نگہت حسین :
امیدیں جوانوں سے بے وجہ ہی نہیں ہوتیں
باغی بننے کی اک عمر ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت اگر کوئی سچے رستے پر کھینچ لے تویہ باغی موسیٰ علیہ السلام کی سی جرات پائیں، ابراہیم خلیل اللہ کی سی اطاعت ، تسلیم و رضا کے پیکر بن جائیں ، محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے پیروکار نظر آئیں۔
جذبوں کی شدت ، رائج نظریات و خیالات کو چیلنج کرنا، ان پر غور وفکر کرنا، گھسی پٹی باتوں سے ہٹ کر سوچنا اصل میں نوجوانوں کی ہی تو فطرت ہے۔ عمر کے اس خاص حصے کے باغیانہ رویے کا کوئی مثبت استعمال ہو تو انسان تعمیر ہوجائے،
مستقبل سنور جائے،
نسلیں سنبھل جائیں ،
جاہلی روایتوں کے بت ٹوٹ جائیں ،
افکار و نظریات میں انقلاب برپا ہوجائے ،
صرف اور صرف اگر ہم بچوں کو سن لیں ، جان لیں اور مان لیں۔
لیکن ہمارا مسئلہ کیا ہے ؟
اس فطری مزاج کی تبدیلیوں پر مختلف ٹیگ لگانے کا ہے، بچوں کو مجرم اور خطاکار سمجھنے کا ہے۔
ہمارا مسئلہ اس تلخی کا ہے جو بچوں کے لیے ہمارے مزاجوں میں در آتی ہے۔
ہمارا مسئلہ اس شدت کا ہے جو ہم بچوں سے متعلق اچھے بن جانے والے نظریات کی خاص ترکیب کو جاننے کی بناء پر ا ختیار کرتے ہیں۔
اور سب سے زیادہ تباہ کن کام بچوں سے متعلق ان کی مستقبل کے بارے میں ہولناک پیشین گوئیاں کرنے کا ہے جو ہم بحثیت والدین اپنا فرض سمجھ کر کرتے ہیں۔
یہ ہمارے ہاتھوں ہمارے بچوں کے مستقبل کا وہ منظر نامہ ہوتا ہے جس کو ہم خود بار بار سامنے لا کر بچے کو اس منظر کو حقیقی بنانے پر مجبور کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ جملے کیا ہیں
دیکھنا کوئی پوچھے گا نہیں ،
یہ غصہ لے ڈوبے گا تمھیں ،
اتنی گندی عادتوں پر تمھیں سر پر بٹھائیں کیا ؟ تم اسی قابل ہو۔
دوسرے گھر جاؤ گی تو سو جوتےکھائو گی ۔
ہمیشہ ناکام رہو گے ، والدین کی خدمت سے ہمیشہ محروم رہو گے ۔
کل ایک سات سال کی بچی انتہائی پریشانی میں پوچھ رہی تھی کہ پتہ نہیں میں کیسی ماما بنوں گی ؟
حیرانی سے غور سے دیکھ کر یہی تصدیق کرنا چاہی کہ سوچ سمجھ کر کہہ رہی ہے کہ ایسے ہی ؟
معصومیت سے کہنے لگی کہ
ماما ہر وقت کہتی ہیں کہ خود ہر وقت کہنا نہیں مانتی ، ضد کرتی ہو ، جنک کھاتی ہو، ایسے ہی بچے گندے ماما بابا بنتے ہیں۔
افسوس کہ یہ تربیت کے نام پر وہ بوجھ ہیں جس کو اٹھانے کے معصوم بچے قابل بھی نہیں ۔
والدین اپنی خوف زدہ حالت میں سوچے گئے فرضی منظر نامے کو اپنے رویوں اور باتوں کے ذریعے بچوں کا مستقبل بنا کر ان کے لاشعور میں بٹھا دیتے ہیں جس میں ہمارے بچے ابھی سے رہنا شروع کردیتے ہیں۔ بہت حساس ، گھنٹوں ان باتوں پر سوچتے ہیں۔
اور خواب بننے کی عمر میں ان کے سامنے ناکام مستقبل کے تلخ خواب ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کو خوابوں سے نفرت ہوجاتی ہے۔ وہ مستقبل سے ہی نظریں چراتے ہیں۔ اس کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
اس لئے اپنے آپ کو بھی ریلیکس کر لیں بچوں کے غصے ، چڑچڑاہٹ ، اعتماد کی کمی ، شرمیلے پن ، کم گوئی، بات بات پر جھنجھلاہٹ، چھوٹی موٹی قابل اصلاح نافرمانی جیسی عادتوں کو تربیت کے ساتھ دعا سے تبدیل کرنے کی کوشش کیجیے۔
جہاں تدبیریں دم توڑتی ہیں وہاں سے دعا کی بدولت قدرت کے معجزے کا آغاز ہوتا ہے۔
رب رحیم سے قربت کی راتیں ہیں۔
اپنے بچوں کے لئے صرف صراط مستقیم مانگ لیں ۔
مانگنے والی راتیں ہیں گڑگڑا گڑا کر مانگ لیں۔
اپنی اور بچوں کی دنیا و آخرت کی خیر و عافیت، ایمان کی سلامتی ۔