فری افطار دسترخوان

لنگر خانے اور دسترخوان : صدیوں پرانی روایت فروغ پارہی ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ظفر سلطان :

مسلم دنیا میں مہمان نوازی کی ایک قسم کا تعلق ڈیروں، حجروں اور درگاہوں پر آنے والوں کو کھانا فراہم کرنے سے ہے، پاکستان میں اب بھی متعدد ایسے ڈیرے، حجرے اور درگاہیں موجود ہیں جہاں آنے والوں کی مہمان نوازی کے لیے ہر وقت دستر خوان لگا رہتا ہے، دور دراز سے آنے والے مہمانوں کے ساتھ ساتھ مقامی سطح کے سینکڑوں لوگوں کو ان روایتی دسترخوانوں سے دو وقت کی روٹی دستیاب ہوتی ہے۔ ان دستر خوانوں کی منفرد پہچان یہ ہے کہ کسی سے شناخت پوچھے بغیر پوری عزت اور وقار کے ساتھ کھانا پیش کیا جاتا ہے۔

دستر خوان چلانے کی مالی معاونت کا علیحدہ سے پورا نظام ہوتا ہے جس کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں، تاہم دفعتاً خیال آتا ہے کہ اس قدر وسیع پیمانے پر بڑے بجٹ کا انتظام کیسے ہو رہا ہے؟ دستر خوان پر خدمت کے امور انجام دینے کیلئے لوگ رضا کارانہ طور پر اپنے نام پیش کرتے ہیں، ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے بغیر کسی معاوضہ کے اپنی پوری زندگی خدمت کیلئے وقف کر رکھی ہے،

دسترخوانوں پر کام کرنے والے خدمت گاروں کا عقیدہ ہے کہ ان کا خالق و مالک ان پر مہربان ہے اسی لیے اس نے انہیں خدمت کے لیے منتخب کیا ہے۔ ایسے دسترخوان زیادہ تر مذہبی عمائدین اور درگاہوں پر صدیوں سے چلے آ رہے ہیں اور آج جو نسل ان دسترخوانوں کو چلا رہی ہے، اسے اپنے آباؤ اجداد کی روایت کو قائم رکھنے پر فخر ہے۔

اگر آپ ان سے دسترخوان بارے سوال کریں تو وہ اس کی پوری تاریخ تفصیل کے ساتھ زبانی بیان کر دیں گے۔ ان دسترخوانوں کا کسی ایک مسلک یا گروہ سے تعلق نہیں ہے، تاہم پاکستان میں موجود بڑے مزاروں پر اس کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں، اسی طرح خانقاہوں میں بھی ان دسترخوانوں کا نمایاں عکس دکھائی دیتا ہے جہاں پر بلاشبہ ایک وقت میں ہزاروں لوگوں کو کھانا فراہم کیا جاتا ہے، جن میں بڑی تعداد مزدوروں اور دیگر مستحقین کی ہوتی ہے، کبھی یہ تعداد لاکھوں تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ایشیاء کے غیر مسلم مذاہب مثلا سکھ وغیرہ کے ہاں بھی لنگر اور دستر خوان کا تصور پایا جاتا ہے۔

ڈیروں اور حجروں پر جو دستر خوان قائم کئے جاتے ہیں یہ زیادہ تر علاقے کے امراء اور سیاسی عمائدین کی طرف سے کئے جاتے ہیں جہاں پر آنے والے لوگوں کو کھانا پیش کر کے ڈیروں اور حجروں کے مالکان راحت محسوس کرتے ہیں، اس سے نچلی سطح پر بھی لوگ مستحقین کو کھانا فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا دائرہ زیادہ تر اپنے آس پاس کے لوگوں تک محدود ہوتا ہے۔

ان لنگر خانوں اور دسترخوانوں میں مالی معاونت یا فلاحی کاموں میں حصہ لینے والوں میں ایک امر قدر مشترک ہوتا ہے اور یہی ہماری تحریر کا مقصود بھی ہے، وہ یہ کہ دستر خوان اور لنگر خانے قائم کرنے والے لوگ اس سوچ کے حامل ہوتے ہیں کہ ہمارے خدا نے ہمیں اس کام کیلئے منتخب کیا ہے، ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جب وہ خدا کی مخلوق کی روزی روٹی کا خیال رکھتے ہیں تو خدا ان کی ضروریات کو اپنے خزانوں سے پورا فرماتا ہے،

ان لوگوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جب دستر خوان سے کوئی کھانا کھا کر انہیں دعا دیتا ہے تو ان کے ادھورے اور رکے ہوئے کام مکمل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے سیاست دان جب اپنے پیروں اور مذہبی پیشواؤں کے پاس جاتے ہیں، تو وہ انہیں وسیع دستر خوان قائم کرنے یا پہلے سے قائم دسترخوانوں میں حصہ لینے کی تلقین کرتے ہیں،

آپ جب کسی سے دستر خوان کی تاریخ کے حوالے سے سوال کریں تو لنگر خانے اور دسترخوان کے منتظمین اس کا کریڈٹ اپنے کسی بزرگ، روحانی پیشوا یا پیر کو دیں گے۔ میں نے ذاتی طور پر ان دستر خوانوں کے ثمرات کا مشاہدہ کیا ہے کہ جہاں پر خلق خدا کو دو وقت کی روٹی فراہم کی جا رہی ہے وہاں پر قدرت مہربان ہوتی ہے، اور جہاں پر مخلوق کو دھتکارنے کا رجحان ہوتا ہے وہاں قدرت کی طرف سے بھی پھٹکار دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ پورا فلسفہ ہے جس کا تعلق روحانیت سے ہے، جس شخص کو روحانیت سے دلچسپی نہیں ہے اسے شاید یہ بات کبھی بھی سمجھ نہ آ سکے۔

میں ذاتی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے ڈھائی فیصد زکوٰة کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنی آمدن کا ایک خاص حصہ اللہ کی راہ پر خرچ کرنے کا معمول بنا رکھا ہے، ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنی آمدن کا ایک تہائی حصہ فلاحی کاموں پر لگا دیتے ہیں، جب ان کی اگلی نسل کو کاروبار منتقل ہوا تو انہوں نے اس شرح کو ختم کرنے یا کم کرنے کی بجائے اس شرح میں اضافہ کر دیا۔

رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں دسترخوانوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے، سحر و افطار کیلئے خاص اہتمام کیا جاتا ہے، مساجد اور گلی محلے کے چوک چوراہوں میں سحر و افطار کیلئے مفت کھانے کا وسیع انتظام ہوتا ہے۔ مسجد نبوی اور حرم مکی میں دنیا کے سب سے بڑے دسترخوان قائم ہوتے ہیں، جن کا بظاہر کوئی بجٹ نہیں ہوتا لیکن بلاشبہ لاکھوں لوگوں کو دنیا بھر کی نعمتیں میسر ہوتی ہیں، جس کا عام انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔

اگر آپ کو حج و عمرہ پر جانے کی سعادت حاصل ہوئی ہے تو آپ بخوبی اس کا ادراک کر سکتے ہیں، حرمین شریفین میں رمضان المبارک میں اس مہمان نوازی کی انتہا دیکھنے کو ملتی ہے۔ میں نے مسجد نبوی میں ایک دسترخوان کے میزبان سے دسترخوان کی تفصیل جاننا چاہی تو اس نے کہا کہ میں یہ سب اللہ کی رضا کیلئے کر رہا ہوں، مجھے کسی کے سامنے اس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، میرے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ نے مجھے اس کام کیلئے منتخب کیا ہے جو میرے والد سے مجھے منتقل ہوا ہے۔

اسی طرح سلجوق سلطنت اور سلطنت عثمانیہ نے عالم اسلام میں لنگر خانوں اور وسیع دستر خوانوں کی بنیاد ڈالی، ترکی کے لوگوں نے اپنی صدیوں پرانی اس عظیم روایت کو آج بھی قائم رکھا ہوا ہے، یوں دیکھا جائے تو دسترخوان اور لنگر خانے مکمل طور پر ایک روحانی معاملہ ہے جسے آج بھی لوگوں نے پورے احترام کے ساتھ اپنے سینے کے ساتھ لگایا ہوا ہے اور اپنی آمدن کا ایک حصہ ان دسترخوانوں اور لنگر خانوں پر خرچ کر کے اسے اپنی خوش قسمتی سمجھ کر روحانی تسکین حاصل کرتے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “لنگر خانے اور دسترخوان : صدیوں پرانی روایت فروغ پارہی ہے”

  1. Zubada Raouf Avatar
    Zubada Raouf

    You are right. Feeding people is one of the best feeds.