جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، سپریم کورٹ آف پاکستان

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی (6)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر محمد مشتاق ، ممتاز ماہر قانون :

پہلے یہ پڑھیے

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی (1)

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی (2)

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی (3)

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی (4)

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی (5)

نظرِ ثانی کے لیے بالآخر دس رکنی بنچ تشکیل دیا گیا تو اس میں نو جج تو وہی تھے جو اصل دس رکنی بنچ کا حصہ تھے لیکن چونکہ ایک جج، جسٹس فیصل عرب، ریٹائر ہوچکے تھے، اس لیے ان کی جگہ جسٹس امین الدین خان کو بنچ میں شامل کیا گیا۔

نظرِ ثانی کی سماعت 2 مارچ 2021ء کو شروع ہوئی تو ایک بہت بڑا سرپرائز یہ سامنے آیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب خود دلائل دینے کےلیے پہنچ گئے اور انھوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ان کے وکیل منیر اے ملک چونکہ بیماری کی وجہ سے ان کے کیس کی پیروی نہیں کرسکتے، تو ان کو خود اپنے کیس کی پیروی کی اجازت دی جائے۔

کچھ بحث کے بعد ان کو اجازت دے دی گئی اور یوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی حاضر سروس جج عدالت کے سامنے اپنے کیس میں خود دلائل دینے کےلیے آئے۔ کئی لوگوں کو جسٹس صاحب کے اس اقدام پر تحفظات تھے۔ خود میری رائے یہ تھی کہ یہ بہت بڑے رسک کا معاملہ ہے کیونکہ بطور جج آپ کی حیثیت اور بحیثیت پٹیشنر یا وکیل آپ کی حیثیت میں بہت فرق ہوتا ہے اور اس فرق کو ہر وقت ملحوظِ خاطر رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے، نہ صرف بنچ میں شامل جج صاحبان کےلیے، بلکہ خود پٹیشنر/وکیل کےلیے بھی۔

تاہم بعد کے مراحل سے معلوم ہوا، جیسا کہ آگے تفصیل آرہی ہے، کہ یہ جسٹس صاحب کی جانب سے نہایت ہی اہم اقدام ثابت ہوا اور اس نے کیس کا رخ متعین کرنے اور کارروائی کو صحیح سمت جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس اقدام کی وجہ سے مقدمے کی حیثیت یہ ہوگئی کہ ایک جج خود اپنے بارے میں الزامات کے بارے میں اپنا موقف دس ججز کے سامنے پیش کررہا ہے اور انھیں یہ بھی بتارہا ہے کہ ان کے فیصلے میں ان سے کیا غلطیاں ہوئی ہیں۔ اس طرح کا ماحول بند کمرے میں ججز کے اجلاس میں بھی شاید ہی کبھی بنا ہو جیسا کہ اگلے دو مہینوں میں روزانہ کھلی عدالت میں ساری دنیا کے سامنے بنتا رہا۔ اب صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی کا احتساب نہیں ہورہا تھا، بلکہ پوری عدالت کا احتساب شروع ہوگیا، اور وہ بھی سب کے سامنے!

لائن کے اِس پار کھڑے جج صاحب اور لائن کے اُس پار بیٹھے جج صاحبان کے درمیان مسلسل تناؤ کی کیفیت رہی اور جس کسی نے بھی اس مقدمے کی سماعت سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر 1 میں دیکھی، وہ خود بھی مسلسل اس تناؤ کا شکار ہوا۔ ہر لمحے یہ امکان ہوتا کہ کسی بھی وقت جج صاحب کی کسی بات پر بنچ میں بیٹھے کوئی جج صاحب برا محسوس کرکے صبر کا دامن چھوڑ دیں گے اور جواب میں ادھر سے بھی سخت جملے بولے جائیں گے۔

اب یہ عام وکیل کا معاملہ تو تھا نہیں جسے بنچ کی جانب سے زبردستی خاموش کیا جاسکتا، بلکہ بولنے والا خود سپریم کورٹ کا موجودہ جج (اور بنچ میں موجود نو جج صاحبان سے سینئر جج) ہے جسے قانون کی حدود کا بھی اچھی طرح علم ہے اور اپنے حقوق کا بھی اور جو اپنے حق کے معاملے میں کسی جانب سے کوئی تجاوز کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔

چنانچہ بنچ میں موجود جج صاحبان کےلیے یہ بہت ہی مشکل (تقریباً ناممکن ) ہوگیا کہ وہ بولنے والے کو اپنی بات ، پوری بات، کہنے سے روک سکیں۔ اس بنا پر بارہا سماعت کے دوران میں تلخیاں پیدا ہوئیں، ایک دوسرے سے معذرتیں کی گئیں، ماحول کو ٹھنڈا کرنے کےلیے لطیفے شیئر کیے گئے یا ایک دوسرے کے بارے میں اچھی بات کہہ کر تناؤ کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ کچھ بھی ہوا لیکن ایک بات تو ہر کسی پر واضح ہوگئی کہ اس مقدمے کی سماعت کو اب جسٹس بندیال کنٹرول نہیں کرسکتے!

چنانچہ جسٹس بندیال کی جگہ معاملے کو کنٹرول میں رکھنے کی ذمہ داری جسٹس منیب اختر نے لے لی۔ انھوں نےبارہا پٹیشنر کو سخت لہجے میں ٹوکا، طویل طویل سوالات کیے، ایسے سوالات جن میں دو منٹ تک بولنے کے بعد خود جسٹس منیب صاحب ہی بھول جاتے تھے کہ وہ سوال کیا کررہے تھے، نہ ہی کسی اور کو معلوم ہوتا کہ سوال کیا تھا، اور ایسے میں پٹیشنر کی جانب سے کبھی زہرخند کے ساتھ، کبھی تلخ لہجے میں، کوئی طنزیہ جملہ بولا جاتا تو اچانک ہی تناؤ میں شدید اضافہ ہوجاتا۔

پھر بنچ میں موجود دوسرے جج صاحبان، بالخصوص جسٹس مقبول باقر اور جسٹس منظور ملک، کو فائر فائٹر کا کردار ادا کرنا پڑتا۔ پھر باہم معذرتوں کا تبادلہ ہوتا۔ پھر بحث شروع ہوجاتی ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بنچ اور پٹیشنر کے درمیان تناؤ میں اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب خود بنچ کے اندر تناؤ کی کیفیت اس حد تک بڑھ گئی کہ فاضل جج صاحبان آپس میں الجھ پڑے اور بنچ کے سربراہ کو مجبوراً دس منٹ کےلیے بریک لینی پڑی۔ (اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔)

یوں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے خود دلائل دینے کا فیصلہ درست ثابت ہوا کیونکہ اس نے بنچ میں موجود مصنوعی اتفاق کا پردہ چاک کرکے ہر جج کو اپنے ذہن اور ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنے کےلیے سہولت پیدا کرلی اور بنچ کے سربراہ کی حیثیت سے جسٹس بندیال کی بنچ پر گرفت کمزور ہوگئی۔ مقدمے کی کارروائی کی رپورٹ پڑھنے والے جن لوگوں کا خیال تھا کہ سماعت کے دوران میں بارہا جذباتی کیفیت پیدا ہونے کی وجہ سے مناسب یہ تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود اپنے کیس کی پیروی نہ کرتے، اس اہم پہلو کو نظرانداز کردیتے ہیں۔

اگر وہ خود پیروی نہ کرتے، تو صورت کیا ہوتی؟
اس کا کچھ اندازہ اس امر سے ہوجاتا ہے کہ کیسے جسٹس بندیال نے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حامد خان صاحب کو مجبور کیا کہ وہ اپنے دلائل مختصر اور بلٹ پوائنٹس کی صورت میں دیں اور پھر کیسے انھوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر الرحمان کو ساڑھے تین دن تک طویل خطبے دینے کےلیے وقت دیا،

حالانکہ حامد خان صاحب سپریم کورٹ بار اور بعض دیگر درخواست گزاروں کے وکیل تھے اور تفصیل سے دلائل دینا ان کا حق تھا، جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل تو حکومت کی نمائندگی کررہے تھے اور حکومت سرے سے نظرِ ثانی کی سماعت میں فریق ہی نہیں تھی کیونکہ اس نے تو فیصلے کے خلاف درخواست ہی نہیں دی تھی!

اس تناظر اور پس منظر میں اس درخواست کی اہمیت اور بھی واضح ہوجاتی ہے جو نظرِ ثانی کی سماعت کے آغاز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے دی گئی کہ نظرِ ثانی کے اس مقدمے کی سماعت براہِ راست پوری قوم کو پاکستان ٹیلی وژن پر دکھائی جائے! ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں