عالمی یوم خواتین کا پوسٹر

خواتین کا عالمی دن اور خطبہ حجتہ الوداع (حصہ اول)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

8 مارچ ” خواتین کا عالمی دن “ ہے۔ 8 مارچ 1907ء سے قرار پایا جانے والا یہ دن منانے کا یہ سلسلہ آج تقریباً سوا صدی بعد بھی جاری و ساری ہے۔ ابتداء میں یہ بے قاعدگی سے اور پھر 1977ء سے باقاعدگی سے ہر سال منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ (U.N.O ) کے ایجنڈے تلے یہ سال بہ سال زیادہ جوش اور بھر پور تیاری سے celebrate کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی سرکاری و غیر سرکاری سرپرستی میں یہ دن روایتی اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ دن منانے والے لوگ اقلیت میں ہوتے ہیں لیکن ان کا ایجنڈا، کام اور ہوشیاری و مکاری (active ness) دیکھ کر ان کی بڑی تعداد کا گمان ہوتا ہے۔

اس موقع پر خواتین کو بااختیار بنانے اور قومی دھارے میں ان کی بھرپور شمولیت و شرکت کی باتیں اور تقریریں ہوتی ہیں۔

اب پہلی اور اہم بات تو یہ ہے کہ اگر دنیا میں” انٹرنیشنل مین ڈے “ نہیں منایا جاتا تو پھر” انٹرنیشنل ویمن ڈے “ کیوں منایا جاتا ہے؟ اسے منانے کی آخر ضرورت کیا ہے؟

مغربی معاشرے میں تو لوگوں کو مختلف دن منانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ” وومن ڈے “ کے علاوہ ” مدر ڈے “، ” فادر ڈے “، ” ٹیچر ڈے “، ” لیبر ڈے “ وغیرہ نہ جانے کتنے ڈیز (days) منانے کا رواج وہاں عام ہے اور سال کے ایک دن وہ یہ دن منا کر ان کے حقوق و فرائض سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ اور باقی 364 دنوں میں انہیں ان کی فکر بھی نہیں ہوتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم مشرقی لوگوں کو آخر یہ دن منانے کی کیا ضرورت ہے؟

اور اگر ہم بھی ہر سال ” خواتین کا عالمی دن “ منانے پر مجبور ہیں تو ضرور یہ کوئی غیر معمولی بات ہے۔

صنف نازک، وجہ تسکین اور کائنات کی دل کشی کا باعث عورت (جو ماں، بہن، بیوی، بیٹی ہے) کا ایک دن مقرر کیوں ہوتا ہے؟
اس کا ایک دن کے لیے خصوصی خیال اور پروٹوکول کیوں ہے؟

اس سے ماؤں، بہنوں، بیویوں اور بیٹیوں کو کون سے فوائد و ثمرات حاصل ہوتے ہیں؟
کیا سب خواتین کو ان کا فائدہ پہنچتا ہے یا یہ چند مخصوص قسم کی خواتین کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں؟
کیا یہ مسلمان خواتین کے لیے بھی یکساں فائدہ مند ہوتے ہیں؟

آخر کون ” عورت مارچ “ کو سپورٹ کر رہا ہے اور کیوں؟
یہ ایجنڈا کن کا ہے؟
یہ پلاننگ کس نے کی ہے؟ اور کیوں اسے اس قدر پروموٹ بھی کیا جا رہا ہے؟
اس کی تیاریوں کے لیے اخراجات کون فراہم کر رہا ہے؟
اور کون اس طرح کے گروپس کو جمع کرکے ” عورت مارچ “ کے لیے ٹریننگ دے رہا ہے؟
اسلام اس بارے میں کیا راہنمائی فراہم کرتا ہے؟
خطبہ حجتہ الوداع میں نبی اکرمﷺ نے خواتین کے کون سے حقوق و فرائض بیان کیے ہیں؟ وغیرہ
اس طرح کے مختلف سوالات کثرت سے ذہنوں میں ابھرتے اور جواب کے متلاشی ہوتے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل ایک عالمی ادارہ ہے جس کے ویژن 2021 ء میں ہم جنس پرستی کا فروغ، اس کی قانونی حیثیت، اسقاط حمل کو جائز اور عورت کا حق قرار دلانا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سزائے موت کا خاتمہ بھی اس کا ایک اہم ایجنڈہ ہے۔

اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے منائے جانے والے اس دن کا ہر سال باقاعدہ ایجنڈہ اور تھیم طے ہوتا ہے جس کے مطابق مطلوبہ نتائج حاصل کرنے ہوتے ہیں۔
سال 2021ء کا تھیم یہ ہے کہ:
"Women in leadership: Achieving an equal future in a COVID-19 world.”

” قیادت میں خواتین: کووڈ-19 کی دنیا میں مساوی مستقبل کا حصول “
اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پرمزید بیان کیا گیا ہے کہ
The theme celebrates the tremendous efforts by women and girls around the world in shaping a more equal future and recovery from the COVID-19 pandemic.
” مرکزی خیال/ موضوع COVID-19 وبائی بیماری سے زیادہ مساوی مستقبل کی تشکیل اور بحالی کے لیے دنیا بھر کی خواتین اور لڑکیوں کی زبردست کاوشوں کا جشن مناتا ہے۔“

عالمی سطح پر یہ مہم LGBT کے پلیٹ فارم سے شروع کی گئی ہے۔ یہ مخفف ہے۔
L=Lesbian،
G=Gay،
B= Bisexual،
T=Transgender
یعنی ہم جنس پرست عورتوں، ہم جنس پرست مردوں، مرد اور عورت دونوں سے جنسی تعلقات قائم کرنے والے اور لوگوں کی تنظیم
اس تنظیم کے مقاصد کی پروموشن، ان لوگوں کے تحفظ اور ان کی مالی و قانونی مدد کے لیے عالمی تحریک کی ابتدا کی گئی ہے جس کے مطابق ہر ملک میں ایسی سرگرمیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔

سال 2020ء کا تھیم یہ تھا کہ
I am Generation Equality: Realizing Women’s Rights.
” میں برابر کی صنف ہوں/ میں صنفی مساوات ہوں: خواتین کے حقوق کو حقیقی طور پر تسلیم کرتے ہوئے۔“
یو این او کی ویب سائٹ پر باقاعدہ طور پر تحریر ہے کہ:
The theme is aligned with UN Women’s new multigenerational campaign, Generation Equality.
” یہ تھیم اقوام متحدہ کی عورت کی کثیرالنسلی مہم، صنفی (نسلی) مساوات کے مطابق مقرر کیا گیا ہے۔“

2016ء میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر UNO نے تھیم "pledge for parity” دیا تھا جس کا مطلب ہے ” مساوات کا وعدہ “
(روزنامہ نوائے وقت، 8 مارچ 2016ء)

جس کے تحت عورت اور مرد کو معاشرے میں ہر لحاظ سے برابر حقوق ملنے چاہئیں تاکہ وہ ہر حیثیت سے برابر ہوں۔ UNO کے ایجنڈے کے مطابق 2095ء تک دنیا میں gender parity قائم ہونی چاہیے جس کے تحت مکمل یک جنسی (unisex) معاشرہ وجود میں لایا جانا ممکن ہو سکے گا۔

مغربی معاشرے کو آج کافی حد تک یک جنسی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن صد فی صد نہیں۔ جدید دجالی نظام کے مطابق یہ تناسب کافی نہیں اور اسے مزید بلکہ مکمل طور پر یک جنسی ہونا چاہیے۔

یکم مارچ 2016ء کے پاکستانی اخبارات کے مطابق 2016ء کے عالمی یومِ خواتین کے موقع پر حکومت پنجاب نے نیا قانون متعرف کروایا ہے کہ
” اگر کسی شہر نے اپنی بیوی کو مارا پیٹا تو اس کی بیوی کے فون کرنے پرپولیس آکر اسے گرفتار کر کے لے جائے گی۔“ (روزنامہ جنگ، یکم مارچ 2016ء)

اگر اس بات کا سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو یہ قانون مشرق کے حالات کے لحاظ سے تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں۔

2015ء میں عالمی یومِ خواتین کے موقع پر حکومت پنجاب نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے 5 قوانین میں ترامیم کی منظوری دی تھی جن میں وراثتی جائیداد کی طلبی کے سمن مردوں کے علاوہ خواتین کو بھی وصول کروانے، نکاح نامہ کے تمام کالم درست معلومات کے ساتھ پر کرنے، پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر نکاحِ ثانی نہ کرنے، 16سال سے کم عمر بچیوں کی شادی کرنے اور بیوی اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے فیملی کورٹ کی کارروائیوں کو آسان بنانے جیسےاقدامات شامل ہیں۔ (روزنامہ نوائے وقت، 8 مارچ 2015ء)

ان میں سے دوسرا اور پانچویں نکتہ تو درست اور نافذ العمل تھے۔ تاہم تیسرا اور چوتھا نکتہ اسلامی نقطہ نظر سے قابلِ مواخذ٥ ہیں۔

وقتی ضرورت اور صورتحال کے تحت یہ دونوں اقدامات عارضی قوانین تو بنائے جا سکتے ہیں لیکن ان کو مستقل طور پر نافذ نہیں کرنا چاہیے۔

عالمی یومِ خواتین کا پس منظر

8مارچ 1907ء کو نیویارک میں خواتین کے کچھ مطالبات منظور کیے گئے، جن کے تحت انہیں اپنی ملازمتوں میں کچھ سہولیات حاصل ہو گئیں تھیں۔ خواتین کا نعرہ تھا :” یکساں ملازمتوں میں مساوی تنخواہ “

ماضی میں اس سے پہلے ایک کام اور ملازمت کے لیے مردوں کو جتنی تنخواہ ملتی تھی، اسی کام اور ملازمت کے لیے مغربی خواتین کو مردوں سے نصف تنخواہ تو کہیں نصف سے بھی کم ملتی تھی اور یہ سلسلہ برسوں اور دہائیوں سے نہیں، بلکہ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے جاری تھا۔

انقلاب فرانس کے بعد مغربی خواتین کو گھروں سے باہر نکلنا پڑا توپھر انہیں دوبارہ اپنے گھروں میں جانا اور قرار پکڑنا نصیب نہ ہوا بلکہ اس بات کو عورت نے خود بھی مسترد کر دیا تھا۔ مردوں کے ماتحت رہنے کے بجائے اسے اپنا بااختیار ہونا بھا گیا تھا۔ اسے گھر سے باہر کی آزاد و خود مختار دنیا ” پسند “ آ گئی تھی۔

اگرچہ مغربی عورت کے لیے یہ آزاد دنیا بہت سے مسائل کا باعث تھی، ہر جگہ مردوں کے ظالمانہ اور استحصالی رویے تھے، ہر جگہ امتیازی قوانین تھے، ” لیڈیز فسٹ “ کا صرف نعرہ تھا۔ حمل کے کٹھن مراحل، بچوں کی پیدائش اور تعلیم و تربیت کے مسائل علیحدہ تھے لیکن وہ دوبارہ گھر جانے اور ٹکنے کے لیے تیار نہ تھی۔

لہذا خواتین کا مطالبات پیش کرنے اور احتجاج کرنے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ حتیٰ کہ 8مارچ 1907ء کو نیویارک میں خواتین نے ایک عظیم الشان احتجاج کیا۔ انہوں نے جلسے کیے، جلوس نکالے، تقریریں کیں، قراردادیں پیش کیں، اپنی ملازمت کی شرائط کو بہتر بنانے کے مطالبے کیے۔ اپنی عزتِ نفس کی بحالی کیلئے حقوق مانگے اور کچھ ذاتی شخصی حقوق طلب کیے۔

حکومت نے اس احتجاج کو روکنے کی بڑی کوشش کی، خواتین پر ظلم و تشدد بھی کیا مگر بالآخر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ حکومت نے خواتین کے کچھ مطالبات مجبوراً منظور کر لئے اور بعد میں اقوامِ متحدہ نے اس دن کو ” خواتین کا عالمی دن “ قرار دے دیا۔

یوم خواتین کون لوگ مناتے ہیں؟

مغرب میں یہ دن مقرر کرنے اور منانے والے عورت کے وہی ” مغربی آقا “ ہوتے ہیں جنہوں نے اسے گھر سے باہر آزادی کے نام اور تھیم پر نکالا تھا۔ یہ ان کا ” ڈپلومیٹک “ (منافقانہ) طریقہ ہے کہ خود ہی معاشرے میں لوگوں کے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں، خود ہی معاشرتی فرق کو اجاگر کرتے ہیں۔ پھر کمزور اور پسماندہ طبقوں کے حقوق کے لیے دن منانے شروع کر دیتے ہیں کہ ” ہم ان کے مسائل کے حل کے لیے بڑے کوشاں رہتے ہیں، ان کے ہمدرد ہیں اور ان کے دکھوں پر غمزدہ ہیں۔“

اقوام متحدہ (U.N.O.) کے ایجنڈے تلے بہت سی مغرب زدہ غیر سرکاری تنظیمیں (N.G.Os) کام کرتی ہیں جو یہ دن اہتمام سے مناتی ہیں۔ علاقائی اور بین الاقوامی تنظیمیں بھی یہ دن بڑے جوش و خروش سے مناتی اور اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ اس ” ایک “ دن ان کے حقوق کی باتیں کی جاتی ہیں، ان کے مسائل اور غموں کو ” سیلیبریٹ “ کیا جاتا ہے اور پھر سال کے 364 دنوں میں ان پر پلٹ کر ایک نظر بھی نہیں ڈالی جاتی۔

وہ اپنے مسائل اور مشکلات میں گھری تنہا رہ جاتی ہیں۔ خالی ہاتھ ، خالی دل اور خالی جیب لیے وہ کسی مہرباں کی تلاش میں ہوتی ہیں جو جادو کی چھڑی سے حقیقت کو بدل کر ان کے لیے زندگی آسان کر سکے. ہمارے معاشرے میں ایسی مغرب زدہ خواتین کی تعداد ہمیشہ کم رہی ہے لیکن یہ خواتین اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنے مفادات کی وجہ سے معاشرے کی دیگر خواتین کو آزادی نسواں اور حقوق نسواں کے دل فریب نعروں کا جھانسہ دے کر انہیں گھروں سے باہر نکالنے کی بھرپور کوششںوں میں ہیں.

یوم خواتین کیوں مناتے ہیں؟ اور ان کا ایجنڈا کیا ہوتا ہے؟

اہل مغرب کے افکار سے متاثرہ تنظیمیں خواتین کے نام نہاد حقوق کی علمبرداری کرتی اور ان کے حقوق کے لیے کوشاں ہوتی ہیں مثلاً پردہ سے آزادی، گھر سے باہر مردوں کے ساتھ ہر طرح کی ملازمت کرنا، یکساں ملازمتوں میں مساوی اوقات اور مساوی تنخواہ، مخلوط تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا، صنفی مساوات کا حصول، صنفی امتیازات کا خاتمہ، جنسی معاملات میں آزادی، اسقاط حمل کا حق، مردوں کو طلاق دینے کا حق رکھنا، ناچ گانے اور ڈانس کی آزادی، بے حیائی اور فحاشی کا دوردورہ، سیکس فری معاشرہ اور آزاد خیال ماحول، معاشرتی ترقی، خواتین تک اختیارات کی منتقلی، ان کی قومی دھارے میں شمولیت کا حق اور ضرورت وغیرہ۔

ہمارے اسلامی معاشروں میں اس دن کو منانے والے لوگ وہی ہوتے ہیں جو مغرب سے متاثر ہوتے ہیں۔ اور مغربی معاشرت کو پسند کرنے والی N.G.Os ہوتی ہیں۔ عام گھریلو خواتین کو تو اس دن کا علم تک نہیں ہوتا اور عام ملازمت پیش خواتین کو بھی یہ دن منانے یا نہ منانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔

یوم خواتین کس طرح یہ دن مناتے ہیں؟

حقوق نسواں کی یہ نام نہاد تنظیمیں اور خواتین اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے مختلف بڑے شہروں کے فائیو سٹار، سیون سٹار، ہوٹلوں میں مختلف پروگرام، کانفرنسیں اور کنونشنز منعقد کرواتی ہیں۔ تقریریں ہوتی ہیں اور خواتین پر ہونے والے مظالم کے تحت آوازیں اٹھائی جاتی ہیں. ڈاکومنٹری فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔

فارغ الحال اور فارغ البال مغرب زدہ بیگمات اور حکومتی عہدہ دار خواتین لیڈر بن کر آگے آگے ہوتی ہیں اور ان پروگراموں کو کامیاب کروانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہیں۔ چنانچہ مختلف قراردادیں منظور کروائی جاتی ہیں، خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف قوانین پاس کروانے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔

مختلف علاقوں اور شہروں میں جلسے جلوس ہوتے ہیں، ریلیاں نکالی جاتی ہیں، خواتین کو ملازمتیں، سہولیات اور ترقی دلوانے کے لیے مختلف باتیں کی جاتی ہیں۔ اس دن کو بھرپور طریقے سے منانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اور اسی میں یہ دن تمام ہو جاتا ہے. الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی مختلف سماجی سرگرمیوں کے ذریعے اپنا رول اور اپنی کوریج بھرپور طریقے سے ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

پھر اس دن کی رپورٹیں، اعدادوشمار وغیرہ یو – این – او کو ارسال کر دی جاتی ہیں تاکہ انہیں اپنی وفاداری کا مکمل ثبوت فراہم کیا جائے کہ ان کے ایجنڈے تلے کتنی محنت کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں ان کی ترقی کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔
لیکن عملی نتائج کیا سامنے آتے ہیں؟
یہی کہ خواتین جس استحصالی نظام کا پہلے سامنا کر رہی ہوتی ہیں، اس دن کے بعد بھی انہیں وہی مسائل در پیش رہیں گے. اور حاصل وصول محض صفر ہوتا ہے۔

عالمی یومِ خواتین منانے سے خواتین کو کون سے فوائد (حقوق) حاصل ہوتے ہیں؟

یہ دن منانے سے عام عورتوں کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، نہ غربت و افلاس دور کرنے کے لیے کوئی تعمیری پروگرام طے کیے جاتے ہیں۔ نہ ان کے خاتمے کے لئے تعلیم عام کی جاتی ہے۔
ان غرباء کے بچوں بچیوں کے لیے نہ سکول اور نہ مدرسے کھولے جاتے ہیں جہاں تعلیم فری ہو یا برائے نام ہو اور نہ ان کی عزتِ نفس یا احترام کے لیے ہمارے معاشرے میں مروجہ ہندوؤں سے متاثرہ مختلف رسوم و رواج ختم کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نہ ہر جگہ سلائی کڑھائی، کھانا پکانا، مختلف دستکاریوں کے کام، کمپیوٹر وغیرہ جیسے فنون غریب بچیوں کے لیے فری طور پر عام کیے جاتے ہیں۔

ملازمت پیش خواتین کے لیے بھی ملازمتوں کے قواعد و ضوابط نہ تو بہتر کروائے جاتے ہیں، نہ کنٹریکٹ والے ملازمین کو مستقل کروایا جاتا ہے اور نہ ہی سرکاری ملازمتیں عام ہوتی ہیں کہ ہر فرد سرکاری سہولیات سے مستفید ہو سکے۔

تعلیم کے مختلف مراحل سے متعلقہ اساتذہ، لیکچررز، پروفیسر وغیرہ، میڈیکل اور صحت وغیرہ کے شعبوں سے منسلک ملازمت پیشہ خواتین لیڈی ڈاکٹرز، نرسیں، ہیلتھ ورکرز وغیرہ کے مسائل و مشکلات کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کی ضروری سہولیات وغیرہ کے لیے حقیقی قانون سازی کروائی جاتی ہے.

پارلیمنٹ میں بیٹھ کر خواتین کی %33اور %17 نمائندگی کرنے والی خواتین کوئی نہ کوئی بل تو پاس کروا لیتی ہیں لیکن خواتین کے حقوق انہیں مکمل طور پر حاصل نہیں ہوتے۔ خواتین کی مشکلات اور ان کا رونا دھونا بیان تو کیا جاتا ہے لیکن انہیں بااختیار نہیں بنایا جاسکتا۔

یہ دن منانے والوں کو اسلامی دنیا میں ایک علاقے سے دوسری جگہ مجبوراً ہجرت کر کے آنے والی خواتین کی آبادکاری اور دوسری ضروریات زندگی کا بندوبست کرنے کا خیال نہیں آتا. خود پاکستان میں ایسی بے شمار خواتین موجود ہیں جو فاٹا، سوات، مالاکنڈ، وانا وغیرہ سے ہجرت کر کے پاکستان کے دوسرے علاقوں میں اور دوسرے اسلامی ممالک سے بھی ہجرت کر کے مختلف ممالک میں مقیم اور اب دوسروں کے تعاون کی محتاج ہیں۔

فلسطین، کشمیر، میانمار، افغانستان، عراق اور دوسرے جنگ زدہ مسلم ممالک کی مظلوم خواتین کی نہ کوئی مدد کی جاتی ہے، نہ جنگ بندی کے لیے کوئی آواز اٹھائی جاتی ہے کہ آج عالمی یومِ خواتین ہے۔ کم از کم آج کے دن تو جنگ بند کر کے انھیں ڈرا سکون کا سانس لینے دیں۔ ان ممالک کی تڑپتی، سسکتی بیوائیں اور بلکتی یتیم بچیاں تو ان کے پروگراموں کا موضوع نہیں بنتیں۔

مہاجر خواتین، مہاجر خواتین ہی رہتی ہیں. خانہ بدوش خواتین، خانہ بدوش اور بھکارن، بھکارن ہی رہتی ہیں۔ ملازمہ، ملازمہ ہی رہتی ہے اور ماسی، ماسی ہی رہتی ہے۔ بے گناہ مظلوم، قابلِ احترام، عفت مآب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا تو کبھی ان کو خیال نہیں آتا جسے بغیر کسی جرم کے 36 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے اور وہ امریکہ کی جیلوں میں موت سے بد تر زندگی گزار رہی ہے۔ بے شمار مردوں کے ساتھ جو خواتین بھی گم شدہ (missing) ہیں ان کی باز یابی کے لیے کوئی NGO جدوجہد کرتی نظر نہیں آتی۔

ان بیگمات کے اپنے گھروں میں کام کرنے والے ملازمین اور ماسیوں کی زندگی میں توگھریلو سطح پر بھی کوئی بہتری نظر نہیں آتی، کجا کہ ” ملکی “ سطح پر ان کی شنوائی ہو سکے. ان کے چوکیدار، خانساماں، ڈرائیور کی تو تنخواہ میں ایک فیصد بھی اضافہ نہیں ہوتا۔ نہ ان کے اوقات کار میں کچھ نرمی پیدا کی جاتی ہے کہ ان کے اور ان کے گھروں میں موجود ان کی بیویوں اور بیٹیوں کے لیے زندگی میں بہتری کے کچھ آثار پیدا ہو جائیں۔ وہ اسی طرح مر مر کر جیتی رہیں گی اوران کے ” سٹیٹس “ میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی. اپنی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے لیے لوگ جو سوچ رکھتے ہیں، وہ ملازماؤں، ماسیوں اور ملازمت پیشہ خواتین کے لیے یقیناً نہیں رکھتے تو یہ دوہرا تضاد عورت کی تذلیل (degradation) کا باعث بن جاتا ہے۔

اگرچہ ہمارے پاکستانی معاشرے میں حقوق نسواں کے علمبردار اور NGOs کے کرتا دھرتا ابھی مغربی لبرل سیکولر معاشرے سے پیچھے ہیں لیکن ان کے راستے، منزلیں اور ٹارگٹ وہی ہیں۔ حفیظ جالندھری نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ

اب مسلمانوں میں بھی ملے ہیں کچھ روشن خیال
جن کی نظروں میں حجاب صنفِ نازک ہے وبال
چاہتے ہیں بیٹیوں، بہنوں کو عریاں دیکھنا
محفلیں آباد لیکن گھر کو ویراں دیکھنا

کون سی خواتین کو فائدے حاصل ہوتے ہیں؟
یہ دن منانے سے حقیقی فائدے ان لوگوں اور بیگمات کو ہوتے ہیں جو اسے مناتے ہیں۔ ان کی ملازمتیں مزید پکی ہو جاتی ہیں۔ ان کی ترقی کے چانسز زیادہ ہو جاتے ہیں اور مغرب کی نظر میں ان کی وفا داریاں بڑھ جاتی ہیں اور وہ اپنے آپ کو ” شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار“ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ لوگ جن کے نام پر یہ دن مناتے ہیں، ان لوگوں کو ان ” نام نہاد “ حقوق کے حصول کی جدوجہد سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ الٹا یہ فضول خرچی اور فضول رسمی ونام نہاد کارروائیاں ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوتی ہیں۔

ایجنڈا کیا ہوتا ہے؟
ان ناخداوؤں کا ” ایجنڈا “ یہ ہوتا ہے کہ گھروں میں ” بیکار “ بیٹھی خواتین کو کس طرح ملکی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جا سکتا ہے؛
یہ بیکار کیوں ہیں اور اپنے لیے خود کیوں نہیں کماتیں؟
(یعنی ان کے باپ، ان کے شوہر انہیں کیوں کما کر لا دیتے ہیں؟
کیا یہ خود نہیں کما سکتیں؟ اور انہیں کیوں باپ بھائیوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے؟ )

ان خواتین کو چاہیے کہ خود باہر جا کر کمائیں اور کھائیں۔ چھوٹی بچیاں اور نوجوان لڑکیاں مخلوط تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں، بولڈ اور روشن خیال بنیں اور پھر خود نوکری کر کے کما کر کھائیں۔ آزاد ہوں اور مردوں کی دست نگر نہ بنیں۔ مرد کیوں ان پر ” حاکم “ ہیں؟ گھروں کے اندر رہنے اور پردہ نے ان کو دقیانوس بنایا ہوا ہے۔ یہ پرانے زمانے کی ” آؤٹ آف فیشن “ باتیں ہیں، ان کو ترک کر کے ہی عورت ترقی کی راہ پر چل سکتی ہے۔

وہ چاہتے ہیں کہ خواتین سیاست میں بھی بھر پور شمولیت اختیار کریں۔ علاقائی اور ملکی سطح پر مردوں کے برابر ان کی نمائندگی ہو۔ قانون سازی میں کیوں خواتین پیچھے رہیں؟
وہاں بھی انہیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہیے۔ سیاست میں خواتین کونسلرز، ایم-این-ایز، ایم-پی-ایز، جج، پارٹی ممبرز، سفیر، مشیر اوروزیر بن کرسیاسی میدان میں ہر طرف چھائی ہوئی نظر کیوں نہیں آتیں؟؟؟

قانون سازی کے علاوہ بھی مختلف اداروں، فیکٹریوں، ملوں ، ہسپتالوں اور ہر سڑک پر خواتین کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ وہ انجینئر بن کر سڑکوں، پلوں اور عمارتوں کی ڈیزائننگ کریں اور ان کی تعمیر کروائیں۔ ڈاکٹرز اور نرسیں بن کر ہسپتالوں اور پرائیویٹ کلینکس میں کام کریں۔ عورتوں اور مردوں کی تیمارداری کریں اور ” انسانیت “ کے زخموں کا مداوا کریں۔
فیکٹریوں اور ملوں میں ڈائریکٹر، باس، سیکرٹری، سپروائزر، ورکرز، کمپیوٹر آپریٹرز، ریسیپشنسٹ اور کلرکوں کے عہدوں پر فائز ہوں۔

تعلیمی اداروں میں پرنسپل اور اساتذہ بنیں۔ مخلوط تعلیمی اداروں میں خواتین اور لڑکیوں کا معیار تعلیم اور شرحِ خواندگی بلند کریں۔ ہر سڑک پر ٹریفک وارڈن اور ٹریفک کانسٹیبلز کی حیثیت سے موجود ہوں۔ ہر چھوٹے بڑے سپر سٹور میں سیلز گرل بن کر وہاں کی رونق دوبالا کریں. ہوائی جہازوں کے علاوہ قیمتی ائیر کنڈیشنڈ بسوں میں بھی ائیر ہوسٹس اور بس ہوسٹس بن کر مسافروں کے لیے رونق بن کر ان کا دل بہلائیں۔

نہ صرف اپنی ذاتی گاڑی چلانے والی (driver) ہوں بلکہ زندگی کی قیمتی ترین گاڑی چلانے میں بھی کسی کی دست نگر نہ رہیں۔ خواہ اس مساوی ” جدوجہد “ کے نتیجے میں وہ گھر سے بے گھر ہو جائیں. اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو معاشرے میں قائم کردہ ” دارالامان “ کس لیے ہیں؟ وہ ان میں پناہ لے لیں اور اپنی زندگی خود گزاریں.

قارئین کرام! مغرب کا یہ دن منانے کے ایجنڈے کا معمولی اور سرسری سا جائزہ ہے۔

خواتین کے حل طلب مسائل :
حقیقت یہ ہے کہ مشرق میں بھی اس دن کو منانے کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں عورت کی عزت و احترام پیدا نہیں ہوتی۔ نہ ان کو فضول رسموں سے نجات دلائی جاتی ہے۔ بچیوں اور خواتین کے لیے علیحدہ تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا اور نہ ہی خواتین کے لئے الگ ہسپتال بنائے جاتے ہیں۔

تھر اور چولستان کی مظلوم فاقوں کی ماری عورت کو بنیادی ضروریاتِ زندگی نہیں پہنچائی جاتیں، نہ ہجرت کر کے آنے والی اور خیمہ بستیوں میں مقیم خواتین اور لڑکیوں کی حالت زار کا خیال کیا جاتا ہے۔ ملازمت پیشہ عورتوں کی ملازمت کے اوقات اور معاوضے بہتر ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے آمدورفت کے مسائل ہوتے ہیں۔ عام عورت کو کوئی ” ریلیف “ نہیں ملتا ہے جس سے اسے زندگی سہل محسوس ہونے لگے اور اسے معلوم ہو کہ آج ” 8 مارچ یوم خواتین “ ہے۔ یہ میرا دن ہے اور میرے لیے منایا جا رہا ہے۔

مغربی معاشرے میں عورت مرد جیسا بننے کی بھر پور نقابی کی کوششوں میں ہے۔وہاں سماجی نظام کو مردوزن کا فرق ختم کر کے ایک جنسی (unisex) بنایا جا رہا ہے جس میں مردوں اور عورتوں کا معاشرتی کردار ایک جیسا ہو اور ان میں کارکردگی کے حساب سے کوئی فرق نہ ہو ۔ لیکن اس کے بہت زیادہ نقصانات سامنے آ رہے ہیں جو ناقابلِ تلافی ہیں اور وہاں عورت کی تحقیر بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

امریکی مفکرجارج گلڈر (George Gilder) نے لکھا ہے کہ
” تحریکِ نسواں کے زیرِ اثر مغربی معاشرے میں ہر جگہ یعنی سکولوں کالجوں میں، کھیلوں کے میدان میں، معاشیات میں، جنسی تعلیم میں اور معاشرتی زندگی میں، مردوں اور عورتوں کو ایک جیسے کردار دیے جاتے ہیں۔ اس امید پر کہ یک جنسی معاشرہ وجود میں آ جائے لیکن نتیجہ اکثر ان کی مرضی کے بر عکس نکلتا ہے اور معاشرے میں کنفیوژن (confusion) بڑھتی چلی جاتی ہے۔“
(George Gilder, Men Marriage ,America,2001)

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

لیکن اہل مغرب دجالی نظام کی بساط بچھائے اہل مشرق کو بھی اپنے دام میں لانے کی بھرپور کوششوں میں ہے۔ مگر یہ مسلمان عورت کے لیے ہر گز ہر گز قابلِ قبول نہیں ہے۔ کیونکہ وہ جانتی ہے کہ ” ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی!“

عورتوں کے حقوق کس طرح سے طلب کیے جاتے ہیں؟ اور کیا مانگنے سے مل جاتے ہیں؟

عورت مردوں سے اپنے حقوق طلب کرتی ہے۔ وہ اپنے معاشرے کے ناخداؤں کے سامنے یہ مطالبات رکھتی ہے۔ مغربی عورت اپنے باپ، بھائیوں اور شوہر (بلکہ عموماً بوائے فرینڈ) وغیرہ سے ان حقوق کی طالب ہوتی ہے اور اکثر اس کے قریبی ترین محرم افراد ہی اس کو ان حقوق سے محروم رکھتے ہیں۔

مغرب کے ” ناخداؤں “ کو معاشرے کے مختلف لوگوں کے لیے مسائل پیدا کرنے میں تو دلچسپی ہوتی ہے، لیکن ان کے حل میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ سال میں ایک دفعہ تو یہ دن ” سیلیبریٹ “ کر لیتے ہیں لیکن سال کے باقی دنوں کو بھلائے رکھتے اور ان کے حل سے گریزاں رہتے ہیں۔ ہاں اس دن کو منانے سے متعلقہ تمام Events ان کو ضرور یاد رہتے ہیں اور وہ سارا سال وقتاً فوقتاً ان کی تیاری میں مصروف بھی رہتے ہیں کہ

ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے
( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

6 پر “خواتین کا عالمی دن اور خطبہ حجتہ الوداع (حصہ اول)” جوابات

  1. Abdurahman Avatar
    Abdurahman

    Ma sha Allah

  2. Abdurahman Avatar
    Abdurahman

    Effective and efficient

    1. احمد Avatar
      احمد

      ماشاء اللہ. بارک اللہ.
      احسن طریقے سے قلم بند کی گئی بہت اہم اور معلوماتی تحریر ہے.

  3. Abdurahman Avatar
    Abdurahman

    Great Article
    Every day Is women’s day.
    according to Islam

  4. Ilyas Avatar
    Ilyas

    Boht achi tahreer ha mashallah

  5. احمد Avatar
    احمد

    اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر دن ہی عورت کا دن ہے جس میں اس کے حقوق و فرائض کی طرف بھرپور طریقے سے توجہ دلائی گئی ہے.