جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، جج سپریم کورٹ آف پاکستان

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی (2)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر محمد مشتاق ، ممتاز ماہر قانون :

پہلے یہ پڑھیے :

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی (1)

اس ریفرنس کی کہانی 2019ء سے شروع ہوتی ہے جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے خلاف سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم کا سلسلہ چل پڑا۔ اس مہم کے بیک گراؤنڈ میں ایک تو ان کی وہ رپورٹ تھی جو انھوں نے 2016ء میں کوئٹہ میں ہونے والی بدترین دہشت گردی کے بعد لکھی تھی اور دوسرا ان کا وہ فیصلہ تھا جو انھوں نے فیض آباد دھرنے کے متعلق دیا تھا۔

تاہم سوشل میڈیا پر مہم میں زیادہ تر ان کے اس فیصلے کو ہدف بنایا گیا جس میں انھوں نے حدیبیہ ملز کے خلاف کیس ری اوپن کرنے کے خلاف اس بنا پر فیصلہ دیا تھا کہ نیب اپنا کیس ثابت نہیں کرسکا تھا کہ فیصل شدہ کیس کو از سر نو کیوں سنا جائے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حدیبیہ کیس میں وہ تنہا نہیں تھے بلکہ بنچ کا متفقہ فیصلہ تھا جس میں سینیئر جج جسٹس مشیر عالم صاحب بھی شامل تھے لیکن آج تک ان کے متعلق کسی نے ایک جملہ تک نہیں لکھا۔ چنانچہ یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ اصل تکلیف کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ اور فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے سے ہوئی تھی۔ یہ امر بھی واضح ہے کہ ان دونوں دستاویزات سے اصل تکلیف کس کو ہوئی تھی!

بہرحال فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی جانب سے دائر کی گئیں اور ان میں جسٹس صاحب کے خلاف انتہائی نازیبا الفاظ اور جملے شامل کیے گئے تھے۔ اس پر عدالت میں اچھی خاصی گرما گرمی بھی ہوئی۔

ریفرنس کی جڑیں اسی نظرثانی کی درخواست میں پائی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جسٹس صاحب کے خلاف بے ہودہ پروپیگنڈا کرنے والے، اور سنی سنائی آگے بیان کرنے والے، کیا یہ بتاسکیں گے کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی ان درخواستوں کا کیا ہوا اور یہ اب کس مرحلے میں ہیں؟

جسٹس صاحب کے خلاف پہلا ریفرنس جون 2019ء میں اس وقت دائر کیا گیا جب انھوں نے اپنے کیریئر میں پہلی دفعہ سپریم کورٹ سے ایک مہینے کی چھٹی لی تھی اور اس پر بہت جلد کارروائی بھی شروع کرلی گئی۔ ان کو ریفرنس کی کاپی تک نہیں دی گئی۔ جب انھوں نے اس کے متعلق صدر اور چیف جسٹس سے مطالبہ کیا تو ایک ٹاؤٹ کے ذریعے ایک اور ریفرنس بھی دائر کروایا گیا۔

بہرحال ایک ریفرنس تو سپریم جیوڈیشل کونسل نے 2019ء میں ہی خارج کرلیا لیکن دوسرا ریفرنس (صدارتی ریفرنس) زیرِ التوا رکھا اور جو ریفرنس خارج کیا تو اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دیا گیا، حالانکہ ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ بہرحال اس کے بعد صدارتی ریفرنس پر جنگ شروع ہوگئی۔
(جاری ہے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں