جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، جسٹس عمر عطا بندیال

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 7 )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر محمد مشتاق ۔ ممتاز ماہر قانون:

پہلے یہ پڑھیے

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 1 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 2 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 3 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 4 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 5 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 6 )

دس رکنی نظرِ ثانی کے بنچ کے سامنے اب ایک اہم مسئلہ اس استدعا کی صورت میں سامنے آیا جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے اس کے سامنے رکھی تھی کہ اس کیس کی سماعت براہِ راست پوری قوم کو پاکستان ٹیلی وژن پر دکھائی جائے۔

جسٹس صاحب کے دلائل کی بنیاد یہ بات تھی کہ دو سال تک ان کے خلاف ایک بھرپور پروپیگنڈا مہم چلائی گئی ہے اور ان کی اور ان کی پوری فیملی کی شہرت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے، یہاں تک کہ جب سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ نے متفقہ طور پر ریفرنس کو خارج کیا تو لوگوں کا یہ تاثر بنا کہ جج صاحبان نے اپنے ایک برادر جج کی طرف داری کی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ سپریم جیوڈیشل کونسل کی کارروائی خفیہ ہوتی ہے لیکن کیسے خود سپریم جیوڈیشل کونسل کی جانب سے اس رازداری کو پامال کیا گیا۔ پھر کیسے ان کے خلاف ایک بھرپور پروپیگنڈا مہم چلائی گئی۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ انصاف ہوتا دکھائی بھی دینا چاہیے۔ چنانچہ انھوں نے قرآنی آیات، احادیثِ نبویہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسوہ کو بنیاد بنا کر اس ضمن میں اپنے دلائل دیے اور یہ بھی واضح کیا کہ ان اسلامی احکام پر عمل اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں لازمی ہے۔

ایک مرحلے پر جسٹس عمر عطا بندیال صاحب نے انھیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ جو دلائل دے رہے ہیں، ان سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ انصاف کھلے عام ہو تو عدالت کے دروازے تو ہم نے کھلے رکھے ہیں اور کوئی بھی آ جاسکتا ہے۔

اس کا جواب دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے کہا کہ عدالت میں بہ مشکل سو افراد آسکتے ہیں، پھر ان میں کتنوں کو عدالتی کارروائی کی سمجھ آتی ہے، پھر وہ آگے کیسے بیان کرتے ہیں، پھر جو عدالتی کارروائی کو رپورٹ کرنے والے صحافی ہوتے ہیں ان کی بات بھی کیسے دبادی جاتی ہے اور پھر کیسے پریس اور میڈیا کو کنٹرول کرکے اصل بات کو عوام کی نظروں سے چھپا لیا جاتا ہے۔ انھوں نے اس موقع پر بہت خوبصورت بات کی کہ :

Selective information is misinformation
(مرضی کی خبر دینا غلط خبر دینا ہے۔)

جسٹس صاحب نے آگے مزید دلائل بھی دیےجن میں ایک اہم بات یہ کہی کہ عدالت کی کارروائی براہِ راست دکھانے سے لوگوں کو عدالت کے کام کے متعلق آگاہی ملے گی۔ ان کی سمجھ میں آئے گا کہ عدالت میں بات کیسے ہوتی ہے، دلائل کیسے دیے جاتے ہیں، فیصلے کیسے ہوتے ہیں؟ پھر کوئی انھیں آدھی ادھوری خبر کے ذریعے گمراہ نہیں کرسکے گا۔ انھو ں نے قانون کی تعلیم اور پریکٹس کے پہلو سے بھی اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

اس کے بعد انھوں نے معاصر دنیا سے کئی مثالیں بھی پیش کیں جہاں عدالتی کارروائی براہ راست نشر کی جاتی ہے۔ ایسے کئی نظائر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ وہ بار بار کہتے رہے کہ انھیں اس سے غرض نہیں ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں آتا ہے یا ان کے خلاف بلکہ وہ صرف حق اور انصاف کےلیے اور سپریم کورٹ کی ساکھ اور وقار کے تحفظ کےلیے کوشش کررہے ہیں۔

انھوں نے ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ وہ یہ جنگ اپنے لیے نہیں لڑ رہے بلکہ وہ پاکستان کے مستقبل کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ جج رہیں یا نہ رہیں، انھیں جج کی تنخواہ اور پنشن ملے یا نہ ملے، لیکن وہ یہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔

ان سارے دلائل کے جواب میں جسٹس بندیال صاحب کے پاس سوائے ” سدِ ذریعہ “ کے کوئی دلیل نہیں تھی! وہی دلیل جس کےلیے مولوی بدنام ہیں کہ اگر ایسا کریں گے تو پھر تو یہ کچھ ہوجائے گا؟ مثلاً کیمرا کہاں اور کیسے لگایا جائے گا، کیا آپ کے سامنے پڑے کاغذات بھی اس پر دکھائے جائیں گے یا نہیں، ہم جو آپس میں مشورہ یا بات کرتے ہیں وہ بھی سنی جائے گی یا نہیں، وغیرہ۔ آخر میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اجازت دی بھی گئی تو کوئی اپنا انتظام کرنا ہوگا اور پرائیویٹ کیمروں کی اجازت نہیں دی جاسکے گی۔

پانچ دن (2، 3، 8، 17 اور 18 مارچ 2021ء) کو اس درخواست کی سماعت ہوئی جس میں حکومت کا موقف بھی سنا گیا۔ سماعت مکمل ہو چکنے کے بعد مختصر آرڈر تو اسی دن جاری کیا جاسکتا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں معاملہ لٹکادیا گیا اور 26 دن بعد 13 اپریل 2021ء کو صرف مختصر فیصلہ ہی سنایا گیا جس کے تفصیلی دلائل بعد میں دیے جائیں گے۔ اس مختصر آرڈر میں بنچ تین حصوں میں تقسیم ہوگیا:

پانچ جج صاحبان (جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس سید سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس قاضی امین الدین اور جسٹس امین الدین خان) نے قرار دیا کہ مقدمے کی سماعت کی براہِ راست نشریات کا معاملہ ایک انتظامی امر ہے جس کا فیصلہ فل کورٹ (یعنی چیف جسٹس سمیت تمام 17 جج صاحبان مل کر) کرسکتے ہیں اور یوں انھوں نے معاملہ چیف جسٹس کی طرف بھیج دیا کہ وہ چاہیں تو اس معاملے پر فل کورٹ کا اجلاس بلائیں۔

چار جج صاحبان (جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس سید منصور علی شاہ) نے ان درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے اس مقدمے، اور دیگر اس طرح کے عوامی اہمیت کے مقدمات، کی براہِ راست نشریات کا بندوبست کرنے کا حکم دیا۔

ایک جج (جسٹس یحیٰ آفریدی) نے جسٹس صاحب کی درخواست تو مسترد کردی (کیونکہ ان کے نزدیک ان کو پٹیشنر بننا ہی نہیں چاہیے تھا ) لیکن انھوں نے اصولی طور پر اہم مقدمات کی براہِ راست نشریات کے معاملے میں دیگر چار جج صاحبان کے ساتھ اتفاق کیا۔

یوں جسٹس صاحب کی درخواست تو چھ جج صاحبان نے مسترد کردی لیکن اصولی سوال پر بنچ پانچ پانچ میں تقسیم ہوگیا، جس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ سوال کسی اگلے اہم مقدمے میں کسی بھی وقت اٹھایا جاسکتا ہے اور جلد یا بدیر سپریم کورٹ کو اس معاملے میں کوئی پالیسی طے کرنی ہوگی۔ یہ اس مقدمے کا وہ پہلو ہے جس کا فائدہ آئندہ پوری پاکستانی قوم کو ملے گا، ان شاء اللہ۔

(براہِ راست نشریات کے مسئلے پر جسٹس صاحب کی درخواست کا عکس یہاں پیش کیا جارہا ہے۔ اسے پڑھ کر ان کے دلائل اور اس معاملے کی اہمیت کا آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔)
( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں