سالگرہ کیک ، موم بتیاں

سالگرہ منانا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم :

دنیا کے ہر خطے میں سالگرہ منانا اور اس دن کی مناسبت سے مبارک باد پیش کرنے کا تصور معمول کی بات ہو گئی ہے ، مسلمانوں کی تہذیب کو قرآن پاک اور سنت مطہرہ کے تحت قائم کیا گیا ہے. اس کی خوبی یہ ہے کہ زندگی کا ہر پہلو سکھایا گیا ہے اور دنیا میں پہلے سانس سے لے کر آخری سانس تک کے لئے ہدایات موجود ہیں ۔

دنیا میں پہلا سانس لیتے ہی انسان کی دنیا سے واپسی کا ” کاؤنٹ ڈاؤن “ شروع ہوجاتا ہے. حیات مستعار کی مدت کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ عمر ہر سال زیادہ نہیں ہوتی ، کم ہوتی ہے تو لوگ سالگرہ کس خوشی میں مناتے ہیں؟

اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا. لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس سےمنع بھی تو نہیں کیا گیا۔ فرض کریں اس جواز کو مان لیا جائے تو سالگرہ منانے کی تقریب کا غیر اسلامی طریقہ کہاں جائز ہے؟ بلکہ غیر مسلموں جیسی تقریبات اور تہوار سے منع کیا گیا ہے اور جس کام سے منع کیا جائے اس کو کرنا نا فرمانی ہے ۔ دین اسلام کو قبول کرنے کےبعد اللہ اور اس رسول کی نافرمانی کرنا گناہ ہے۔

اسلامی تہذیب کی روشنی میں اپنی زندگی کے اصول وضع کرنا اور اس کے مطابق اہل خانہ کی تربیت کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ آئیے ! سالگرہ جیسی رسم کے بارے میں کچھ تبدیلی لائیں. وہ ساری باتیں، کام،شغل، نہیں ہونے چاہئیں جو کہ مروج ہیں ۔ جب کوئی اجنبی تہذیب اپنے کلچر میں قبول کی جاتی ہے تو وہ اپنے ساتھ وہی طریقہ کار بھی لاتی ہے. موم بتیاں جلانا ، تالیاں بجانا اور مخصوص طرز میں گانا یا ضرور کیک کاٹنا غیر اسلامی طریقہ ہے .

عمر کا ایک سال کم ہونے سے انسان کا موت سے فاصلہ کم ہوتا ہے ، وہ قبرسے قریب ہوتا ہے ۔ موت سے ہر شخص ڈرتا ہے مگر اس کے قریب ہونے کی خوشی مناتا ہے؟ قبر کے اور انسان کے درمیان فاصلہ ہر سال گھٹ جاتا ہے، قبر میں جانے کی اس قدر خوشی منائی جاتی ہے جیسے اس قبر میں جانے کی تیاری مکمل ہو چکی ہے جو تنہائی کا گھر ہے، کیڑے مکوڑوں کا گھر ہے، وحشتوں کا سامان وہاں رکھا ہے. عجب بات ہے کہ مہلت عمل کم ہوجانے پہ چراغاں کیا جاتا ہے. پیدائش کے دن کی خوشی منانے کے لئے اسلامی تہذیب میں عقیقہ رکھا گیا ہے.. اس سے لوگ غافل ہیں.

ہر سال پیدائش کی تاریخ اور دن یاد کرنا ہو تو یاد یہ کرنا چاہئے کہ زندگی کے اتنے دن جو بسر کر چکے اس کو خرچ کرکے کیا سودا کیا ؟ قبر کے گھر کے لئے نیکیوں کے کتنے چراغ جلائے ہیں؟ کتنا علم دین حاصل کیا اور علم پہ عمل کتنا کیا..؟

صدقہ جاریہ کے لئے اس سال کیا عمل کئے؟ کتنی بری عادات چھوڑنے میں کامیاب ہوئے؟ اخلاقی پہلوئوں میں کیا اضافہ ہوا؟ موت برحق ہے اس کے بارے میں کتنا سوچا ؟ اور اپنی آخری منزل قبر کے قریب ہونے کا احساس کتنا تازہ ہوا؟عمر کی مدت کم ہونے پہ مستقبل کا کیا پروگرام طے کیا ؟ عمر کی کرنسی کم ہوجانے پہ موت کے قریب ہوجانے سے جزبات کیا تبدیل ہوئے ہیں؟

ہمیں زندگی کا وہ رخ ہی اپنانا ہے جو الله سبحانہ و تعالیٰ نے بتایا ہے.
” ولکل وجهة هو مولیها فاستبقو الخیرات “.
اپنی تاریخ پیدائش والے دن خوش ہونا اس کو زیب دیتا ہے جس نے اپنی قبر کے لئے مکمل تیاری کر رکهی ہو، موت سے قریب ہونے پہ تقریب منانا اس کے لئے خوشی کا باعث ہے جس نے اللہ تعالیٰ کو راضی کر لینے کا کوئی سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیا ہو. . اور یقیناً اس دن دوست احباب رشتہ داروں کو بھی اسی وجہ سے ضرور مبارک باد دینی چاہئے.

بچوں کو ہر سال کسی ایک سنت پہ عمل کرنے کی ترغیب دی جائے . ہر قوم کی تہذیب کا کوئی خاص شعار ہوتا ہے اسلامی تہزیب کا شعار ” حیا “ ہے۔ بچوں کو ہر سال حیا کے تقاضے سکھانے میں ایک قدم آگے بٹھایا جائے۔ محرم اور غیر محر م رشتوں کی بتدریج پہچان کرائی جائے۔ لباس کو ساتر بنانے کے لئے ہر سال آگے بڑھا جائے.

بچے کو اسلامی آداب کا کوئی ایک پہلو ہرسال سکھایا جائے اور اگلے سال اس کا تجزیہ کیا جائے کہ اس کے قول و فعل میں اس کا رچاؤ نظر آیا ہے یا نہیں.
” قد أفلح من زکا ها اور قد خاب من دساها “
کے شعور کو ہر سال اجاگر کرنے کو اجتماع ہو تو اس کو بھی سالگرہ یعنی سالانہ محاسبہ تقریب کہا جا سکتا ہے ۔ لوگ عموماً محاسبے کے نام سے دور بھاگتے ہیں اور جب کہا جائے کہ بچوں کو محاسبے کی عادت ڈالیں تو سمجھتے ہیں بچوں پہ ناروا ظلم کرنے کا کہا جا رہا ہے۔

اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرنا ہی ذلت اور پستی کی طرف جانے کی علامت ہے۔ ہم کہتے ہیں ہر سال محاسبہ کرو ، اچھی رپورٹ کی خوشی میں دعوت کرو .اور مزید اچھے ارادوں پہ احباب کو چاہیے کہ جوصلہ افزائی کے لئے تحفے تحائف بھی دیں.اور بری رپورٹ پہ خود پہ کوئی پابندی لگائیں. نفل نماز روزہ صدقہ سے اس کی تلافی کریں ۔ جنت کی طرف بڑھنے اس کا شوق دلانے نیکی کی ترغیب دلانے کے لیے ہر سال بچوں کو جمع کر لیں. دنیا کی خوشیاں، مستیاں، تقریبات، تحفے تحائف لینے دینے کے کلچر کو ” کلمہ گو “ بنا نے کی ضرورت ہے۔

اپنی زندگی کے ہر لمحے کو نفس مطمئنہ کا سرٹیفیکیٹ مل جانے کی خوشخبری جسے دنیا میں ہی مل گئی ہو وہ ببانگ دہل اپنے پیدا ہونے کی خوشی منائے اعلان کرے ، دعوتیں کرے ، مبارک بادیں وصول کرے…اس کو پورا حق حاصل ہے. کیا واقعی کسی کے پاس مرنے سے پہلے ایسا سرٹیفیکیٹ ہوسکتاہے؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں