عبید اللہ عابد :
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کرنا شاید تحریک انصاف کے بس کی بات نہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ حکمران جماعت کے اپنے تجزیہ نگار بھی کہہ رہے ہیں کہ علامہ خادم حسین رضوی کی قائم کردہ جماعت کے معاملہ میں حکومت سے مس ہینڈلنگ ہوئی ہے۔ آزاد تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس وژن کی شدید کمی ہے، ورنہ وہ ایسا معاہدہ ہی نہ کرتی جسے پورا کرنے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔
میں سمجھتا ہوں کہ اولاً 20 اپریل سے ہفتہ بھر قبل مولانا سعد رضوی کو گرفتار کرنا ہی غلط تھا۔ حکومت نے یہ پہلی ، بنیادی اور بڑی غلطی کی۔ اس وقت وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ یہ گروہ ملک میں افراتفری پھیلانے کی منصوبہ بندی کررہا تھا، اس لئے سعد رضوی کو گرفتار کیا گیا۔ حکومت اب جو بھی کہے ، عام پاکستانیوں کے ذہنوں میں یہی تاثر ہے کہ حکومت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
ثانیاً سعد رضوی کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کو جس انداز میں کچلنے کی کوشش کی گئی، اس سے معاملات میں مزید خرابی پیدا ہوئی۔ اگرچہ مظاہرین کے ہاتھوں پولیس اہلکاروں پر تشدد کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل کرا کے مظاہرین کو ظالم اور پولیس اہلکاروں کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی تاہم پولیس کی ساکھ عوام میں اس قدر خراب ہے کہ عام لوگوں نے یہ تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر بھی پولیس کے مقابلے میں کالعدم تحریک لبیک کی آواز میں اپنی آواز شامل کی۔
لوگ جانتے ہیں کہ جب کوئی شخص پولیس کے ہتھے چڑھ جائے تو اس فرد کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، اگر کمزور مظاہرین پولیس کے بڑے گروہ کے ہاتھ لگ جائیں تو مار مار کر ان کا بھرکس نکال دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کو مظلوم ثابت کرنے کی مہم بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔
تحریک انصاف حکومت کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک کو اس کی دہشت گردی کے باعث کالعدم قرار دیا گیا۔ اس کی بنیاد مظاہرین کی طرف سے توڑ پھوڑ اور پولیس اہلکاروں پر تشدد کو قراردیا گیا۔ یہ باتیں بھی عام پاکستانیوں کو متاثر نہ کرسکیں کیونکہ اسی تحریک لبیک کو نوازشریف حکومت کے خلاف استعمال کیا گیا ، مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف اس تحریک کے کارکنوں کی ایسی ہی کارروائیوں پرتحریک انصاف کے قائدین تالیاں پیٹتے رہے۔ اب اپنی حکومت میں ویسی ہی کارروائیوں کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ تحریک انصاف آج کس منہ سے توڑپھوڑ ، پولیس اہلکاروں پر تشدد اور راستے بند کرنے کو غلط قرار دے رہی ہے جبکہ یہی سب کچھ اس کے کارکن نواز شریف دور میں کرتے رہے ہیں۔ آج تحریک انصاف کے مخالفین ، عمران خان اور شیخ رشید کی تقاریر کی ویڈیوز شئیر کررہے ہیں جن میں وہ پورے ملک کو آگ لگا دینے کے احکامات جاری کرتے تھے۔ آج کے صدر مملکت جب صرف ڈاکٹرعارف علوی تھے اور تحریک انصاف کے عہدے دار تھے تو وہ جس انداز میں کراچی کو بند کرا رہے تھے، وہ بھی لوگ دیکھ چکے ہیں۔
اگرچہ لوگ حکومت کے پاس وژن کی کمی کی بات بھی کرتے ہیں ، اور درست کرتے ہیں تاہم ایک مسئلہ ساکھ کا بھی ہے۔ آج سے دس سال پہلے عمران خان کو کہیں سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ انھیں ہر جائز، ناجائز حربہ اختیار کرکے حکومت دلائی جائے گی، اگر عمران خان کو اس کا یقین تھا تو انھیں ایسا کچھ بھی نہیں کہنا ، کرنا چاہیے تھا جو انھیں ایک متشدد رہنما ثابت کرتا۔ اور جو آنے والے وقت میں ان کے گلے پڑتا۔
جب ایک بار عمران خان ایک متشدد سیاست دان کی ساکھ بنا چکے ہیں تو اب ایک متحمل ، مدبر اور امن پر یقین رکھنے والے رہنما کی ساکھ بنانا آسان نہیں، ان کی بری ساکھ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ وعدے پورے نہیں کرتے۔ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران جو بھی وعدے کئے تھے، ” میں پہلے سو دن میں یہ کردوں گا “ ، ” میں پہلے چھ ماہ میں یہ کردوں گا “ ،” پہلے سال میں فلاں فلاں اہداف حاصل کروں گا “ ان میںسے کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔ اب علامہ خادم حسین رضوی سے کیا گیا معاہدہ جس انداز میں ختم کیا گیا، لوگوں کو تحریک انصاف حکومت کی ساری وعدہ شکنیاں بار بار یاد آرہی ہیں۔ ایسے میں لوگ کیسے حکومت کو درست کہہ سکتے ہیں۔
اب جبکہ کالعدم تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے نعرے لگانے والی تحریک انصاف حکومت مذاکرات کرکے حالات کو کسی قدر معمول پر لے آئی ہے، امید کی جانی چاہیے کہ وہ کوئی مزید حماقت نہیں کرے گی۔ حکومت اور کالعدم جماعت میں جو معاہدہ ہوا ہے، دونوں فریق اس سے ماورا ہوکر ایسے اقدامات کررہی ہیں جن کے نتیجے میں حالات میں مزید بہتری آئے گی۔
حکومت نے ایک ادھوری سی قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کرکے رسمی کارروائی پوری کردی ہے، مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی نے ایک جارحانہ تقریر کرکے اپنی کارروائی ڈال دی کیونکہ وہ پیپلزپارٹی کی طرح اس معاملے سے الگ تھلگ نہیں رہنا چاہتی ورنہ ملک کے بعض مذہبی طبقات میں مسلم لیگ ن کی حمایت کم ہوسکتی تھی۔
تحریک انصاف حکومت میں شامل ایک لابی کی کوشش ہے کہ اس سے زیادہ کچھ نہ کیا جائے یعنی ایک بار پھر وعدہ شکنی کی جائے۔ تاہم حکومت کو اپنا حالیہ وعدہ اس انداز میں نبھانا ہوگا کہ کالعدم تحریک لبیک مطمئین ہوجائے یا دوسرے لفظوں میں اسے فیس سیونگ مل جائے۔
حکومت اب کالعدم جماعت کی بابت اب کافی حد تک نرم ہے ، وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ تحریک لبیک اور ہمارا مقصد ایک ہے لیکن طریقہ کار مختلف ہے۔ گزشتہ وزیرداخلہ شیخ رشید نے ایک پریس کانفرنس میں کالعدم جماعت کو راستہ دکھایا ہے کہ وہ کیسے پابندی سے آزاد ہوسکتی ہے۔ یعنی وہ 30 دن کے اندر عدالت سے رجوع کرے۔ اسی طرح وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود کا بھی کہا ہے کہ تحریک لبیک کے کالعدم قرار دیے جانے کا معاملہ سپریم کورٹ جائے گا۔
تاہم سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ تحریک لبیک پر پابندی قانونی معاملہ ہے، تحریک لبیک پر پابندی انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت لگائی گئی ہے، اس ایکٹ کے تحت معاملہ سپریم کورٹ نہیں جائے گا بلکہ وفاقی حکومت نے طے کرنا ہے۔ حکومت تحریک لبیک پر الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت پابندی لگاتی تو پھر یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جاتا۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ صرف حکومت ہی پیچھے نہیں ہٹی تحریک لبیک نے بھی لچک دکھائی ہے، تحریک لبیک فرانسیسی سفیر کو نکالے بغیر حکومت سے سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں تھی، حکومت نے معاہدہ کے باوجود نہ سعد رضوی کو رہا کیا، نہ تحریک لبیک سے پابندی ختم کی اور نہ ہی قومی اسمبلی میں وہ قرارداد پیش کی گئی جس کے تحت فرانسیسی سفیر کو نکالا جانا تھا، تحریک لبیک اپنے موقف میں لچک دکھاتے ہوئے اس سب پر مان گئی۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ” حکومت نے تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کے باوجود اس کے ساتھ معاہدہ کیا، یہ کالعدم قرار دینے کی کہانی سے مختلف مفاہمت والی بات ہے، حکومت تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر ردعمل کے بعد پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئی، ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ رسمی طور پر ہی رہ گیا ہے۔ “
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ” تحریک لبیک کے معاملہ میں سوفیصد لچک حکومت نے دکھائی ہے، حکومت تمام تر انتظامی ہتھکنڈوں کے باوجود معاہدہ کیے بغیر دھرنے ختم نہیں کرواسکی، حکومت نے مذاکرات میں تحریک لبیک کی ہر بات مان لی مگر بعد میں چالاکی دکھائی، حکومت کو چالاکی کے باوجود تحریک لبیک سے طے کی گئی باتیں ماننا پڑیں گی۔“
” تحریک لبیک اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہی ہے، حکومت مرضی کے برخلاف قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر سے متعلق قرارداد لے کر گئی، سعد رضوی خود بھی قانونی طور پر باہر آنا چاہیں گے۔ “
اگر عمران خان حکومت نے مزید کسی چالاکی کا مظاہرہ کرنے سے گریز کیا تو حالیہ بدامنی کی لہر ختم ہوجائے گی ۔ اسی طرح دیگر امور میں بھی حکومت نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا اور اپنے سابقہ ڈھائی ، پونے تین برسوں سے مختلف حکمت عملی اختیار کی تو اپنی ساکھ کچھ نہ کچھ بہتر کرسکتی ہے۔ اس حوالے سے دو باتوں کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے۔
اولاً : عمران اب ایسا کوئی کام نہ کریں، ایسی کوئی بات نہ کہیں جو آنے والے دنوں میں ان کے گلے پڑ جائے۔ جو بھی کرنا ہے، کافی سوچ بچار کے بعد کریں ، نتائج و عواقب پر خوب غوروخوض کرکے اقدامات کریں۔
ثانیا ً : وہ ایسے اقدامات تیزی سے کریں جس کے نتیجے میں ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہو۔ بدقسمتی سے حکمران بن کر عمران خان نے تمام ایسے اقدامات کیے جن کے نتیجے میں عوام الناس میں ان کے خلاف جذبات
بھڑکے۔
صرف اسی صورت میں حالات حکومت کے حق میں ہوتے چلے جائیں گے بصورت دیگر ہر روز ایک نئے بحران اور ایک نئی رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔