نگہت حسین :
ریسیپشن سے معلومات لینے کے لئے ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی ۔ ایک خاتون کی باری آئی ۔آگے بڑھیں اور ریسپشنٹ کو دیکھتے ہی شناسائی کا دعویٰ انتہائی گرم جوشی سے کرنے لگیں۔ ارے ! تم وہی ہو ناں شبانہ کی لڑکی؟
لڑکی نے چونک کر اجنبیت سے ان کو دیکھا ، پھر پرچی بنانے لگی اور ظاہر کیا کہ اس نے پہچانا نہیں ہے
لیکن خاتون نے اس کو کافی نہ جانا ۔ پھر کہنے لگیں کہ
امی ٹھیک ہیں ؟ تمھارے شوہر کا کیا بنا اب تو مار پیٹ نہیں کرتا ؟ بڑا بھائی گھر واپس آگیا ؟ چرس کی لت ختم ہوئی کہ نہیں ؟
ایک ہی سانس میں اس پرانی شناسائی نے لڑکی بے چاری کا سارا کچھا چٹھا بیان کردیا تھا ۔ لڑکی نے ساری بات سن کر مسکراتے چہرے کے ساتھ اعتماد سے بلند آواز میں کہا کہ آنٹی ! میں نے آپ کو پہچانا نہیں ، میں وہ نہیں جو آپ مجھے سمجھ رہی ہیں ۔
سب لوگ ہنسنے لگے اور آنٹی صاحبہ پرچی ہاتھ میں لے کر بڑبڑاتے ہوئے لڑکی کے رویے کوڈرامہ قرار دیتے ہوئے ’ چالاک‘ ، ’ مکار ‘ ، ’عیار‘ کے القاب سے نوازتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
مسئلہ لڑکی اور اس خاتون کی شناسائی کا نہیں تھا ، مسئلہ لڑکی کے ان مسائل کا بھی نہیں تھا جس کا تذکرہ وہ انتہائی ہمدردانہ طریقے سے کررہی تھیں ۔
مسئلہ یہ تھا کہ ہم میں سے بہت سے لوگ دوسروں کے ماضی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لادے پھرتے ہیں۔
پھر جہاں جس وقت اور جیسے موقع ملتا ہے اس ماضی کی رازوں بھری گھٹڑی کھول کر دوسرے سے بظاہر ہمدردی جتانے کی کوشش انتہائی پست انداز میں کرتے ہیں۔
دیکھیے کہ ذرا کسی خاتون کے دوسرے نکاح کے بعد اسی سے یا اس کے بچوں سے پہلے کے حالات زندگی کے حال احوال لینا ، کسی کے خاندانی رنجشوں اور تنازعوں کی کہانی نمٹ جانے کے بعد عرصے بعد ملاقات پر بھی ہر دفعہ ان تنازعات کی دہرائی کروانا ، کسی کے والدین کے غریبانہ طرز زندگی کو ہر محفل میں زیر بحث لانا ۔۔۔
اور ہمارے جملے: ارے تمھارے ابو گھر واپس آگئے، چھوڑ کر چلے گئے تھے نا ؟
تم بہن بھائیوں کی بات چیت شروع ہوگئی؟ کتنی لڑائی ہوئی تھی ریحانہ کی شادی میں؟ تم لوگ پہلے کیسے ٹوٹے پھوٹے مکان میں رہتے تھے، میرے تو ذہن میں بار بار بس وہی منظر گھومتا ہے ۔
بھئی ان کی امی کے بہت مسائل تھے ۔
ہماری ایک سہیلی کی شادی میں صوم صلوت کی پابند انتہائی دین دار خاتون نے شرکت کی ، شادی میں کچھ مسئلے ہوئے، تلخ کلامی ہوئی ، انتظامات متاثر ہوئے لیکن بالآخر انجام پا گئی۔ خاتون نے من و عن ساری بات محفل میں شریک نہ ہونے والی اپنی بہن اور بھابھی کو بتائی کہ وہ دونوں بھی دلہن کی سہیلیاں تھیں اور عدم شرکت کی بناء پر اس چٹ پٹے واقعے کی چشم دید گواہ نہ بن سکیں ۔
یہ سوچے سمجھے بغیر کہ نہ اس کی ضرورت تھی نہ ہی وجہ ۔ پھر یہ ماضی کے ناخوشگوار واقعے کے بوجھ سے بھری ایک گھٹڑی ان تین خواتین کے کاندھوں پر لد گئی۔ جب بھی ملاقات ہوتی ان میں سے ہر ایک یہ بتاتی کہ ہاں ! تمھاری شادی میں ہونے والے ان مسئلوں کا ہمیں پتہ لگا تھا بہت افسوس ہوا ۔
جب کہ آگے ان کے تذکروں کی کوئی تک نہ بنتی تھی سوائے شرمندگی کے ۔
کتنا عجیب ہے یہ سب ۔۔۔! دوسروں کی شرمندگی سے ، جھینپ جانے سے ، جھجھک کر چپ ہوجانے سے ہمیں کیسی خوشی حاصل ہوتی ہے !
کیا ہم نہیں جانتے کہ زندگی طرح طرح حالات و واقعات بھری پڑی ہے ۔ کسی کی زندگی ناک کی سیدھ میں چلتی جاتی ہے اور کسی کی آڑھی ترچھی ، اونچے نیچے ناہموار رستوں سے پر ہوتی ہے۔ کسی کی طلاق ہوجاتی ہے، کوئی یتیم ہوجاتا ہے کسی کی کوئی معذوری آجاتی ہے ، بھائی بھائی کا دشمن ہوسکتا ہے ۔ مان لیجیے یہ سب اسی دنیا کی مثالیں ہیں، کوئی عجیب و غریب حالات نہیں اسی زندگی کی حقیقتیں ہیں۔
لیکن دوسروں کے ماضی کا بوجھ اٹھانے والے ان باتوں کو کہاں مانتے ہیں ۔
متاثرہ افراد زندگی کے ان مشکل مرحلوں سے گزر کر آگے بڑھ چکے ہوتے ہیں کچھ کا حال بہت خوب صورت اور دلکش ہوجاتا ہے۔۔۔۔وہ دکھوں مسائل اور مشکلات کو بھول چکے ہوتے ہیں لیکن ہم ! ہم ان کو اوقات یاد دلانے والے خدائی خدمت گار جو ہیں ۔
موقع محل ، زمان و مکاں کی قید سے آزاد یہ گھٹڑی کھولے اپنے تعلق ، محبت ، فکرمندی کے اظہار کا اذیت ناک انداز تبصرے ، تذکرے اور یادوں کے ذریعے اس فردکی موجودگی اور غیر موجودگی، جاننے والے اور انجان لوگوں کو ہر ملاقات یا اہم موقع پر ایسی معلومات دینا بہت ضروری سمجھتے ہیں۔
کاندھوں پر اپنے ماضی کے بوجھ لادے پھریں یا دوسروں کے، دونوں صورتوں میں یہ منفیت ہی ہے ۔ آپ کے لئے اردگرد لوگوں کے لیے، دلوں کو پھاڑنے والے ، نظروں سے گرانے والے یہ رویے ہمدردی و اخلاق ہرگز نہیں ۔
اپنی شخصیت کو مثبت رکھنے کے لئے ایسے زہریلے رویوں سے بچنا بے حد ضروری ہے۔
ایک تبصرہ برائے “دوسروں کے ماضی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر”
زبردست تحریر ھے۔۔۔یہ ایک المیہ ھے ہمارے معاشرے کا جو صرف اعلی تعلیم اور شعور سے ہی دور ھو سکتا ھے۔