ڈاکٹر امتیاز عبد القادر
مرکز برائے تحقیق و پالیسی مطالعات ، بارہمولہ
پہلے یہ پڑھیے :
فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 1 )
1۔ تبلیغی جماعت :
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہندوستان کے دیہاتوں میں آریوں کی کوششوں سے ارتداد کی وبا بڑے زوروں پرتھی۔ اس آگ کوبجھانے کے لئے ہندوستان کے یمین ویسارسے مسلمان انجمنیں سرگرم عمل ہوئیں۔انہی حالات میں مولانا محمد الیاس نے خاموشی کے ساتھ اس وبا سے مسلم اذہان کومحفوظ رکھنے کے لئے مبنی برخلوص جدوجہد شروع کی۔
مولانا الیاس مرحوم نے اپنا مرکز’ میوات ‘ کو بنایا اورایک دہائی کے اندراندر وہاں کی کایاہی پلٹ دی۔’ میو‘ قوم دہلی کے گرد ونواح اور قرب وجوارمیں آباد تھے۔ میوات کے مسلمانوں کی مذہبی حالت کے بارے میں انیسویں صدی کے ایک انگریزآفیسرو مؤرخ میجر پاؤلٹ لکھتاہے:
” میوات تمام تر مسلمان ہیں لیکن برائے نام ۔ ان کے گاؤں کے دیوتا وہی ہیں جو ہندو زمینداروں کے ہیں۔ وہ ہندوؤں کے کئی ایک تہوارمناتے ہیں۔ ہولی میواتیوں میں مذاق اور کھیل کھیلنے کا زمانہ ہے اوراتنا ہی اہم اورضروری تہوارسمجھا جاتا ہے جتنا محرم ،عید اور شب برات ۔ اسی طرح وہ جنم اشٹمی، دسہرہ اور دیوالی مناتے ہیں۔۔۔
’ میو ‘ اپنے دین سے بہت ناواقف ہیں۔ خال خال کوئی کلمہ جانتا ہے اورپابندی سے نمازپڑھنے والے اس سے بھی کم ہیں ۔۔۔ میو اپنی عادات میں آدھے ہندوہیں۔ ان کے گاؤں میں شاذ و نادر ہی مسجدیں ہیں۔( بحوالہ ’ مولانا محمد الیاس اوران کی دینی دعوت ‘۔ ص 68)
ان حالات میں مولانا الیاسؒ نے دعوت کا آغاز کیا اور اپنی محنت اور جانفشانی سے وہاں کے باشندوں میں دین کے تئیں رغبت پیدا کی۔ مسجدیں تعمیراورآباد ہوگئیں ۔ صد ہا مدارس قائم ہوئے۔ اکتوبر1939ء کو مولانا سید ابو الاعلٰی مودودی ’ میوات ‘ گئے۔ دوران سفر جومشاہدہ انہوں نے کیا،اس کا خاکہ انہوں اپنے قلم سے یوں کھینچا:
” مولانا محترم ( مولانا الیاس مرحوم ) نے خود اسی قوم کے مبلغوں سے اس کی اصلاح کا کام لیا اوران کی پیہم کوششوں کا نتیجہ، جو میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں یہ ہے کہ بعض علاقوں میں گاؤں کے گاؤں ایسے ہیں جہاں ایک بچہ بھی آپ کو بے نمازی نہ ملے گا۔ دیہات کی وہ مسجدیں جہاں یہ لوگ کبھی اپنے مویشی باندھتے تھے،آج وہاں پانچوں وقت کی اذان اورجماعت ہوتی ہے۔
آپ کسی راہ چلتے دیہاتی کوروک کراس کاامتحان لیں تووہ آپ کوصحیح تلفظ کے ساتھ ’ کلمہ ‘ سنائے گا ۔۔۔ ان کے عادات وخصائل اوران کے اخلاق میں بھی اس مذہبی تعلیم وتبلیغ کی وجہ سے نمایاں فرق ہوگیا ہے۔ اب وہ متمدن اور مہذب طرززندگی کی طرف پلٹ رہے ہیں۔ جرائم میں حیرت انگیزکمی ہوگئی ہے۔“ (ترجمان القرآن، جلد 15۔ عدد 2، اکتوبر1939)
مولانا نے ذاتی تجربے سے محسوس کیا کہ ضروری ہے کہ اصلاحِ احوال کے لئے ایک دینی ماحول پیدا کیا جائے جو گھر بیٹھے ممکن نہیں۔ عوام کو وقت فارغ کرکے علماء وصلحاء کی صحبت میں کچھ وقت گزارنا چاہیے۔ جماعتوں کوتشکیل دیاجائے اورقریہ قریہ ، گاؤں گاؤں اپنی اور ابنائے قوم کی اصلاح کے لئے ہردرپرجانا چاہیے۔ مولانامحمد زکریا مرحوم کوایک خط میں لکھتے ہیں:
”عرصہ سے میراخیال ہے کہ جب تک علمی طبقہ کے حضرات اشاعت دین کے لئے خود جا کرعوام کے دروازوں کو نہ کھٹکھٹائیں اورعوام کی طرح یہ بھی گاؤں گاؤں اور شہرشہر اس کام کے لیے گشت نہ کریں،اس وقت تک یہ کام وجہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ عوام پر جو اثر اہل علم کے علم و حرکت سے ہوگا وہ ان کی دھواں دھارتقریروں سے نہیں ہوسکتا۔ اپنے اسلاف کی زندگی سے بھی یہی نمایاں ہے کہ جو آپ حضرات اہل علم پربخوبی روشن ہے۔“ (مولانا محمد الیاس اوران کی دینی دعوت۔ ص 114-115)
دعوت اور تبلیغ کے لیے مولانا الیاسؒ نے گشت اورسفر کا طریقہ اختیار کیا۔ مصروف زندگی میں عارضی ترکِ وطن یا ’غربت ‘ اختیار کرنے پر لوگوں کو آمادہ کیا جائے تاکہ یکسو ہوکر وہ دین کی بنیادی باتیں ، کلمہ ، نماز وغیرہ کاعلم حاصل کریں ۔ مولانا مرحلہ وار مسلمانانِ ہند کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ ابتدا کلمہ و نماز کی درستگی اور انہیں باور کرانا کہ ہم کس عظیم دین کے وارث ہیں۔ اس کے شانہ بشانہ وہ دین کواجتماعی زندگی میں بھی عملانے کے خواہاں تھے، وہ لکھتے ہیں:
” جس قوم کی پستی کلمہ لااِلہ الّا اللہ کے لفظوں سے بھی گرچکی ہو، وہ ابتدا سے درستی کئے بغیرانتہا کی درستگی کے کب قابل ہوسکتی ہے۔ انتہا ابتدا کے درست ہوئے بغیر نہیں ہوسکتی، اس لئے میں نے درمیانی اور انتہائی خیالات بالکل نکال دئیے۔ ابتدا درست ہوکرراستہ پر پڑجائیں گے توانتہا پرخود بھی پہنچ جائیں گے اورابتدا کے بگڑے ہوئے، انتہاکی درستگی کاخیال ہوس اوربوالہوسی کے سواکچھ نہیں۔ “ (احیائے دین اورہندوستانی علماء۔ ص241 ازڈاکٹرعبیداللہ فہد)
اس جماعت کے چھ بنیادی اصول ہیں۔ یہ جماعت ان اصولوں کے اردگرد گھومتی ہے۔ تصحیح کلمہ، تصحیح نماز، تصحیح علم وذکر، تفریغ اوقات، اکرامِ مسلم اورتصحیح نیت۔ جماعت پورے عزم کے ساتھ ان اصولوں پرکاربند ہے اوراستقامت کے ساتھ جماعت کے کاموں میں دلچسپی کامظاہرہ کرتے ہیں۔
تبلیغی جماعت کئی پہلوؤں سے مفید اورکارآمد خدمات انجام دے رہی ہے۔ مسلمانوں کے اُن طبقات تک انہوں نے دین پہنچانے کی کوشش کی ہے جن تک عام حالات میں کسی اور کے ذریعے سے دین پہنچانا ممکن نہیں ہوتا۔ وہ اپنی مخلصانہ کوششوں میں مصروف ہے جس کی قدردانی ہمارا اخلاقی فریضہ ہے۔
تبلیغی جماعت اپنی نمایاں خصوصیات اور منفرد اوصاف کی وجہ سے پوری دنیا میں امتیازی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔ دنیاکے 210 سے زائد ممالک میں یہ کام انجام پا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 30 ملین سے زیادہ افراد اس جماعت سے وابستہ ہیں۔ اس طرح یہ دنیا کی سب سے بڑی مسلمانوں کی مذہبی جماعت ہے۔ جماعت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ فنڈنگ اور چندہ کا کوئی نظام نہیں۔ نشرواشاعت کا کوئی محکمہ نہیں۔ ان کی زندگی کا محور’ کلمہ ‘ کا صحت الفاظ کے ساتھ یاد کرنا اوراس کے معنی ومفہوم کوسمجھنا اور ذہن نشین کرکے اپنی پوری زندگی کو اس کے موافق بنانے کی فکرکرنا ہے۔
نماز کی پابندی اس کے آداب وشرائط کالحاظ رکھتے ہوئے خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنا۔ شب وروز کے اکثراوقات ذکروفکر اور یادِ الٰہی میں گزارنا ہے۔ البتہ قرآن کے ساتھ وابستگی و دلبستگی کے جو طریقے مولانااحتشام الحسینؒ کاندھلوی نے بانی جماعت مولانامحمدالیاسؒ کے ارشاد کے مطابق مرتب فرمایا تھا اور تبلیغی جماعت کی مشہور کتاب ’ فضائلِ اعمال ‘ کا ایک جزء بھی ہے، اُس پرہنوزعمل پیرا ہونا باقی ہے، وہ لکھتے ہیں:
” قرآن کریم کے ساتھ وابستگی و دلبستگی پیدا کرنا جس کے دو طریقے ہیں:
(الف) کچھ وقت روزانہ ادب واحترام کے ساتھ معنی ومفہوم کادھیان رکھتے ہوئے تلاوت کرنا۔
(ب) اپنے بچوں اوراپنے محلّہ اورگاؤں کے لڑکوں اورلڑکیوں کوقرآن مجیداورمذہبی تعلیم کی فکرکرنا اور ہر کام پراس کو مقدم رکھنا۔ “( پستی کا واحد علاج ۔ ص646)
لیکن حقیقت میں نوّے سالوں سے یہ جماعت کچھ معاملات میں اُسی ڈگر پر ہے جس پرمولانا الیاس مرحوم اسے چھوڑکرگئے ہیں۔ اس جماعت کو’ تحریک ‘ کہنا کسی طور بھی مناسب نہیں کیونکہ ’ تحریک ‘ نام ہے یک رنگی اورجمود کو توڑکرتحرّک وتبدّل پیداکرنے کا۔ ابتداسے ارتقاء کی طرف سفرکا۔ حالات و واقعات کو دیکھ کرتقاضوں کو پُرکرنے کا۔ لیکن ’ تبلیغی جماعت ‘ میں یہ سب چیزیں مفقودہیں۔ وہی’ کلمہ ‘ کی تصحیح اورنمازوں کی تاکید جو مولانا الیاس نے اُس ماحول میں شروع کیاتھا، جس ماحول کواس چیزکی ضرورت تھی۔ دنیا بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ دورِجدید کے نئے تقاضے ہیں۔ اس جماعت کواب آگے بڑھنا چاہیے۔ تبلیغی جماعت اصل میں ایک اصلاحی جماعت ہے۔ انہوں نے خصوصی طور پر مسلمانوں کی بستیوں کواپنی دعوت کا دائرہ کار بنایا۔ اس جماعت کی بے پایاں خدمات ہیں لیکن کوئی انسانی کاوش تسامح اورکمزوریوں سے مبرّا نہیں۔ تبلیغی جماعت بھی ان چیزوں سے پاک نہیں۔اس جماعت میں چند چیزیں قابل اصلاح ہیں:
1۔ جیساکہ سطورِبالا میں لکھا گیا کہ جس پس منظر میں مولانا الیاسؒ نے اس جماعت کی بنیاد رکھی، اُس وقت میوات میں اُسی چیزکی ضرورت تھی لیکن جوں جوں زمانہ آگے بڑھا ترجیحات میں بھی تبدیلی لانا لازمی تھی۔جس کلمہ کی تصحیح اُس خاص ماحول میں مولانا کرتے رہے، وہ ماحول اب نہیں رہا۔ اس جماعت کو ’ جمود ‘ کو توڑ کراب ’ تحریک ‘ پیدا کرنا چاہیے۔
2 ۔ اسلام صرف مسلمانوں کی میراث نہیں بلکہ غیرمسلم بھی اس کے مخاطب ہیں۔ تبلیغی جماعت اس وقت پوری دنیا میں کام کررہی ہے۔ سب سے بڑی منظم جماعت کے طورپہچانی جاتی ہے لیکن یہ جماعت صرف مسلمانوں کے بیچ رہ کر ان کی اصلاح کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ جماعت کوچاہیے کہ دنیا کے غیرمسلم حضرات کو بھی دعوت دین کامخاطب بنائے۔ اس کام کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کرے ۔
3۔ مسلک اورمکتبہ فکرقابلِ تبلیغ وتشہیرنہیں۔ اللہ ہم سے اس بارے میں سوال نہیں کرنے والا کہ ہم نے اپنے مسلک کو دنیا کے کتنے حصے پر’ غالب ‘ کیا اور کتنی بڑی جمعیت کواپنی ’ فکر ‘ کا اسیر بنایا ہے۔ قابل تبلیغ صرف اسلام ہے۔ اپنی حدود میں رہ کر، اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کراُس دین کوعام کیا جائے جورسول اللہ ﷺ لے کرآئے تھے لیکن ہماری دینی جماعتوں کا حادثہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنے مسلک ، مکتبِ فکر اور نظریہ پر’ ایمان ‘ لانے کے لئے شب و روز اپنی صلاحیتیں کھپا رہے ہیں اورجواس پر’ایمان‘نہ لائے اُس کے عقیدے کوشُبہ کی نظرسے دیکھتے ہیں۔یہ اپروچ دینی جماعتوں کے لئے لمحۂ مرثیہ ہے۔
4 ۔ اسلام صرف ’ کلمہ ‘ اور’ نماز‘ تک ہی محدود نہیں ہے۔ بلکہ زندگی گزارنے کے لئے ایک مکمل نظام ہے۔ عبادات ، معاملات ، سیاست ، معاشرت، معیشت، صلح، جنگ غرض سب کچھ اس میں شامل ہے۔ بدلتے زمانے کے تقاضوں نے اس کے احکام کوقصہ پارینہ نہیں بنایا اور نہ اس کے عجائبات تا قیامت ختم ہوں گے۔ اس لئے تبلیغی جماعت کو بھی اپنے متبعین و دیگرمسلمانوں کے سامنے اسلام کی مکمل تصویر پیش کرنی چاہئے۔
مولاناالیاسؒ کا مقصود بھی یہی تھا۔ مولانا مرحوم نے حافظ عبدالطیف کوایک خط میں لکھا تھا کہ:
” زیادہ زوراس امر پردیا جائے کہ قوم اپنی پنچایتیں اوراپنے سب کاروبار اور سب فیصلے شریعت کے موافق کرنے ہی کواسلام سمجھے، ورنہ اسلام نہایت ناقص ہے بلکہ بسا اوقات احکام شرعیہ کی بے وقعتی اور بے رخی اور توہین کی بدولت اسلام جاتا رہتا ہے اوریقینََا کمزور ہوجاتا ہے۔“ (احیائے دین اورہندوستانی علماء۔ص 242 )
مولانا الیاسؒ نے جو دعوت شروع کی تھی اُس کا ایک مقصد تنفیذِ شریعت کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنا بھی تھا لیکن رفتہ رفتہ اُن کی وہ تعلیمات زمانہ کی ’ گرد ‘ تلے دب گئیں:
” ہماری اس تحریک کا اصل مقصد ہے مسلمانوں کو’ جمیع ماجاء بہ النّبی‘سکھانا۔ یہ تو ہے ہمارا اصلی مقصد۔رہی قافلوں کی چلت پھرت اورتبلیغی گشت، سو یہ اس مقصد کے لئے ابتدائی ذریعہ ہے اورکلمہ و نمازکی تلقین وتعلیم گویا پورے نصاب کی الف ‘ ب ‘ ت ‘ ہے۔“ ( ملفوظات حضرت مولاناالیاس۔ ص31)
5 ۔ اسلام میں کافی وسعت ہے۔ ہردور میں علماء، محقیقن و مشاہیر دین پرغور کر کے فہم حاصل کرکے اُس پرعمل پیرا ہوتے رہے ہیں اورہوتے رہیں گے۔ جتنی بھی جماعتیں، ادارے اورتنظیمیں قائم ہوئی ہیں یا ہوں گی۔وہ جس نظریہ یا فکر کی حامل ہوں، ظاہرہے وہ سب اب اجتہادی جماعتیں یا نظریے اورافکار ہیں۔ اب کوئی براہِ راست اللہ تعالٰی کی طرف سے مامور نہیں اور نہ ہی کسی پر اب جبرائیلؑ عرش سے کوئی پیغام لاتے ہیں۔
اجتہاد، فہمِ دین یا نظریہ و فکر پرایمان لانا مسلمانوں پرفرض ہے نہ ہی کسی امیر، صدر یا پیر کی بیعت ’ ہدایت یافتہ ‘ ہونے کی ضمانت۔ خود کو’ ناجی ‘ یا ’ کشتی نوح ‘ میں سوار اور’ حق ‘ کی علمبردار جماعت تصورکرکے باقی مسلمانوں کواس ’ حق ‘ سے منحرف و گمراہ گرداننا بہت بڑی زیادتی ہے۔ اس دعوے کا کوئی سر ہے نہ پیر۔ جماعتوں، تنظیموں ا ور اداروں کویہ سمجھ لینا چاہیے کہ حتمی طورکسی کوحق یا باطل اور گمراہ یا ہدایت یافتہ گرداننا، یہ صرف انبیاء و رُسل کا کام تھا،ہمارانہیں۔ چاہے کوئی کتنا بڑاعلامہ دہر ہی کیوں نہ ہو۔
6۔ حضورﷺ نے قرآن کے ذریعے مکہ ومدینہ میں صحابہؓ میں صالح تبدیلی لائی۔ اُن کے اخلاق واطوارسنوارے۔ذریعہ دعوت قرآن تھا اور کوئی چیز نہیں ۔ ایمان اور اسلام کی تفہیم اُن صالح نفوس نے قرآن کے ذریعے ہی حاصل کی ۔ فی زمانہ ہمارے اسلاف نے معاشرے کے امراض کو اسی نسخٗہ کیمیا سے علاج کیا جو رسالت مآب ﷺ جبلِ نوُرکی اُس غارسے لائے تھے اورتئیس سال تک لوگوں کے باطنی امراض کاعلاج کرتے رہے۔ مذکورہ جماعت اس نسخہ سے بے پروا دکھائی دیتی ہے۔ کارِ نبوّت بغیر قرآن کی تبلیغ ، تشہیر و تفہیم کے ممکن نہیں۔اسے سمجھنا، اس پر عمل کرنا اورسمجھانا اصل میں یہی تو کارنبوت ہے اورموجودہ دورکاتقاضا بھی۔ امامِ مالک ؒ نے تو کہا تھا کہ ’ جس چیز نے اس اُمت کے ابتدا کی اصلاح کی، وہی اِس اُمت کے انتہا کی اصلاح کرسکتا ہے۔‘ لیکن اس وقت قرآن کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کا یہ ہدایت نامہ مستحق ہے۔ تبلیغی جماعت کوقرآن کو ہی اپنی دعوت، اصلاح اورتزکیہ علم وعمل کا ذریعہ بناناچاہیے۔
7 ۔ عہدِ حاضرمیں اخوّت، اتحاد، برداشت اورمحبت کی بہت کمی ہے۔ بالخصوص مذہبی جماعتوں میں اس کا فقدان بہت بڑالمیہ ہے۔ رحمۃ اللعالین ﷺ کے دین کو ضیقِ صدر، نفرت اورعدم برداشت پیدا کرکے عام نہیں کیا جا سکتا۔ جتنی بھی جماعتیں اس وقت کام کررہی ہیں اورمستقبل میں کام کریں گے، کسی نے کوئی’ دکان ‘ نہیں کھولی ہے کہ سمجھنے لگے کہ جس نے ہماری دکان سے سودا نہیں خریدا، وہ ہمارادشمن ہے۔
سبھی اپنے فہم کے مطابق دین کی خدمت پرہی کھڑے ہوئے ہیں۔ ہرکوئی اللہ کی طرف بُلا رہا ہے۔ اس لئے فطری طور پر جتنی بھی دینی جماعتیں کام کررہی ہیں، انہیں آپس میں محبت ہونی چاہیے۔ رسہ کشی سے ہم صرف اسلام کا تشخص مٹائیں گے اگرچہ اپنے ’ مسلک ‘’ فکر ونظریہ ‘ کے فتح کے جھنڈے ہی کیوں نہ گاڑ دیں۔ ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑا نہیں ہونا ہے بلکہ اسلام کی صف میں کھڑا ہوکر کفر و جاہلیت کی صف سے’ مقابلہ ‘ کرناہے۔ اختلاف ، انتشار و افتراق کا باعث نہ ہو جو کہ بدقسمتی سے واقع ہوچکا ہے۔
8 ۔ اسلام نے پاپائیت کا قلع قمع کیا ہے۔ رسالت مآب ﷺ کی ذاتِ اقدس کے سوا کسی کی بات حتمی نہیں بلکہ اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ اُن کے سوا کسی کی’ سمع وطاعت ‘ غیر مشروط نہیں۔امیر، بزرگ، پیر، مرشد، عالم غرض کوئی ہستی بھی اس درجے کی نہیں کہ آنکھیں بند کرکے ان کی اتباع کی جائے۔
کسی بھی شخص کی رائے، قول و فعل اگراسلام کے مزاج سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو اسلام نے ہمیں حق دیا ہے کہ معروف طریقے پراُس سے اختلاف کرکے اپنی بات رکھیں۔ ہر مذہب کے لوگ اپنے علماء و پیشواؤں سے عقیدت رکھتے ہیں۔ یہی عقیدت جب حد سے بڑھ جائے تو وہ اندھی تقلید میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اُن کی نظر صرف ’ شیخ ‘ کے حکم پر ہوتی ہے۔ اس کے صحیح وغلط ہونے سے عقیدت مندوں کو سروکار نہیں ہوتا۔مولانامحمدالیاسؒ کی نظر مسلمانوں کے اس مرض پرتھی۔ چنانچہ اس مردِ درویش نے خود اپنے بارے میں، اپنے عقیدت مندوں کو واضح لفظوں میں کہاتھا:
” میری حیثیت ایک عام مومن سے اونچی نہ سمجھی جائے۔ صرف میرے کہنے پرعمل کرنا بددینی ہے۔ میں جوکچھ کہوں اس کو کتاب وسنت پر پیش کرکے اور خود غور و فکر کرکے اپنی ذمہ داری پرعمل کرو۔ میں تو بس مشورہ دیتا ہوں۔“(ایضََا ص 172)
تبلیغی جماعت کے مبلغین کو پیر پرستی کے فتنہ سے خبردار کرتے ہوئے مولانا ئے محترم نے کہا:
” اپنے نفس کے فریب سے ڈرتے رہیں۔ نفس اس مقبولیت ومطلوبیت کواپنا کمال نہ سمجھنے لگے۔ نیزاس صورت میں پیرپرستی کے فتنہ کا بھی سخت اندیشہ ہے لہذا اس سے خاص طورسے خبرداررہیں۔“ (ایضََا۔ ص 32)
لیکن بانی جماعت کی اس تنبیہہ کے باوجود مذکورہ جماعت پیرپرستی وشخص پرستی سے محفوظ نہ رہ سکی۔تبلیغی جماعت فی الوقت قدیم پیری مریدی کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ ماضی میں یہ انفرادی نوعیت کامعاملہ تھا،اس جماعت نے اسے اجتماعی شکل دے دی۔
9۔ ہرتحریک کی ابتدا ہوتی ہے لیکن وہ’ زندہ ‘ تب رہتی ہیں جب وہ مختلف ادوارسے گزرکر، گرم وسرد ماحول سے نبرد آزما ہوکر ارتقاء کی طرف گامزن ہوتی ہیں لیکن تبلیغی جماعت اس تناظرمیں کبھی آگے نہیں بڑھی بلکہ یومِ تاسیس سے جوکچھ امورات انہوں نے منتخب کئے،ان کی آبیاری پرہی یہ دہائیاں گزرنے کے باوجودکاربندہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولانا الیاسؒ نے ان امورات کے علاوہ بھی اپنی جدوجہد کے مقاصد متعین کئے تھے جو کہ اُن کے بعد نظر انداز کئے گئے۔
10۔ اسباب و تدابیرکی نفی اہلِ تصوف کے ہاں توکل ہے۔ تبلیغی جماعت نے توکل کے اسی صوفیانہ تصور کو قبول کیا ہے۔ ’ اسباب سے کچھ نہیں ہوتا، صرف اللہ سے ہوتا ہے‘ کاجملہ اس جماعت کا تکیہ کلام ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کائنات میں واقعات کو ظہور میں لانے والی ذات اللہ تعالٰی کی ہے لیکن وہ تمام واقعات کواسباب کے پردے میں ظہورمیں لاتا ہے۔ اسلام فطری دین ہے۔ یہ فطرت کومسخ نہیں کرتا۔ قرآن جو کہ دین کا ماخذ ہے، اسباب کی نفی نہیں کرتابلکہ ان کواختیارکرنے کاحکم کرتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ واضح کرتا ہے کہ مومن کو ہرحال میں اللہ پراعتماد رکھنا چاہیے۔ (احیائے ملت اوردینی جماعتیں۔ص 272،ازالطاف احمداعظمی)
( جاری ہے )