جہیز

زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

راحیل بیگم نے جب اپنے بڑے بیٹے کی شادی کی تیاریاں شروع کیں تو بڑے چاؤ سے پوری برادری میں سے چن کربہترین گھر سے بہو کا انتخاب کیا۔ ان کا تعلق درمیانے درجے سے تھا جہاں ضروریات زندگی بس پوری ہوتی تھیں۔ وہ بڑے ذوق وشوق سے شادی کرکے بہو گھر لے کر آئیں۔

دونوں گھرانوں کو دیکھا جاتا تو لڑکے والوں کے حالات نسبتاً بہتر تھے تاہم فرق انیس بیس کا ہی تھا۔ بہو کا باپ اس کے بچپن میں فوت ہو چکا تھا اور بہو یتیم پلی بڑھی تھی۔ اس کے بھائی اور ایک چچا نے مل جل کر اس کی شادی کی تھی۔ اب بہو کے ساتھ جہیز بھی گھر میں آیا۔ جہیز کو دیکھ کر راحیل بیگم نے ناک بھوں چڑھائی اور شادی والے دن ہی ماتھے پر تیوریاں چڑھا کر بہو کو بری بھلی سنا دیں۔

یہ بھی انتظار نہ کیا کہ گھر میں مہمان موجود ہیں۔ اور دلہن سے کہنے لگیں کہ
” کیا یہ جہیز ہے؟ کیا جہیز ایسا ہوتا ہے؟ بس تمہاری ماں نے اتنا اور اس معیار (quality) کا جہیز دیا ہے۔ ہمیں تو توقع تھی کہ وہ تمہیں زیادہ اور اچھے معیار کا جہیز دے کر گھر بھر دیں گی۔ میرے اتنے قابل اور خوبصورت بیٹے کی بیوی نے صرف اتنا اور اس طرح کا معمولی جہیز لے کر آنا تھا۔“
گویا وہ اپنے بیٹے کی شخصیت (personality) اور قابلیت کو کیش (cash) کروانا چاہتی تھیں۔

وہ مزید گویا ہوئیں کہ
” جب میں اپنی بیٹیوں کی شادی کروں گی تو اتنا جہیز تو میں بھی اپنی بیٹیوں کو دے لوں گی۔“
نئی نویلی دلہن دل مسوس کر رہ گئی۔ جب دلہن کی والدہ تک یہ باتیں پہنچیں تو انہوں نے راحیل بیگم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ
” ہم نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر بلکہ قرض لے کر اپنی بیٹی کے لیے جہیز تیار کیا ہے اور اچھا جہیز دینے کی کوشش کی ہے۔“

ظاہر ہے کہ ہر شخص اپنی بیٹی کو حسب حیثیت بہترین جہیز دینے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر باپ کا سایہ سر پر نہ ہونے کی وجہ سے بہو کے گھریلو حالات سسرال والوں کے سامنے تھے کیونکہ خاندان ایک تھا۔ فطری طور پر بہو اور اس کے گھر والوں نے اس بات کو بہت محسوس کیا لیکن راحیل بیگم نے اس طرح کا رویہ اپنانے اور طعنے دینے کا سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رکھا۔ ان کے شوہر کی سپورٹ بھی ان کو حاصل رہی جنہوں نےساس بہو کے روایتی سیاسی معاملات میں ان کو منع نہ کرکے عملاً ان کا ساتھ دیا تھا۔

بہو کے دلہناپے کے ابتدائی دن گزرے اور اس نے گھریلو کاموں میں حصہ لینا شروع کردیا لیکن راحیل بیگم کے ماتھے سے بل نہ اترے۔ انہوں نے دیگر معاملات میں بھی سختی سے کام لیا۔ جواباً بہو صاحبہ بھی میدان میں اتر آئیں۔ ساس اور بہو دونوں کی آپس میں بالکل نہ بنی اور دلوں کے اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ بیٹا الگ پریشان رہتا تھا۔ وہ کبھی ماں کا ساتھ دیتا اور کبھی بیوی کو حوصلہ دیتا لیکن دلوں کی خلیج وسیع ہوتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ بیٹا اپنی بیوی کو قصوروار سمجھنے لگا اور ماں کو ہمیشہ سچا سمجھتا۔ ان کے شوہر کے ساتھ ساتھ ان کے باقی بچے بھی ماں کے حامی تھے۔ سسرال کی فضاؤں میں بہو کے لیے گھٹن تھی۔

وقت گزرتا گیا۔ دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بہو کی گود میں دو ننھے پھول اور ایک کلی کھلا دی۔ اس کے سر پر جب رفتہ رفتہ اولاد کی ذمہ داریاں پڑیں تو وہ لڑائی جھگڑے سے اجتناب کرنے لگی لیکن ساس اپنی بہو سے اختلاف اور لڑائی جھگڑے کے معاملہ کو جاری رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ لیتی تھی۔

بالآخر بیٹا اپنی بیوی کو لے کر دوسرے شہر میں منتقل ہو گیا جہاں اس کی اچھی ملازمت کا بندوست ہوگیا تھا۔ تب بہو کو راحیل بیگم کی سختیوں سے نجات ملی تاہم تب تک ساس کی وہ عادات اس کے شوہر کے اندر نمو پا چکی تھیں۔ کچھ اس کے شوہر کے جینز میں وراثتی اثرات بھی غالب تھے۔ وہ تو اب شوہر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی ساس کے فرائض بھی نبھا رہا تھا۔

نتیجتاً سسرال سے الگ ہونے کے بعد اپنے علیحدہ گھر میں بھی اس کو مسائل کا سامنا تھا۔ ان مسائل کے اثرات ان کے بچوں پر بھی پڑ رہے تھے اور ننھے منھے دل باپ اور دادی سے متنفر ہو رہے تھے۔

گزرتے ماہ وسال کے ساتھ راحیل بیگم کی بیٹیوں کی شادیوں کا وقت قریب آگیا۔ جو لوگ رشتہ دیکھنے آتے، وہ بڑی بیٹی کو رد کر کے چھوٹی بیٹی کا رشتہ مانگتے لیکن والدین انکار کر دیتے کیونکہ وہ پہلے بڑی بیٹی کا رشتہ کرنا چاہتے تھے۔ لوگ حسب پسند رشتہ نہ ملنے پر واپس چلے جاتے کیونکہ چھوٹی بیٹی ظاہری شخصیت، شکل و صورت، قدکاٹھ، صحت وغیرہ ہر لحاظ سے بڑی بیٹی سے زیادہ اچھی اور نمایاں دکھائی دیتی تھی۔ گفتگو اور کلام عقل و شعور میں بھی اسے بڑی بہن سے بہتری حاصل تھی۔

بہت مشکل سے بڑی بیٹی کا رشتہ فائنل ہوا اور چند مہینے بعد شادی طے پائی۔ منگنی اور شادی کے درمیانی عرصے میں مختلف مشکلات پیش آتی رہیں۔ اللہ اللہ کرکے شادی کا دن آیا۔ ماں باپ نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر اور قرض اٹھا کر جہیز تیار کیا۔

مقررہ تاریخ پر بارات آئی، نکاح ہوا، کھانا کھلایا گیا، اور بچی کو بروقت رخصت کر دیا گیا۔ ظاہری طور پر سب کچھ ٹھیک دکھائی دے رہا تھا لیکن دلہا کے گھر والوں کے رویے سرد سے تھے۔ اس موقع پر خوشی و مسرت اور جوش وخروش کا جو اظہار ان کی طرف سے ہونا چاہیے تھا، وہ مفقود تھا۔ راحیل بیگم کے دل میں قدرتی طور پہ پریشانی سی چھا گئی تھی۔

سردیوں کے دن تھے، شدید ٹھنڈ تھی، ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی۔ والدین بچی کو رخصت کرنے کے بعد اس کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔ شادی والے گھر میں رخصتی کے بعد والی مخصوص مصروفیات جاری تھیں۔ مختلف گھروں میں کھانا بھجوانے کا اہتمام ہو رہا تھا، گھر کی صفائیاں کروائی جا رہی تھیں، گھر میں موجود باقی مہمانوں کو ڈیل کیا جارہا تھا لیکن اہل خانہ کے دلوں میں تشویش بدستور موجود تھی۔

رات کو سخت تھکن کے باوجود راحیل بیگم کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ نرم گرم بستر میں کروٹیں بدل رہی تھیں۔ دل جیسے کسی صورت مطمئن ہونے کو تیار نہیں تھا۔ وہ لیٹی لیٹی بھی بے قرار دل کے ساتھ بیٹی کی اچھی قسمت کے لیے دعائیں کررہی تھیں۔ بالآخر جب انہیں کسی صورت نیند نہ آئی اور رات نصف سے بھی زیادہ گزر گئی تو انہوں نے اٹھ کرنیند کی گولی کھالی کیونکہ درد کی وجہ سے سر گویا پھٹا جا رہا تھا اور دل کی بےچینی اپنے عروج پر تھی۔ پھر بھی بڑی دیر بعد انکی آنکھ لگی۔

رات کے نجانے کس پہر وہ گرد و پیش سے بالکل غافل ہو کر سوئی تھیں۔ لیکن صرف دو اڑھائی گھنٹوں کے بعد صبح سویرے، تاروں کی چھاؤں میں، فجر کی اذان سے بھی پہلے، تہجد کے وقت موبائل کی بیل کی آواز سے گہری نیند سوئی راحیل بیگم کی آنکھ کھل گئی۔ پہلے تو انہیں ایسے محسوس ہوا گویا وہ خواب میں گھنٹیوں کی آواز سن رہی ہیں۔ لیکن مسلسل بیل نے بالآخر انہیں بیدار کر دیا۔انہوں نے ہڑ بڑا کر تکیہ کے نیچے سے موبائل نکال کردیکھا تو نئے داماد کے نمبر سے کال آ رہی تھی جس کے ساتھ کل بیٹی کو دلہن بنا کر رخصت کیا تھا۔

ماں کا دل جیسے کانپ گیا۔ لگاتار بیلوں کی وجہ سے کمرے میں موجود دیگر افراد کی بھی آنکھ کھل گئی تھی جو پریشانی سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ شوہر کے اشارے پر انہوں نے لرزتے ہاتھوں سے کال اٹینڈ کی تو دوسری طرف ان کی دلہن بیٹی پریشان لہجے میں بات کر رہی تھی کہ
” میرے شوہر اور سسرال والوں نے کہا ہے کہ میرے والدین نے جہیز بہت کم دیا ہے اور جو دیا ہے، وہ بھی گھٹیا کوالٹی کا ہے۔ اس لیے وہ ابھی آ کر اپنی بیٹی (یعنی مجھے) لے جائیں۔ وہ لوگ مجھے اپنے گھر میں رکھنے کو تیار نہیں ہیں۔“
آخری فقرے کی ادائیگی کرتے ہوئے بیٹی بلک بلک کر رونے لگی۔
فوراً موبائل بیٹی کے ہاتھ سے داماد نے پکڑ کر کال کاٹ دی۔

یہ باتیں سن کر راحیل بیگم کے قدموں سے جیسے زمین نکل گئی اور انہوں نے بدحواس ہو کر موبائل اپنے شوہر کو پکڑا دیا۔ ان کے کانوں میں سالوں پہلے اپنی نئی دلہن بہو کو اس کی شادی کے پہلے دن کہی گئی اپنی ہی بات کی بازگشت سنائی دینے لگی کہ ” اچھا! یہ ہے تمہارا جہیز! اتنا تو میں بھی اپنی بیٹیوں کو دےلوں گی۔“

بچا کوئی مکافات عمل سے
وہی کاٹے گا جو بوتا رہے گا

ان کے شوہر نے موبائل پکڑ کر بات شروع کی لیکن دوسری طرف سے رابطہ منقطع ہو چکا تھا۔ انہوں نے خود داماد کے موبائل نمبر پر کال ملائی لیکن اس نے کال اٹینڈ نہ کی۔ انہوں نے بار بار کوشش کی تو داماد کے بجائے بیٹی نے فون اٹھایا۔
انہوں نے اس سے پوچھا کہ ” بیٹی! کیا مسئلہ ہے؟“
تو بیٹی نے روتے ہوئے بڑی مشکل سے پہلی بات دہرا دی۔ انہوں نے بیٹی کی بات سن کر اسے کہا کہ
” وہ اپنے شوہر سے ان کی بات کروائے۔“

لیکن داماد بات کرنے کو تیار نہ تھا۔ بڑی مشکل سے داماد فون سننے پر آمادہ ہوا تو انہوں نے اسے کچھ سمجھایا بھجایا لیکن اس پر چنداں اثر نہ ہوا اور وہ اپنی بات پر مصر رہا۔ وہ بڑی بدتمیزی اور بدلحاظی سے کہہ رہا تھا کہ
” آپ نے اپنی بیٹی کو جہیز میں دیا ہی کیا ہے؟ اور میرے لیے، میری ماں اور بہنوں کے لیے آپ نے کیا کیا ہے؟“

اس نے مزید کہا کہ
” میرے گھر والوں کو بہت شکوہ ہے کہ دلہن والوں نے ساس کو سونے کا سیٹ کیوں نہیں پہنایا؟ صرف سونے کی انگوٹھی کیوں دی ہے؟ اور نندوں کو بھی سونے کی انگوٹھیاں کیوں نہیں دیں؟ انہیں صرف کپڑے کیوں دیے ہیں؟ اس کے علاوہ دلہے کو سونے کی انگوٹھی کیوں نہیں پہنائی؟ سستا موبائل کیوں لے کر دیا ہے، فلاں کمپنی اور فلاں برانڈ کا قیمتی موبائل کیوں نہیں لے کر دیا؟ نیز دلہے کو موٹرسائیکل کیوں نہیں لے کر دی؟“
وہ ایسے بات کر رہا تھا گویا اس معاملے سے اس کا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ اس کے اہل خانہ کے تاثرات ہیں۔

حالانکہ دلہا دلہن دونوں کا تعلق جس طبقے سے تھا، وہاں شادی کے موقع پر دلہے کے لیے اتنی چیزوں کا بندوبست کرنا اور ساس کو سونے کا سیٹ اور نندوں کو سونے کی انگوٹھی پہنانا ان کی حیثیت سے کہیں بالاتر تھا۔ بیٹی کو جہیز میں گھر کا مناسب سامان دینا، دلہے کی مناسب ضروریات پوری کرنا اور سسرال والوں کو کپڑے لے کر دینا ہی ان کے لیے بہت بڑی بات تھی۔ اور ساس کو سونے کی انگوٹھی پہنانا تو ان کے نزدیک بہت بڑی بات تھی۔ اور سونا مردوں کے لیے تو ویسے ہی حرام ہے۔ اسی لیے تو انہوں نے دلہے کو موبائل لے کر دیا تھا۔

داماد نے بالآخر یہ کہہ کر موبائل بند کر دیا کہ
” آپ لوگ ابھی آکر اپنی بیٹی کو اپنے گھر واپس لے جائیں۔“
داماد کی گفتگو، اس کے اکھڑ لہجے اور خطرناک تیوروں سے اتنا اندازہ تو بہرحال انہیں ہو چکا تھا کہ معاملہ اب کنٹرول سے باہر ہے اور انہیں اپنی بیٹی کو گھرلانا ہی پڑے گا۔

اس صورتحال پر اتنی سخت سردی میں بھی راحیل بیگم اور ان کے شوہر کی پیشانیاں عرق آلود ہو گئیں۔ انہوں نے آخری حربے کے طور پر اپنے سمدھی (بیٹی کے سسر) کا نمبر ملایا لیکن رات کے اس پہر وہ بند جا رہا تھا۔ کمرے میں موجود باقی نفوس کو بھی صورتحال کا اندازہ ہو چکا تھا۔ انہوں نے فوراً اپنے بیٹوں کو بیدار کرکے انہیں اس صورتحال سے آگاہ کیا۔ سب انتہائی پریشان ہو گئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ فکر بھی لاحق تھی کہ تہجد کے وقت وہ کس طرح اتنی جلدی سواری کا بندوبست کرکے اتنی دور جائیں اور اپنی بیٹی کو گھر واپس لانے کا بندوبست کریں۔

راحیل بیگم پریشانی میں وضو کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوگئیں اور رو رو کر صورتحال کی بہتری اور اپنی عزت خاک میں نہ ملنے کی دعائیں مانگنے لگیں۔ انہیں دیکھ کر باقی لوگ بھی دعائیں کرنے لگے۔ یہ ان لوگوں کے لیے گویا حشر کا ساماں تھا۔ پھر ان کے شوہر کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خیال پیدا ہوا کہ ” رشتہ کروانے والے صاحب کو بیچ میں ڈالا جائے تاکہ وہ مسئلے کو صحیح طریقے سے حل کروائیں۔“

انہوں نے کچھ دیر انتظار کیا اور جب فجر کی اذان ہوگئی تو نماز کی ادائیگی کے بعد رشتہ کروانے والے صاحب سے رابطہ کرکے ان کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ ان صاحب نے بڑی مشکل سے ان کے سمدھی سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ اور ان کی اہلیہ ساری صورتحال سے آگاہ ہیں اور اپنے بیٹے کے اس مؤقف کے حامی ہیں۔ بلکہ ان کی صواب دید پر ہی ان کے دلہا بیٹے نے یہ رویہ اختیار کیا ہے۔

نجانے ان لوگوں کو اپنے بیٹے کی شادی اور بہو کےجہیز سے کیا کیا امیدیں تھیں جو جہیز دیکھ کر خاک میں مل گئی تھیں۔ پھر ان صاحب کے سمجھانے اور پھر لعنت ملامت کرنے پر انہوں نے بہو کے گھر والوں کو انہی صاحب کی معرفت یہ پیغام دے دیا کہ ” بہو کے والدین آج ہی ان کے ڈیمانڈ کردہ مزید جہیز کا بندوبست کرکے اپنی بیٹی کے سسرال میں پہنچائیں یا پھر اپنی بیٹی کو ابھی اپنے گھر واپس لے جائیں۔“

راحیل بیگم اور ان کے گھر والوں نے سکھ کا سانس لیا کہ لڑکی کو فوری طور پر گھر واپس لانے کا دشوار گزار مرحلہ ایک دفعہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے لیکن اگلی ہی سانس میں انہیں جہیز کا مزید بندوبست کرنے اور نئی موٹر سائیکل خریدنے کی ٹینشن لاحق ہوگئی۔

بہرحال مرتے کیا نہ کرتے، کے مصداق انہوں نے جیسے تیسے کرکے مختلف لوگوں سے قرض لیا اور دلہا والوں کی ڈیمانڈ کے مطابق ضروریات پوری کرکے ولیمے سے پہلے بیٹی کی سسرال میں ان اشیاء کو پہنچانے کا بندوبست کیا۔ اور پھر وہ اس قابل ہوئے کہ اپنی بیٹی کے ولیمے میں شامل ہوں اور بیٹی اور نئے داماد کو عزت سے رسما گھر لے کر آئیں۔

مکافات عمل خود راستہ تجویز کرتی ہے
خدا قوموں پہ اپنا فیصلہ جاری نہیں کرتا

لیکن اشیاء کی ڈیمانڈ کا یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوگیا۔ بعد میں وقتاً فوقتاً راحیل بیگم کو انتہائی تکلیف اور مشقت کے ساتھ اپنی بیٹی کی ازدواجی زندگی کی خاطر داماد کی مختلف فرمائشوں کو پورا کرنے کے سلسلے کو جاری رکھنا پڑا۔ اور جہاں کہیں ان کی طرف سے انکار کی صورت پیش آئی، وہیں سسرال والوں اور شوہر نے ان کی بیٹی کو میکے بھجوا دیا۔ حتیٰ کہ اس سلسلے کا اختتام تقریباً دو سال بعد بیٹی کی موت پر ہوا جو ڈلیوری کے موقع پر فوت ہوگئی تھی اور اس کا بچہ بھی پیدائش کے آدھے گھنٹے بعد فوت ہو گیا تھا۔

راحیل بیگم نے جب کچھ عرصے بعد دوسری بیٹی کی شادی کی جو ظاہری شخصیت اور طور اطوار میں ہر لحاظ سے سے بڑی بیٹی سے نمایاں اور بہتر تھی تو وہاں اسے دوسری طرح کے مختلف مسائل درپیش رہے۔ انجام کار صرف سوا دو سال بعد دو بچوں کے ساتھ دوسری بیٹی کو خلع لینی پڑی کیوں کہ اس کا وہاں گزارا کسی صورت ممکن نہیں تھا۔ راحیل بیگم حیران و پریشان تھیں کہ چھوٹی بیٹی تو عقل و شکل ہر چیز میں باکمال تھی، پھر اس کے ساتھ تقدیر کا کیا معاملہ ہوگیا؟؟؟

لیکن ٹھریے!
کیا یہ مکافات عمل نہیں ہے؟
جو راحیل بیگم نے اپنی بہو کے لیے برا چاہا اور اس کے ساتھ برا کیا تو اس سے کہیں بدتر حالات ان کی اپنی بیٹیوں کے ساتھ پیش آئے۔ حتیٰ کہ ان کی ازدواجی زندگیاں داؤ پر لگی رہیں اور ایک بیٹی کی خلع اور دوسری بیٹی کی طبعی موت پر اس داستان حقیقی کا اختتام ہوا۔

جو دکھ کی فصل ہے تو اب دکھ کاٹنا ہوگا
مکافات عمل سمجھے اشارہ ہوگیا ہوتا

مکافات عمل کی چکی چلتی بہت آہستہ ہے مگر پیستی بہت باریک ہے۔
الللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے اقوال و افعال کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں لوگوں کے لیے ہمیشہ نافع بنائے۔ آمین ثم آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

6 پر “زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے” جوابات

  1. عائشہ بی Avatar
    عائشہ بی

    بہترین معاشرے کیلئے بہترین ۔۔۔۔۔۔ معاشرے کیلئے زبردست ۔۔ ماشااللہ ۔۔۔۔۔۔۔

  2. SA Avatar
    SA

    ایسے واقعات حقیقتا زندگی میں دیکھے بھی ہیں۔ ساس اور نندیں جو سلوک بہو کے ساتھ رکھتی ہیں، بعد میں کئی مرتبہ انھیں خود یہی کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔

  3. احمد Avatar
    احمد

    ماشاء اللہ. بارک اللہ.
    بہت پیارے انداز میں لکھی گئی زبردست تحریر ہے.

  4. احمد Avatar
    احمد

    زندگی حقیقت میں مکافات عمل کا نام ہے لیکن افسوس کہ انسان ان حالات اور واقعات سے سبق نہیں سیکھتا.

  5. حافظ عبداللہ سلیم Avatar
    حافظ عبداللہ سلیم

    ہمارے معاشرے کی اس کڑوی حقیقت بہت خوب آشکارا کیا ہے.

  6. حافظ عبداللہ سلیم Avatar
    حافظ عبداللہ سلیم

    اللہ دے زور قلم اور زیادہ