فوزیہ سلیم :
حجاب عربی زبان کے لفظ ” حجب “ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے کسی کو کسی شے تک رسائی حاصل کرنے سے روکنا۔
حجاب کے متعلق علامہ شریف جرجانی کتاب التعریفات میں فرماتے ہیں: حجاب سے مراد ہر وہ شے ہے جو آپ سے آپ کا مقصود چھپادے یعنی آپ ایک شے کو دیکھنا چاہیں مگر وہ شے کسی آڑ یا پردے میں ہے تو اس آڑ یا پردے کو حجاب کہتے ہیں۔
عورت کے حجاب کے متعلق حضرت سیدنا امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: عورتوں کے حجاب سے مراد یہ ہے کہ مرد انہیں کسی طرح دیکھ نہ سکھیں۔
اللہ تعالی نے پردے کے متعلق قرآن پاک میں ارشاد فرمایا :
” مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالی سب سےخبردارہے۔“ (سورۃ نور، آیت 30)
سورۃ نور کی آیت میں اللہ تعالی نے مردوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں یعنی پردہ صرف عورت کا اپنا چہرہ چھپا لینے کا نام نہیں بلکہ ایک پورا سسٹم ہے جس میں مرد بھی بھرپور تعاون کرتے ہوئے اپنی نگاہیں جھکا کر نا محرم عورت کا سامنا کریں اس لیے عورت کے چہرے سے پہلے مرد کی نگاہوں کا ذکر ہوا ہے۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
” مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوند کے یا اپنے والد یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے۔
اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جانب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔(سورۃ نور آیت :31)
یہاں پر اللہ تعالی عورتوں کو نگاہیں نیچے کرنے اور اپنی زیب و زینت کو چھپانے کا حکم دیتاہے۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی اپنی کتاب پردہ میں فرماتے ہیں۔ عورت کے مردوں کو دیکھنے اور مرد کے عورتوں کو دیکھنے میں نفسیات کے اعتبار سے ایک نازک فرق ہے۔ مرد کی فطرت میں اقدام ہے ،کسی چیز کو پسند کرنے کے بعد اور اس کے حصول کی سعی میں پیش قدمی کرتا ہے مگر عورت کی فطرت میں تمائع اور فرار ہے،جب تک کہ اس کی فطرت بالکل ہی مسخ نہ ہو جائے۔ وہ اس طرح دراز دست اور جری اور بے باک نہیں ہو سکتی کہ کسی کو پسند کرنے کے بعد اس کی طرف پیش قدمی کرے۔ شارع نے اس فرق کو ملحوظ رکھ کر عورتوں کے لئے غیر مردوں کو دیکھنے کے معاملے میں وہ سختی نہیں کی ہے جو مردوں کے لئے غیر عورتوں کو دیکھنے کے معاملے میں کی ہے۔ چنانچہ احادیث میں حضرت عائشہ کی یہ روایت مشہور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے موقع پر ان کو حبشیوں کا تماشا دکھایا تھا اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا مردوں کو دیکھنا مطلقاً ممنوع نہیں ہے۔ وہ بھی ہر جائز چیز کو دیکھ سکتی ہیں ۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ:
ہر مذہب کا کوئی نہ کوئی امتیازی وصف رہا ہے اور اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے(ابن ماجہ) انسان میں جب حیا ہوتی ہے تو وہ ہر برائی سے اپنے آپ کو بچاتا ہے اپنی حد میں رہتے ہوئے اللہ کے بنائے ہوئے قوانین میں اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ کی حدود سے نکلنا کسی حیادار بندے کے بس کی بات نہیں۔
عورت جب حجاب کرتی ہے تو کسی کی بری نظروں سے کافی حد تک بچ جاتی ہے جس طرح اپنے چہرے کا خیال رکھنے والی خواتین سورج کے سامنے نکلنے سے پہلے سن بلاک وغیرہ لگاتی ہیں تاکہ سورج کی شعائیں نقصان نہ پہنچائیں اسی طرح حجاب میں رہنے والی عورت معاشرے کی بری ہواؤں سے بچتی ہے۔وہ کسی کے لیے شوپیس نہیں بنتی بلکہ حجاب کی ڈھال اسے مضبوط بناتی ہے۔ حجاب میں رہ کر بھی عزت و احترام کا مقام حاصل کرتی ہے۔ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں اعتماد کے ساتھ قدم رکھ سکتی ہے۔ خواتین حجاب میں رہ کر کبھی مردوں سے پیچھے نہیں رہی ہیں۔
عالمی یوم حجاب جو ہر سال چار ستمبر کو منایا جاتا ہے اس میں صرف خواتین کے پردہ یا حجاب کی بات نہیں ہوتی ہے بلکہ اس میں خواتین کے حقوق کی بات ہوتی ہے۔ وہ حقوق جو اسلام نے عورت کو دیئےہیں۔ وراثت کا حق، تعلیم کا حق ظلم و جبر سے تحفظ کا حق۔ یہ ہے حجاب جو ان سب حقوق کا نام ہے ۔ آئیے ! آج سے اپنی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو عزت و محبت سے بھرپور معاشرہ دینے کے کام کا آغاز کریں اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ اس کردار کو نبھانے میں ہم سب کی مدد کرے۔آمین