جسٹس منظور اے ملک، سپریم کورٹ آف پاکستان

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی (5)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر محمد مشتاق، ممتاز ماہر قانون :

پہلے یہ پڑھیے

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 1 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 2 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 3 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 4 )

نظرِ ثانی کےلیے جسٹس صاحب کے علاوہ مسز سرینا عیسیٰ نے بھی درخواست دی تھی کیونکہ انھیں سنے بغیر ہی ان کے بارے میں ایف بی آر کو احکامات جاری کیے گئے تھے ۔ نیز ان کے قانونی حقوق کی پامالی کی راہ ہموار کی گئی تھی۔

مثال کے طور پر ایف بی آر کو اپنی رپورٹ تین مہینوں کے اندر جمع کرانے کا حکم دیا گیا تھا حالانکہ قانون کی رو سے ایسی کسی بھی رپورٹ سے متاثرہ فریق کے پاس حق ہوتا ہے کہ وہ اس کے خلاف متعلقہ فورم پر اپیل کرے اور پھر اعلیٰ عدلیہ تک اپنے حق کےلیے جدوجہد کرے۔

ایف بی آر کی رپورٹ کو تین مہینوں کے اندر سپریم جیوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے کر گویا سات جج صاحبان نے کسی ملزم کے خلاف استغاثہ کی شکایت کو ہی حتمی ثبوت قرار دے دیا! یہ بات قانون کے بنیادی اصولوں کے ہی خلاف تھی اور صرف اسی بنیاد پر ہی فیصلے کو کالعدم قرار دیا جاسکتا تھا۔

جب نظرِ ثانی کی درخواستوں کی سماعت بالآخر شروع ہوگئی تو ایک اور بڑی حیران کن بات یہ سامنے آئی کہ ان درخواستوں کی سماعت کےلیے دس رکنی بنچ تشکیل دینے کے بجائے چھ رکنی بنچ تشکیل دیا گیا۔
قانون کے ادنیٰ طالب علم بھی اس اصول سے واقف ہیں کہ نظرِ ثانی کی سماعت وہی بنچ کرتا ہے جس نے اصل فیصلہ سنایا ہوتا ہے اور اس بنچ میں اگر کوئی جج ریٹائر ہوگیا ہو، یا کسی اور وجہ سے وہ بنچ میں شامل نہیں ہوسکتا، تو اس کی جگہ کسی اور جج کو بٹھایا جاتا ہے لیکن تعداد اتنی ہی رکھی جاتی ہے، جتنی اصل فیصلے کے بنچ میں تھی۔
سوال یہ ہے کہ اس کیس میں ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟

اس سوال کا جواب یہ دیا گیا کہ چونکہ درخواست گزاروں کو تین جج صاحبان کے فیصلے سے اختلاف ہی نہیں ہے اور ان کو اعتراض سات جج صاحبان کے فیصلے پر ہے، اس لیے صرف انھی کا بنچ تشکیل دیا گیا اور ان میں ایک جج صاحب ( جسٹس فیصل عرب ) ریٹائر ہوچکے ہیں، اس لیے بنچ میں چھ جج صاحبان ہی رہ گئے ہیں!

یہ ایک بالکل ہی لولا لنگڑا عذر تھا لیکن اس پر بھی دو دن ( 8 اور 10 دسمبر 2020ء) کی سماعت کی گئی اور پھر فیصلہ محفوظ کیا گیا تو ڈھائی مہینے بعد 22 فروری 2021ء کو مختصر آرڈر جاری کیا گیا جس میں یہ مان لیا گیا کہ بنچ کی تشکیل غلط ہوئی تھی اور دس رکنی بنچ نے ہی اس کیس کی سماعت کرنا ہے اور ریٹائر شدہ جج کی جگہ ایک اور جج کو بٹھایا جائے گا۔

اس سے اندازہ لگائیں کہ اس کیس میں وقت کس کی جانب سے اور کیسے ضائع کیا گیا! یہ اصول تو وہ ہے جس کے بارے میں کوئی ابہام ہی نہیں تھا۔

اس فیصلے میں جسٹس بندیال نے پہلے تو کوشش کی کہ کسی طرح یہ ثابت کریں کہ ” عدالت کے فیصلے “ سے مراد ” اکثریتی فیصلہ “ ہوتا ہے اور یہ کہ اختلاف کرنے والے جج صاحبان کے فیصلوں کو عدالتی فیصلہ نہیں کہا جاسکتا اور اس وجہ سے نظرِ ثانی میں صرف انھی جج صاحبان کو ہونا چاہیے جن کے فیصلے کو عدالتی فیصلہ کہا جاتا ہے ( یعنی اکثریتی جج صاحبان )، لیکن ان کی راہ میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کی نظیر حائل ہوگئی۔

یاد ہوگا کہ بھٹو صاحب کی اپیل کی سماعت سپریم کورٹ میں سات رکنی بنچ نے کی تھی جس میں چار جج صاحبان نے ان کی اپیل مسترد ، جبکہ تین جج صاحبان نے ان کی اپیل منظور کی تھی۔ تاہم جب اس فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی سماعت ہوئی تو سات کے سات جج صاحبان اس بنچ کا حصہ تھے۔ اب چونکہ یہ سات رکنی بنچ کا فیصلہ تھا اور موجودہ بنچ چھ رکنی بنچ تھا جو اس فیصلے سے انحراف بھی نہیں کرسکتا تھا، تو مجبوراً انھیں ماننا پڑا کہ موجودہ نظرِ ثانی کی درخواستوں کی سماعت کےلیے دس رکنی بنچ ہی تشکیل دیا جائے!

تاہم مجبوراً یہ مان چکنے کے بعد جسٹس بندیال نے دو پہلوؤں سے کوشش کی کہ نظرِ ثانی میں بڑا بنچ ان کے کنٹرول میں رہے۔ ایک، یہ کہ انھوں نے فیصلے میں یہ لکھا کہ بنچ تو دس رکنی ہی ہو لیکن اس میں انھی جج صاحبان کا ہونا ضروری نہیں ہے جنھوں نے اصل کیس سنا تھا، بلکہ ان کی جگہ چیف جسٹس مناسب سمجھیں تو کسی اور جج کو بھی بٹھا سکتے ہیں، بس تعداد اتنی ہی ہونی چاہیے۔

اس بات کے ساتھ بنچ میں موجود چار جج صاحبان نے اتفاق کیا لیکن جسٹس منظور اے ملک نے اس نکتے سے اختلاف کیا اور قرار دیا کہ جج صاحبان بھی وہی ہونے چاہئیں جنھوں نے اصل فیصلہ سنا تھا، الا یہ کہ ان کا ہونا ممکن نہ رہے (جیسے اس دوران میں جسٹس فیصل عرب ریٹائر ہوچکے تھے)۔ یہ پہلی دراڑ تھی جو نظرِ ثانی کے مرحلے پر جسٹس بندیال کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے بنچ میں پڑ گئی تھی!

دوسری کوشش جسٹس بندیال نے یہ کی کہ دس رکنی بنچ میں ان تین جج صاحبان کو خاموش رکھا جائے جنھوں نے اصل فیصلے کے وقت ان سے اختلاف کیا تھا۔ جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوا، یہ کوشش بھی ناکام ہی رہی لیکن اس کوشش سے ان کی ذہنی کشمکش کا بخوبی اندازہ ہوگیا تھا۔

( اس فیصلے پر میں فروری میں اپنی فیس بک وال پر تفصیلی تنقیدی پوسٹس لکھ چکا ہوں۔ مزید تفصیل ان پوسٹس میں دیکھ لیجیے۔ )

(جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں