اور پھر اس کی رپورٹ کو کونسل کے سامنے پیش کرنا قطعی غلط ہے کیونکہ قانون کی رو سے انکم ٹیکس کا متعلقہ افسر ” از خود “ کسی معاملے میں کارروائی کا اختیار رکھتا ہے۔ اسے حکم دے کر عدالت نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا۔

اسی طرح سپریم جیوڈیشل کونسل یا تو صدارتی ریفرنس پر کارروائی کرتی ہے، جو آپ نے ختم کردیا تھا، یا ” از خود “ کسی معاملے کا نوٹس لیتی ہے لیکن آپ نے ایف بی آر کو حکم دے کر رپورٹ اس کے سامنے رکھنے کی ہدایت کی جو ان دونوں طریقوں میں سے کوئی طریقہ نہیں ہے۔

اسی طرح انھوں نے اس پر بھی بات کی کہ کونسل میں ریفرنس صرف جج کے بارے میں پیش کیا جاسکتا ہے اور وہ آپ نے ختم کردیا تھا۔ اس کے بعد ان کی اہلیہ کے ٹیکس گوشواروں کا معاملہ کونسل کے سامنے رکھنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔

ایک اور اہم بات انھوں نے یہ کی کہ سپریم جیوڈیشل کونسل کوئی مستقل ادارہ نہیں ہے بلکہ اس وقت وجود میں آتی ہے جب اس کے سامنے صدارتی ریفرنس آجائے یا وہ کسی معاملے پر انکوائری شروع کرے۔ اس بارے میں ان کی اہم دلیل یہ تھی کہ کونسل میں چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے دو سینیئر جج ہوتے ہیں اور ان کے علاوہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز میں دو سینیئر چیف جسٹس اس کے رکن ہوتے ہیں اور یہ ترتیب ججز کے ریٹائر ہونے اور سینیارٹی کی ترتیب بدلنے کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔

اس پر جسٹس بندیال نے انھیں ٹوکا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ مستقل موجود ہے اور اس وقت میں اس کا رکن ہوں لیکن پچھلے ہفتے اس کے اجلاس کو اس وجہ سے ملتوی کیا گیا کہ میں نے اس میں شرکت سے معذوری ظاہر کردی تھی۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے اٹھ کر اعتراض کیا کہ جس معاملے کا نظرِ ثانی کی سماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اس پر یہاں گفتگو کرنا غلط ہے اور قانوناً اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جسٹس بندیال نے اس پر کہا کہ گویا آپ میرے خلاف بھی درخواست دینے والے ہیں اور مجھے اس کی تیاری کرنی چاہیے! جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا لیکن اس کے بعد جسٹس بندیال نے بھی خاموشی اختیار کی اور حامد خان صاحب نے بھی اس نکتے پر مزید زور نہیں دیا۔

یہ کیا معاملہ تھا؟ اس کی تھوڑی توضیح کی ضرورت ہے۔ دراصل پچھلے ہفتے میں سپریم جیوڈیشل کونسل کا اجلاس بھی طلب کیا گیا تھا۔ اس وقت سپریم کورٹ سے چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس مشیر عالم اور جسٹس عمر عطا بندیال اس کے رکن ہیں۔ جسٹس بندیال چونکہ موجودہ دس رکنی بنچ کی سربراہی کررہے تھے، تو انھوں نے کونسل کے اجلاس میں شمولیت سے معذرت کی۔

سوال یہ ہے کہ کیا اجلاس بلانے والوں کو علم نہیں تھا کہ وہ اس بنچ کے سربراہ ہیں جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرِ ثانی کی درخواستوں کی سماعت کررہا ہے اور یہ کہ سپریم جیوڈیشل کونسل کے ارکان پہلے ہی اس بنچ سے باہر ہوگئے تھے جب اصل کیس کی سماعت شروع ہوئی تھی؟ (اس وقت سینیارٹی کے لحاظ سے جسٹس بندیال چوتھے نمبر پر تھے اور اس وجہ سے وہ کونسل کے رکن نہیں تھے۔ چنانچہ انھیں اس دس رکنی بنچ کی سربراہی دی گئی۔ )

اب اس موقع پر گویا امکان پیدا ہوگیا تھا کہ اگر نظرِ ثانی کی درخواستیں خارج ہوتی ہیں اور معاملہ سپریم جیوڈیشل کونسل تک پہنچتا ہے تو اس میں جسٹس بندیال بھی ہوں گے۔ اس پر بجا طور پر یہ سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ جب انھوں نے دس رکنی بنچ کے سربراہ کی حیثیت سے معاملہ کونسل میں بھیجا ، تو وہ گویا شکایت کنندہ ہوگئے اور اب اپنے ہی بھیجے گئے معاملے پر خود کیسے جج بن کر اس کی سماعت کرسکیں گے؟ یہ وہ امکانی اعتراض تھا جس کی طرف جسٹس بندیال نے اشارہ کیا کہ آپ میرے خلاف درخواست دیں گے!

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یہ اعتراض اٹھاتے یا نہیں، اس پر بات کی جاسکتی ہے لیکن یہ امکان واقعتاً موجود تھا، اس سے زیادہ دلچسپ امکان یہ بھی تھا کہ اگست میں تو جسٹس مشیر عالم بھی ریٹائر ہونے والے ہیں اور اس کے بعد خود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تیسرے سینئر جج کی حیثیت سے کونسل کے رکن بن جائیں گے۔ ایسی صورت میں ان کے خلاف ریفرنس کی سماعت کیسے ہوتی؟

ایسی صورت میں دستور کی دفعہ 209 کی ذیلی دفعہ 3 میں قرار دیا گیا ہے کہ سینیارٹی میں ان کے بعد آنے والے جج اس ریفرنس کی حد تک کونسل کے رکن بن جائیں گے۔ تاہم یہاں مسئلہ یہ بھی تھا کہ سینیارٹی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد آنے والے دو جج صاحبان (جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن) کو پہلے ہی ” مفادات کے تصادم “ کی بنا پر ان کے کیس کی سماعت سے الگ ہونا پڑا تھا اور ان کے بعد والے جج صاحبان یا اصل کیس کی سماعت میں، یا نظرِ ثانی میں، بنچ کا حصہ بن گئے تھے!

چنانچہ آخری امکان یہی رہتا تھا کہ ایسی صورت میں جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کونسل کے رکن بنتے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ تو سب سے جونیئر جج ہیں! بہرحال یہ ساری بحث محض عقلی امکانات کی حد تک ہی رہ گئی کیونکہ جب نظرِ ثانی کی درخواستیں منظور کی گئیں تو معاملہ کونسل سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔

تاہم نوٹ کرنے والے یہ بات ضرور نوٹ کرلیں کہ 17 اگست 2021ء کو جب جسٹس مشیر عالم ریٹائر ہوجائیں گے تو اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم جیوڈیشل کونسل کے رکن بن جائیں گے۔

22 اپریل کو حامد خان صاحب کے دلائل ختم ہوئے تو اس کے بعد حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان صاحب نے دلائل دینے شروع کیے۔ اصولاً ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ یا تو دلائل ہی نہ دیتے یا اصل کیس میں دیے گئے دلائل کو ہی قبول کرنے کی بات کرکے بیٹھ جاتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب دس رکنی بنچ کا فیصلہ آیا تو حکومت کی جانب سے نظرِ ثانی کی درخواست دائر نہیں کی گئی اور حکومت نے نہ اکثریتی فیصلے کو، نہ ہی اختلاف کرنے والے تین ججز کے فیصلوں کو چیلنج کیا، حالانکہ دس کے دس جج صاحبان نے حکومتی ریفرنس کو کوڑے دان میں پھینک دیا تھا۔

اب جب حکومت نے اس کے خلاف کوئی درخواست دائر ہی نہیں کی تو گویا اس نے فیصلوں کی حتمیت اور اپنی غلطی تسلیم کرلی۔ اس کے بعد جب وہ نظرِ ثانی کے مرحلے میں فریق ہی نہیں تھی، تو اس کے وکیل کو اتنی تفصیل سے بولنے کا موقع کیوں دیا گیا؟ اصولِ قانون کی رو سے یہ بات بالکل ہی غلط تھی۔

اس سے بھی زیادہ افسوسناک امر یہ ہوا کہ وہی جسٹس بندیال جو کچھ دیر پہلے حامد خان صاحب کی سرزنش کرتے ہوئے ان سے اصرار کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ اپنے نکات bullet points میں پیش کریں اور غیر ضروری تفاصیل میں نہ جائیں، اب عامر رحمان کو مسلسل کئی کئی صفحات کے اقتباسات دیتے ہوئے خاموشی سے سن رہے ہیں!

اس پر بالآخر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اٹھ کر اعتراض کرنا پڑا کہ ترازو کے دونوں پلڑے برابر رکھنا آپ پر لازم ہے اور یہ آپ جو کچھ کررہے ہیں، یہ قطعی غلط ہے۔ اس پر بنچ میں موجود بعض دیگر جج صاحبان نے بھی عامر رحمان سے کہا کہ آپ طویل اقتباسات پڑھنے کے بجائے بس حوالہ دیں اور جہاں بہت ضروری ہو تو وہ جملہ پڑھ لیں۔

اس کے بعد بھی عامر رحمان صاحب اسی طرح طویل طویل صفحات پڑھتے رہے اور یہ صفحات پڑھتے ہوئے انھوں نے یہ بھی بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ان کی proposition کیا ہے جسے ثابت کرنے کےلیے وہ یہ اقتباسات پڑھ رہے ہیں؟ سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت میں بارہا مقدمات کی سماعت دیکھنے کا موقع مجھے ملا ہے اور کبھی کبھار خود دلائل دینے کا تجربہ بھی ہوا لیکن میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ بنچ نے کسی وکیل کو اس طرح ادھر ادھر کی ہانکتے رہنے اور مسلسل وقت ضائع کرنے کی کھلی چھٹی دی ہو!

ایک دفعہ پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اٹھ کر اعتراض کرنا پڑا جس کے بعد جسٹس بندیال نے عامر رحمان کو ہدایت دی کہ وہ کل اپنے دلائل جاری رکھیں لیکن طویل اقتباسات کے بجائے صرف متعلقہ حصہ پڑھیں اور اس سے بھی پہلے ہمیں اپنی proposition بتائیں۔اس کے بعد سماعت اگلے دن تک کےلیے ملتوی کی گئی۔

اگلا دن وہ ہنگامہ خیز دن تھا جب عامر رحمان کی اس طرح کی چالاکیوں پر بعض جج صاحبان نے گرفت کی تو بعض دیگر جج صاحبان نے عامر رحمان کو مزید شہ دی اور پھر فاضل جج صاحبان آپس میں الجھ پڑے، جس کے بعد بنچ کو دس منٹ کےلیے بریک لینی پڑ گئی۔ اس مرحلے تک صاف معلوم ہوچکا تھا کہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی تو پہلے ہی اختلاف رکھتے تھے، لیکن اب جسٹس مظہر عالم میاں خیل بھی ان کے ساتھ ہوگئے ہیں کیونکہ انھوں نے بھی کئی بار عامر رحمان کو جھڑکا اور جب جج صاحبان آپس میں الجھ پڑے تو وہ جسٹس مقبول باقر کے ساتھ تھے۔

دس منٹ کی بریک کے بعد جب بنچ نے پھر سماعت شروع کی تو تناؤ واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا۔ جلد ہی سماعت اگلے دن تک کےلیے ملتوی کردی گئی۔ اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست کی کہ اگلے دن سماعت جلد شروع کی جائے ۔ تاہم جسٹس بندیال نے کہا کہ چونکہ یہ کورٹ روم چیف جسٹس کےلیے ہوتا ہے اور وہ دیگر کیسز کی سماعت کررہے ہوں گے، اس لیے جلد سماعت ممکن نہیں ہوگی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس سے درخواست بھی کی جاسکتی ہے کیونکہ معاملے کی اہمیت اس کی متقاضی ہے۔ تاہم جسٹس بندیال نے اس درخواست کو مسترد کردیا۔

جمعہ کے دن بھی عامر رحمان کے دلائل کا سلسلہ جاری رہا اور وہ اسی طرح طول طویل اقتباسات پڑھتے رہے۔ اس دوران میں انھوں نے ایف بی آر کی رپورٹ پر بھی بات کرنے کی کوشش کی لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعتراض کیا کہ جب اس رپورٹ کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے تو اس پر بات کیسے کی جاسکتی ہے؟ جسٹس مقبول باقر نے بھی عامر رحمان کو جھڑک دیا۔ اس کے بعد جسٹس بندیال کو بھی کہنا پڑا کہ اس پر بات کرنے کے بجائے اپنے دیگر دلائل جاری رکھیں۔

12 بجے پھر سماعت ملتوی کرنے کی بات کی گئی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعتراض کیا کہ سماعت ابھی جاری رکھنی چاہیے تاکہ عامر رحمان اپنی بات پوری کرلیں لیکن جسٹس بندیال نے کہا کہ جمعہ بھی ہے اور روزہ بھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک گھنٹہ مزید سماعت ہوسکتی ہے۔ تاہم جسٹس بندیال نے نہ صرف سماعت پیر کے دن تک ملتوی کردی بلکہ عامر رحمان سے یہ بھی کہا کہ وہ بتادیں کہ وہ دلائل پیر کے دن مکمل کرسکیں گے یا منگل کا دن بھی انھیں درکار ہوگا۔

اس پر جسٹس مقبول باقر اور بعض دیگر جج صاحبان چیں بجبیں ہوئے تو بالآخر عامر رحمان کو ماننا پڑا کہ وہ پیر کے دن اپنے دلائل مکمل کرلیں گے اور جسٹس مقبول باقر نےکہا کہ یہ طے ہوا کہ پیر کے دن سماعت پوری ہو جائے گی۔ اس مرحلے تک یہ واضح ہوگیا تھا کہ جسٹس مقبول باقر اختلاف رکھنے والے جج صاحبان کی نمائندگی کررہے ہیں۔ ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں