مسلمان خاتون دعا مانگ رہی ہے

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو ؟ (6)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم :

پہلے یہ پڑھیے
رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو ؟ ( 1 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو ؟ ( 2 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو ؟ ( 3 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو ؟ ( 4 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو ؟ ( 5 )

آمنوا کے سارے تقاضے غیب سے تعلق رکھتے ہیں.” من یخافہ بالغیب “ اس رب کی عظمت کو جس نے پہچان لیا اس پہ لرزہ طاری رہے گا۔ اس کی مقرر کردہ حدود کے قریب پھٹکنے کا خیال بھی آئے گا تو اس رب کائنات کا جلال آگے بڑھنے سے روک دے گا ، منعم حقیقی کی عنایات لا محدود کا تصور اسے احسان فراموشی سے باز رکھے گا۔

اللہ اور بندے کے درمیان الخالق اور مخلوق کا معبود اور عبد کا رشتہ ہے. اس رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے ایک ہی طریقہ ہے..وہ ہے ” شکر گزاری کا رشتہ.“ حقوق اللہ کی ادائیگی کے لیے یہی رشتہ درکار ہے. لا محدود بے پایاں نعمتیں ، اتنی نعمتیں کہ گننا ممکن ہی نہ ہوں ، سارے سمندر سیاہی بن جائیں سارے درخت قلم بن جائیں ان میں اتنے ہی اور شامل کرلیں اور اللہ کی عنایات کو لکھنا شروع کریں تو سب لکھنے کی اشیاء ختم ہو جائیں مگر رب کی رحمت کے اظہار کا حق ادا نہ ہوسکے.

اس رب کے ساتھ شکر گزاری کا رشتہ قائم کرنا ہی اس کے بے حد پسندیدہ بندوں میں شامل ہونے کا ذریعہ ہے. ” لئن شکرتم لازیدنکم “ شکر کرو گے تو عنایات میں زوال نہ آئے گا. اور رب کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو عذاب میں مبتلا کرے اگر وہ شکر کریں اور ایمان لائیں.
ما یفعل اللہ بعذابکم ان شکرتم وآمنتم وکان اللہ شاکرا علیما [ النسا :147]

یعنی ایمان لانے کا تقاضا شکر کرنا ہے اور یہی اللہ کا حق ہے یا جو شکر گزار ہوگا لازماً وہ ایمان کی دولت سے مالا مال بھی ہوجائے گا. گویا ایمان اور شکر گزاری ایک دوسرے کا جزو ہیں.. شیطان کو اس بات کا بہت اچھی طرح ادراک ہے اس نے رب العزت کی بارگاہ میں یہ اظہار کر دیا تھا کہ ” تو ان میں سے کم کو ہی شکر گزار پائے گا “ اور خود رب العالمین نےفرمایا ” قلیل من عبادی الشکور“

شکرگزار وہ خاص بندے ہیں جو اللہ رب العرش الکریم کی نظروں میں خاص مقام رکھتے ہیں. اور خاص مقام تک وہی پہنچ پاتا ہے جو خاص خوبیوں کا مالک ہو..اپنے آقا کی مہربانیوں کو پہچانتا ہو،تسلیم کرتا ہو،شکرگزار ہو،اس کی تعریف کے گن گاتا ہو،اور شکرگزار ہونے کا ثبوت فرماں بردار ی سے دیتا ہو..شکر گزار بندہ ہی شیطان کے پھیلائے ہوئے جال کو بروقت پہچان لیتا ہے اور اس سے بچ نکلتا ہے..اور اللہ تعالیٰ نے شیطان کو باور کرایا کہ ” میرے بندوں پہ تیرا کوئی زور نہیں چل سکے گا ۔“

اب اپنے ایمان کا احتساب ہمیں خود کرنا ہے کہ ہم شیطان کے قول ( ولاتجد اکثرهم شاکرین ) کو سچ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں یا اپنے رب کے قول ( وقلیل من عبادی الشکور ) پورا اترنے کی کوشش کر رہے ہیں. اور ان بندوں میں شامل ہوکر کامیاب ہوتے ہیں جن کے بارے میں اللہ نے شیطان کو باور کرایا کہ ” تیرا میرے بندوں پہ کوئی زور نہیں چل سکے گا۔“

ہم اپنے محاسب خود ہی ہو سکتے ہیں کہ کیا ہم اس قابل ہیں کہ اللہ الخالق ہم سے ” میرا بندہ “ کہہ کر مخاطب ہو؟

اللہ رب العالمین کی طرف سے اس پیار بھری پکار سننے کے لئے اس کا شکر گزار بندہ بننا ہوگا.ہر نافرمانی ناشکری کا مظہر ہے. اور ناشکری کا نتیجہ نافرمانی ہے۔ متعدد مقام پہ ایسی بستیوں اور افراد کا ذکر ہے جنہوں نے ناشکر گزاری کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی خوش حالی کو بد حالی میں بدل دیا.

انسان اپنے منعم حقیقی کی عطا کردہ نعمتوں کا شمار کرنے اس کا حق ادا کرنے سے قاصر ہے تو اس مہربان رب نے کوئی طریقہ تو بتایا ہوگا کہ جسے اپنا کر ہم اس کے خاص بندے بن کر ان پسندیدہ بندوں میں شامل ہو سکیں جو سب سے الگ نظر آتے ہوں ، ” خاص ایوارڈ “ کے مستحق ہوں ، جو اس رب کی خاص رحمت کے سائے میں ہوں۔
بے شک ہر آقا و مالک اور اختیارات و اقتدار والے کا قرب پانے والے خاص ہی ہوتے ہیں اور مقرب بندے ہمیشہ قلیل ہی ہوتے ہیں …. اللھم جعلنا من ھم. . ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں