نگہت حسین :
کسی نے کہا کہ حد درجہ ستائش اور خود نمائی کی تمنا نارمل نہیں۔ محنت وہ کہ جس کی کامیابی شور مچائے
لیکن آپ کے اس پاس ہر شعبے ہر ادارے میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہوں گے جن کی ڈکشنری میں یہ جملہ نہیں ہوتا کہ مجھے اس کا علم نہیں یا میرے بجائے اس کام کو کرنے کے لیے فلاں شخص زیادہ اہل ہے ۔ایسے جملے کے بجائے وہ یقین رکھتے ہیں کہ میں ہر کام کا اہل ترین فرد ہوں، سارا کام میں ہی تو کرتا ہوں۔ ان کا پسندیدہ لفظ ہوتا ہے ” میں “۔
ایسے میں اگر یہ کسی ادارے کے ذمہ دار بن جائیں تو اپنے لوگوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے یا نمایاں کرنے کے بجائے اپنے آپ کو نمایاں کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
ان کے ہر کام میں بد خواہ یہ افواہ اڑاتے رہتے ہیں کہ یہ ایک ٹیم ورک ہے حالانکہ وہ بار بار بتا رہے ہوتے ہیں کہ میری ٹیم میں سوائے میرے کوئی بھی کام کرنے والا نہیں۔ ٹیم ان کی بس ایک ہی ہوتی ہے جس کو حاسدین ٹولہ کہتے ہیں۔ کچھ اس کو انجمن ستائش باہمی بھی کہتے ہیں۔
عظیم الجثہ ہونے کی وجہ سے ہر کام کے پیش منظر میں تو چھا ہی جاتے ہیں ساتھ ساتھ پس منظر میں بھی لرزہ طاری کیے رکھتے ہیں بالآخر رونمائی والا دن ان ہی کے نام کے سورج کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ نڈر اور بے باک اتنے ہوتے ہیں کہ کسی کو بھی ان کے سامنے آنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ان کی زبان و بیان پر عبور کو مخالفین چرب زبانی کہتے ہیں۔ایسے مخالفین کا یہ لوگ بہت خاموشی سے قلع قمع کردیتے ہیں یوں اجتماعیت فتنے فساد سے بچ جاتی ہے۔
یہ کام کرنے کے بہت شوقین ہوتے ہیں اپنے نام اور تصاویر کے ذریعے اپنا ایک خاص مقام بنا کر ہی دم لیتے ہیں۔ اگر ان کے خاندان کے لوگ بھی انہی کی طرح صلاحیتی بیماری کا شکار ہوتو پھر یہ اللہ والے صلہ رحمی کی قابل رشک مثالیں قائم کرتے ہوئے ہر وہ فورم خاندان والوں کو مہیا کرتے ہیں جو ان کے بس میں ہوتا ہے۔
عارضی زندگی کی حقیقت کے باوجود مرنے کا خوف اپنے اوپر طاری نہیں کرتے کام اس یقین کے ساتھ کرتے ہیں کہ وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ لہذا بہت سے لوگ ان کو گلے پڑی مصیبت گردانتے ہیں جو کہ ظاہر سی بات ہے کہ بالکل غلط ہے۔
موت سے بالکل نہیں ڈرتے بلکہ ہمیشہ زندہ رہ جانے پر یقین رکھتے ہیں ۔ حاسدین ان کی ہر اچھی صفت کی ضد پر یقین رکھتے ہیں اور ان سے چپ چاپ فاصلہ اختیار رکھنے کو غنیمت جانتے ہیں اور اپنے چھوٹے موٹے کاموں پر توجہ کر لیتے ہیں۔اس طرح ان کو اپنے مخالفین سے خاصی حد تک نجات مل جاتی ہے۔
ماضی میں اس قسم کی علامت میں مبتلا لوگوں کو خود نمائی کا مریض قرار دیا جاتا تھا لیکن یہ پرانے وقتوں کی باتیں ہیں۔ اب زمانہ تبدیل ہوگیا ہے ایسی باتیں کامیابی کی ضمانت بن گئی ہیں۔
۔
نوٹ؛ تحریر میں کسی بھی قسم کی مماثلت محض اتفاقی تصور کی جائے۔
جدید طریقوں اور ذرایع کے ذریعے سامنے آنے والے حقیقی اہل علم کی ہم بہت عزت کرتے ہیں ان کو اس بیماری سے مستثنی سمجھیں اور ان کے چاہنے والے بھی حوصلہ رکھیں۔
طبعیت زیادہ خراب ہونے کی صورت میں قریبی ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود نمائی کے سلیقے ابھی کم آتے ہیں۔
بات یہ نہیں ہے کہ خود نمائی یا ستائش کوئی منفی رویہ ہے۔ فطری طور پر ہر کوئی اپنے آپ کو کسی نہ کسی حد تک نمایاں دیکھنا چاہتا ہے اور ستائش بھی پسند کرتا ہے۔ ہر اچھا کام اور منفرد بات خود ہی آپ کو نمایاں بھی کرتی ہے اور متعارف بھی کرواتی ہے۔
جدید ابلاغی ذریعوں کے اپنی تحریر و تقریر کو پیش کرنا اپنے کام کو آگے بڑھانے میں کیا برائی ہے بھلا؟
مثبت سوچ رکھنے والے جتنے افراد آگے بڑھیں گے ان کی سوچ کی تصدیق کرنے والوں کا ان کے کام کو سراہنے والے اور ان کے چاہنے والوں کا ایک قافلہ بنتا چلا جائے گا۔ یہ سب اگر فطری طریقے سے ہو تو نہ صرف اچھا لگتا ہے بلکہ ہمیں انتظار رہتا ہے۔
ذرا نظر ڈالیے ! کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کو آپ پسند کرتے ہیں تو ان کی تازہ ترین مصروفیات کا انتظار بھی کرتے ہیں اور سراہتے بھی ہیں۔ ان سے ہمارا تعلق ، ادب احترام کا رشتہ اسی تعارف کی وجہ سے قائم ہوتا ہے۔کام کریں گے تو خود بہ خود متعارف ہوتے چلے جائیں گے۔
مسئلہ کہاں پیدا ہوتا ہے؟
جب یہ خواہش حد سے زیادہ ہو جائے دوسروں کے حسنات کو چھپانے اور ان کی کامیابیوں پر حسد کرنے کا باعث بن جائے۔ جب صرف” میں “ ہی ” میں “ کی گردان سنائی دے۔ ایک دوسرے کو مل کر جیت کی طرف رواں دواں رکھنے کے بجائے کسی کی ناکامی پر اپنی کامیابی کا محل تعمیر کرنے کے لیے بن جائے۔
یقین کیجیے کچھ لوگ تو قناعت کر جاتے ہیں ، جھیل جاتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کا بڑا نقصان ہوجاتا ہے۔
زندگی صرف کچھ لوگوں کے میدان میں چھا جانے کا نام نہیں بلکہ ہر ایک کو اس کے حصے کا کام کرنے میں معاون و مددگار بننے کا نام بھی ہے۔
ذرا ان لوگوں سے بھی ملیں جن کی صلاحیتیں صرف اسی نمایاں ہونے کی ہوس والوں نے برباد کر رکھی ہیں۔نوجوان تو سمجھ جاتے ہیں اصلاح کر لیتے ہیں لیکن بہت سے منجھے ہوئے لوگ جب اسی چاہ میں مبتلا ہوں تو بہت سا نقصان کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ بس ! کچھ چیرے ان بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے بھی ضروری ہیں جو اداروں کو اور اجتماعیت کو تباہ کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔
یہ تحریر سوشل میڈیا کی تناظر میں بالکل بھی نہیں تھی بلکہ اداروں اور اجتماعیت کے حوالے سے ہے۔
بہت پروفیشنل قسم کے اداروں میں کام کیا ہے اسی کا مشاہدہ بیان کیا ہے جس کا تجربہ ہر ایک کو ہوتا ہے۔