پاکستانی پرچم خاردار تاروں کے پار

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان (1)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر محمد مشتاق :

یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی جانب سے بھاری اکثریت سے یہ قرارداد منظور کی گئی ہے کہ اگر پاکستان نے توہینِ مذہب کے متعلق اپنے قوانین تبدیل نہیں کیے، تو اس سے جی ایس پی پلس حیثیت واپس لی جائے۔ سوشل میڈیا پر ایک دفعہ پھر بحث مباحثے کا ماحول بن چکا ہے اور بہت سے لوگ اپنے سیاسی مفادات کو مدِّ نظر رکھ کر اس موضوع پر رائے دے رہے ہیں ۔

ایک عمومی ٹرینڈ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پچھلے دنوں کالعدم قرار دی گئی مذہبی تنظیم کو اس سارے معاملے کےلیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے، پھر حکومت کو یہ معاملہ ” مس ہینڈل “ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جائے اور بیچ میں ایک دو جگتیں ہزار ہزار روپے بانٹنے والوں پر بھی لگائی جائیں۔ ساتھ ہی ایک عمومی تاثر یہ نظر آیا کہ گویا قیامت کا دن قریب آلگا ہے اور پاکستان کی معیشت دھڑام سے گرجائے گی۔

یہ ساری باتیں کہنے والے ابھی تک یہ نہیں بتارہے کہ اس کے جواب میں کرنا کیا چاہیے؟
کیا پاکستان میں توہینِ مذہب (بشمول توہینِ رسالت ) پر سزا کو یکسر ختم کردیا جائے؟
کیا ہم یہ کرسکتے ہیں؟
کیا ایسا کرنا چاہیے؟
کیا ایسا کرکے یورپی یونین کی خوشنودی حاصل ہوجائے گی؟

کیا یورپی یونین کا مطالبہ صرف توہینِ مذہب کے قانون کے خاتمے تک محدود ہے یا یہ جی ایس پی پلس حیثیت کچھ اور شرائط کے ساتھ بھی مشروط ہے؟
کیا ان مزید شرائط کے پورا کرنے کی سکت ہم میں ہے؟ اور کیا معاملہ ان دیگر شرائط کے پورا کرنے پر ختم ہوجائے گا یا یہ سلسلہ جاری رہے گا؟

ان سوالات پر بحث کے بغیر اس موضوع پر کوئی مناسب رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے چند اہم نکات یہاں ترتیب وار پیش کیے جارہے ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ نوٹ کرلیں کہ ” جی ایس پی پلس “ حیثیت سے مراد کیا ہے؟
جی ایس پی یا جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنسز (Generalized Scheme of Preferences) سے مراد یہ ہے کہ کم ترقی یافتہ ممالک کو تجارت کے ضمن میں کسٹم اور دیگر محصولات میں چھوٹ دی جائے۔ اسی طرح مزید چھوٹ دینے پر ” پلس “ کی حیثیت دی جاتی ہے۔ تاہم یہ حیثیت مفت میں نہیں دی جاتی بلکہ اس حیثیت کو کئی امور کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے جن میں اہم ترین امر یہ ہے کہ جو ملک یہ حیثیت چاہتا ہے اسے بین الاقوامی حقوقِ انسانی کے قانون سے متعلق 27 معاہدات پر دستخط اور ان کی توثیق کرنی ہوگی۔

واضح رہے کہ معاہدات کی توثیق کے بعد کا اہم ترین مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ ملک کے اندر ان معاہدات پر عمل درآمد یقینی بنانے کےلیے ملکی قوانین میں تبدیلیاں لا کر انھیں ان معاہدات سے ہم آہنگ کیا جائے۔ بہ الفاظِ دیگر، جی ایس پی پلس حیثیت دراصل دام ہم رنگ زمیں ہے۔ دانہ چگنے کےلیے پرندے نے قدم رکھا اور پھنس گیا!

اسی سے ملتا جلتا معاملہ ایف اے ٹی ایف کا ہے۔ یہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس 1987ء میں گروپ آف سیون نامی بین الاقوامی تنظیم نے بنائی۔ گروپ آف سیون میں برطانیہ ، امریکا اور فرانس کے علاوہ جرمنی، اٹلی، کینیڈا اور جاپان کے ممالک شامل ہیں لیکن جب اس گروپ کا سربراہی اجلاس ہوتا ہے تو اس میں یورپی یونین کے نمائندے بھی ہوتے ہیں۔

اس ٹاسک فورس نے پچھلے کچھ عرصے سے نام نہاد بلیک لسٹ اور گرے لسٹ بنا کر دنیا کے کئی ممالک کو اپنے قوانین اور اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے اور بنیادی طور پر یہ کام دہشت گردی کی روک تھام کے نام پر کیا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان سات ممالک کو یہ اختیار کیسے حاصل ہوا کہ وہ دنیا کے دیگر ممالک پر اپنے فیصلے مسلط کریں؟

یہاں سے ہم اقوامِ متحدہ کی تنظیم کی طرف جاتے ہیں۔ یہ تنظیم 1945ء میں دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل کےلیے وجود میں لائی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس تنظیم کو ایک عالمی تنظیم کی حیثیت حاصل ہوگئی کیونکہ دنیا کے تقریباً سبھی ممالک نے اس کی رکنیت اختیار کی۔ اس تنظیم کے منشور کی رو سے عالمی امن کی حفاظت اور (اگر اسے نقصان پہنچے تو) اس کی بحالی کا اختیار اس کی ” سلامتی کونسل “ کو دیا گیا ہے۔

سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ارکان ہوتے ہیں اور ان میں کوئی ایک بھی ” نہ “ کہہ دے تو سلامتی کونسل اس کے خلاف نہیں جاسکتی۔ اس اختیار کو ویٹو کا اختیار کہتے ہیں۔ یہ پانچ ممالک وہ ہیں جن کو دوسری جنگِ عظیم میں فاتح کی حیثیت حاصل تھی، یعنی امریکا، روس، برطانیہ، فرانس اور چین۔ روس سے اس وقت مراد سوویت یونین تھا جبکہ چین سے مراد چیانگ کائی شیک کی قومی ریاست تھی ۔

1949ء میں چین میں سرخ انقلاب آیا لیکن امریکا نے کمیونسٹ چین کو اقوامِ متحدہ کی تنظیم اور سلامتی کونسل کا رکن بننے نہیں دیا تاآنکہ 1960ء کی دہائی میں کمیونسٹ چین بھی ایٹمی طاقت بن گیا اور مزید یہ کہ کمیونسٹ بلاک میں سوویت یونین کے ساتھ اس کی سرد جنگ میں بھی شدت آگئی، تو 1970ء میں بالآخر کمیونسٹ چین اقوامِ متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کا رکن بن کر ویٹو کا اختیار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ 1991ء میں سوویت یونین بکھر گیا تو اس کی جگہ روس کو ہی ملی۔

تاہم وقت کے ساتھ ساتھ پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ گیا۔ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں کئی ممالک آزاد ہوگئے اور انھوں نے مغربی طاقتوں کےلیے مسائل پیدا کرلیے۔ چنانچہ 1990ء کی دہائی تک جاتے جاتے نئے عالمی نظام کے منصوبوں پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔ گروپ آف سیون کے تحت ایف اے ٹی ایف کی تشکیل کو اسی پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اقوامِ متحدہ کی تنظیم کو چونکہ عالمی حیثیت حاصل ہے، اس لیے جب اس کے منشور کے تحت سلامتی کونسل کوئی فیصلہ کرے تو اسے بین الاقوامی قانون کی رو سے جواز حاصل ہوتا ہے، خواہ وہ فیصلہ کتنا ہی غلط ہو۔ تاہم ایف اے ٹی ایف کے پاس تو ایسا قانونی جواز بھی موجود نہیں ہے۔ پھر اس کے فیصلوں کے نفاذ کے پیچھے قوت کیا ہے؟

اس لحاظ سے بھی غور کیجیے کہ ایف اے ٹی ایف کی تشکیل کرنے والے گروپ آف سیون میں تین ممالک (امریکا، برطانیہ اور فرانس) تو پہلے ہی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں اور انھیں وہاں ویٹو کا اختیار بھی حاصل ہے۔ پھر انھیں اقوامِ متحدہ سے بالا بالا ایک اور ادارہ کھڑا کرنے اور فیصلہ سازی کا ایک اور فورم بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ان سوالات کا جواب سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ ان ممالک نے یہ حقیقت جان لی ہے کہ اقوامِ متحدہ کی تنظیم کی جگہ نیا عالمی نظام کھڑا کرنے کا وقت آگیا ہے اور یہ کہ اقوامِ متحدہ کی تنظیم اب ماضی کی داستان بننے جارہی ہے۔ ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں