ڈاکٹر خولہ علوی :
8 مارچ کو ” خواتین کا عالمی دن “ منایا جاتا ہے۔ 8 مارچ 1907ء سے قرار پایا جانے والا یہ دن منانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ کئی ممالک میں خواتین کے عالمی دن پر تعطیل ہوتی ہے۔ کئی ملکوں میں اسے احتجاج کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ بعض ممالک اس دن کو ” نسوانیت کا جشن “ کے طور پر بھی مناتے ہیں۔ پاکستان میں 8 مارچ 2018ء سے ” عورت مارچ “ کا آغاز ہوا اور ہر سال یہ مارچ باقاعدگی سے منعقد ہو رہا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ
” پاکستان میں خواتین کو معاشرے میں خواتین کے حقوق دلوانے کے لیے آواز بلند کرنا۔“
اقوام متحدہ (یو این او) ہر سال کے لیے اپنا ایجنڈا اور تھیم جاری کردیتا ہےکہ اب لوگوں نے اس کے مطابق تیاریاں کرنی اور پروگرام کرنے ہیں۔ سال 2021ء کا تھیم یہ ہے کہ:
"Women in leadership: Achieving an equal future in a COVID-19 world.”
” قیادت میں خواتین: کووڈ-19 کی دنیا میں مساوی مستقبل کا حصول “
اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پرمزید بیان کیا گیا ہے کہ
The theme celebrates the tremendous efforts by women and girls around the world in shaping a more equal future and recovery from the COVID-19 pandemic.
”مرکزی خیال/ موضوع COVID-19 وبائی بیماری سے زیادہ مساوی مستقبل کی تشکیل اور بحالی کے لیے دنیا بھر کی خواتین اور لڑکیوں کی زبردست کاوشوں کا جشن مناتا ہے۔“
سال 2020ء کا تھیم یہ تھا کہ
I am Generation Equality: Realizing Women’s Rights.
” میں برابر کی صنف ہوں/ میں صنفی مساوات ہوں: خواتین کے حقوق کو حقیقی طور پر تسلیم کرتے ہوئے۔“
یو این او کی ویب سائٹ پر باقاعدہ طور پر تحریر ہے کہ:
The theme is aligned with UN Women’s new multigenerational campaign, Generation Equality.
” یہ تھیم اقوام متحدہ کی عورت کی کثیرالنسلی مہم، صنفی (نسلی) مساوات کے مطابق مقرر کیا گیا ہے۔“
اس سال بھی دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے کے مطابق اس دن کو منانے کی کئی ماہ پہلے سے خصوصی بلکہ دھانسو قسم کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ مختلف لبرل اور سیکولر (بلکہ منافق) قسم کی خواتین اپنی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں۔ ان کو باقاعدہ فنڈ مہیا کیے جاتے ہیں، ٹریننگ سیشنز کروائے جاتے ہیں، نعرہ بازی سکھائی جاتی ہے، پوسٹر ڈیزائننگ وغیرہ کے مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں اور دیگر چھوٹے بڑے ہر طرح کے متعلقہ کاموں کے لیے ان کو تیار کیا جاتا ہے، جس کے بعد ان کو خواتین کے عالمی دن 8 مارچ کو پروگرام کروانے اور ریلیاں نکالنے کے لیے ٹریننگ دے کر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سب باقاعدہ مہینوں بلکہ سالوں کی پلاننگ سے ہوتا ہے اور ان سب کاموں کے لیےبڑے بڑے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں۔
خواتین اس کے مطابق اپنے پروگراموں، کانفرنسوں، سیمیناروں، جلسوں اور ریلیوں وغیرہ میں خواتین کے حقوق اور آزادی کے موضوعات پر تقریریں کرتی ہیں۔ شاعری کرتے ہوئے نظموں اور غزلوں میں اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔ وہ قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود اہل جہاں پر یہی ظاہر کرتی ہیں کہ شاید ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اور یہی لوگ دراصل خواتین کے حقوق کے محافظ اور ان کے لیے سعی پیہم کر نے والے ہیں۔
مختلف این جی اوز کی خواتین بڑے شہروں میں ان پروگراموں کو منعقد کرتی ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کام مردوں کے تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ چھوٹے شہروں اور گاؤں دیہات وغیرہ میں یہ کام فی الحال محدود ہے لیکن جس طرح خواتین کا یہ کام بڑھتا چلا جارہا ہے، شنید ہے کہ یہ کام چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں بھی جلدی پھیل جائے گا۔
دسمبر 2029ء کے ایام گزشتہ میں پاکستان کی ایک مذہبی تنظیم ” تنظیم اسلامی “ نے ایک عام سے پیغام والا بل بورڈ راولپنڈی کے ایک چوک میں لگایا جسے فوراً ہٹا دیا گیا تھا جبکہ اخبارات نے پیسے لے کر بھی اس اشتہار چھاپنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس اشتہار میں قرآن مجید کی سورہ النور کی آیت مع ترجمہ لکھی ہوئی تھی اور ساتھ یہ تحریر درج تھی کہ
” ہمیں اشتہارات میں خواتین کی تصویریں شائع نہیں کرنی چاہیے۔“
لیکن حکومت نے اس کی اجازت نہیں دی تھی۔
بہت افسوسناک بات یہ ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں اپنے خرچ پر بھی قرآن مجید کی آیت والا اشتہار اور ساتھ اسلام کا یہ صریح حکم اور پیغام کہ ” خواتین کی تصاویر اشتہارات میں شائع نہیں کرنی چاہیے“ ، اس کو بندہ اپنے خرچ پر بھی نہیں چھپوا سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس اشتہار کی عدم اشاعت اور حکومت کی عدم اجازت کی وجہ سے مسلمان حساس دلوں کو بہت ٹھیس پہنچی بلکہ میرا دل تو زخم زخم ہوگیا تھا۔
ہمارے معاشرے میں لبرل اور سیکولر قسم کی خواتین وقتاً فوقتاً من چاہا اور عجیب و غریب ڈرامہ و تماشہ دنیا والوں کے سامنے پیش کر کے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہی اس ملک میں حقوق نسواں کی علمبردار اور محافظ ہیں اور اس معاشرے میں اب خواتین بیدار ہو چکی ہیں اور صحیح معنوں میں اپنے حقوق جانتی اور پہچانتی ہیں اور ان کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔
یاد رکھیں کہ ” عورت کی آزادی “ کے معنی بے حیائی اور فحاشی نہیں بلکہ شخصی شناخت ہے!
8 مارچ 2019ء کو ” عورت آزادی مارچ “ میں شریک خواتین کے ہاتھوں میں جو بینرز تھے، اس میں سے کسی ایک میں خواتین کے حقوق کی بابت کچھ درج نہیں تھا۔ البتہ ان بینرز کے ذریعے بے شرمی، بے غیرتی اور فحاشی نے ضرور فروغ پایا۔
سوشل میڈیا کے ذریعے ” عورت آزادی مارچ “ میں شریک مظاہرین کے ہاتھوں میں موجود پوسٹروں پر درج ” میرا جسم میری مرضی “، ” اپنا کھانا خود گرم کرلو“، ” اپنے موزے خود ڈھونڈو “, ” طلاق یافتہ لیکن خوش “، ” شادی نہیں بلکہ آزادی“ جیسے نامعقول نعرے لکھے ہوئے تھے۔
اس قسم کے گھٹیا نعروں کو پڑھ کر محب وطن پاکستانیوں اور سچے مسلمانوں کے سر شرم سے جھک گئے اور دل و دماغ پریشان ہوگئے کہ وطن عزیز میں ان نام نہاد ماڈرن عورتوں کو آخر ہو کیا گیا ہے؟ ان کو آخر کس قسم کی آزادی چاہیےجس کے لیے اس طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں اور آخر کون سے حقوق کا مطالبہ کیا جارہا ہے؟ اور یہ کس سے مانگے جا رہے ہیں؟
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عورتوں کی آزادی کے نام پر ایسی بے شرمی اور بے حیائی کے مظاہرے نے عوام کی آنکھیں کھول کر رکھ دیں اور انہیں بتا دیا کہ ” عورت کے حقوق “ اور ” آزادی نسواں “ کے نام پر ایک وہ کھیل کھیلا جا رہا ہے جس کی دین و معاشرے میں کوئی جگہ نہیں۔
” صنفی مساوات “ کا مطلب کسی بھی صورت میں مادرپدر آزاد ہوکر مردوں کے مقابل آجانا نہیں ہے نہ ہی پدر شاہی نظام سے آزادی ہے بلکہ عورتوں کے حقوق یا صنفی مساوات کا مطلب یہ ہے کہ کچھ ایسی جگہوں پر جہاں مذہب نے اس کو حق دیا ہو یا گنجائش رکھی ہو، لیکن معاشرتی سطح پر اس سے بے انصافی ہورہی ہو تو تب ناانصافی کے خلاف بات کرنا اور اسے حقوق دلانا ہے۔
ایک اسلامی ملک ہونے کے ناتے وطن عزیز پاکستان میں خواتین کے حقوق کی پاسداری سب سے زیادہ ہونی چاہیے لیکن افسوس کہ صورتحال مختلف ہے۔ ہمارے ہاں خواتین کے حقوق کا استحصال کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ خواتین کی آبادی تقریباً 9کروڑ ہے لیکن خواتین کے مسائل ہمارے ملک میں دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہیں۔
یہ درست ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو کئی جگہ استحصال اور حقوق کی پامالی کا سامنا ہے۔ یہ بھی تسلیم ہے کہ اپنے حقوق کے لیے بات کرنا ضروری ہے۔ معاشرے اسی طرح سے بہتری کی جانب جاتے ہیں لیکن اس عمل کیلئے اہل مغرب کے طور طریقے اختیار کیے جانے بالکل نامناسب ہیں۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ:
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
میں جب آزاد خیال خواتین کو حقوق کے نام پر نعرے لگاتے اور اپنی آزادی مانگتے دیکھتی ہوں تو مجھے انتہائی پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ یہ لوگ کس سے اور کس چیز کے حقوق مانگ رہی ہیں؟ کیا خواتین کے اس طرح کے کام مردوں کے تعاون کے بغیر ممکن ہو سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ لیکن وہ مرد جو غیر محرم ہوتے ہیں یعنی ان عورتوں کو محرم مردوں ( باپ، بھائی، شوہر، بیٹا وغیرہ) سے رہائی چاہیے اور غیر محرم مردوں کے معاملے میں انہیں آزادی چاہیے کہ جس طرح کے مرضی وہ چاہیں، ان کے ساتھ غلط تعلقات رکھیں۔ جس کی اجازت نہ ہمارا دین دیتا ہے اور نہ ہی ہمارا مشرقی معاشرہ۔
نے پردہ، نہ تعلیم نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد
(اقبال)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نبی مہربان حضرت محمد ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر خواتین کے حقوق کا خصوصی طور پر تذکرہ کر کےان کو پورا کرنے کی بڑی تاکید فرمائی تھی۔
(صحیح بخاری: 1741؛ صحیح مسلم: 1679)
نبی مہربانﷺ حقوق نسواں کے عملی محافظ اور علمبردار تھے۔ آپﷺ کی ازدواجی زندگی تمام انسانیت کے لیے رول ماڈل ہے۔ ہمارے لیے دین اسلام کی خوبصورت اور جامع، آفاقی اور ہر دور کے لیے راہنما تعلیمات شافی و کافی ہیں۔
نبی اکمل ﷺ کی ساری زندگی اپنی قریبی رشتہ دار خواتین سے بہترین طرزِ سلوک کی شاہد ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی چاروں بیٹیوں اور اپنی تمام ازواج مطہرات کے علاوہ اپنی دیگر قریبی رشتہ دار خواتین سے بھی بہترین سلوک کیا جن میں آپ کی پھپھیاں، چچیاں، اور دیگر رشتہ دار خواتین وغیرہ شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سال 2020ء میں اسلام آباد کی وفاقی عدالت نے ” عورت آزادی مارچ “ کے لیے مشروط طور پر اجازت دی تھی کہ مارچ میں ” میرا جسم میری مرضی “ جیسے نعروں اور پوسٹرز کی پابندی ہوگی۔ لہذا مارچ کی اجازت تو ہے لیکن اس قسم کی دیگر حرکتوں یا کاموں کی ممانعت کے ساتھ۔ لیکن اس کے باوجود 2020ء کے ” عورت مارچ “ میں ” میرا جسم، میری مرضی“ اور دیگر مختلف نعرے خواتین شرکاء کے ہاتھوں میں نظر آرہے تھے۔
2020ء کے ” عورت مارچ “ سے پہلے سینیٹر فیض محمد نے کہا تھا کہ
” سڑکوں پر بے حیائی اور فحاشی کی اشاعت نہیں ہونے دیں گے۔“
اس طرح کی باتوں پر حقیقی طور پر عمل درآمد کیا جانا ہمارے لیے کتنا ناگزیر اور فلاح و بہبود کا باعث ہوگا!
ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات اور اسلامی تہذیب ہی ہمیشہ غالب رہے گی۔ ہم مغرب کی نقالی سے بیزار اور بے نیاز ہیں اور رہیں گے۔ ان شاءاللہ۔
میں ناخوش وبیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جس سے خواتین کے حقیقی مسائل حل ہوں اور ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں۔ ہم ایوان میں بیٹھے قابل عزت قانون کے رکھوالوں سے گزارش کرتے ہیں کہ:
اول: خواتین کے لیے اسلام کے عطا کردہ حقوق کو انفرادی و اجتماعی زندگی میں عملی طور پر نافذ کیا جائے۔ اور عورت کو عزت و تکریم دی جائے۔
دوم: احکام ستر و حجاب کا خیال رکھتے ہوئے لڑکیوں اور خواتین کی ضروری تعلیم کا انتظام وانصرام کیا جائے، جس میں ابتدائی، اعلیٰ، فنی اور پیشہ ورانہ علوم و فنون شامل ہیں۔ طالبات کی آمد و رفت کا خیال اور بندوبست بھی نہایت ضروری ہے۔
سوم: خواتین کے لیے علیحدہ اور غیر مخلوط ملازمتوں کا بندوبست ہو جہاں وہ ذہنی و جسمانی سکون اور عزت و عصمت کی حفاظت کے ساتھ اپنی ڈیوٹیوں کی ادائیگی کر سکیں۔ اسی طرح ملازمت پیشہ خواتین کی آمد و رفت کے مسائل کو بھی حل کیا جائے۔
چہارم: عورت کو وراثت میں سے حصہ لازمی دلوایا جائے۔
پنجم: یتیم و یسیر لڑکیوں اور بیوہ و نادار خواتین کی کفالت کا خیال کیا جائے۔
ششم : شوہر کو پابند کیا جائے کہ وہ بیوی کو فوراً حق مہر ادا کرے۔
ہفتم: گھریلو و معاشرتی تشدد کی روک تھام کی جائے۔
ہشتم: گھریلو اور معاشرتی سطح پر مسلمان عورت کی تعمیر کردار اور تشکیل معاشرہ کی قابل قدر خدمات کو قابل تحسین قرار دیا جا ئے۔
نہم: خواتین کی گھریلو اور معاشرتی تعمیری سرگرمیوں میں شرکت کو قومی ترقی کا ایک حصہ سمجھا جائے۔
ہماری ” عورت آزادی مارچ “ کرنے اور کروانے والوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ خواتین کے ان حقیقی و عملی مسائل کو حل کریں اور کروائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مندرجہ ذیل نظم میں شاعر نے عورت کی نام نہاد آزادی کی کیا واضح اور جامع عکس بندی کی ہے!
تحقیر کرو تم عورت کی، پھر ناچ کے بولو آزادی
چادر کو تم پامال کرو، دیوار پہ لکّھو آزادی
تم عزّت ،عَصمت، غیرت کا مفہوم بدل دو شہرت سے
سڑکوں پر جاکر راج کرو اور زور سے چیخو آزادی
تم آوارہ بدچَلنی کا تعـویذ پہَـن لو گردن میں
آوازے کَسیں لونڈے تم پر ‘تو شور مچاؤ ” آزادی “
گھر کے ہر کام سے بیزاری، دفتر سے تم کو رغبت ہے
گھــر زندان لگے تم کو اور جاب کو سمجھو آزادی
دوچار کتابیں مذہب کی ، اب پڑھ لینا تم آنٹی جی!
پھرجا کر اپنی پلٹن کو ، حق بات بتانا آنٹی جی!
مغرب کے جھوٹے برتن میں ، ہے کھانا پینا راس تمہیں
کھوٹے سکّوں جیسے نعرے ، لگتے ہیں کیوں خاص تمہیں
دس بارہ وَلگر نعروں سے ، تقدیر بدل سکتی ہوتم؟
دل کے خانے سے شوہر کی ، تصویر بدل سکتی ہو تم ؟
اونچی ہِیل کی سَینڈل سے، کیا ” کے۔ ٹو“ سَر کر پاؤ گی؟
چھوڑ زمین ۔۔۔ گَر اُڑنا ہے تو منہ کے بَل گِـر جاؤ گی
کس بھول میں ہو تم آنٹی جی! کس خواب محل میں رہتی ہو؟
کیوں عزۤت تم کو راس نہیں ، جـو ایسے ” جـــملے “ کہتی ہو؟
خود اپنی عصـمت پَیروں میں ، تم روند رہی ہو غیروں میں
ذلّت آمیز فسانوں میں جیسے ہو قحبہ خانوں میں
اپنی عزّت کرنا سیکھو ‘ پھر نکلو تم بازاروں میں
ورنہ چَھپتی رہ جاؤ گی ‘ شام کے سَستے اخباروں میں
سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہمارے حقیقی مسائل ہیں جو یہ آزاد خیال خواتین پیش کرتی ہیں؟
کیا ہمیں تقلید مغرب قابل قبول ہے یا ہمارے لیے قرآنی تعلیمات اور سنت نبوی کافی ہے؟
فیصلہ اب ہمارے ہاتھ میں ہے!!!
اللہ سبحانہ و تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو دیکھنے، سننے اور حق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں خواتین کے حقوق کے لیے اسلامی تعلیمات اور اسوہ حسنہ ﷺ کو اختیار کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
7 پر “مساوات مرد و زن اور اسلام کا نظریہ” جوابات
Masha Allah
Nice, efficient and effective
ماشاء اللہ بہت اعلیٰ
ماشاء اللہ بہت اعلی
نبی مہربانﷺ حقوق نسواں کے عملی محافظ اور علمبردار تھے۔
بہت پیارا مضمون ہے.
ہمارے لیے ہمارے اسلامی احکامات کافی ہیں. ہم مغرب اور اس کی ملمع شدہ جھوٹی تہذیب سے بیزار اور بے نیاز ہیں.
صلی اللہ علیہ وسلم