ڈاکٹر شائستہ جبیں
[email protected]
اکھان کو اردو میں ” کہنا “ یا ” کہاوت “ کہا جاتا ہے. اصطلاح میں اکھان یا کہاوت سے مراد ایسا قول ہے جو کسی دانش مند نے ایسے موقع پر کہا ہو جو ایک جیسے عمل کے بعد ایک جیسے نتیجے کو ظاہر کرتا ہو. اکھان کو ایسے بول کا نام بھی دیا جا سکتا ہے جو انسانی زندگی سے متعلق تجربات کو مختصر الفاظ میں ظاہر کرے، یعنی یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کہاوت یا اکھان میں انسانی تجربہ مرکزی حیثیت کا حامل ہوتا ہے.
کہاوت یا اکھان بننے کا عمل انسانوں کو زندگی کے مختلف موڑ پر حاصل ہونے والے ایسے تجربات سے ہوتا ہے، جن کا تعلق ابتداء میں تو انفرادی زندگی سے ہوتا ہے لیکن اپنے فوائد کی بناء پر اجتماعی زندگی کے لیے مشعل راہ بن جاتے ہیں. انسانی تجربہ اور اجتماعی سوچ ہی اکھانوں کو فلسفے کی وادی میں لے جاتے ہیں،
اسی لیے انہیں لوک دانش کے خزانے قرار دیا جاتا ہے. کہاوتوں یا اکھانوں کا ایک اور اہم، ضروری اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اکھان ابلاغ کا موثر ترین ہتھیار ہیں، وہ بات جو بعض اوقات طویل گفتگو کے بعد بھی واضح نہیں ہوتی، اکھان کے صرف ایک جملے سے روشن ہو جاتی ہے.
دنیا کی ہر زبان میں لوک دانش کے یہ خزانے موجود ہیں اور انسان انھیں نہ صرف اپنی روز مرہ زندگی میں استعمال کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں، بلکہ ان میں مخفی دانش اور بزرگوں کے تجربات سے استفادہ بھی کر رہے ہیں.
پنجابی زبان دنیا کی قدیم ترین اور زرخیز ترین زبانوں میں سے ایک ہے، یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے، جس کے بولنے اور سمجھنے والے ایک سو دو ملین کی تعداد میں دنیا کے تمام خطوں میں موجود ہیں. پنجابی دراصل ایرانی اور ہندوستانی زبانوں کے امتزاج سے وجود میں آنے والی زبان ہے جو کہ بارہ مختلف لہجوں میں بولی جاتی ہے اور اسے جنوب ایشیائی زبانوں میں کافی موثر حیثیت حاصل ہے.
پنجابی زبان کے پس منظر سے لاعلمی اور اس کی زرخیز تاریخ سے دوری کی وجہ سے دور جدید میں اس زبان کے بولنے، پڑھنے، لکھنے اور سمجھنے والے رفتہ رفتہ کم ہوتے جا رہے ہیں. جدید طرزِ زندگی کے دلدادہ والدین اپنے احساسِ کمتری کی وجہ سے اپنے بچوں کو مادری زبان سے دور کرنے کا سبب بن رہے ہیں.
آنے والی نسلیں جب اس عظیم الشان زبان سے ہی نابلد ہوں گی تو وہ اس میں مخفی لوک دانش کے خزانوں سے کیسے فیض یاب ہو سکتی ہے. پنجابی زبان میں بلامبالغہ ہزاروں کی تعداد میں اکھانوں کا خزانہ موجود ہے جو پنجاب کی ادبی، ثقافتی تاریخ، رہن سہن، موسمی حالات، شادی بیاہ، دوستی رشتے داری، خوشی غمی، رسومات، زراعت ، کاروبار، بودوباش، معاشرتی اخلاق، معاشی رسم و رواج، مہمان داری، باہمی تعلقات، طاقتور اور کم زور، خواتین کے حوالے سے پنجابی زبان کی تاریخ بیان کرتے ہیں.
اکھانوں سے پنجاب کی تاریخی اور ثقافتی زندگی کی مکمل تصویر واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نہ صرف اپنی مادری زبان کی حفاظت کریں بلکہ اس میں چھپے اس خزانے کی بھی حفاظت کریں جو ہمارے زبان کی بقا کا ضامن ہے. رشتے داریاں، رشتے داروں سے تعلقات اور پنجاب کے معاشرے کی ان رشتوں کے ساتھ رہن سہن کی حقیقت بیان کرتے چند اکھان اس متروک ہوتے سرمائے کو زندہ رکھنے کی کوشش کے طور پر بیان کیے جاتے ہیں.
اپنیاں دے میں گِٹے بھنّاں، چُماں پیر پرایاں دے
( اپنوں کے ٹخنے توڑوں اور پرایوں کے پیر چوموں)
وضاحت : ایسے شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے جو اپنے رشتہ داروں کا نہ تو خیال رکھے، نا قدر کرے، ان کے ساتھ بلاوجہ تعلقات خراب کرے اور غیروں کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو، ان کی غیر ضروری خدمت کے لیے ہر وقت موجود ہو.
جیہو جہے اسی آپ، اوہو جہے ساڈے ساک
( جیسے ہم خود ہیں، ویسے ہی ہمارے رشتہ دار ہیں)
وضاحت : انسان جیسا خود ہوتا ہے، اُس کے رشتے دار بھی ویسے ہی ہوتے ہیں. خون کے رشتے دار اکثر ہم خیال اور ہم مزاج ہوتے ہیں.
گھیو بناوے سالناں ،وڈی نونہہ دا ناں
( سالن گھی کی وجہ سے اچھا بنے، نام بڑی بہو اپنا لگا لے).
وضاحت : اردو میں کہتے ہیں انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوانا… یہ اکھان بھی اسی مفہوم پر مشتمل ہے، کم محنت کر کے کریڈٹ زیادہ لینے کی کوشش کرنا. یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ اصل کارکردگی کسی اور کی ہو اور کوئی دوسرا شخص معمولی سا ہاتھ بٹا کر ساری محنت اپنے کھاتے میں لکھوا لے.
آپ کو چجّی ،دھیاں پُتراں کجّی
( خود بد سلیقہ، اولاد نے عیب ڈھانپ دیے)
وضاحت : کسی بد سلیقہ عورت کی اولاد نیک، سلیقہ مند اور سعادت مند نکل آئے تو وہ ماں کی بد سلیقگی اور عیوب کو بھی اپنی اچھائی سے ڈھانپ لیتے ہیں.
آئے بھابو دے سکےّ، کھیر تے پُوڑے پکےّ، آیا بھائیے دا کوئی بھابو سُج بھڑولا ہوئی
(بھابھی کے گھر والے آئے تو کھیر اور پوڑے تیار ہوئے، بھائی کے رشتہ دار آئے تو بھاوج کا منہ بن گیا).
وضاحت : لڑکی کے میکے سے کوئی مہمان آ جائے تو وہ ہر طرح سے ان کی آؤ بھگت میں مصروف ہو جاتی ہے، لیکن اگر سسرال سے کوئی آئے تو ان کی خاطر مدارات میں وہ گرم جوشی مفقود ہوتی ہے.
اپنی اکھ، پرایا ڈیلا
( اپنی آنکھ دوسروں کا ڈیلا)
وضاحت : ایک جیسی چیز یا نعمت پر بھی اپنی چیز کو برتر اور عمدہ سمجھنا اور دوسرے کے پاس بعینہ ویسی ہی چیز کے نقص اور خامیاں نکالنا. اپنی چیز کو اچھا اور دوسرے کی چیز کو بُرا قرار دینا.
آپ بی بی کوکاں مہنے دیوے لوکاں
( خود میں عیب موجود ہوں، لیکن طعنے دوسروں کو دے)
وضاحت : جس شخص کے خود میں خامیاں، عیب موجود ہوں، اگر وہ اپنی خامیوں پر دوسروں کو طعنے دے تو کہا جاتا ہے. انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے. اس لیے دوسروں کی خامیوں کا مذاق نہیں اُڑانا چاہیے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ دوسروں کو بھی آپ میں وہی خامیاں نظر آتی ہوں.
امیر دی مر گئی کُتّی اوہ ہر کسے پُچھّی، غریب دی مر گئی ماں اوہدا کسے وی نہ لیا ناں
( صاحب ثروت کی کتیا مرنے پر بھی ہرکوئی افسوس کو آیا، غریب کی ماں مر گئی تو کسی نے تعزیت کا نام تک نہ لیا)
وضاحت : اس اکھان میں یہ بتانا مقصود ہے کہ دنیا دولت کی قدر دان ہے، صاحب اختیار و اقتدار کے معمولی سے نقصان پر بھی لوگ دوڑے چلے آتے ہیں، جب کہ بے چارے غریب کو بڑے سے بڑا نقصان بھی پہنچ جائے تو کوئی ہمدردی کے دو بول تک نہیں کہتا.
ڈاہڈے اگّے بول نہ سگاں، ماڑے تے گھڑم
( طاقت ور کے سامنے بول نہیں سکتا اور کمزور پر چڑھ دوڑتا ہے).
وضاحت : طاقتور چاہے جتنا مرضی نقصان کر لے، اس کے سامنے کوئی آواز بلند کرنے کی بھی ہمت نہیں کرتا، جبکہ اگر کوئی کمزور آدمی غلطی کر بیٹھے تو اس کی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے.
رج نوں چجّ اے
( دولت ہو تو سلیقہ بھی آ جاتا ہے).
وضاحت : جب لوگ دولت کو ہی معیار عزت اور وجہ فضیلت بنا لیں تو کہا جاتا ہے کہ جس کے پاس دھن دولت ہو، وہ ہر کام کر سکتا ہے اور اسے کام کرنے کا سلیقہ بھی آ جاتا ہے.
جاں پیاں ترکالاں، کوچجّی مارے چھالاں
( شام ہونے کو آئی تو بدسلیقہ عورت ادھر ادھر بھاگ کے کام نمٹانے لگی)
وضاحت : سمجھدار، سلیقہ مند، سگھڑ عورتیں شام تک امور خانہ داری سے متعلق بیشتر کام نمٹا لیتی ہیں اور شام کو محض کھانا تیار کرنے کا کام باقی رہ جاتا ہے، لیکن بدسلیقہ عورت سارا دن بے مقصد ضائع کر دیتی ہے اور جب دن ختم ہونے لگتا ہے تو اسے سارے کام یاد آتے ہیں اور پھر وہ جلدی جلدی کام نمٹانے کو ادھر ادھر چھلانگیں مارتی ہے.