مسلمان خاتون دعا مانگ رہی ہے

دعا جو ساری عمر کا روگ بن گئی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی :

ناعمہ کو شوہر اور بچوں کے ہمراہ اپنی خالہ زاد بہن عنبر کے گھر جانے کا اتفاق ہوا جس کی چند مہینے قبل دوسرے شہر میں شادی ہوئی تھی۔ وہ فون پر اس سے رابطہ کرکے اس کے سسرالی گھر گئے تھے۔ اور اس کے اور اس کے شوہر کے لیے تحائف اور کیک لے کر وقت پر پہنچ گئے تھے۔

ناعمہ اپنے دیور کی شادی کی مصروفیات کی وجہ سے عنبر کی شادی میں شرکت نہیں کر سکی تھی۔ اب اسے عنبر کے گھر جانے اور اس کے شوہر اور سسرالی رشتہ داروں سے ملاقات کا کافی شوق تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اس کا عنبر سے رابطہ اس کی شادی کے بعد بہت کم ہو سکا۔ اگرچہ ناعمہ اور عنبر کی عمروں میں کافی فرق تھا لیکن ناعمہ کو عنبر اپنی بہنوں کی طرح عزیز تھی۔

عنبر اور اس کے سسرال والوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا، اچھے طریقے سے ملاقات کی اور بہترین خاطر مدارت کرتے ہوئے ان کے لیے پرتکلف کھانا تیار کیا۔ ناعمہ کو بھی ان سے مل کر دلی خوشی محسوس ہوئی۔ وہاں ناعمہ کی ملاقات اس کی دیگر کئی سسرالی بزرگ خواتین سے بھی ہوئی۔ اس کی دادی ساس ، تائی ساس ، چچی ساس ، پھپھو ساس وغیرہ بھی ان سے بڑے تپاک سے ملیں۔

عنبر اپنے سسرال میں جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتی تھی۔ بڑی بہو ہونے کے ناتے اس پر شروع سے ہی کافی ذمہ داریاں پڑ گئی تھیں جنھیں وہ احسن طریقے سے نبھانے کی کوشش کرتی تھی۔ ناعمہ کو اس کی ساس بہت اچھی لگیں جو خوش باش اور ٹینشن فری قسم کی خاتون لگ رہی تھیں۔ وہ عنبر کے مہمان تھے لیکن اس کے سسرال والوں نے انہیں اپنا مہمان سمجھا تھا۔ خصوصاً کچن میں کام کرتے ہوئے ناعمہ کو عنبر کی ساس کا اس کے ساتھ رویہ بہت اچھا لگا تھا۔

عنبر بھی بڑے اچھے طریقے سے ان کے ساتھ کام کر رہی تھیں۔ انہوں نے ان کی آمد سے پہلے کھانا گھر میں تیار کر لیا تھا۔ آئس کریم اور فروٹ وغیرہ بازار سے منگوا لیے تھے۔ اس وجہ سے عنبر کو مہمانوں کے پاس صحیح طریقے سے بیٹھنے اور انہیں وقت دینے کا موقع مل گیا تھا۔ ناعمہ کو عنبر کی ساس کا اس سے رویہ بالکل بیٹیوں والا لگ رہا تھا۔ اور اسے وہ دونوں ساس بہو کے بجائے ماں بیٹی لگ رہی تھیں۔

ذرا ” بیٹی “ اسے کہہ کر پکارو
بہو بھی مسکرانا چاہتی ہے

ناعمہ نے پہلی مرتبہ اتنی اچھی اور اتنی معاون قسم کی ساس دیکھی تھیں۔ اس کی نندیں بھی خوش مزاج دکھائی دے رہی تھیں۔ عنبر کا شوہر بھی اسے بہت اچھے مزاج کا حامل اور تمیز و تہذیب یافتہ بندہ محسوس ہوا تھا جو ان کی عزت واحترام کرتے ہوئے ان سے بہت رکھ رکھاؤ سے پیش آرہا تھا۔ اسے عنبر کی خوش قسمتی پر رشک آ رہا تھا۔

ناعمہ کو عنبر کا سسرال رہائش کے اعتبار سے روایتی طریقے سے نسبتاً ہٹ کر لگا تھا جہاں اس کے ساس سسر کے گھر کے علاوہ اس کے سسر کے چاروں بھائی بھی مقیم تھے جن کے کئی کئی بچوں کی بھی شادیاں ہو چکی تھیں یعنی وہ کافی لمبا چوڑا خاندان تھا اور بڑے سے ایک ہی سسرالی گھر میں کئی خاندان مقیم تھے۔ جن کے دو بیرونی گیٹ تھے اور اندر سے بھی ایک دوسرے کے پورشن میں آنے جانے کے راستے بنائے گئے تھے۔ یعنی پرائویسی (علیحدگی) مشکل تھی۔ باوجود اس کے کہ سب کے پورشن، واش رومز، کچن اور کھانے کا سسٹم علیحدہ تھا لیکن وہ الگ الگ ہو کر بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔

ناعمہ کو ایک نظر میں ہی اندازہ ہو گیا کہ اتنے بڑے گھر میں پرائیویسی سسٹم بحال رکھنا محال ہے لیکن بہرحال وہ لوگ اچھے طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے تھے۔

ناعمہ کو بڑی حیرت ہو رہی تھی کہ آج کے دور میں بھی اتنا بڑا خاندان اکٹھا ایک جگہ، ایک ہی گھر میں رہ رہا ہے اور انہوں نے اپنے گھر مکمل طور پر علیحدہ نہیں کیے۔ شاید اس کی وجہ عنبر کی دادی ساس کا وجود، ان کی کوششیں اور دعائیں تھیں جن کی وجہ سے وہ اپنی ساری آل اولاد کو تا حال ایک جگہ اکٹھا رکھنے میں کامیاب تھیں۔

ناعمہ کو عنبر سے مزید معلوم ہوا کہ اس کے سسرالی شہر کے خوش حال اور معزز لوگ ہیں۔ اس گھر میں تمام خاندانوں کے پورشن اسی طرح بہترین طریقے سے تعمیر شدہ اور تمام جدید سہولیات سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔ اس کی بوڑھی دادی ساس کی سہولت کے لیے تین منزلہ گھر میں لفٹ بھی لگی ہوئی ہے۔

جب عنبر اور اس کی ساس کھانا لگانے کا کام کر رہی تھیں تو اس کی تائی ساس ناعمہ کے پاس کافی دیر بیٹھی رہیں۔ جو چیز اس کے لیے حیران کن تھی، وہ ان کے چہرے کی ہیئت تھی جو عام لوگوں سے کافی مختلف تھی۔ اس کے ارد گرد موجود سب لوگ ان کو نارمل طریقے سے دیکھ رہے تھے گویا ان کے لیے یہ معمول کی بات تھی۔ ان کا چہرہ ظاہراً بھینگا اور ٹیڑھا میڑھا دکھائی دیتا تھا۔ وہ ان کو وقتاً فوقتاً غور سے دیکھتی رہی تھی۔

ایسے محسوس ہوتا تھا گویا ان کے چہرے پر کوئی بیماری اس طرح اثر انداز ہوئی تھی جس نے ان کے چہرے کو بگاڑ دیا تھا۔ تاہم اس نے اس بارے میں ان سے کوئی سوال کرنا مناسب نہ سمجھا۔ تقریباً تین چار گھنٹے بعد وہ لوگ دل و دماغ پرعنبر کے سسرالیوں کا بہت اچھا تاثر لے کر واپس آگئے۔

بعد میں ناعمہ کی جب عنبر سے فون پر بات چیت ہوئی تو اس نے اس کی خوش قسمتی پر بڑا رشک کیا۔ پھر اس کی تائی ساس کے چہرے کے بارے میں استفسار کیا تو عنبر نے بتایا کہ
” میری تائی ساس کے والدین بھی شہر کے امیر ترین ارب پتی لوگ اور انتہائی منافع بخش کاروبار کے مالک ہیں۔ اور تائی جان پانچ بھائیوں کی اکلوتی اور چھوٹی بہن ہیں۔ ابتدا میں جب اللہ تعالی نے ان کے والدین کو یکے بعد دیگرے پانچ خوبصورت اور صحت مند بیٹوں سے نوازا تو جہاں وہ انتہائی خوش تھے، وہیں وہ بیٹی کی کمی بھی دل و جان سے محسوس کرتے تھے۔ ان کے دلوں میں بیٹی کی بہت زیادہ خواہش تھی۔

ماں کی ہر دفعہ تمنا ہوتی تھی کہ ” اللہ تعالی اب ہمیں بیٹی کی نعمت سے نواز دے۔ “ وہ بیٹی کے لیے بہت دعائیں بھی کرتی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کی گود ہر دفعہ بیٹے سے بھر دیتا تھا۔

پانچویں بیٹے کے بعد ان کی یہ خواہش حسرت بن گئی۔ بیٹا کچھ بڑا ہوا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے بیٹی کے لیے لو لگا لی اور بہت دعائیں کی۔ ایک دفعہ اللہ سے دعا کرتے ہوئے انھوں نے رو رو کر کہا کہ
” اے اللہ مجھے بیٹی عطا کر دے، خواہ بھینگے منہ والی دیدے۔“

وہ شاید قبولیت کی کوئی گھڑی تھی جس میں ان کی مانگی گئی دعا قبول ہوگئی۔ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک دفعہ پھر ماں بن گئیں۔ اس دفعہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کے آنگن میں ایک بیٹی کو بھیجا تھا۔ جب انہوں نے ڈلیوری کے بعد بچی کی پیدائش کی خوش خبری سنی تو انہوں نے بہت خوشی محسوس کی کہ آج اللہ تعالیٰ نے ان کی بیٹی کی برسوں پرانی اور دیرینہ خواہش پوری کر دی ہے۔

جب بچی کو ان کے پہلو سے اٹھا کر ان کی گود میں ڈالا گیا اور انہوں نے بچی کے چہرے پہ پہلے نگاہ ڈالی تو جیسے ان کی دنیا اندھیر ہو گئی۔ دل و دماغ پر تاریکی سی چھا گئی۔ بچی صاف ستھرے رنگ اور تیکھے نقش و نگار کی حامل لیکن بھینگے چہرے والی تھی۔ انہیں اپنی دعا کے الفاظ یاد آ گئے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے رو رو کر ادا کیے تھے کہ
” اے اللہ! مجھے بیٹی عطا فرما، خواہ بھینگے چہرے والی ہو۔“
اللہ تعالیٰ نے ان کی مانگی ہوئی دعا کو حرف بہ حرف قبول فرمایا تھا۔

ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر دیکھنے والے جب بچی کو دیکھتے تو اس کی عجیب وغریب شکل دیکھ کر حیران ہوتے۔ پھر جب انہیں ماں کی دعا کا پتہ چلتا تو وہ اس دعا ( بلکہ بددعا ) کی قبولیت پر حیران رہ جاتے۔ اور توبہ و استغفار کرتے اور بعض لوگ تو ماں کو اس عجیب دعا پر عار دلاتے۔

جس اللہ نے انہیں پہلے پانچ خوبصورت اور صحت مند بچے عطا کیے تھے، تو وہی اللہ اب بھی تو انہیں صحیح چہرے والی بچی عطا کرنے پر قادر تھا لیکن جلد بازی میں کی گئی دعا اللہ کے ہاں قبولیت پا گئی تھی۔

ماں بچی کو دیکھ دیکھ کر اب روتے تھکتی نہ تھی۔ ماں باپ کو بیٹی اس شکل و صورت میں بھی بہت پیاری لگتی تھی اور وہ اسے اپنے جگر کا ٹکڑا سمجھتے تھے لیکن لوگوں کی نظروں اور زبانوں کو وہ کنٹرول نہ کر سکتے تھے۔ اس کے علاج معالجے کے لیے بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئی لیکن اس پیدائشی مسئلے کا کوئی حل ممکن نہ ہو سکا۔ آپریشن کی صورت میں نازک چہرے کے بگاڑ کا مزید سلسلہ تو ممکن ہو سکتا تھا لیکن اس کی اصلاح کی کوئی صورت ممکن دکھائی نہ دیتی تھی۔ یا اگر چہرے کی درستگی کی کوئی صورت تھی تو انہیں معلوم نہ ہو سکی تھی۔

اور پھر بیٹی نے اسی بھینگے چہرے کے ساتھ زندگی بسر کی۔ کچھ لوگ اسے پہلی نظر میں حیرانگی سے دیکھتے تھے تو بعض کی نظروں میں حقارت ہوتی تھی۔ چند اسے دیکھ کر توبہ و استغفار کرتے تھے۔ اور بیٹی نے انہی نظروں کا سامنا کرتے اور لوگوں کے سوالات کے جوابات دیتے زندگی گزار دی تھی۔ بقول شاعر

لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ :
ترجمہ: ” اور اِنسان برائی اس طرح مانگتا ہے جیسے اُسے بھلائی مانگنی چاہیئے۔ اور اِنسان بڑا جلد باز واقع ہوا ہے۔“ (بنی اسرائیل: 11)

کبھی انسان تنگ دلی، پریشانی، جلد بازی اور پست نگاہی کی وجہ سے شر کو خیر اور خیر کو شر سمجھ بیٹھتا ہے۔ اور شر کے لیے دعائیں مانگتا رہتا ہے۔ اس طرح انسان کی کبھی کبھار اپنے لیے مانگی گئی دعا انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ اور انسان کو اس غلط دعا کے نقصان کا تب پتہ چلتا ہے جب وہ دعا شرف قبولیت پا چکی ہوتی ہے۔ اور پھر انسان ساری زندگی پچھتاتا رہ جاتا ہے۔

سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
ترجمہ: ” ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو، اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے شر ہو، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ “ (البقرہ:216)

حدیث مبارکہ میں بھی بیان ہوا ہے کہ تم انسان اپنی جان و مال کے لیے بد دعا نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت میں کوئی ایسا بد کلمہ زبان سے نکل جائے۔ اس کی وجہ انسان کی جلد بازی ہے کیونکہ وہ جلد باز اور عجلت پسند واقع ہوا ہے۔

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے کہ
ترجمہ: ” حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ
’ تم اپنے لیے، اپنی اولاد، اپنے خادموں اور اپنے مال و کاروبار کے لیے بددعائیں مت کیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بددعائیں اس گھڑی کو پا لیں جس میں اللہ کی طرف سے دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔ پس وہ تمہاری بد دعائیں قبول فرما لے۔“
(سنن ابوداؤد : 1532)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عجلت پسندی سے بچائے اور سوچ سمجھ کر اور تحمل سے ہرکام کرنے خصوصاً دعاؤں کے بارے میں اپنا عقیدہ اور رویہ درست رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

3 پر “دعا جو ساری عمر کا روگ بن گئی” جوابات

  1. احمد Avatar
    احمد

    ماشاء اللہ.
    بہت اچھی اور سبق آموز تحریر ہے.

  2. احمد Avatar
    احمد

    اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ بھلائی مانگنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین

  3. Tahir Avatar
    Tahir

    Masha Allah
    Effective and informative article