شوہر اور بیوی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چل رہے ہیں

شادی کامیاب یا ناکام کیوں ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قربان انجم :

” شادی کامیاب یا ناکام کیوں ہوتی ہے؟ “ یہ کالم دانشور صحافی جناب وسعت اللہ خان نے 14 فروری 2019ء کو لکھا جس میں استفسار کیا گیا شادیاں کیوں ہوتی ہیں، کیوں کامیاب ہوتی ہیں، کیونکر زندہ لاش ہوجاتی ہیں، کیوں ٹوٹ جاتی ہیں؟ غرض جتنی شادیاں اتنی باتیں۔ آگے چل کر لکھتے ہیں :

یارب غمِ عشق کیا بلا ہے
ہر شخص کا تجربہ نیا ہے

چلیے عام آدمی کی شادی یا ناشادی کے تو کئی جواز گھڑے جاسکتے ہیں مگر مشہور، خوشحال، لاکھوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن رول ماڈلز کی شادیاں کیوں ناکام یا مردہ ہوجاتی ہیں۔ جو دیوار کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت کے دعوے دار ہوتے ہیں وہ ذاتی زندگی کے شیشے کے آرپار دیکھنے میں بسا اوقات کیوں ناکام ہو جاتے ہیں۔

ممکن ہے نوعمری میں جناح پونجا کی ایمی بائی سے ہونے والی خاندانی شادی کچی عمر کی کچی سوچ نے چلنے نہ دی ہو۔ لیکن جب جہاندیدہ معروف 42 سالہ بیرسٹر محمد علی جناح ممبئی کے امیر ترین پارسی مانک جی ڈنشا کی شدید ناراضی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ان کی 18 سالہ صاحبزادی رتی سے حاضر جوابی، ذہانت اور دو طرفہ محبت کی بنیاد پر شادی کرتے ہیں تو دونوں کو چار برس تک کیوں لگتا ہے کہ دنیا کتنی حسین ہے اور پانچویں برس کیوں لگنے لگتا ہے کہ دنیا اتنی حسین نہیں ہے۔ پھر بھی علیحدگی کے باوجود بہانے بہانے ایک دوسرے کے بارے میں غیروں سے کیوں پوچھتے رہتے ہیں؟

سرطان میں مبتلا رتی نے پانچ اکتوبر 1928 کو مارسیلز سے ممبئی میں تنہا پڑے جناح کو آخری خط لکھا۔
’ پیارے جے! میں تم سے جتنا ٹوٹ کے محبت کرتی تھی اسے کچھ کم کر سکتی تو شاید آج تمہارے ساتھ ہوتی۔ مگر جو جتنا بلندی پر جانا چاہتا ہے شاید اتنا ہی شدت سے نیچے بھی آتا ہے۔ شب بخیر اور خدا حافظ۔ ‘

20 فروری1929 کو 29 ویں سالگرہ پر رتی کا انتقال ہوا۔ جب ممبئی کی ایک تازہ قبر میں اتارا جا رہا تھا تو آٹھ برس بعد رتی کو یوں دیکھنے والا جناح بت بنا ہوا تھا۔ سی ایم چھاگلہ لکھتے ہیں :
’ جب جناح سے کہا گیا کہ قبر پر مٹی ڈالو تو وہ سرہانے بیٹھ گیا اور بلکنے لگا۔ پہلی اور شاید آخری بار میں نے دیکھا کہ جناح بھی ویسا ہی ہے جیسے سب ہوتے ہیں۔ ‘

کہاں پارسی فیروز جہانگیر گاندھی اور کہاں جواہر لعل نہرو کا پنڈت خاندان۔ مگر فیروز کا شمار جیالے کانگریسیوں میں ہوتا تھا۔ جواہر لعل کی بیٹی اندرا اور فیروز نے 1942 میں ’ ہندوستان چھوڑ دو ‘ تحریک میں چھ ماہ ایک ساتھ جیل کاٹی۔ ایک دوسرے کو پسند کیا۔ شادی ہو گئی مگر جواہر لعل اس شادی کے خلاف تھے۔ فیروز اور اندرا اپنی ہی دنیا میں گم رہے۔ پہلے راجیو اور پھر سنجے پیدا ہوئے۔ اور پھر اختلاف پیدا ہوا۔ فیروز کی توجہ صحافت میں بڑھ چلی اور اندرا گویا باپ کی پولٹیکل سیکریٹری بن گئیں۔

تعلق کی سڑک دو شاخہ ہوتی چلی گئی اور پھر رسمی علیک سلیک کی پگڈنڈیوں میں گم ہوتی گئی۔ سنہ 1958 میں فیروز کو دل کا پہلا دورہ اور تین برس بعد دوسرا دورہ پڑا۔ اندرا تیمارداری کے لیے چلی آئیں۔ مگر فیروز تیسرا دورہ پڑنے سے پہلے ہی چل بسے۔ زندگی چلتی رہی۔ فیروز کے بغیر بھی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی شادی عمر میں اپنے سے بڑی کزن شیریں امیر بیگم سے ہوئی۔ سنہ 1998 میں امیر بیگم سے میں نے کراچی میں دو ڈھائی گھنٹے کا انٹرویو لیا۔

’ نصرت سے شادی کرنے سے پہلے میرے پاس آیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا میں نے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ تمہاری خوشی ہے تو میں بھی خوش۔ جب کبھی کوئی اس کے اور نصرت کے جھگڑے کی خبر دیتا تو میرے دل کو بہت تکلیف ہوتی۔ جب سنہ 70 کا الیکشن جیتا تو لوگ اسے بار بار ہاروں سے لاد دیتے۔ وہ ہر تھوڑی دیر بعد اندر آتا اور یہ ہار میرے گلے میں ڈال جاتا۔ ولایت جاتا تو میرے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور لاتا۔ ایک دو دفعہ میں پنڈی میں پرائم منسٹر ہاؤس میں بھی جا کے رہی۔ وہ بعد میں بھی بلاتا رہا مگر یہ سوچ کر نہیں جاتی تھی کہ مصروف آدمی ہے مصروف ہی رہنے دو۔ بے نظیر، مرتضیٰ اور شاہنواز عید پر ضرور ملنے آتے۔ بھٹو صاحب بھی عید کی نماز کے بعد ضرور آتا۔ جب کبھی نصرت نوڈیرو آتی تو وہ بھی ملتی۔ میرے لیے یہی خوشی کی بہت تھی۔ جب کورٹ نے فیصلہ کر دیا تو میں قلندر کے مزار پر سب عورتوں کے ساتھ گئی۔ پتہ نہیں قلندر نے کیوں نہیں سنی۔ ‘

برقع پوش امیر بیگم کی بھٹو صاحب سے آخری ملاقات 26 مارچ 1979 کو ہوئی۔ نو روز بعد بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی۔ مگر امیر بیگم کے لیے بھٹو کے دل میں کتنے خانے تھے؟ کون بتائے؟

جناب وسعت اللہ خان مزید لکھتے ہیں ۔۔۔۔

’’اور کچھ شادیاں کیوں چلتی رہتی ہیں جب کہ ان کے چلنے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ مونیکا لیونسکی کا معاملہ سامنے آنے کے بعد ہلیری نے بل کلنٹن کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کے میڈیا کے روبرو کیوں کہا: ’ ہم ساتھ تھے، ہم ساتھ ہیں۔ ؟‘‘

لیڈی ڈیانا نے کہا ’ ہاں وہاں سب ہی کچھ تھا۔ مگر میرا دم گھٹتا تھا۔ ‘

نریندر مودی کی جشودا بین سے 50 برس پہلے شادی ہوئی۔ تین مہینے ساتھ رہے۔ آخری ملاقات 47 برس پہلے ہوئی۔ مودی کے منہ سے کسی نے جشودا بین کا نام دو مرتبہ سے زیادہ نہیں سنا۔ جشودا بین آج بھی ایک کمرے کے کوارٹر میں 14 ہزار روپے ماہانہ کی پنشن پر گزارہ کر رہی ہے۔ کوئی امکان نہیں دونوں کا زندگی میں کبھی آمنا سامنا ہو مگر دستاویزات میں اب بھی مودی کی بیوی ہے اور وہ شوہر۔

ہاں عمران خان اور ریحام خان ایک دوسرے کو اچھے لگے سو شادی کر لی سو علیحدگی ہوگئی۔ جیسے جمائمہ اور عمران ایک دوسرے کو اچھے لگے مگر دور تک نہ چل سکے۔ سو وہاٹ؟

ایسے ہی ہوتا ہے۔ ایسے ہی ہوتا رہے گا؟ کون جانے کس کی لاٹری کیوں نکلتی ہے اور کسی کی کیوں نہیں؟ دو لوگ انفرادی طور پر مخلص اور اچھے ہونے کے باوجود ضروری تو نہیں کہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے لمبا سفر بھی کر سکیں؟ اور جناب وسعت اللہ خان نے آخر میں جون ایلیا کے یہ اشعار نذر قارئین کئے ہیں ۔

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
وفا، اخلاص، قربانی، محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
(جون ایلیا)

اصل یہ ہے کہ لمحوں میں کیے گئے عہد ساری عمر ایفا کے متقاضی قرار پائے ہیں جو فی الحقیقت اصل کامیابی ہے
فرحت اور انجم کی داستان میں اسی عدیم النظیر کامیابی کا راز پنہاں ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں