وزیراعظم پاکستان عمران خان اور جہانگیرترین

جہانگیر ترین کے ساتھ تحریک انصاف کے 53 ارکان قومی اسمبلی ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبید اللہ عابد :

آج پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف کو اس وقت خاصی خفت کا سامنا کرنا پڑا جب اس کے معتوب رہنما جہانگیر ترین لاہور کی بینکنگ عدالت میں حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ تحریک انصاف کے نہ صرف متعدد ارکان قومی و صوبائی اسمبلی تھے بلکہ ایک دو صوبائی وزرا بھی شامل تھے۔ تقریباً یہ سب جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ اگر کہا جائے کہ آج جنوبی پنجاب تحریک انصاف کے ہاتھ سے باقاعدہ طور پر نکل گیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ بے قاعدہ طور پر پورا پاکستان ہاتھ سے نکل چکا ہے ، یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی اپنے حلقوں میں جانے سے خوفزدہ ہیں۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے مزید متعدد ارکان اسمبلی کے جہانگیر ترین سے رابطے ہیں۔ ان کی تعداد 35 سے 55 تک ہے۔ آج جہانگیر ترین کے ساتھ صوبائی وزیر نعمان لنگڑیال، نذیر بلوچ، راجا ریاض، سلیمان نعیم، غلام بی بی بھروانہ، خرم لغاری، چوہدری افتخارگوندل، اسلم بھروانہ، طاہر رندھاوا اور امیر محمد خان شامل تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کے ساتھ مزید بہت سے ارکان اسمبلی حتٰی کہ بعض وفاقی وزرا بھی عدالت آنا چاہتے تھے لیکن جہانگیر ترین نے انھیں منع کردیا کہ فی الحال ضرورت نہیں ۔ شاید وہ عمران خان کو ایک جھلک دکھانا چاہتے تھے۔ صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جہانگیر ترین کے ساتھ جتنے ممبران عدالت کے باہر موجود تھے، پی ٹی آئی کے اندر اس سے کہیں زیادہ ممبران کی حمایت انھیں حاصل ہے۔

آج جہانگیر ترین کے ساتھ موجود تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض کا کہنا تھا کہ آج جہانگیر ترین نے کسی رکن اسمبلی کو عدالت میں نہیں بلایا تھا جو بھی آیا خود آیا لیکن اگلی پیشی پر ہم اپنے سب ساتھیوں کو اطلاع دیں گے اور کافی زیادہ ارکان اسمبلی ترین صاحب کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے عدالت آئیں گے۔

راجہ ریاض آج جہانگیر ترین کے ساتھ کافی فعال نظر آئے، ان کا کہنا تھا کہ عمران خان جہانگیر ترین کے بغیر اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ جہانگیرترین اورعمران خان کےدرمیان فاصلے بڑھ گئےہیں ، حالانکہ 15سے20 دن پہلےتک عمران خان اورجہانگیرترین کےتعلقات اچھے ہوگئےتھے۔

جہانگیر ترین نے بینکنگ کورٹ میں پیشی کے بعد صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان سے شکوہ کیا کہ
” ایک سال سے میں چپ بیٹھا ہوں، میری وفاداری کا امتحان لیا جا رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے، میں تو دوست تھا دشمنی کی جانب کیوں دھکیل رہے ہیں۔ “ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک شکوہ ہی نہیں تھا بلکہ دھمکی بھی تھی کہ مجھ سے دشمنی مت مول لیں ، کیونکہ میری لابی بہت مضبوط ہے۔

عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان دوریوں کی خبریں چند روز سے متواتر سامنے آرہی تھیں۔ وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید احمد بھی کہہ چکے ہیں کہ جہانگیر ترین اب بہت دور ہوگئے ہیں۔ دو روز قبل پہلے پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما اور صوبہ سندھ کی وزیر برائے وومن ڈویلپمنٹ سیدہ شہلا رضا نے دعویٰ کیا تھا کہ جہانگیر ترین پی ٹی آئی چھوڑ کر پی پی میں شامل ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کریں گے جس میں ان کے ساتھی بھی شامل ہوں گے۔

جہانگیر ترین نے زرداری سے ملاقات اور پیپلزپارٹی میں شمولیت کے کسی بھی امکان کو مسترد کردیا جس کے بعد شہلا رضا نے ٹویٹس ڈیلیٹ کردیں تاہم بہت سے لوگ یہ ٹویٹس کرنے اور پھر ڈیلیٹ کرنے کے کھیل کو ایک واضح پیغام قرار دے رہے ہیں۔ پیغام یہی ہے کہ جہانگیر ترین کو دشمن بننے پر مجبور نہ کیا جائے ورنہ وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ وہ مرکز میں عمران خان اور پنجاب میں بزدار حکومت کو جب چاہیں، ختم کرسکتے ہیں۔

ادھر آج وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار ایسے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی ایک طویل فہرست لے کر وزیراعظم عمران خان کے پاس پہنچ گئے، جو جہانگیرترین کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ شاباش ملنے کی توقع لے کر وزیراعظم کے پاس پہنچے تاہم عمران خان نے انھیں سخت سست کہا۔ انھیں وارننگ دی کہ بس! آپ کے پاس کارکردگی دکھانے کا آخری موقع ہے، اس کے بعد میں آپ کا مزید دفاع نہیں کرسکوں گا۔

پاکستان اور صوبہ پنجاب کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے خیال میں یہ جہانگیر ترین کی طرف سے ایک غیر متوقع چال تھی، انھوں نے یقیناً ایک پریشر گروپ بنایا ہے اور پہلی مرتبہ انھوں نے ظاہر بھی کیا ہے کہ وہ اب اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

ان کے خیال میں جہانگیر ترین نے حکومت کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ آسان چنا ثابت نہیں ہوں گے۔ سہیل وڑائچ کے خیال میں جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے اندر ایک فارورڈ بلاک بنا سکتے ہیں جو جماعت کے لیے نقصان دہ ہو گا۔

صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق جہانگیر ترین وہ شخص ہیں جن کے ذاتی اور خاندانی نوعیت کے تعلقات خصوصاً پنجاب میں ان افراد اور خاندانوں کے ساتھ ہیں جنھیں ’ الیکٹ ایبلز ‘ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے یہ دکھایا ہے کہ الیکٹ ایبلز آج بھی ان ہی کے پاس ہیں۔ یہ حکومت کے لیے فوری خطرہ نہیں تو خطرے کی گھنٹی ضرور ہو سکتی ہے، خصوصی طور پر پنجاب کے اندر۔‘

مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق جہانگیر ترین کو معلوم ہے کہ یہ تمام تر کارروائی ان کے خلاف خود وزیرِاعظم عمران خان کی منظوری کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ پی ٹی آئی کے اندر موجود ایک مخصوص لابی ابتدا ہی سے جہانگیر ترین کے خلاف حرکت میں ہے اور اس میں بیوروکریسی کا بھی ہاتھ ہے۔ لیکن اگر اعظم خان یا شہزاد اکبر جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں وہ عمران خان کی منظوری کے بغیر تو ممکن نہیں ہے۔

مجیب الرحمٰن شامی کے خیال میں آنے والے دنوں میں جہانگیر ترین بھی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ ان کے بقول ’ وہ عدالت کے اندر بھی لڑائی لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور اندر بھی۔‘

میرا بھی یہی خیال ہے کہ جہانگیر ترین تحریک انصاف نہیں چھوڑیں گے البتہ ایک پرویشر گروپ کی صورت میں تحریک انصاف میں رہیں گے ، وہ اندر رہ کر تحریک انصاف پر پھر سے غلبہ قائم کرنے کی کوشش کریں گے، اگر ان کی یہ حکمت عملی نہ چلی تو وہ تحریک انصاف کا ایک الگ گروپ بنالیں گے۔

آگے کیا ہوگا؟ اس کا انحصار عمران خان کی طرف سے ردعمل پر ہے۔ ابتدائی ردعمل جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے کے اکائونٹس منجمد کرکے دیا گیا ہے، کیا اس کے بعد اس سے زیادہ شدید ردعمل ظاہر کیا جائے گا یا پھر جہانگیر ترین کے خلاف مہم میں یوٹرن لے لیا جائے گا؟ بہت جلد واضح ہوجائے گا۔

بہرحال یہ بات طے ہے کہ آج تحریک انصاف کے مخالفین اس صورت حال کا خوب مزہ لے رہے ہوں گے۔ پیپلزپارٹی والے تو سینہ تانے پھر رہے ہیں کہ ہم نہ کہتے تھے، استعفے دینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں، تحریک عدم اعتماد کے ساتھ سب کچھ الٹا جاسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہفیصل کریم کنڈی نے مزید کہا کہ حکومتی صفوں میں انتشار سے ثابت ہوا بلاول بھٹو کی تحریک عدم اعتماد کی حکمت عملی درست تھی۔

فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ جہانگیر ترین کے ساتھ 3 ارکان قومی اسمبلی اور 15 ارکان صوبائی اسمبلی عدالت آئے۔ جہانگیر ترین کے ساتھ عدالت میں پی ٹی آئی ارکان کی موجودگی سے ثابت ہوا کہ تحریک انصاف میں پھوٹ پڑگئی ہے۔پی پی رہنما کے بقول جہانگیر ترین نے دعویٰ کیا کہ اُن کے ساتھ 53 ارکان صوبائی اسمبلی اور ڈیڑھ درجن ایم این ایز ہیں۔ اس دعویٰ کا مطلب ہے کہ قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان اکثریت کھوچکے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں