ڈاکٹر امتیاز عبد القادر
مرکز برائے تحقیق و پالیسی مطالعات ، بارہمولہ
پہلے یہ پڑھیے :
فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 1 )
فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 2 )
فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 3 )
فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 4 )
3۔ جاوید احمد غامدی :
پاک سرزمین علمی وفکری شخصیات فراہم کرنے کے اعتبارسے کبھی بنجرنہیں رہی۔ ان نابغہ روزگارشخصیات میں ایک جاویداحمدغامدی صاحب بھی ہیں۔ غامدی صاحب کی شخصیت کی نرمی، سادگی ،علمیت ، منطقیت پُرکشش ہے۔ قاری ہو یا سامع غامدی صاحب ’ کششِ ثقل ‘ کی طرح اُنھیں اپنی طرف کھینچ ہی لیتے ہیں لیکن فی الوقت وہ ایک ایسے ’ شجرِممنوعہ ‘ تصورکیے جاتے ہیں جن کی صحبت ، گفتگو ، تحاریر سے بعض لوگوں کو’ فتنہ ‘ کاپھل ہی ملنے کا گمان ہوتاہے۔
علم وفکر کی راہ میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہماری تاریخ کے کئی ’ اوراق ‘ ایسے اہلِیان علم سے بھرے پڑے ہیں جن کی مخالفت یا تنقید شدّت سے کی گئی۔ دورِ حاضر میں غامدی صاحب بھی ان میں سے ایک ہیں۔
خطاونسیان ، تنقید و اختلاف سے غیرِنبی کومفرنہیں۔ تنقید ذہنی اُفق کووسیع کرتی ہے۔ یہ ایک علمی تحفہ ہے۔تنقید اور اختلاف سے انسان خود کو دریافت کرسکتا ہے لیکن تنقید واختلاف کے بھی کچھ اصول ہیں ، کوئی اخلاقیات ہیں جن کامہذب معاشرے میں خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ ہم تذلیل کو بھی اختلاف رائے کا نام دیتے ہیں ۔ سرِعام بے عزت کرنے کو تنقید کہتے ہیں۔ جھوٹ منسوب کرکے اورسیاق وسباق سے کلام کوہٹا کرکسی کومطعون کرنے کو ’علمی جواب ‘ کا نام دیتے ہیں۔
فکرونظرکی دنیا میں کوئی بات حرفِ آخرنہیں ہوتی۔ یہ غوروفکرکا مسلسل عمل ہے جو کسی سماج کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ اس لیے امام ابن تیمیہؒ ہوں یا امام غزالیؒ، شاہ ولی اللہ ؒہوں یا مولانامحمدالیاسؒ ، مولانامودودی ؒہوں یا جاویداحمد غامدی،ان میں سے کوئی معصوم ہے اورنہ تنقید واختلاف سے بالاتر۔
جاوید احمد غامدی 1951ء میں پنجاب کے ضلع ساہیوال کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ایک مقامی اسکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ 1967ء میں لاہور آگئے۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہورسے1972ء میں انگریزی ادب میں بی۔ اے آنرز کیا اور مختلف اساتذہ اور عالموں سے اپنی ابتدائی زندگی میں روایتی انداز میں اسلامی علوم پڑھے۔
1972ء میں آپ مولانا امین احسن اصلاحی ؒکی شاگردی میں آگئے، جنھوں نے ان کی زندگی پر گہرا اثرڈالا۔ غامدی صاحب کئی سال تک مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ؒکے ساتھ بھی منسلک رہے اورکچھ عرصہ جماعتِ اسلامی پاکستان کے رکن بھی تھے۔ دس سال سے زیادہ (1979ء تا 1991ء) عرصے تک سول سروسز اکیڈمی لاہور میں علوم اسلامیہ کی تدریس کی۔(مقامات ازجاویداحمدغامدی)
جاویداحمدغامدی صاحب نے قرآن مجید، اسلامی قانون اور اسلام کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور ان موضوعات پر کئی لیکچر دیے۔ آپ ادارہ ’ المورد ‘ کے بانی اور صدر ہیں اور اردو ماہنامہ ’ اشراق ‘ کے مدیرِاعلٰی بھی ہیں۔ غامدی صاحب باقاعدگی سے مختلف ٹی وی چینلز پر اسلام اور دور حاضر کے موجودہ مسائل پرلوگوں کی آگہی کے لیے گفتگو کرتے ہیں۔ اُن کی گفتگو میں دلائل و منطق ناظرین و سامعین کو متاثرکرتے ہیں۔غامدی صاحب شیریں مقالی اورتہذیب وشائستگی کے ساتھ نقادوں اورمعترضین سے مخاطب ہوتے ہیں۔
غامدی صاحب کی فکر پر اپنے دو جلیل القدر پیش رو علما ء امام حمید الدین فراہیؒ اورمولانا امین احسن اصلاحیؒ کی فکر کی گہری چھاپ ہے۔ تاہم اس ضمن میں انھوں نے کئی انفرادی تحقیقات بھی کی ہیں۔ وہ علامہ شبلی نعمانیؒ کی فکرسے بھی متاثر ہیں اور جس ’ جماعت ‘ کی علامہ شبلیؔؒ نے بنارکھی، اُس کی وضاحت کرتے ہوئے غامدی صاحب رقمطرازہیں:
” شبلیؔ ان دونوں کے مقابلے میں ایک تیسری جماعت کے بانی ہوئے۔ اس جماعت کے دو بنیادی اصول تھے: ایک یہ کہ ہمارے لیے ترقی یہی ہے کہ ہم پیچھے ہٹتے چلے جائیں، یہاں تک کہ اس دورمیں پہنچ جائیں جب قرآن اتر رہا تھا اور خدا کا آخری پیغمبر خود انسانوں سے مخاطب تھا اوردوسرے یہ کہ خود قدیم کی ضرورت ہے کہ ہم جدید سے بھی اسی طرح آشنا رہے، جس طرح قدیم سے ہماری آشنائی ہے۔ سید سلیمان ندویؒ، ابوالکلام آزادؒ ، ابوالاعلٰی مودودیؒ ، حمید الدّین فراہیؒ ، امین احسن اصلاحیؒ ، یہ سب اسی جماعت کے اکابرہیں۔میں اسے ’ دبستانِ شبلی ‘ کہتا ہوں۔ اقبالؒ بھی زیادہ تراسی دبستان سے تعلق رکھتے ہیں۔“(ایضََا ص64)
اپنے اساتذہ کی علمی فکر کے عکس اوران کی اپنی منفرد تحقیقات ، دونوں کو ان کے قرآن مجید کے ترجمے” البیان “ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ترجمہ قاری کو قرآن کی کلاسیکی زبان کے قریب لے جاتا ہے جس میں حد درجہ ایجاز پایا جاتا ہے۔ الفاظ اور مفاہیم جو آپ سے آپ واضح ہوتے ہیں، اس کو قاری کے فہم پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور کلام سے حذف کر دیا جاتا ہے۔
غامدی صاحب نے کوشش کی ہے کہ ترجمہ میں ان کی رعایت کی جائے اور مقدرات اور محذوفات کو کھولا جائے تاکہ عبارت کا مفہوم کھل کر سامنے آ جائے۔ قاری ترجمہ پڑھتے ہوئے سیاق وسباق کوخوب اچھے سے سمجھ لیتاہے۔ ’ البیان ‘ مختصرحواشی کے ساتھ نظمِ کلام کی رعایت سے تراجم کی تاریخ میں پہلااردوترجمہ قرآن ہے۔
’دین‘کی تعریف غامدی صاحب ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’ دین اللہ تعالٰی کی ہدایت ہے جواس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اوراس کے بعداُس کی تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کودی ہے۔ اس سلسلے کے آخری پیغمبرمحمدﷺ ہیں۔ چنانچہ دین کاتنہا ماخذ اس زمین پراب محمدﷺ کی ذات والا صفات ہے۔ یہ صرف انہی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کواُن کے پروردگارکی ہدایت میسرہوسکتی اوریہ صرف انہی کا مقام ہے کہ اپنے قول وفعل اور تقریروتصویب سے وہ جس چیزکو دین قرار دیں، وہی اب رہتی دنیا تک دین قرار پائے۔‘ (میزان۔ ص13)
غامدی صاحب کا ایک اورمنفرد کام دین اسلام کے مشتملات کی تقسیم ہے۔ ان کے مطابق قرآن مجید نے خود کو باعتبار مشتملات دو بڑے عنوانات میں تقسیم کیا ہے:
’ الحکمۃ ‘ اور’ الشریعۃ ‘۔
غامدی صاحب کے مطابق ان میں سے مقدم الذکر کا تعلق’ ایمان واخلاق ‘ کے مباحث سے ہے اور مؤخر الذکر کا تعلق ’ قانون ‘ کے مباحث سے ہے۔ ’ الحکمۃ ‘ اور ’ الشریعۃ ‘ کو غامدی صاحب نے مزید ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔
’الحکمۃ‘ ’ ایمانیات ‘ اور ’ اخلاقیات ‘ کے دو عنوانات پر مشتمل ہے، جبکہ ’ الشریعۃ ‘ کو انھوں نے دس عنوانات میں تقسیم کیا ہے، یعنی : قانون عبادات، قانون معاشرت ، قانون سیاست ، قانون معیشت ، قانون دعوت ، قانون جہاد ، حدودو تعزیرات ، خورو نوش ، رسوم وآداب اورقسم اور کفارۃ قسم۔
ان عنوانات کے ذیل میں غامدی صاحب نے بہت سے نئے پہلوؤں کو دریافت کیا ہے۔ مثال کے طور پر ذریت ابراہیم کی دعوت، ارتداد کی سزا، عورت کی گواہی اور دیت، اختلاط مرد و زن کے آداب ، غلامی ، مسلم شہریت کے شرائط ، قانون میراث اور جہاد میں عام اور خاص احکام کے بارے میں ان کی آرا قارئین کو کچھ نئے پہلوؤں کی طرف توجہ دلاتی ہیں ۔ غامدی صاحب کی ایک اور اہم خدمت علم اصول سے متعلق ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون ” اصول ومبادی “ میں فہم دین کے اصولوں کو مرتب کیا ہے۔ یہ اصول قرآن ، سنت اور حدیث کی تفہیم میں معاون ہیں۔ (میزان ازجاوید احمد غامدی)
غامدی صاحب کا ایک اہم علمی کام یہ ہے کہ انھوں نے ’ شریعت ‘ کو’ فقہ ‘ سے الگ کیا ہے۔ان کو بالعموم ایک ہی چیز سمجھا جاتا ہے۔ پہلی چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، جبکہ دوسری انسانی کاوش کا نتیجہ۔ چنانچہ ان دونوں میں فرق ملحوظ رکھنا ایک ناگزیر امرہے۔ انھوں نے اپنی کتاب ” میزان “ میں شریعت کو اسلام کے ماخذ سے مستنبط کیا ہے۔
ان کی ایک اور اہم علمی کاوش’ سنت ‘ کے تصور کی تعیین اورتشریح ہے۔ ’ سنت ‘ کو انھوں نے ’ حدیث ‘ سے الگ چیز قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک ’ سنت ‘ قرآن ہی کی طرح مستقل بالذات دین کا ماخذ ہے اور امت کے اجماع اور عملی تواتر سے منتقل ہوئی ہے۔ چنانچہ یہ قرآن ہی کی طرح مستند ہے۔
’ احادیث ‘ البتہ قرآن و سنت میں موجود دین کی تفہیم و تبیین کرتی ہیں اور اس دین پر عمل کے ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ ان میں مستقل بالذات دین نہیں پایا جاتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے حاصل کردہ علم درجہ یقین تک نہیں پہنچتا۔ تعین سنت کے اصولوں کی مدد سے انھوں نے سنن کی فہرست مرتب کی ہے۔(ایضََا ص57۔ 65)
غامدی صاحب نے دین کے بنیادی مباحث اور اصطلاحات کو اپنے مضمون ’ دین حق‘ میں بیان کیا ہے۔ یہ تصور دین کی ایک مکمل تعبیر ہے ، جو دوسری دو تعبیرات (تصوف کی تعبیر اور جہادی تعبیر) سے بالکل الگ ایک تیسری تعبیر ہے جو دراصل سلف صحابہ کی نمائندگی کرتی ہے۔(ایضََا ص 66 ۔ 78)
انسان طبعََا معاشرت پسند ہے۔ تمدن کو سوءِ استعمال سے بچانے کے لئے وہ نظمِ اجتماعی تخلیق کرتا ہے تاکہ اس کے ارادہ واختیار کو صحیح رخ ملے۔ اس اجتماعیت کوصالح بنیادوں پراستوارکرنے کے لیے انسان کو جس امر کا خاص خیال رکھنا ہے اس کی تشریح کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:
’ عقل کا تقاضا ہے کہ اس دنیا میں حکومت کے بغیر کسی معاشرے اور تمدن کا خواب دیکھنے کے بجائے وہ اپنے لیے ایک ایسا معاہدہ عمرانی وجود میں لانے کی کوشش کرے جونظمِ اجتماعی کا تزکیہ کرکے اُس کے لیے ایک صالح حکومت کی بنیاد فراہم کرسکے۔‘(میزان۔ ص481)
قانونِ سیاست کے مباحث جو قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی وساطت سے ہمیں پہنچے ہیں ، ان کی تفصیلات غامدی صاحب نے بڑے شرح وبسط کے ساتھ رقم کی ہیں۔ قرآن مجید کی نصوص کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’۔۔۔ یہ حکم اس وقت دیا گیا جب قرآن نازل ہو رہا تھا، رسول اللہ ﷺ بنفسِ نفیس مسلمانوں کے درمیان موجود تھے اور وہ اپنے نزاعات کے لئے جب چاہتے، آپ ﷺ کی طرف رجوع کرسکتے تھے لیکن صاف واضح ہے کہ اللہ و رسول کی یہ حیثیت ابدی ہے لہٰذا جن معاملات میں بھی کوئی حکم انہوں نے ہمیشہ کے لیے دے دیا ہے، اُن میں مسلمانوں کے اولی الامر کو ، خواہ وہ ریاست کے سربراہ ہوں یا پارلیمان کے ارکان، اب قیامت تک اپنی طرف سے کوئی فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔‘ (میزان ۔ ص482)
علم وتحقیق میں گرچہ موصوف ایک مقام رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اردو ادب سے بھی گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ ان کے قلم میں بلا کی روانی و چاشنی ہے۔ ایسے انشاء پردازجن کی نگارشات قاری کومسحور کیے بنا نہیں رہتیں۔ غامدی صاحب کہنہ مشق شاعربھی ہیں اس لیے ان کی تحریروں میں زبان وبیان کی قدرت، افکار و خیالات کی ندرت، مضامین کا تنوع ، موضوعات کی رنگا رنگی، مواد کی معنویت اوراسلوب کی دل کشی پائی جاتی ہے۔ ان کے جملوں کی ساخت ، زبان کی سلاست ، لہجے کی دل کشی اورالفاظ کی رعنائی میں ایک تاثیرموجود ہے۔ ادب پارہ کی تخلیق ہو یا علمی موضوعات کی ترسیل ، ان کا قلم قاری کا ہاتھ پکڑ کر اپنی مشائیت پرمجبورکردیتا ہے۔
’ قانونِ معیشت ‘ کے عنوان کے تحت اسلام کا تزکیہ معیشت کافلسفہ واضح کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’ یہاں ہرشخص کا ایک کردار ہے اور کوئی بھی دوسروں سے بے نیاز ہوکر زندہ نہیں رہ سکتا۔ عالم کے پروردگارنے یہاں ہرشخص کی ذہانت ، صلاحیت ، ذوق و رجحان اورذرائع و وسائل میں بڑا تفاوت رکھا ہے۔چنانچہ اس تفاوت کے نتیجے میں جومعاشرہ وجود میں آتا ہے، اس میں اگرایک طرف وہ عالم اور حکیم پیداہوتے ہیں جن کی دانش سے دنیا روشنی حاصل کرتی ہے؛ وہ مصنف پیدا ہوتے ہیں جن کاقلم لفظ ومعنی کے رشتوں کو حیات ابدی عطا کرتا ہے؛ وہ محقق پیدا ہوتے ہیں جن کے نوادرتحقیق پر زمانہ داد دیتا ہے؛ وہ لیڈرپیداہوتے ہیں جن کی تدبیر و سیاست سے حیات اجتماعی کے عقدے کھلتے ہیں؛ وہ مصلح پیدا ہوتے ہیں جن کی سعی وجہد سے انسانیت خود اپنا شعورحاصل کرتی ہے اور وہ حکمران پیدا ہوتے ہیں جن کا عزم واستقلال تاریخ کا رخ بدل دیتا ہے تو دوسری طرف وہ مزدور اور دہقان اور وہ خادم اور قلی اور خاک روب بھی پیداہوتے ہیں جن کی محنت سے کلیں معجزے دکھاتی، مٹی سونا اگلتی ، چولھے لذتِ کام و دہن کا سامان پیداکرتے ، گھرچاندی کی طرح چمکتے ، راستے پاؤں لینے کے لئے بے تاب نظرآتے،عمارتیں آسمان کی خبرلاتی اورغلاظتیں صبح دم اپنابسترسمیٹ لیتی ہیں۔‘(میزان۔ ص 496)
غرض کم وبیش چالیس سالہ مطالعہ وتحقیق کے بعد جاویداحمدغامدی صاحب نے اسلام کو جو سمجھا ہے ، موصوف نے اپنا وہ فہم شرح وبسط ، علمی و منطقی دلائل سے اپنی کتاب ’ میزان ‘ میں ثبت کیا ہے۔ اُن کی ایک اور کتاب ’برھان ‘ معاصر علوم ، نظریات و افکار پر تنقید اور اِن کے تجزیے پرمبنی ہے اور’ مقامات ‘ اُن
کی ذاتی زندگی کے مختصر کوائف، مذہبی اورادبی مضامین کا مجموعہ ہے۔ (جاری ہے)
3 پر “فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ (5)” جوابات
بہترین سلسلہ
عمدہ…زورِ قلم اور زیادہ
سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ چاہے آپ نے سابقہ انبیاء علیہم السلام کا کوئی عمل برقرار رکھا ہو یا پھر خود کوئی عمل اپنایا یا بتایا ہو، یہی سنت ہے۔ اور اس کا ماخذ قرآن و حدیث ہے۔ حدیث کے بغیر سنت کی تعین کرنا کمال ابلہی ہے۔ غامدی صاحب کے انداز تکلم اور ان کے وسیع مطالعہ سے ہمیں انکار نہیں۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ ہم جمہور کے اصولوں اور تشریحات کے مکلف ہیں۔