فاروق عادل :
بہت دنوں، تقریبآ ڈھائی برس کے بعد شیخ رشید کی پہلی بات ہے جو حقیقت بنتی دکھائی دیتی ہے یعنی کیسی پی ڈی ایم، کون سی پی ڈی ایم ؟ اب ان لوگوں کو اپنی پڑ چکی ہے، لہٰذا رمضان کے بعد سیاست مختلف ہوگی۔
رمضان کے بعد کی سیاست کیا ہوگی ، یہ تو رمضان کے بعد ہی دیکھا جائے گا، تازہ حقیقت تو یہی ہے کہ پی ڈی ایم کے بکھرنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔
یوں، پی ڈی ایم کے بکھرنے کا سلسلہ تو اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب پیپلز پارٹی نے باپ کے ووٹ لے کر سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا منصب حاصل کر کے پی ڈی ایم کے اتحاد اور خاص طور پر مسلم لیگ ن کی کمر میں خنجر گھونپا تھا۔ اب عوامی نیشنل پارٹی نے اتحاد سے علیحدگی اختیار کر کے عملاً اس کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ قومی سیاست میں اس تازہ پیش رفت کے اثرات کیا ہوں گے؟ پیپلز پارٹی اور اے این پی نے اپنے طرز عمل سے واضح کر دیا ہے کہ وہ لکیر کے کس طرف کھڑے ہیں۔
پی ڈی ایم کا اتحاد جو بظاہر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے، اس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اس کا قیام کسی کو ہٹانے اور کسی کو لانے کے لیے عمل میں نہیں لایا گیا بلکہ اس کے پیش نظر ایک بڑا مقصد ہے۔ یہ بڑا مقصد کیا ہے، اس کے بارے میں سب سے پہلے میاں محمد نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان بہت وضاحت سے بات کر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور بعض دیگر جماعتوں نے بین السطور یا کسی نہ کسی انداز میں اس مقصد سے وابستگی کا اظہار کیا تھا۔
سیاسی عمل میں اعلانات اور بیانات کی اہمیت بھی اگرچہ غیر معمولی ہے لیکن کسی سیاسی گروہ کا اصل ذہن اس کے عمل سے سامنے آتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے باپ کے ووٹ لے کر اور اے این پی نے اتحاد سے علیحدگی اختیار کر کے اپنا ذہن واضح کر دیا ہے۔
اس کے بعد کیا ہو گا؟
اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن گزشتہ کئی دہائیوں کے تجربات کے بعد قوم ملک کے سیاسی نظام اور اقتدار کو پاکستان کے آئین کے تابع کرنے پر یک سو ہو چکی ہے جس کا ثبوت گلی محلے اور بازار میں عام آدمی کی گفتگو سن کر ہو جاتا ہے۔
یہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ کیا یہ عوامی جذبہ اتنی قوت حاصل کر چکا ہے کہ وہ کسی تبدیلی کا ذریعہ بن سکے۔ پی ڈی ایم کا اتحاد اگر برقرار رہتا تو یہ عمل نسبتاً تیز ہو جاتا لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئین کی حقیقی حکمرانی کے خواہش مندوں کا سفر اتنا مختصر نہیں جتنا پہلے دکھائی دیتا تھا۔
اگر کوئی سیاسی گروہ جمہوری جدوجہد سے خود کو علیحدہ کر کے اسٹیٹس کو کاسہارا بن جائے تو اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ بظاہر تو یہی ہو گا کہ فوری طور پر وہ پاور پالیٹکس میں کسی نہ کسی طرح کچھ حصہ حاصل کر لے گا لیکن یہ فایدہ مختصر مدت کے لیے ہوگا، اس فائدے کے مقابلے میں نقصان دائمی ہو گا۔ چالاکی سے سیاسی بیانیے اختیار کرنے والی سیاسی قوتیں عام طور پر زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ انجام ایک کھلا راز ہے جس کے مناظر 1977ء کے مارشل لا کا ساتھ دینے والی قوتوں کے انجام میں دیکھا جاسکتا ہے۔