خلیق ربانی انجُم :
کہنڑیاں سُوچاں ۔۔۔ میرے دوست اُردو ہندکو زُبا ن کے شاعر اور افسانہ نگار جناب نیازت علی نیازکا تازہ ہندکو شعری مجموعہ ہے۔ اِس سے پہلے اُن کا اُردو شعری مجموعہ ” حوالہ “ سن 2016 میں شائع ہوا تھا۔ جب تک اُن کے شعری مجمُوعے منظرعام پر اِسی طرح آتے رہیں گے، تب تب اُن کے ساتھ واہ کینٹ اور واہ کی ادبی تنظیم صریرِ خامہ کی ہفتہ وار مجالس میں شرکت کرنا، رات گئے تک سنگم کیفے میں شاعروں کے جُھرمٹ میں بیٹھنا اور سنگم کیفے واہ کینٹ کے سنگم پر گُزرے شب و روز اور ماہ و سال یاد آتے رہیں گے۔
اگر میں سنگم کیفے واہ کینٹ کو واہ کینٹ کی ادبی تنظیم صریرِ خامہ کا لاہور اور مُلتان کا ٹی ہاؤس کہوں تو بالکُل بے جا نہیں ہوگا کیونکہ لاہور اور مُلتان کے ٹی ہاؤسوں اور سنگم کیفے واہ کینٹ اور شُعراء کے درمیان چُولی دامن کا ساتھ ہے۔
نیازت علی نیاز سے میری یاد اللہ گو کہ سن 2006 سے لیکر سن 2008 تک کے چند سالوں پر مُحیط ہیں۔ یہی ماہ و سال میرے زندگی کے حاصل ہیں۔ مُجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ جب میری تقرری نیشنل روررل سپورٹ پروگرام (این آر ایس پی) کے ذیلی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف رُورل منیجمنٹ (آئی آرایم) ایف سیکس فور، اِسلام آباد کے بعد واہ میڈیکل کالج واہ کینٹ میں اسسٹنٹ لائبریرین کی حیثیت سے ہوئی تو اُس وقت کے واہ میڈیکل کالج واہ کینٹ اور موجودہ رحمان میڈیکل کالج پشاورکے لائبریرین مُحمد ہارون نے میرا ہاتھ جناب نیازت علی نیاز کے ہاتھ میں تھماتے دیتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کا نیا روم میٹ ہے۔
پھر میں نیازت علی نیاز اور عاصم بھائی کے ساتھ چناب ہاسٹل نزد بیریئر نمبر 2 واہ کینٹ کے ہاسٹل نمبر 7 اورکمرہ نمبر 12 میں رہنے لگا۔ کُچھ عرصہ بعد عاصم بھائی واہ انڈسٹری سے چھٹی لے کر سعودی عرب چلے گئے۔ تو پھرنیازت علی نیاز کے ساتھ خُوب گُزری جو مل بیٹھے دیوانے دو۔ ایسے دوستوں کی دوستی میرے لیے خُوشی کی با ت اور باعث اطمینان ہے۔ وہ الگ بات کہ میں اپنے دامن ، اپنے پلو میں چندالفاظ بھی نہ باندھ سکا۔
میرا تعارف نیازت بھائی ہی کی وساطت سے واہ کینٹ کی ادبی تنظیم صریرِ خامہ کے مُحمد مُشتاق آثم ، جناب اظہر نقوی مرحوم اورجناب رانا شاہد مجید ، جناب عُبید حبیب ، جناب خالد قیوم تنولی و دیگر بے شُمار دوستوں اور محمد مشتاق آثم کی وساطت سے پروفیسر روف امیر مرحوم سے ہوا۔ پھر میں اور نیازت علی نیاز بھائی صریر خامہ کے ہفتہ وار تنقیدی اِجلاسوں میں جانے لگے جو واہ کینٹ ہی کے کسی پرائیویٹ کامرس کالج میں ہوا کرتے تھے۔ میں ادبی تنظیم صریرِ خامہ کے سارے دوستوں کا تہہ دِل سے ممنون و مشکُور ہوں کہ اُنہوں نے میرے جیسے غیر ادبی فرد کو اپنے درمیان جگہ دی۔ اوراپنے ہر اجلاس میں یہ ضرور پُوچھتے تھےکہ آپ نے کُچھ کہنا ہے کہ نہیں؟
اور پھر اُن کے وہ سنگم کیفے کے سنگم پر اکثر رات گئے تک اَدبی اَکٹھ جیسے لاہور یا مُلتان کے مشہور ٹی ہاؤس میں ہوتے ہیں۔ ہر روز وہاں سنگم کیفے کے سنگم پر جمع ہونا اور وہ رات گئے تک مجالس،ادبی گپ شپ اور پھر چناب ہاسٹل نمبر7 نزد بیریئر نمبر ٹو کمرہ نمبر 12 رات گئے واپسی۔
نیازت بھائی کے حوالے سے جب میں واہ کی پگڈنڈیوں پر یادوں کی بارات لے کر نکلتا ہوں تو چشمِ تصور میں واہ پہنچ جاتا ہوں ۔ اور جناب نیازت بھائی کو اُنہی راستوں پراپناہم رکاب پاتا ہوں۔ واہ میڈیکل کالج کے دو تین سال اور نیازت علی نیاز کی سنگت ۔۔۔ پھر اسلم مارکیٹ میں جناب رانا شاہد مجید کے ساتھ ادبی و تنقیدی گُفتگُوکے دوران دونوں کے اپنے اپنے مُؤقف پر ڈٹے رہنا۔
پھر نیازت بھائی واہ میڈیکل کالج اور سی ایم ایچ میڈیکل کالج سے ہوتے ہوئے سینٹرل پارک میڈیکل کالج لاہور چلے گئے۔ آج نیازت علی نیاز کے اِس ہندکُو شعری مجموعے ” کہنڑیاں سُوچاں “ نے واقعی مجھے چند لمحوں کیلیئے واہ کینٹ اور نیازت علی نیاز کی سنگت میں گُزرے شب و روز اور ماہ و سال میں پہنچا دیا۔
اِس سے پہلے نیازت علی نیاز کا اُردو شعری مجموعہ ” حوالہ “ کے نام سے 2016 میں منصہ شہود پہ آچکا ہے۔ اور اب یہ دوسرا شعری مجموعہ اور پہلا ماں بُولی ہندکو شعری مجموعہ ہے۔ نیازت علی نیاز کے دونوں شعری مجموعوں کی اکثر و بیشتر شاعری ذاتی طور پر ، صریرِ خامہ کی تنقیدی اور غیر رسمی محافل میں اکثر یا سنگم کیفے واہ کینٹ کے سنگم پر کلامِ شاعر بہ زُبانِ شاعر مزے لے لے کر سُن چُکے ہیں بلکہ یہ بات سو فی صد سچ پر مبنی ہوگی کہ اِن دونوں شعری مجموعوں کی اکثر وبیشتر شاعری کی آمد اور تخلیق یعنی پیدائش میرے سامنے ہوئی ہیں جیسے
تُو شاعر ہو۔ ذہنی خلجان مار ڈالے گا۔ گُو ہم کو نُقصان ہمیشہ رہتا ہے۔ اُلٹے سیدھے سوال کرتے ہیں۔ خواب جفا کی نہیں کوئی تعبیر۔ چند آسائشوں کی خاطر لوگ۔ سوالیہ نشان۔ کوئی کتنا جان سکا (ڈیڈ باڈی)۔ جنوں معراج پاتا ہے۔ ہمیں بس چُپ ہی رہنا ہے۔ تو مُجھے چاک سے اَب اُتار وغیرہ۔
سوالیہ نشان ۔ یہ رنج یہ اذیتیں۔ حرف پاواں تے کدے لکیراں ساری راتی، ورقے لکھاں لکھ کے چیراں ساری راتی۔ اُس دے نقش خیالی واہ واہ، آکھ اوبڈی کالی واہ واہ۔ پے گئی عادت پھرناں دی، بستی بستی شہروشہر۔ترٹیاں ساریاں آساں رَخیاں نیندر آگئی، سوچتے سوچتے سوچاں تھکیاں نیندر آگئی ۔ کراچی توبدیا ہونڑاں دا ہک منظر وغیرہ وغیرہ۔
شعری مجموعہ ” حوالہ “ اور صاحبِ کتاب کے بارے میں جناب حسن عباس ، جناب مُحترم عطاء الحق قاسمی اور جناب مُحترم جانِ عالم نے تفصیل سے لکھا ہے جبکہ ” کہنڑیاں سوچاں “ میں نیازت علی نیاز اور اُن کے شاعری کے بارے میں محترم جناب سُلطان سکون ، پروفیسر یحیی خالد ، محترم جانِ عالم ، قاضی ناصربخت یار اوراجمل نذیر نے تفصیل سے لکھا ہے ۔
محترم جناب سُلطان سکون نیازت علی نیاز کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:
” نیازت علی نیاز ایک اچھے شاعر ہیں۔ اور ہر دو زُبانوں میں بیک وقت شاعری کرتے آ رہے ہیں۔ موصوف کی شاعری حسبِ روایت وحسبِ معمول محبت ، معاشرتی و معاشی موضوعات پر مشتمل ہے۔
محترم جناب سُلطان سکون مزید لکھتے ہیں کہ میں یہاں بہت اشعار نمونہ کے طور پر نقل کرکے قارئین کا حق سلب کرنا نہیں چاہتا کیونکہ ہر قاری کوئی بھی شعر اپنی ذات کے حوالے سے محسوس کرکے پڑھتا بھی ہے اور لُطف بھی حاصل کرتا ہے۔ مثلا جو شعر یا اشعارمُجھے پسند ہوں۔ وہ کسی دوسرے قاری کو پسند نہ ہو یا کم پسند آئیں۔ البتہ نیاز صاحب کی نظم کا ایک مصرعہ میرے ذہن سے چپک کر رہ گیا ہےجو کسی موقع پر اُن سے زُبانی سُنا تھا۔ وہ مصرعہ یہ ہے:
’ تھک جُلدے بندہ تھک جُلدے “
یہ مصرعہ عمومی گفتگو میں بھی بولا جاتا ہے۔ یہ مصرعہ یا جُملہ مخاطب کی تسلی کے لئے بھی بولا جاتاہے۔مثلا جب کوئی آدمی کسی بھی وجہ سے تھکن کا اظہار کرے تو اس کو یہ جُملہ کہہ کراِس کی تھکن کا اقرار بھی کیا جاتاہے اور بین السطور اس کو تسلی بھی دی جاتی ہے کہ ہاں ایسا ہوجاتا ہے۔آپ ہی نہیں تھکے دوسرے لوگ بھی تھکتے ہیں۔ انسانی جسم تھکاوٹ تو ضرورمحسوس کرتا ہے۔
بہرحال محترم سُلطان سکون کے مندرجہ بالا الفاظ سے صرف ِ نظر کرتے ہوئے جناب نیازت علی نیاز کے ” حوالہ “ سے پیش لفظ اور بیک ٹائٹل پر سے ایک چنداشعار آپ محترم قارئین کے شوق و ذوق کی نظر ضرور کروں گا کہ
تو شاعرہو۔۔۔۔!!
محبت کی ہے تم نے بھی
کوئی ناکام عاشق ہو
جلا ہے دل تمہارا بھی
ذرا ہم کو سناؤ نا
تمہاری چاہتوں کے وہ لب و رخسار کیسے تھے
نگار و نقش کو تم کس طرح تصویر کرتے تھے۔۔۔؟
(میں کہتا ہوں)
نہیں جی۔۔۔!
میں بھی لکھتا ہوں مگر رومان سے ہٹ کر
تو پھرتم کچھ نہیں لکھتے
تو کیا رومان سے ہٹ کر بھی لکھنے کا تصور ہے
نہیں جی تم تو پھر شاعر نہیں ہو
میں کیسے اب کہوں ان کو
محبت ٹھیک ہے صاحب!
کھبی کی تھی محبت بھی
لب و رخسار میں اُلجھا ، خیال یار سے لپٹا
تو سارے ہجر کے قصے، وصالِ یار کی خواہش
سبھی کچھ میں نے لکھا تھا
خیالوں میں مگن تھا میں
خیالوں کو جو لفظوں کے کسی قالب میں ڈھالا تو
معانی کھو گیئے مجھ سے
معانی کھوجنے نکلاتو اُلجھاوے مقدر تھے
مقدر بھی عجب شے ہے
نری اک قید ہے سالی
سبھی کچھ ہے تمہارا پرتمہارا کچھ نہیں ہے
ملے گاوہ جو وہ دے گا
تمہیں حرکت میں رہناہے
مگر رہنا کہاں تم نے
سبھی کچھ چھوڑ جاناہے
رہے گا بس تغیر ہی
بس اک احساس ہی ایسا تسلسل ہے جو دائم ہے
چراغوں کی طر ح بجھتے رہیں گے ہم
بنا چاہت کے مرنا ہے، بنا مرضی کے جینا ہے
یہ مرنا اور جینا بھی عجب الجھی کہانی ہے
یہ جیناہے
کھبی آنسو کھبی غم ہیں
دکھوں کے بہتے دریا سے خوشی بھی سر اُٹھاتی ہے
مگر پھر ڈوب جاتی ہے
کہیں چاہت کے قصوں سے ابھر کر نفرتیں بکھریں
کہیں افلاس روتا ہے
کہیں تسکین سے پھر ناتمامی کا کوئی احساس اٹھتا ہے
کھبی لب پر تبسم ہے کبھی آنکھوں میں آنسو ہیں
کہیں پر لذتِ کام و دہن ہے
اور کہیں پر تشنہ کامی ہے
(سبھی اسباب جینے کے)
ہماری پشت پر لادے گئے ہیں گھر
گھروں میں کھیلتے بچے
مسافت پاؤں سے لپٹی، فنا رستے میں پڑتی ہے
سبھی کچھ ہے(مگر سب کچھ ہی)
کیا اور کیوں میں الجھا ہے
یہ الجھاوے لکھے میں نے
کسی تکمیل کی خاطر
خود اپنے ہی ادھورے پن کو بنتا ہوں
تم ان مبہم سی مہمل سی، انہی لایعنی باتوں کو
اگر سمجھو تو میری شاعری ہے۔
اور بیک ٹایئٹل سے چندمزید اشعار کہ
ذہنی خلجان مار ڈالے گا
کل کا امکان مار ڈالے گا
میں نکلتا نہیں ہوں جنگل سے
کوئی انسان مار ڈالے گا
تم نہ آنا مری عیادت کو
تیرا احسان مار ڈالے گا
اور آخر میں، میں دونوں شعری مجموعوں ” حوالہ “ پر دیر آید درُست آید کے مصداق اور دوسری شعری مجموعے ” کہنڑیاں سوچاں “ پر برموقع محل مبارک باد بھی پیش کرتا ہوں۔ اوراللہ تعالی سے نیازت علی نیاز کے لیے دُعاگو بھی ہوں کہ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔آمین۔ اور یہ اُمید بھی رکھتا ہوں کہ نیازت علی نیاز کی شاعری کے کُوکھ سے اِسی طرح ہر سال شعری اور نثری مجموعے جنم لیتے رہیں گے ۔ اور اگر مزید صاف گوئی کی اجازت دی جائے اور بے ادبی پر محمول نہ کیا جائے تو میں تصنیف و تالیف کے معاملے میں خاندانی منصوبہ بندی کا ہر گز قائل نہیں اور بس ۔۔۔