مرد خاتون ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر شراب کے جام پکڑے بیٹھے ہیں

زنا ، زانی اور سزا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ربیعہ فاطمہ بخاری:

گجرات واقعہ کیا رونما ہوا، یوں لگا کہ سوشل میڈیا پہ ایک بدبو، تعفّن اور سڑاند سے اُبلتے گٹر کا دھانہ کھل گیا ہو، کوئی اسقاطِ حمل کو قانونی حیثیّت دینے کی دُہائیاں دے رہا، کوئی زنا بالرّضا کو قانونی شکل دینے اور اُس کی حیثیّت ایک جُرم سے بدل کےایک معمول کی کارروائی قرار دلوانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

کوئی کنواری بچیوں کو گناہ سے بچنے کی تلقین کرنے کی بجائے گناہ کرتے ہوئے اپنے ” بچائو “ کے طریقے سکھانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ کوئی سرے سےاُن جنسی جرائم کو جو باہمی رضامندی سے سرانجام پائیں، اُن کے خلاف کسی قسم کی معاشرتی، اخلاقی، دینی یا مذہبی قدغن ختم کرنے کا مطالبہ کررہا ہے اور کوئی شرعی سزائوں پہ من گھڑت رائے زنی کر رہا ہے۔

آج میرا ارادہ اسلام میں زنا کے بطورِ گناہِ کبیرہ تصوّر، اس فعلِ قبیح کے حوالے سے اسلام میں موجود سزائوں کے طریقہ کار اور زنا کے لیے مقرر کی گئی سخت ترین سزائوں کی حقیقت اور حکمت پہ اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں روشنی ڈالنے کا ہے۔

ایک ضروری وضاحت کر دوں کہ اس تحریر کے صرف الفاظ میرے ہیں، باقی سارا مواد میری اپنے والد صاحب کے ساتھ ایک طویل نشست میں اُن سے لئے گئے نوٹس پہ مبنی ہے، والد صاحب مفتی ہیں اور کئی دہایئوں سے اُن کا اپنا دارالافتاء قائم ہے۔

سب سے پہلے تو یہ بات بالکل دو ٹوک سمجھ لیں کہ زنا آٹھ کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے۔ اس کی شریعت کی رو سے بالجبر یا بالرّضا کی کوئی تقسیم نہیں۔ سوائے اس کے کہ اگر زنا بالجبر واقع ہوا ہوتو اس صورت مجرم صرف اور صرف مرد ہے۔ عورت پہ اُس کا بال برابر بھی وبال نہیں ہوتا۔ لیکن اگر یہی فعلِ قبیح باہمی رضا مندی سے سرانجام دیا جائے، اس صورت میں فریقین برابر کے مجرم ہوتے ہیں۔

یہ عملِ قبیح بالرّضا ہو یا بالجبر اس سے فی نفسہِ اُس کے گناہِ کبیرہ ہونے کی حیثیّت میں ہرگز کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ عمل جس بھی طرح سے انجام پائے، گناہِ کبیرہ ہی شمار ہو گا، اسلامی شریعت کی رو سے۔ اسلام میں Consensual sex کا ہرگز ، ہرگز کوئی تصوّر نہیں۔ آپ اس گھٹیا فعل کو جتنے چاہیں خوبصورت الفاظ اور انداز کا لبادہ اوڑھا دیں، اس کی سنگینی میں ہر گز کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اب بات کروں گی شریعت میں زنا کی مقرر کردہ سزا پہ، شریعت میں اس سزا کی دو طرح سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ ایک سزا شادی شدہ زانی کی ہے، جو موت ہے، لیکن عبرتناک موت یعنی رجم کر کے قتل کر دینا۔ اور دوسری سزا ہے غیرشادی شُدہ زانی کی۔ یہ سزا سو کوڑے ہے۔ مطلب یہ کہ غیر شادی شُدہ زانی کو قتل کرنا قرینِ انصاف نہیں ہے۔

اسلامی شریعت کی نظر میں کہ اُس کے نفس کے بہکاوے میں آنے کے امکانات بہرحال موجود ہوتے ہیں لیکن شادی شُدہ زانی کے پاس اس طرح کا کوئی عُذر موجود نہیں ہوتا، وہ اپنی حلال اور طیّب بیوی کو چھوڑ کے غلاطت میں مُنہ مارے گا تو اُس کی سزا سخت ترین متعیّن کی گئی ہے کہ اُس کے پاس خواہشِ نفسانی سے نبردآزما ہونے کا حلال اور طیّب راستہ موجود ہونے کے باوجود وہ غلط کاری کا مرتکب ہوا۔

اب بات کر لیتے ہیں اس پہ کہ رجم کا حُکم تو توریت سے لیا گیا تھا، چونکہ پہلی شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں تو یہ حُکم بھی منسوخ ہے، پہلی بات تو یہ کہ توریت بھی کلام اللّٰہ ہے، کیا اس میں کوئی مسلمان شک کر سکتا ہے ؟ قرآنِ مجید میں بہت دفعہ بہت سارے احکامات اس طرح سے شروع ہوتے ہیں،
کتب علیکم الصیام، کما کتب علی الذین من قبلکم

مطلب یہ کہ تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جیسا کہ تم سے پہلی امّتوں پر فرض تھے تو آپ کی دلیل کے مطابق تو روزے بھی کالعدم ہو گئے کہ یہ حُکم بھی توریت میں موجود تھا۔۔۔! قرآنِ مجید کے بعد اگر آپ کا تعلّق منکرینِ حدیث کی جماعت سے نہیں ہے تو سب سے زیادہ قابلِ اعتبار سُنن اور احادیث ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیّبہ میں ایک مسلمان مرد اور ایک عورت کو دو الگ الگ واقعات میں، اعترافِ جُرم کرنے کے بعد رجم کیا۔

یہ دونوں واقعات اپنے اندر ہم سب کیلئے بےشمار اسباق لیے ہوئے ہیں۔ مراد یہ کہ یہ عمل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّتِ مطہّرہ سے ثابت ہے اور ایک بار نہیں، دو دفعہ ۔ بعدازاں تمام خلفائے راشدین کے دور میں اس فعلِ قبیح کیلئے یہی سزا شادی شُدہ زانیوں کو دی جاتی رہی ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور خُلفائے راشدین کی پریکٹس سے زیادہ میرا اور آپ کا فہم قابلِ بھروسہ ہے؟؟ نعوذ باللّٰہِ من الذّٰلک۔ خلفائے راشدین کے بعد بھی ایک عرصے تک اسلامی مملکتوں میں یہ سزا رائج رہی۔

ماعز اسلمی نامی ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللّٰہ ! صلی اللہ علیہ وسلم !! مجھ سے زنا سرزد ہو گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے رُخ پھیر لیا، اُس نے اپنی بات دوہرائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سے رُخِ انور پھیر لیا، اُس نے پھر سے دو بار اپنی بات دوہرائی۔ جب اُس نے چار دفعہ اعترافِ جُرم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں رجم کرنے کا حُکم دیا کہ یہ شخص شادی شُدہ تھا۔ اس کی سزا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے والد کو سرزنش کی کہ اگر اللّٰہ نے اُس کے گناہ پہ پردہ ڈال رکھا تھا تو تم نے اُسے میرے پاس کیوں آنے دیا؟؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” اےلوگو!!
وقت ہےابھی سمجھو کہ اگر اللّٰہ نے تمہارا جُرم چھپا دیا ہے تو میرے سامنے مت لے کے آئو، کیونکہ اگر میرے پاس آگئے تو حد جاری کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔“

اس واقعے سے جو کچھ میں نے سیکھا، اوّلاً تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا کسی بھی اور صحابی نے مجرم کے اعترافِ جُرم کے باوجود اُس سے اُس عورت کے بارے میں ایک لفظ نہیں پوچھا، جس کے ساتھ یہ عمل وقوع پذیر ہوا تھا، اسلام اس قدر ساترِ عیّوب ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پہ اس کی سنگین سزا کا نفاذ ضرور کیا لیکن اس خواہش کا اظہار کیا کہ اللّٰہ پاک نے اُس کا پردہ رکھ لیا تھا، کاش وہ خود یہ پردہ فاش نہ کرتا۔

اور ہم سب کا سوشل میڈیا پہ اس حوالے سے کیا رویّہ ہوتا ہے، مجھے بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ جُرم کی کسی بھی معاشرے میں موجودگی کوئی اچنبھے کی بات نہیں، ہر دور میں خیر اور شر باہم برسرِ پیکار رہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا دور جو بلاشُبہ خیرالقرون تھا، اُس وقت بھی اس طرح کے معاملات معاشرے کا حصّہ تھے تو یہ دُہائیاں دینا کہ ہمارا معاشرہ جنسی فرسٹریشن کا شکار ہے، اسے مادر پدر آزاد معاشرہ بنا دیا جائے، Consent کے نام پہ بے حیائی کا بازار گرم کر دیا جائے، بالکل لغویات پہ مبنی موقف ہے۔

پھر یہ کہ معاشرے میں اس طرح کے معاملات کا چرچا کرنا کوئی مستحسن فعل نہیں ہے۔ ایک اور یہ کہ اس فعلِ قبیح کی حتمی اطلاع اگر حاکمِ وقت تک پہنچ جائے اور گواہی سے یہ جُرم ثابت ہو جائے تو اس کی سزا ہر صورت نافذ کی جائے گی، ہر صورت، کہ یہ گناہِ کبیرہ ہے اور اس کی کوئی معافی نہیں۔

ایک دفعہ غامدیہ قبیلے کی ایک عورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کی یا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے یہ عمل سرزد ہو گیا ہے اور میں اُس کی بدولت حاملہ ہو گئی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس عورت سے کئی بار رُخِ انور پھیرا، اُس کے بارہا اعتراف کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، گناہ تم سے سرزد ہوا ہے، اس میں اس بچّے کا کوئی قصور نہیں، جائو اور بچّے کا خیال رکھو۔

یہ عورت بچّے کی پیدائش کے بعد پھر حاضر ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے پھر سے واپس بھیج دیا کہ جائو اور اس بچّے کی رضاعت مکمّل کر کے آئو، اب کے وہ عورت اڑھائی سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس پہ حد جاری فرمائی اور اُس کے اس احساسِ جُرم کی اور توبہ کی خواہش کی بہترین الفاظ میں تعریف کی۔

اس واقعے سے سب سے پہلے تو اُن مذہبی شدّت پسندوں کی نفی ہوتی ہے، جو یہ کہتے تھے کہ ایدھی کے جھولے حرام کاری کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ ایدھی کے جھولے وہ کر رہے ہیں، جو بطورِ مسلمان ہمارے معاشرے پہ فرض ہے۔ گنہگار اُس بچّے کے ماں یا باپ یوتے ہیں، وہ بچّہ بالکل معصوم ہوتا ہے، اُسے بھی دُنیا پہ آنے اور زندگی جینے کا اُتنا ہی حق ہے جتنا کسی بھی حلال زادے کو ہے۔ پھر اس سے اُن دریدہ دہنوں کی بھی نفی ہوتی ہے، جو گجرات واقعے کی آڑ میں اسقاطِ حمل کو قانونی حیثیّت دینے کے مطالبے کر رہے ہیں۔

وہ بچّہ جو کسی بھی مرد اور عورت کی غلط کاری کی بدولت ہی سہی، انسانی وجود کا حصّہ بن گیا، اُسے قتل کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پھر یہ کہ جُرم سرزد ہو جانا عین انسانی فطرت ہے، لیکن اُس جُرم پہ ڈٹ جانا، ڈھٹائی کے ساتھ جُرم کو جُرم ماننے سے ہی انکار کر دینا ناپسندیدہ ترین کاموں میں سے ہے اور اپنے جُرم پہ شرمسار ہونا، احساسِ ندامت دل میں رکھ کے اللّٰہ کی بارگاہ میں توبہ کیلئے حاضر ہو جانا، ربِّ کائنات کے پسندیدہ ترین کاموں میں سے ایک ہے۔

قوانین اور حدود چاہے شرعی ہوں یا اخلاقی، اُن کا بنیادی مقصد جرائم کی روک تھام اور عوام النّاس میں ایک خوف کی فضا پیدا کرنا ہوتا ہے۔ شریعت ہو یا اخلاقی پیمانے، اُن کا مقصد ایک حد فاصل مقرر کرنا ہوتا ہے کہ یہ ایک حد ہے، اس سے آگے قدم بڑھے گا تو جُرم کی گہری کھائی ہے یا گُناہ کا اندھا کنواں۔ بس۔۔ اس سے زیادہ قوانین کا کوئی مقصد نہیں۔

کوئی بھی قانون چاہے شرعی ہو یا ملکی اُس کا نہ تو مقصد معاشرے سے جرائم کو سو فیصد ختم کردینا ہوتا ہے، نہ ہی ایسا عملاً ممکن ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ، چاہے وہ تاریخ کے کسی بھی دور میں گزرا ہے، کبھی بھی مکمل طور پہ جرائم سے پاک نہیں ہو پایا۔ یہ قوانین لاگو کرنے کا مقصد کم ازکم اُن لوگوں کو رستے پہ رکھنا ہے جو جُرم پہ دُلیر نہیں ہوتے، ڈھٹائی اور بےشرمی سے زرا دور ہی ہوتے ہیں لیکن شیطان کے بہکاوے میں تو آ ہی سکتے ہیں نا۔۔!! انسان ہیں آخر،

ایسے لوگوں کو رستے پہ رکھنے کیلئے کہیں دُنیاوی سطح پہ سخت سزائوں کا خوف دل میں پیدا ہونے کی بناء پہ وہ جُرم یا گناہ سے بچ سکیں تو کہیں آخرت کی سخت وعیدیں سُنا کے دل میں خوفِ خُدا پیدا کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ اور ایک عام ذہنی سطح والے نسبتاً بزدل انسان کے جُرم سے باز آنے کا پورا پورا امکان ہوتا ہے۔ اور ایسے لوگ کسی بھی معاشرے میں اکثریّت میں ہوتے ہیں۔

رہ گیا وہ شخص جو گناہ پہ دُلیر ہے، ڈھٹائی اور بےشرمی کی حدیں بھی پار کر چُکا ہو، نہ تو کوئی دُنیاوی قانون اُس کا راستہ روک سکتا ہے نہ ہی شرعی پابندی، ایسے شخص نے جُرم کرنا ہی کرنا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی بھی سو فیصد تو بہت دور کی بات ، شاید ہمارے جیسے معاشرے میں بیس فیصد مجرمان بھی کبھی قانون کے شکنجے میں نہیں آئے ہوں گے، نہ ہی کیفرِ کردار کو پہنچے ہوں گے۔

ہمارے ہاں ایک خاص طبقہ جُرم کرنے پہ بھی دُلیر ہے اور جُرم کے عُذر گھڑنے میں بھی ماہر۔ اُن سے میری عرض یہ ہے کہ زنا کی سزا چاہے رجم ہو یا سو کوڑے، شراب نوشی کی سزا چاہے اسّی کوڑے ہوں یا عمر قید، جب آپ نے اپنے گُناہ کو گُناہ سمجھنا ہی نہیں، نہ کبھی قانون کی گرفت میں آنا ہے تو آپ کو ان قوانین کو تبدیل کروانے میں کیا دلچسپی ہے؟؟
یہ میری سمجھ سے بالا تر ہے۔

اب آتے ہیں حدود کی سزا کے نفاذ کے شرعی طریقے پہ۔ حدود کی سزا زنا کے معاملے میں جس قدر سنگین نوعیّت کی ہے، اُسی قدر اس جُرم کو ثابت کرنا مشکل ترین بلکہ تقریباً ناممکنات میں شامل ہے۔ اس کی سزا تبھی نافذ ہو سکتی ہے، جب یا تو مُجرم خود اپنے مُنہ سے اعترافِ جُرم کرے یا پھر چار صوم و صلٰوة کے پابند مردوں نے بقائمئ ہوش و حواس مرد اور عورت کو حالتِ زنا میں مشغول دیکھا ہو۔ اور وہ چاروں اس بات کی گواہی بھی دے دیں۔

خود ہی بتائیں کیا ایسا عملاً ممکن ہے۔ تقریباً ناممکن ہے۔ مقصد یہی ہے کہ ایک تو کوئی بھی شخص دوسرے پہ جھوٹا الزام یا تہمت نہ لگا سکے اور دوسرا یہ کہ حد کا نفاذ کم سے کم ہو۔ سزا کا مقصد خوف یا حکمتِ عملی سے جُرم یا گُناہ کے ارتکاب کے امکانات کو محدود ترین کرنا ہے اور مجرم کو اگر جُرم ثابت ہو جائے تو قرار واقعی سزا دلوانا ہے۔

رجم کی سزا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گلی محلّے میں لوگ کھڑے ہوں اور زانی کو سنگسار کریں۔ بلکہ ایک مشکل ترین عمل کے ذریعے جس وقت یہ جُرم پایہ ثبوت تک پہنچ جائے، حاکمِ وقت، مطلب جج کے سامنے اور وہ فیصلہ سُنا دے، تب عدالت ہی اس سزا کے نفاذ کی ذمہ دار بھی ہے اور اہل بھی۔

رجم کی حد جب نافذ کی جاتی ہے تو زانی کو غالباً کمر تک زمین میں گاڑ کے اُسے سنگسار کیا جاتا ہے لیکن اگر کوئی شخص اعترافِ جُرم کر لے تو فُقہاء نے لکھا ہے کہ اُسے زمین میں گاڑے بغیر سنگسار کرنا چاہیے کہ اُسے بھاگنے کا موقع مل سکے۔ اگر وہ بھاگنے میں کامیاب ہو جائے تو اُس کی سزا موقوف کر دی جاتی ہے کہ ظاہر ہے کہ وہ اعترافِ جُرم احساسِ ندامت کے تحت ہی کر رہا ہو گا تو اُسے زندہ رہنے کا ایک موقع دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔

یہ ہیں وہ شرعی سزائیں اور اُن کا مختصر احوال جن کے بارے میں گز گز بھر لمبی زبانوں میں لاف زنی کی جاتی ہے کہ یہ وحشیانہ سزائیں ہیں اور کسی مہذّب معاشرے کو زیب نہیں دیتیں۔!!! فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے۔ادخلوا فی السلم کافہ۔
اسلام میں پورے پورے داخل ہو جائو۔

پسِ نوشت۔ اگر میری تحریر سے کسی کو بھی رتّی بھر فائدہ ہوا ہے یا ذہنی اُلجھن معمولی سی بھی رفع ہوئی ہو تو میرے والد صاحب کی زندگی اور تندرستی کیلئے دُعا کر دیجیے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں