فوٹو کیمرہ

” میں جمعیت کا کارکن ہوں بے ایمانی نہیں کروں گا “

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبید اللہ کیہر :

1987ء میں مَیں نے اردو کے بین الاقوامی رسالے ماہنامہ ” رابطہ انٹرنیشنل “ میں لکھنا شروع کیا۔ شروع میں تو رابطہ والے میرے مختصر سفرنامے شائع کرتے رہے، لیکن پھر ایک مستقل سلسلہ ” ایک شہر ایک انجمن “ میرے حوالے کر دیا گیا۔ اس عنوان کے تحت رابطہ میں پاکستانی شہروں کے تعارفی مضامین رنگین تصاویر کے ساتھ شائع ہوتے تھے۔ مجھ سے پہلے اسے مختلف لوگ لکھتے رہے تھے ، لیکن یہ سلسلہ مجھے دیئے جانے کے بعد 20 پاکستانی شہروں کے تعارف میں نے ہی لکھے۔ نہ صرف تعارف لکھے بلکہ ان شہروں کی فوٹوگرافی بھی وہاں جا کر میں نے خود ہی کی۔ رابطہ کی طرف سے مجھے اس کام کا معقول معاوضہ ملتا تھا۔ چنانچہ میرا سیاحت اور فوٹوگرافی کا شوق بھی پورا ہو رہا تھا اور ساتھ ہی کمائی بھی ہو رہی تھی۔

”ایک شہر ایک انجمن“ کے حوالے سے مجھے ایک مرتبہ سندھ کے شہر ”خیرپور“ کے تعارفی مضمون اور فوٹوگرافی کا اسائنمنٹ دیا گیا جس میں مَیں نے اس لئے خصوصی دلچسپی لی کہ خیرپور میری پیدائش کا شہر تھا۔ چنانچہ اس کیلئے میں نے خاص اہتمام کیا اور روانہ ہونے سے پہلے کراچی کی کیمرا مارکیٹ میں قسیم صدیقی صاحب کی دوکان سے کینن کمپنی کا ایک سیکنڈ ہینڈ اچھا کیمرا Canon AE-1 خریدا اور ریل گاڑی میں بیٹھ کر خیرپور پہنچ گیا۔

شہر بھر میں گھوما پھرا، لوگوں سے ملاقاتیں کیں، معلومات جمع کیں، لائبریریاں دیکھیں، شہر کی قدیم عمارات اور قلعہ کوٹ ڈیجی کا دورہ کیا اور اس دوران تمام اہم اور قابل ذکر مقامات کی اس تازہ خرید کردہ کیمرے سے فوٹوگرافی بھی کرتا رہا۔ تین چار دن بعد کراچی واپس آ کر مضمون لکھنا شروع کیا اور ساتھ ہی کیمرے سے ریل نکال کر فیوجی لیب کو ڈویلپ ہونے کیلئے دے دی۔

اگلے دن جب میں لیب پہنچا توڈویلپ شدہ رول دیکھتے ہی دھک سے رہ گیا …. سارے کا سارا رول کالا تھا …. ایک بھی تصویر نہیں آئی تھی …. یا اللہ …. یہ کیا ہو گیا؟ …. میں تو روہانسا ہو گیا۔ کیمرا اور رول لے کر پریشان چہرے کے ساتھ کیمرا مارکیٹ میں قسیم صدیقی صاحب کی دوکان پہنچا۔ قسیم صدیقی مرحوم کراچی کے موجودہ معروف کیمرا ڈیلر ندیم صدیقی ” کیمرا ورلڈ “ والے کے والد تھے۔ میں نے قسیم صاحب کو خراب رول اور کچھ ہی دن پہلے ان سے خریدا ہوا کیمراپیش کیا ۔ وہ بھی یہ معاملہ دیکھ کر پریشان ہوئے۔

کیمرا کھول کر اور شٹر دبا کر اچھی طرح جانچ پڑتال کے بعد انہوں نے اعتراف کیا کہ کیمرا خراب تھا۔ فوٹو کھینچتے ہوئے اس کے شٹر کی آواز تو بالکل ٹھیک آتی تھی، لیکن شٹر کھلتا نہیں تھا۔ اسی لیے ساری تصاویر کالی آئی تھیں۔ انہوں نے معذرت تو کی، لیکن جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا تھا۔اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں کوئی نیا قابل اعتماد کیمرا لے کر دوبارہ خیرپور جاؤں اور ساری فوٹوگرافی نئے سرے سے کروں۔

خیرپور دوبارہ جانے کیلئے تو میں تیار تھا لیکن نئے کیمرے کیلئے پیسے کہاں سے آتے؟ …. قسیم صاحب نے مجھے ایک Minolta X700 کیمرا دکھایا اور کہا کہ یہ لے جاؤ۔

کیمرا تو شاندار اور پرکشش تھا لیکن مسئلہ ان تین ہزار روپوں کا تھا جو مجھے اسے خریدنے کی صورت میں مزید دینے پڑتے۔ اس وقت تو یہ پیسے میرے پاس نہیں تھے۔ ہاں اگر رابطہ سے خیرپور والے مضمون کا معاوضہ مل جاتا تب میں یہ پیسے دے سکتا تھا۔ لیکن ابھی تو مضمون کیلئے فوٹوگرافی ہی نہیں ہوئی تھی۔ پہلے میں یہ کام مکمل کرتا اور پھر رابطہ کے حوالے کرتا اور پھر تیسرے مہینے یہ مضمون شائع ہوتا، پھر کہیں جا کے معاوضہ ملتا۔ لیکن کیمرا تو ابھی چاہئے تھا۔ آج ہی اور فوری طور پر۔ میں نے قسیم صاحب کو یہ ساری صورتحال بتائی تو بولے:

”میاں کیمرہ تو ہم تمہیں دے دیں، لیکن ہمارا تجربہ یہ ہے کہ جسے ادھار دیا وہ کبھی واپس نہیں آیا۔“
”لیکن میں تو آؤں گا۔“ میں نے یقین سے کہا۔
قسیم صاحب نے گہری نظروں سے میرا جائزہ لیا اور بولے:

”اس بات کی کیا ضمانت ہے؟ …. کوئی گارنٹی؟ ….“
”گارنٹی تو کوئی نہیں میرے پاس۔ بس ایک ضمانت ہے۔“ میں دھیرے سے بولا۔
”وہ کیا؟ ….“
”جی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا کارکن ہوں۔ انشاءاللہ بے ایمانی نہیں کروں گا۔“
یہ کہہ کر میں خاموش ہو گیا۔

قسیم صاحب نے غور سے مجھے دیکھا، اور پھر اپنے بیٹے سے کہا:
”اے ندیم بیٹا …. کیمرا دے دو ان کو …. پیسے کہیں نہیں جائیں گے۔“

میں حیران رہ گیا ۔ نیا کیمرا لے کر میں اسی رات ٹرین میں روانہ ہو گیا اور صبح سویرے خیرپور پہنچ گیا۔ ایک ہی دن میں ساری فوٹوگرافی نمٹائی اور اگلے دن واپس کراچی پہنچ کر دھڑکتے دل کے ساتھ فلم رول ڈویلپنگ کیلئے لیب میں دے دیا۔ رول دوسرے دن مل گیا۔ بہت اعلیٰ، شارپ اور کلرفل تصاویر آئی تھیں۔

مضمون تو میں نے پہلے ہی لکھ رکھا تھا۔ دونوں چیزیں اٹھا کر رابطہ کے دفتر پہنچا اور ایڈیٹر کے حوالے کر دیں۔ تیسرے مہینے مضمون بھی دھوم دھام سے شائع ہو گیا اور معاوضہ بھی مل گیا۔ پیسے ہاتھ میں آتے ہی میں سیدھا صدر گیا اور قسیم صاحب کی دوکان پر پہنچا۔ پیسے ان کے حوالے کئے تو ان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی۔ انہوں نے ایک مطمئن و معنی خیز انداز میں اپنے بیٹے ندیم صدیقی کی طرف دیکھا اور میرے لئے چائے منگا لی۔ اس دن قسیم صاحب سے پکی دوستی ہو گئی۔

قسیم صدیقی صاحب کا تو غالباً 1998ءمیں انتقال ہو گیا۔ البتہ ان کے بیٹے ندیم، وسیم اور جسیم آج بھی میرے دوست ہیں۔

(عبیداللہ کیہر کی کتاب ” بچپن سے پچپن تک “ سے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “” میں جمعیت کا کارکن ہوں بے ایمانی نہیں کروں گا “”

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    یا داشت شیئر کرنے کا شکریہ۔ امید ھے کہ مذید تحریں پڑھنے کو ملیں گی۔