ڈاکٹر شائستہ جبیں
ام المومنین حضرت خدیجہؓ مکہ کی معزز، متمول، عالی نسب اور محترم خاتون تھیں، تعلق قبیلہ قریش سے تھا، والد کا نام خویلد بن اسد تھا جو قریش کے مال دار سردار تھے۔ ان کی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی۔ انہوں نے اپنا کاروبار تجارت اور مال وفات سے پہلے ہی اپنی اس ذہین اور معاملہ فہم بیٹی کے سپرد کر دیا تھا۔
حضرت خدیجہ نے گھر بیٹھے اپنی ذہانت و قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کی بدولت اپنی تجارت کو چار چاند لگا دیئے۔ آپ حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے”طاہرہ“ کے لقب سے مشہور تھیں۔ آپ نے نبی کریمﷺ کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی بار اپنا سامان تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا، اور پھرآپ ﷺ کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ حضور اکرم ﷺ کو نکاح کا پیغام بھجوایا جسے آپ ﷺ نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔
یوں حضرت خدیجہ ؓ کو آپ ﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ ہونے کا شرف حاصل ہوگیا۔ وہ آپﷺ سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں۔ خواتین میں سب سے پہلے آپ ؓ ہی نے ہی اسلام قبول کیا۔ نبی اکرم ﷺ کی تمام اولاد حضرت خدیجہؓ کے بطن سے ہوئی۔ صرف حضرت ابراہیم ام المومنین ماریہ قبطیہ سے ہوئے جو اسکندریہ کے قبطی بادشاہ کی طرف سے آپ کو بطور ہدیہ پیش کی گئی تھیں۔
رسول اللہ ﷺ کی نظر میں حضرت خدیجہ کی قدرومنزلت
آپؓ نبی کریم ﷺ کی زوجیت میں آنے کے بعد بہترین زوجہ ثابت ہوئیں۔ آپ نے محبت و خلوص کے ساتھ شوہر کے عنوان سے آپ ﷺ کا حق ادا کیا اور وہ سکون آپ کو فراہم کیا جس کی خواہش ازدواجی زندگی میں ہر میاں بیوی کو ہوتی ہے۔ سیرتِ طیبہ میں سیدہ خدیجہ کو ایک خاص مقام اور قدرومنزلت حاصل ہے۔ آپ ﷺ ان کی وفات کے کئی برس بعد بھی انہیں یاد کر کے ان کے بے مثل ہونے کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ کی ازواج مطہرات میں جس قدر رشک مجھے خدیجہ کے متعلق آتا تھا، اس قدر اور کسی بیوی پر نہیں آتا تھا حالانکہ میں نے انھیں دیکھا تک نہیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ حضرت خدیجہ کو بہت یاد کیا کرتے تھے۔ آپﷺ جب بھی کوئی بکری ذبح کرتے تو حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کو ضرور حصہ بھجواتے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ بعض دفعہ تو میں مارے رشک کے کہہ دیتی کہ حضور ﷺ! کیا آپ کے خیال میں دنیا کی کوئی عورت خدیجہ کی ہمسر نہیں؟ تو آپﷺ فرماتے:”نہیں …… وہ ان گنت صفات کی مالکہ تھیں اور ان کے بطن سے میری اولاد پیدا ہوئی“۔
ایک موقع پرآپ ﷺ نے فرمایا ”خداوند نے مجھے کبھی ایسی زوجہ عطا نہیں کی جو خدیجہ کا نعم البدل بن سکے، کیونکہ انہوں نے میری تصدیق کی جب کسی اور نے میری تصدیق نہیں کی، انہوں نے ایسے حال میں میری مدد کی جب کسی اور نے میری مدد نہیں کی، اپنے مال سے میری امداد کی جبکہ دوسرے مجھے مال دینے سے انکاری تھے۔“
رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کی حیات میں دوسرا نکاح نہیں کیا اور جو توصیفات آپﷺ نے ان کے لیے بیان فرمائیں، ان سے آپﷺ کے نزدیک حضرت خدیجہؓ کے اعلیٰ مقام کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس محبوب ترین بیوی کے ساتھ آپ ﷺ کی پچیس سالہ رفاقت رہی لیکن کوئی ایسا لمحہ نہیں آیا جب وہ آپ سے یا آپ ان سے کسی معاملے پر ناراض تک ہوئے ہوں۔
خاتون علم و ایمان
علامہ ابن جوزی تذکرۃ الخواص میں رقم طراز ہیں:
”یہ پاک طینت خاتون جن کی خصوصیات میں فضیلت، فکری جدت، عشق و کمال اور ترقی جیسی اعلیٰ صفات شامل ہیں، نوجوانی کی عمر سے ہی حجاز اور عرب کی نامور اور صاحب فضیلت خاتون سمجھی جاتی تھیں۔ آپؓ کی مادی قوت اور مال و دولت سے زیادہ اہم آپؓ کی بے انتہا معنوی اور روحانی ثروت تھی۔ آپؓ نے اشراف قریش کی اپنا رشتہ کے طلب گار ہونے کی درخواست مسترد کر کے آپ ﷺ کو شریکِ حیات منتخب فرمایا اور یوں مادی و دنیاوی ثروت کی نعمت کو آخرت کی سعادت اور جنت کی ابدی نعمتوں سے مکمل کیا اور اپنی عقل مندی و دانائی اپنے انتخاب کے ذریعے اپنے زمانے کے لوگوں کو جتا دی۔ آپؓ نے سب سے پہلے نبی کریم ﷺ کی تصدیق کی اور اسلام کی پہلی نماز آپ کے ساتھ ادا کی۔
پہلی وحی پر حضرت خدیجہؓ کا ردعمل
پہلی وحی کے نزول پر جب آپ ﷺ خوفزدہ ہو کر گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہؓ سے تمام واقعہ بیان کر کے فرمایا کہ مجھے خوف ہے کہ کسی آفت میں مبتلا نہ ہو جاؤں اور جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھوں۔ اس وقت حضرت خدیجہؓ نے جن الفاظ سے آپ ﷺ کو تسلی دی، وہ آپ کی مبارک ذات کی مکمل تصویر کشی کرتے ہیں، اور ایسے الفاظ وہی شریکِ حیات کہہ سکتی ہیں، جنہیں اپنے ساتھی کی قدر و منزلت اور عظمت کا احساس ہو۔ حضرت خدیجہؓ کے یہ الفاظ محض آپ ﷺ کے لیے تسلی کا سامان نہ تھے، بلکہ رہتی دنیا تک کے لیے ایک نیک خاتون کا اپنے عظیم شوہر کے لیے خراجِ تحسین بھی ہیں۔
حضرت خدیجہ نے فرمایا:”آپ غم نہ کریں، اللہ آپ کو محفوظ رکھے گا اور کوئی مصیبت آپ پر نازل نہیں کرے گا۔ آپ اقربا سے عمدہ سلوک کرتے ہیں، عزیزوں کو خوش رکھتے ہیں، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں، مظلوموں کی حمایت فرماتے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں، بے کسوں کے ساتھی اور مسکینوں کے غمخوار ہیں۔ ساری مخلوق سے نیکی کرتے ہیں، خوش خلق اور پاک باز ہیں۔ جس انسان کا کردار اتنا بلند اور صفات ایسی محمودہ ہوں، اللہ تعالیٰ نہ اس کو رسوا کرتا ہے اور نہ کوئی گزند پہنچنے دیتا ہے۔ آپ اطمینان رکھیں اور فکر کو قریب نہ آنے دیں۔“ (بخاری و مسلم)
ایک اطاعت گزار اور وفا شعار خاتون جس نے خاوند کے ایک ایک لفظ کو درست اور سچا تسلیم کیا اور کسی ایک بات کی تکذیب کا خیال تک ان کے دل میں پیدا نہیں ہوا۔ داناؤں کے نزدیک یہی ایمان و ایقان کی وہ عظیم قوت ہے جو قابل تعریف ہے اور ایسا ہی ایمان اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب و مطلوب ہے۔
اسلام کی ترقی میں کردار
حضرت خدیجہ نے اسلام و رسول اکرمﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان کو اپنے عمل سے ملا لیا۔ چنانچہ آپؓ نے اپنی دولت خرچ کر کے رسول خداﷺ کے مقدس اہداف اور اسلام کی ترقی و پیشرفت میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ سلیمان الکتانی لکھتے ہیں:”سیدہ خدیجہؓ نے اپنی دولت آپﷺ پر نچھاور کر دی مگر یہ محسوس تک نہیں کرایا کہ اپنی دولت آپ کو دے رہی ہیں بلکہ ایسا لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت آپ کی وجہ سے انہیں عطا کی ہے، دنیا کے تمام خزانوں پر فوقیت رکھتی ہے۔
جب آپ کو معلوم ہوتا فلاں مسلمان مشکل میں ہے تو ام المومنینؓ فوراً اپنے مال کو اس کی تکلیف رفع کرنے کے لیے خرچ کرتیں اور بے دریغ لٹاتیں، مسلمان غلاموں کو ان کے مشرک آقا ظالمانہ سزائیں دیتے تو آپؓ انھیں خرید خرید کر آزاد کر دیتیں، بھوکے مسلمانوں کو غلہ اور خوراک پہنچاتیں، بے کسوں کی رقم کے ذریعے مدد کر دیتیں، مقروض مسلمانوں کے قرضے ادا کرتیں اور ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتیں۔
ام المومنین کی وفات
جس محسن و غم خوار خاتون نے اسلام اور اہل اسلام پر بے شمار احسان کیے، جس اولین مومنہ، اولین مسلمہ نے اولین وحی کو تسلیم کر کے آپ ﷺ کی نبوت کی تصدیق فرمائی، دنیا و آخرت میں رسول اللہﷺ کی محبوب اہلیہ حضرت خدیجہ طاہرہ پچیس برس اپنے عالی مقام خاوند کے ساتھ گزار کر 10 رمضان المبارک سنہ 10 بعد از بعثت اس دار فانی سے رخصت ہو گئیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے دست مبارک سے قبر میں اتارا اور مکہ کے بالائی حصے میں واقع ”جنت المعلی“ میں سپرد خاک کیا۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس جبرئیل تشریف لائے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! خدیجہؓ کسی برتن میں آپ کے پاس کھانا لیے آ رہی ہیں۔ جب وہ آئیں تو انہیں رب العالمین کا سلام کہیں اور خوشخبری سنائیں کہ اللہ تعالیٰ نے بہشت میں ان کے لیے موتیوں کا محل تیار کیا ہے۔ اس محل میں نہ افسردگی ہے اور نہ شور و غوغا۔
نبوت کے دسویں سال آپ ﷺ کو دو عظیم صدمات برداشت کرنا پڑے۔ حضرت خدیجہؓ کی رحلت سے چند روز قبل آپﷺ کی پرورش کرنے والے، ہر مصیبت اور مشکل میں ساتھ دینے والے اور ہر گام آپﷺ کی امداد کرنے والے چچا ابوطالب کی وفات ہوئی۔ ابھی ان کی وفات کا صدمہ تازہ تھا کہ حضرت خدیجہؓ ایسی دل دار و اطاعت گزار زوجہ کی رحلت نے اس میں مزید اضافہ کر دیا۔ بیک وقت دو رفیقوں، دو مونسوں، دو حامیوں کے آٹھ جانے کے آپﷺ کو بہت صدمہ پہنچا۔ اس صدمے کی مناسبت سے آنحضرت ﷺ نے نبوت کے دسویں سال کو ”عام الحزن“ یعنی غم کا سال قرار دیا۔
3 پر “ام المومنین حضرت خدیجہؓ” جوابات
ڈاکٹر شائستہ ہمیشہ کی طرح خوبصورت عنوان اور خو بصورت الفاظ کا چناو۔
اور حضرت خدیجہؓؓ کا کردار معاشرے کے لیے مثالی ہےیہ عورتیں ہر عورت کی رول ماڈل ہونی چاہیےجن کی فہم و بصیرت ہر مشکل سے نکالنے میں مدد فراہم کرتی رہی۔
جزاک اللہ
Bhttt bhtt acha lga ye sb parh k.. Allah pak apko isi trh bht acha likhny ki himmat dety rahen.. Ameen
MashAllah…behtreen tehreer