سہیل وڑائچ :
یوسف رضا گیلانی کی غیرمتوقع جیت کا زلزلہ سیاست کو ہلا کر رکھ گیاہے۔ زلزلہ گزرنے کے بعد اس کے آفٹر شاکس ابھی تک جاری ہیں، اسی جیت کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑا اور اسی زلزلے کی وجہ سے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن پر قیاس آرائیاں جاری ہیں۔
پنجاب حکومت اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی طرف سے سینیٹ کے الیکشن میں بھرپور کردار ادا نہ کر سکنے کے بعد سے ایک بار پھر پنجاب میں تبدیلی پر سرگوشیاں جاری ہیں۔ فی الحال کسی متبادل کا نام فائنل نہیں ہو سکا جب تک یہ نام فائنل نہیں ہوگا تبدیلی کی بات جاری رہے گی مگر عمل نہیں ہو پائے گا۔
یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ سیٹ پر فتح کے حوالے سے کئی اندرونی کہانیاں زیر گردش ہیں۔ سیاسی ذرائع کے مطابق صرف 16افراد نے پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ نہیں دیے بلکہ ان کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ ن لیگی رہنمائوں کو شک ہے کہ ان کے چار ارکان نے جبکہ اپوزیشن کی صفوں میں سے 6مزید افراد نے حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کو ووٹ دیے جبکہ حکومت کی طرف سے تقریباً 25، 26افراد نے پارٹی لائن سے ہٹ کر خفیہ طور پر یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیے
گویا دونوں اطراف سے بغاوت کرنے والے افراد کی تعداد 36 کے قریب تھی۔ اتنی بڑی تعداد کا اپنی اپنی جماعتوں سے ناراض ہونا بذاتِ خود ایک بڑا سوال ہے اور ایک سیاسی بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ پارٹی قیادت اور ایم این ایز کے درمیان اعتماد کا بحران پیدا ہو چکا ہے اور بظاہر اس بحران کو پُر کرنے کے لئے کوئی کوشش ہوتی بھی نظر نہیں آرہی۔
سینیٹ الیکشن میں حکومتی سائیڈ کے حوالے سے ایک بڑی کمزوری پنجاب حکومت کی طرف سے ممکنہ امداد پہنچانے میں ناکامی تھی۔ 1985کے بعد سے بننے والے نظام میں وزیراعظم کو اگر وزیراعلیٰ پنجاب کی بھرپور حمایت نہ حاصل ہو تو وزیراعظم کا حال مغل بادشاہ شاہ عالم جیسا ہو جاتا ہے، جس کے عہدِ اقتدار کا مشہور قول ہے کہ ’’سلطنت شاہ عالم، ازدلی تا پالم‘‘ سینیٹ الیکشن میں حکومتی سائیڈ کے ہار جانے کی وجہ جہاں ایم این ایز کی ناراضی تھی وہاں ایک اہم شخصیت کا مڈل ایسٹ کا دورہ بھی تھا، وہ شخصیت موجود ہوتی تو شاید حکومت کو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا اور اس شکست کی تیسری اہم وجہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کا بےاثر ہونا ہے۔
یاد کیجئے جونیجو کے زمانے میں نواز شریف، محترمہ کے زمانے میں وٹو اور نکئی اور پرویز مشرف کے زمانے میں پرویز الٰہی اس قدر طاقتور ہوتے تھے کہ انہیں ایک ایک ایم این اے کے دل کا حال تک معلوم ہوتا تھا۔
اس بار لگتا ہے کہ پنجاب حکومت وہ کنٹرول کھو بیٹھی تھی، پنجاب حکومت نے اس بار شاید ایم این ایز کو ہینڈل ہی نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی سائیڈ کو سینیٹ میں شکست ہوئی ہے، پنجاب کا بھرپور ساتھ ہوتا تو ایسا ممکن ہی نہیں تھا۔
شاید یہی وہ پس منظر ہے جس کی وجہ سے پنجاب میں تبدیلی کی افواہیں پھر سے گردش میں ہیں، پہلے کہا گیا کہ راجہ بشارت کے نام پر اتفاق ہو گیا پھر اطلاع آئی کہ نہیں علیم خان اور راجہ بشارت دونوں کے نام زیر بحث ہیں، پھر یہ خبر آ گئی کہ ایک ادارے نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ شاہ محمود قریشی یا چودھری فواد کو یہ عہدہ دیا جائے تو وہ اسے بخوبی چلا سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ پنجاب کے اراکینِ اسمبلی میں سے اسلم اقبال، راجہ یاسر ہمایوں اور مراد راس کے نام بھی زیر غور آ چکے ہیں۔
میری ذاتی رائے میں جب تک متبادل نام فائنل نہیں ہوتا اس وقت تک سردار عثمان بزدار کا ہی طوطی بولتا رہے گا۔ اس وقت پنجاب میں تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی متبادل ڈھونڈنا ہے۔ فائنل چوائس عمران کے پاس ہے انہیں فی الحال بزدار ہی پسند ہے تاہم ان پر دبائو ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں، دیکھیں وہ خود یہ فیصلہ کرتے ہیں یا نہیں، یہ وقت گزر گیا تو پھر حالات ان پر اپنا فیصلہ تھوپیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وزیراعلیٰ ان کی مرضی کا بھی نہ ہو اور انہیں اسے تسلیم بھی کرنا پڑ جائے۔
دوسری طرف بلاول بھٹو اپوزیشن کے پنجاب بارے متبادل پلان کے ساتھ لاہور میں موجود ہیں، ان کا پلان یہ ہے کہ ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ق لیگ مل کر پنجاب حکومت بدل دیں۔
اس کے لئے وہ چاہتے ہیں کہ ن لیگ پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر قبول کرلے اور دوسری طرف چودھری اپنا اتحاد تحریک انصاف سے توڑ کر پی ڈی ایم کے ساتھ کر لیں۔ بظاہر اس سیاسی پلان کی کامیابی کا فوری امکان نہیں لیکن فرض کریں کہ اگر پی ٹی آئی حکومت نے عثمان بزدار کی بجائے کسی اور کو چیف منسٹر بنانے کی کوشش کی، چاہے وہ چودھریوں کے سابق اتحادی راجہ بشارت ہی کیوں نہ ہوئے۔ چودھری اس معاملہ پر ناراض ہو جائیں گے یہی وہ مرحلہ ہو گا جب بلاول کی سیاسی حکمت عملی پر عملدرآمد کا وقت آئے گا۔
پنجاب میں سیاسی تبدیلی صرف اہلِ سیاست کے بس کی بات نہیں، یہ تبدیلی اتنی بڑی اور اہم ہے کہ اس میں ریاستی اداروں کی ’’ان پٹ‘‘ کے بغیر آگے نہیں چلا جا سکتا۔ پی ٹی آئی کو یہ تبدیلی، ریاستی اداروں کے ساتھ صلاح مشورے اور ان کی مکمل اشیر باد کےبعد ہی کرنی چاہئے وگرنہ یہ تبدیلی کہیں الٹی نہ پڑ جائے۔ ایک طرف تبدیلی کے موقع پر اداروں کی ناراضی کا خدشہ ہے تو دوسری طرف اپنے اتحادی چودھریز آف گجرات سے کشیدگی کا اندیشہ۔
چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں ایک زبردست معرکہ آرائی ہو گی، یہ اداروں کے نیوٹرل ہونے کا امتحان ہوگا اور اگر ادارے واقعی نیوٹرل رہتے ہیں تو گنتی اور اعدادوشمار واضح طور پر یوسف رضا گیلانی کے حق میں ہیں، ایسا ہوا تو طاقت کا توازن بدل جائے گا۔
چیئرمین سینیٹ اپوزیشن کا آگیا تو یہ آفٹر شاک دھماکہ خیز ہوگا اور اس سے مزید تبدیلیوں کی راہ ہموار ہوتی رہے گی۔ امکان یہ ہے کہ نیوٹرل ہونے کے دعوئوں کے باوجود سینیٹ میں حکومت کے لئے ہزیمت فی الحال پالیسی کا حصہ نہیں ہے، اس لئے حکومت کی فتح کے لئے پورا زور لگے گا۔
توقع تھی کہ سینیٹ الیکشن کے بعد سیاسی لہریں پُرسکون ہو جائیں گی مگر ہوا اس کے الٹ ہے، سیاسی سمندر میں طوفان در طوفان آ رہے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کا الیکشن اور پھر پنجاب میں ممکنہ تبدیلی اور اس کے علاوہ اپوزیشن کا لانگ مارچ اور تحریک عدم اعتماد یہ سب وہ اہم واقعات ہیں جو آنے والے دنوں میں ہونے ہیں، اس لئے سیاست کے سمندر میں جوار بھاٹا کی سی کیفیت رہے گی۔
فی الحال سیاست، میدانوں کی بجائے ایوانوں میں ہے، کاش ایوانوں میں صرف ہار جیت اور مقابلے کے کھیل نہ ہوں وہاں قانون سازی کے لئے مصالحت اور مصلحت کا راستہ بھی اپنایا جائے۔ کاش ایک دوسرے کو ناک آئوٹ کرنے اور واک آئوٹ کرنے کی بجائے مل جل کر کام کرنے کی روایت پر عمل کیا جائے۔ وہ قانون سازی جس پر حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق ہے کم از کم اس کا آغاز تو کیا جائے…
(بشکریہ روزنامہ جنگ )