عائشہ فہیم :
مجھے دین پسند طبقے/ داعیانِ دین کے سامنے ایک عرضی رکھنی ہے، بہت دردمندی اور عاجزی کے ساتھ ۔
ہمارے ہاں مختلف مواقع پر بالعموم اور آج کل بالخصوص ” عورت “ موضوعِ بحث رہتی ہے۔ جب اس موضوع پر گفتگو خصوصاً نوجوان لڑکیوں کے ساتھ ہوتی ہے تو اگر یہ گفتگو مدلل ، اسلام کے عین مطابق اور متوازن نہ ہو نے کے سبب ان کے اذہان میں بہت سے اشکالات اور الجھنیں پیدا کردیتی ہے۔
مجھے بہت احترام سے یہ کہنا ہے کہ
اس موضوع پہ بات کرتے ہوئے اگر جس موضوع پر قرآن ، حدیث اور سیرت کا ٹھوس مطالعہ نہ کیا ہو تو اپنی رائے دینے سے گریز کریں۔ اور عین اسی لمحے اس کے مختلف پہلوؤں کا یکسوئی سے مطالعہ کریں۔
اگر آپ ، آپ کے اردگرد خواتین ایک اچھی خاندانی/ ازدواجی زندگی گزار رہی ہیں اور سامنے والا فرد اگر نہیں گزار رہا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس میں سارا قصور ” صرف “ اسی کی ذات کا ہے۔ اس کے مسئلے کو سمجھیں اور اس کی جگہ خود کو رکھ کر سوچیں۔
اگر اسلام جلدی شادی کرنے کی ترغیب دیتا ہے تو زبردستی شادی کردینے کی بھی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔
حضرت خنساء بنت خدام انصاری رضی اللہ عنہا کا نکاح ان کے والد نے کسی شخص سے کردیا حالانکہ وہ ” ثیب “ ( بالغ ) تھیں۔ وہ نکاح انھیں ناپسند ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو فسخ کردیا۔
حضرت خنساء نے جبری نکاح کی ناپسندیدگی کی وجہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی کہ وہ اپنے ایک چچازاد سے شادی کرنا چاہتی تھیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مقدمہ سن کر بقول عبدالرزاق فرمایا کہ ” لا تکرھوھن “ ان پہ جبر نہ کرو۔ اس کے بعد انہوں نے حضرت لبابہ رضی اللہ عنہ سے شادی کرلی جو اب کی پسندِ خاطر تھے. ( بخاری کتاب النکاح)
حضرت زینب بنت عثمان کا نکاح ان کے والد حضرت عثمان بن مظعون جمحی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے چچا حضرت قدامہ بن مظعون جمحی رضی اللہ عنہ نے کسی شخص کے ساتھ کردیا جو ان کو ناپسند ہوا۔ انہوں نے اپنی ماں کے کہنے پہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر شکایت کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح بھی مسترد فرمادیا۔ (ابن سعد)
اسلام عورت کا محدود تصور کہیں نہیں دیتا۔ صحابیات کی زندگیاں اٹھا کر پڑھیں، انہوں نے تجارت بھی کی ، باغات میں کام بھی کیا ، غزوات کے موقع پہ علاج معالجہ بھی کیا ، ضرورت کے وقت تلوار بھی اٹھائی ، خواتین کی زیب و زینت اور آرائش کا کام بھی کیا اور حضرت شفاء کا ذکر بھی ملتا ہے جو مدینہ کے ایک بازار کی افسر تھیں۔
یہ ضرور سکھائیں کہ اسلام گھر سے نکلنے اور باہر جانے کے لئے کس attire کو پسند کرتا ہے لیکن جنسی زیادتی کے ہر کیس کا سبب ” محض بے حیائی اور بے راہ روی “ ہی کو نہ گردانیں ورنہ معصوم چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات خود آپ کے لئے سوالیہ نشان بن جائیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت دیکھیں تو وہ انتہائی شفقت سے خواتین کی شکایات سنا کرتے تھے۔ ہر کسی کو یہ نہیں کہا کہ وہ ہی غلط ہے! / اسے اپنے رویے پہ غور کرنا چاہیے / کمپرومائز تو کرنا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے کچھ کہا تو انہوں نے جواب دے دیا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ کو تاؤ آیا اور جواب دینے پہ بیوی کو سخت سست کہا۔ زوجہ محترمہ نے اپنے دفاع میں کہا کہ تمہاری بیٹی حفصہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سے زیادہ تکرار کرتی ہیں اور جواب پہ جواب دیتی ہیں۔ حضرت عمر کو اپنی دخترِ نیک سے ایسی توقع نہ تھی لہذاٰ چراغ پا ہوکر چڑھ دوڑے۔۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو سمجھایا کہ
” ان عورتوں کا یہ حق ہے اور ان کی جائز آزادی اور آزاد روی پہ قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔“ (بخاری)
خواتین کی مارپیٹ کرنے میں بعض شوہر حضرات خاصے ” شہرت یافتہ “ تھے جن میں ایک حضرت ابوجہم بن حذیفہ تھے۔ وہ دراصل سخت مزاج تھے ، اگرچہ وہ عالم نسب اور فاضل شخص تھے۔ مسلم کی روایت کے مطابق انہوں نے حضرت فاطمہ بنت قیس فہری رضی اللہ عنھا کو شادی کا پیغام بھیجا تو حضرت فاطمہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کیا اور مشورہ چاہا۔ رسول اللہ نے فرمایا:
” ابوجہم تو اپنے کندھے لاٹھی سے علیحدہ نہیں کرتے۔“ لہذاٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو ان سے شادی کرنے کی رائے نہیں دی۔
(یہ حکم نبوی یا اشارہ شرعی صرف مار پیٹ اور سختی کے خدشے سے وجود میں آیا۔)
(مسلم۔ کتاب الطلاق)
ایک اور بہت خوبصورت واقعہ ایک خاتون کا ملتا ہے جو حضرت عائشہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ اور ان کا حال زار زار تھا۔ نہ لباس ٹھیک تھا نہ زیب و زینت کا نشان تھا۔ وہ خاصی ابتر حالت میں تھیں۔ رسول اللہ تشریف لائے تو ان کا اور ان کے شوہر کا حال دریافت فرمایا. انہوں نے اپنے شوہر کی عبادت گزاری اور شب بیداری کا خوب تحسین و تعریف کے لہجے میں ذکر کیا اور چلی گئیں۔
حضرت عائشہ نے ان کی تعریف کی کہ وہ اپنے شوہر کی کیسی مدح خواں تھیں۔ رسول اللہ ص نے فرمایا کہ ” وہ اپنے شوہر کی عدم توجہی کی شکایت کررہی تھیں، تعریف و تحسین نہیں۔“ بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوہر کو سمجھایا۔ اور پھر کچھ دن بعد وہ حضرت عائشہ سے ملنے آئیں تو خوب بنی سنوری تھیں اور ان کا لباس بھی عمدہ اور صاف ستھرا تھا۔ حضرت عائشہ کے استفسار پہ بتایا کہ اب ان کے شوہر ان کی طرف سے لاپرواہی نہیں کرتے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر دوراندیش اور فراست کے حامل تھے!
بلاضرورت ہر چیز پر (مغربی معاشرے یا دیگر گروہوں پر) تنقید لوگوں کو متنفر کردیتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ” ہم “ درست بات منتقل کرنے میں کتنے کامیاب ہورہے ہیں۔ اور اس کے لئے سامنے والے کو سننا ، سمجھنا ، اس کی باتوں کے مختلف پہلوؤں کو اس کے زاویہ نظر سے دیکھنا بہت ضروری ہے۔
جب لڑکیوں کو ایسا کوئی سامع دین پسند طبقے میں سے نہیں ملتا پھر وہ ایسے طبقے سے ” باغی “ ہوتی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہاں تو کوئی شنوائی نہیں! پھر وہ ” سائبان “ کہیں اور تلاش کرتی ہیں
اور ایسا حقیقت میں ہورہا ہے۔
تو مسیحا بنیں!
بشارت دیں، متنفر نہ کریں۔
ہر چیز اور ہر عمل پہ تنقید نہ کریں۔ پیار سے یہ سمجھائیں کہ کرنا کیسے ہے، اسلام کی حدود کیا ہیں۔ جہاں شریعت قدغن نہیں لگاتی ، وہاں یہ اختیار ہمارے پاس بھی نہیں ہے کہ ہم قدغن لگائیں۔
اسلامی اصولوں اور نصوص کو اہمیت دیں، معاشرتی کلچر اور رسوم و رواج کو اسلامی اصولوں اور نصوص میں مکس نہ کریں۔ ان دونوں میں فرق ملحوظ رکھیں۔
گٹھن کی فضا پیدا نہ ہو کہ لوگوں کو سانس نہ آئے!
کسی نے مجھے کہا کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ناں ، تو سب کو سنا کرتے تھے ، مسئلے حل ہوجاتے تھے۔۔ اب دین پسند طبقے میں بھی کوئی ٹھیک سے سننے والا نہیں۔
آپ امید کا استعارہ اور اچھے سامع بنیں۔ تاکہ لوگ کُھل کے اپنی بات کہہ سکیں، اپنے سوالات پوچھ سکیں، اپنی الجھنیں شئیر کرسکیں
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی یہی ہے!