ڈاکٹر خولہ علوی :
” میرے دل میں بہت عرصے سے ایک خواہش بلکہ حسرت موجود ہے۔ میں اس کے بارے میں آپ سے مشورہ کرنا چاہتی ہوں۔“ عدیلہ نے اپنے شوہر شیخ طاہر وسیم سے کہا۔
” آپ کے دل میں ایسی کون سی خواہش ہے جو حسرت بن چکی ہے؟“ شیخ طاہر نے حیرت سے پوچھا۔
” میری تمنا ہے کہ ہم سعودی عرب سے پاکستان واپس منتقلی سے پہلے سیالکوٹ میں ایک عظیم الشان مسجد و مدرسہ کی تعمیر کریں، پھر اپنا ذاتی گھر بنائیں اور پھر واپس سیالکوٹ جائیں۔“ عدیلہ نے ان کے سامنے اپنی یہ منفرد آرزو رکھی۔
” آپ جانتی ہیں کہ ہمارے حالات آج کل کچھ پریشان کن ہیں۔ ہم کس طرح مسجد و مدرسہ کی تعمیر کر سکتے ہیں؟
اگر ہمارے حالات خدانخواستہ اس سے بھی بدتر ہو گئے تو پھر ہم کیا کریں گے؟
اگر مسجد و مدرسہ کی تعمیر کے بعد ہم اپنا ذاتی گھر تعمیرنہ کر سکیں تو پھر پاکستان منتقلی کے بعد ہمارے لیے بہت مشکل ہو جائے گی۔ کیا آپ اور بچے کرائے کے گھر میں گزارا کرلیں گے؟
آپ زندگی کی مشقتیں اور مصائب برداشت کرلیں گی؟
کیا آپ یہ قربانی دے لیں گی؟ “ شیخ طاہر نے کھل کر اپنے خدشات ظاہر کیے۔
” آپ اس نیک کام کی نیت تو کریں، اللہ تعالیٰ ہمارے لیے آسانیاں فراہم کرے گا اور مسجد و مدرسہ کی تعمیر کے سلسلے میں ہمیں ان شاءاللہ وسائل بھی عطا کرے گا۔ اگر ہمیں کرائے کے مکان میں رہنا پڑا اور مشکلات برداشت کرنی پڑیں تو ہم انشاء اللہ ضرور کریں گے۔ لیکن ہم پہلے اللہ کا گھر بنائیں گے۔ میں اس معاملے میں ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوں۔ آپ بس میری یہ بات مان لیں۔“ عدیلہ نے انہیں قائل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔
عصر حاضر کی یہ حقیقی داستان مجھے میرے میاں نے سنائی۔ جنہیں ” جامعہ عمر بن عبدالعزیز الاسلامیہ، سیالکوٹ “ کا دورہ کرنے کا اتفاق ہوا تھا جو اس خاتون کی کوششوں کے نتیجے میں قائم ہوا تھا۔ اس وقت جامعہ میں مدرسین کی تعداد بارہ (12) جبکہ طلبہ کی تعداد ایک سو پچاس (150) کے لگ بھگ ہے۔
اس ادارے میں ایک تعلیمی شعبہ ہوپ آف جنہ (Hope of Jannah) اسکول سسٹم کے منفرد نام سے کام کر رہا ہے۔ جس کے پرنسپل کا نام حافظ عبد الماجد ہے۔ یہاں طلباء اچھی تعلیم کے ساتھ بہترین تربیت بھی پاکر فارغ ہوتے ہیں۔
” اس مثالی ادارے کی بنیاد سعودی عرب میں مقیم ایک پاکستانی خاتون نے رکھی تھی، جن کا نام ’ عدیلہ وسیم ‘ تھا۔“ حافظ عبدالماجد صاحب نے میرے میاں کو بتایا۔ پھرانہوں نے اس عالیشان ادارہ کے وجود میں آنے کا مکمل قصہ سنایا کہ
” سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی عدیلہ وسیم کا تعلق نہایت امیرکبیر اور دین دار گھرانے سے تھا۔ وہ خود بھی دینی مزاج کی حامل خاتون تھیں۔ ان کے شوہر شیخ طاہر وسیم کامیاب بزنس مین تھے۔ ان کی فیملی سعودیہ عرب میں تقریباً تیس برس سے رہائش پذیر تھی۔ گھر میں دولت و امارت کی خوب ریل پیل تھی اور اللہ تعالی نے انہیں رزق کی خوب فراوانی عطا کر رکھی تھی۔
عدیلہ کے دل میں نیکی اور تقویٰ کا اعلیٰ ترین کام کرنے کا جذبہ موجزن تھا۔ جب سعودیہ عرب میں غیر ملکیوں کے لیے حالات ناسازگار ہوگئے تو بہت سے لوگ وہاں سے واپس اپنے ممالک منتقل ہوگئے۔ اس وقت اس فیملی نے بھی پاکستان منتقل ہونے کا ارادہ کرلیا۔ انہوں نے اپنے آبائی شہر سیالکوٹ واپس آنا تھا، جہاں سے وہ سعودی عرب گئے تھے۔ لیکن اس سے پہلے عدیلہ اپنی خواہش پورا کرنا چاہتی تھی۔
” میں چاہتی ہوں کہ جب ہم پاکستان واپس شفٹ ہوں تو پہلے ہم وہاں ایک دینی ادارہ بنائیں جس میں مسجد کے ساتھ مدرسہ بھی موجود ہو، جس میں دین کے طلبہ تعلیم دین سے آراستہ ہوں اور قوم کی ایک باوقار اور باکردار نسل تیار ہوسکے۔ جہاں کے تعلیم یافتہ بچے علم وعمل کا شاہکار ہوں۔ وہ عملی زندگی میں جہاں بھی رہیں، ہمارے لیے صدقہ جاریہ ثابت ہوں۔“ عدیلہ نے اپنے شوہر کے سامنے کھل کر اپنی دلی جذبات پیش کیے۔
” اس کے بعد ہم پاکستان میں اپنا ذاتی گھر تعمیر کریں اور تب ہم پاکستان منتقل ہوں۔“ عدیلہ نے اپنی ذہنی سوچ کو مزید واضح کیا۔
” یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔ ہم پہلے اپنا ذاتی گھر بنائیں گے اور پھر ہم حالات کے مطابق مسجد و مدرسہ کی تعمیر کریں گے۔“ شیخ طاہر نے اپنا خیال ظاہر کیا۔ وہ پہلے ذاتی گھر کی تعمیر کے حامی تھے۔ پھر اگر حالات کے مطابق ممکن ہوتا تو مسجدو مدرسہ کی تعمیر کرنا چاہتے تھے۔
لیکن عدیلہ نے بالآخر وقت کے ساتھ محنت کرکے انہیں اپنا ہم نوا بنالیا۔ میاں بیوی دونوں نےباہمی مشاورت سے اس کی منصوبہ بندی کی۔ اللہ تعالی نے بھی شیخ طاہر کا سینہ اس کام کے لیے کھول دیا جس کے نتیجے میں وہ اس منصوبے کے لیے فعال ہوگئے۔ انہوں نے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے سیالکوٹ کے بڑے مقامی عالم فضیلة الشیخ مولانا مظفر شیرازی حفظہ اللہ سے رابطہ کیا اور انہیں اپنی خواہش سے آگاہ کیا۔ انھوں نے نہ صرف ان کی تائید کی بلکہ ان کے دست وبازو بننے کا بھی اعلان کیا۔
” اللہ تعالٰی خلوص نیتی کی بنا پر ہمارے لیے راہیں آسان کر رہا ہے۔“ شیخ طاہر نے عدیلہ کو بڑی خوشی سے بتایا۔
اب شیخ طاہر نے سیالکوٹ میں شیخ مظفر کے ذریعے دینی ادارہ بنانے کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب کیا، اور پانچ کنال رقبہ کی وسیع وعریض جگہ خریدلی۔ اس کے بعد مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے شیخ وسیم کو اب کاروبار میں بہت کامیابی عطا کی تھی اور انکے لیے رزق کے دروازے کھول دیے تھے۔
”اس مسجد کا نام میں نے اپنی والدہ کے نام پر ’ فہمیدہ مجید مسجد ‘ رکھنا ہے۔“ شیخ طاہر نےکہا۔
چنانچہ یہ مسجد اس نام سے موسوم کر دی گئی، پھر مدرسہ کی تعمیر کی طرف توجہ کی گئی اور اس کا کام شروع کردیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد مقامی لوگوں نے اس خوبصورت عمارت کے خدوخال کو زمین کے اوپر نمودار ہوتے اور پھر پایہ تکمیل تک پہنچتے دیکھا۔ یہ سرسری نگاہ میں بھی ایک بہترین تعلیمی ادارہ دکھائی دیتا تھا۔ اس کا نام ” جامعہ عمر بن عبدالعزیز الاسلامیہ “ رکھا گیا۔
شیخ طاہر اور عدیلہ نے اپنے گھریلو اخراجات میں نمایاں کمی کردی تھی اور اس پراجیکٹ کے لیے اپنے تقریباً تمام وسائل وقف کردیے تھے۔
” اس میں جدید طرز تعمیر اور سہولیات کا پورا خیال رکھا جائے۔ خوبصورت ماربل کا قیمتی فرش لگوایا جائے، نفیس ٹائلز سے دیواروں کو مزین کروایا جائے۔ باتھ رومز، واش رومز اور وضو خانے تک بہت خوبصورت اور آرام دہ بنوائے جائیں۔“ شیخ طاہر نے تعمیر کے لیے ہدایات دیں۔
” جہاں سو روپیہ لگانے کی ضرورت ہو، وہاں سوا سو روپیہ لگائیں لیکن کام بہترین اور معیاری ہونا چاہیے۔ آپ یہ سمجھیں کہ سعودی عرب کے معیار اور طرز تعمیر کا پورا خیال رکھا جائے بلکہ عالمی معیار کے تعلیمی اداروں کے مطابق یہ ادارہ تعمیر کیا جائے۔ عمارتوں کی نقشہ سازی، میٹیریل، تعمیر اور دیگر کاموں میں کوئی کمی نہ ہو۔ کوئی کام معیار سے گرا ہوا نہ ہو۔ معیارمیں کسی قسم کی کمی نا قابل برداشت ہو گی۔“ انہوں نے مزید واضح کیا۔ وہ مقرر کیے گئے نگران افراد کی رپورٹ کے علاوہ انٹرنیٹ کے ذریعے خود بھی اس پراجیکٹ کی نگرانی کرتے اور کام چیک کرتے رہتے تھے۔
” ہم نے آپ کی مرضی کے مطابق جامعہ کے لیے بہترین کشادہ فرنشڈ کلاس رومز بنوا دیے ہیں، خوبصورت وسیع قیمتی لائبریری بھی بنا دی گئی ہے۔“ نگران نے شیخ طاہر کو بتایا۔ وہ ٹھیکے دار سے بھی رابطے میں رہتے تھے جو انہیں رپورٹ پیش کرتا رہتا تھا۔
” اب لائبریری کو جلد اسلامی علوم و فنون کی قدیم و جدید کتب سے آراستہ بھی کیا جائے۔“ انہوں نے شیخ مظفر سے درخواست کی۔
” رہائشی طلبہ کے لیے آرام دہ فرنشڈ ہاسٹل بھی تعمیر ہو چکا ہے، طلباء کو کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جدید فنی تعلیم دینے اور اس میں مہارت سکھانے کے لیے بہترین قسم کی کمپیوٹر لیب بنوائی جا چکی ہے۔ وسیع و عریض گراسی پلاٹ اور پلے گراؤنڈ بنوا دیا ہے اور اس کو درختوں اور پودوں کے ساتھ ساتھ دیگر ضروری سہولیات سے آراستہ کیا ہے۔“ شیخ طاہر کو نگران اور ٹھیکے دار مسلسل بتاتے رہتے تھے۔
جب جامعہ کی خوبصورت عمارت مکمل ہوئی تو سب لوگوں کو اس کی طرز تعمیر اور اس کا اعلیٰ معیار بہت پسند آیا۔ یہ ایک بہترین اور آئیڈیل قسم کی عمارت بن چکی تھی جو خوبصورت جامعہ کے روپ میں اہل سیالکوٹ کی نگاہوں کے سامنے موجود تھی۔
” ایک خاتون کا سچی نیت کے ساتھ کھلی آنکھوں سے دیکھا گیا خواب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔“ لوگوں نے کھلے دل سے تعریف کی۔
حضرت ہاجرہ نے وسائل و ذرائع کی کمی کے باوجود ” سعی “ کی تھی تو اس کی یادگار حج و عمرہ میں ” صفا و مروہ کے درمیان سعی“ کی سنت تا قیامت جاری کر دی گئی تھی۔ حضرت ہاجرہ کی اس بیٹی نے ان کی اقتداء میں اگر کوشش کی تو اس کا ثمر ” جامعہ عمر بن عبدالعزیز الاسلامیہ “ کی صورت میں سامنے آیا۔
اگر معاشرے کی خواتین نیکی کے راستے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں تو معاشرے میں خیر و بھلائی اور تقویٰ کی کیا بہترین صورت حال پیدا ہو جائے گی!
پھر اپریل 2016ء میں ” جامعہ عمر بن عبد العزیز الاسلامیہ، سیالکوٹ “ کا افتتاح ہوا اور جولائی 2016ء سے باقاعدہ داخلہ کا آغاز کر دیا گیا۔ اب اداری چلانے کی تمام ذمہ داری فضیلة الشیخ مظفر شیرازی کے سپرد کر دی گئی جن کو جامعہ کا رئیس (پرنسپل) منتخب کیا گیا تھا۔ ان کی دور رس نگاہوں نے بہترین تدریسی ٹیم کا انتخاب کیا۔
” اس ادارہ میں تدریسی خدمات سر انجام دینے کے لیے ہم نے ملک بھر سے باصلاحیت اور علم وعمل کے خوگر نوجوان علماء کو تلاش کیا ہے اور بہترین ٹیم تیار کی ہے۔“ شیخ مظفر شیرازی نے شیخ طاہر کو مطلع کیا۔
اس کے بعد طلبہ کی تعلیم کا آغاز ہو گیا جنھیں اچھی تعلیم کے ساتھ بہترین اور مثالی تربیت سے آراستہ کیا جانے لگا۔ تمام طلباء کے لیے جامعہ کے ہوسٹل میں قیام کرنا لازمی قرار پایا کیونکہ اعلیٰ تربیت عالم باعمل اساتذہ کی زیرِ نگرانی ہوسٹل میں رہ کر احسن طریقے سے ممکن ہو سکتی تھی۔
” شیخ طاہر مسجد ومدرسہ کا مکمل خرچ اور ماہانہ اخراجات اپنے خالص رزق حلال سے کرتے ھیں۔ نہ وہ خود صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ یہاں خرچ کرتے ھیں اور نہ ایسا پیسہ ان کی انتظامیہ یہاں وصول کرتی ہے۔“ حافظ عبدالماجدصاحب نے بتایا۔
” آپ کے دو بیٹوں کے ساتھ اب جامعہ آپکا تیسرا بیٹا ہے۔ آپ نے ہمیشہ اس کی کفالت کرنی ہے۔“ عدیلہ شیخ طاہرسے کہتی تھیں۔
” ان شاءاللہ۔“ شیخ طاہر ان کے مکمل ہم نوا تھے۔
” کیا اب ہم اپنے گھر کی تعمیر کا آغاز کرسکتے ہیں؟“ انہوں نے عدیلہ سے پوچھا۔
” جی بالکل۔ ہم اپنے گھر کے کام کا آغاز کریں۔“ عدیلہ نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
اب شیخ طاہر نے سیالکوٹ میں اپنے گھر کے لیے وسیع و عریض ذاتی جگہ خریدلی۔ قیمتی گھر خوبصورت درو دیوار اور بھرپور آرائش و زیبائش کے ساتھ تعمیر ہوا۔ سعودی عرب کے گھروں کی طرح انہوں نے بھی اپنے تقریباً چار کنال رقبہ پر مشتمل کشادہ گھر پر پیسہ پانی کی طرح بہایا۔ اس میں بھی انہوں نے مسجد و مدرسہ کی طرح جدید طرز تعمیر اور تمام سہولیات کا پورا خیال رکھا۔
پورے گھر میں بجلی کا کام، اے۔ سی سسٹم اور گیس سسٹم بڑے دھیان و گیان سے مکمل کروایا گیا۔ سینٹرلی ائرکنڈیشنڈ سسٹم بنوایا گیا حتیٰ کہ باتھ رومز کے اندر بھی اے۔ سی لگوائےگئے۔ آرائش و زیبائش کا بھی مکمل خیال رکھا گیا۔ چھتوں کی سیلنگ، جھاڑ فانوس اور لکڑی کا کام وغیرہ غرض ہر کام اہتمام سے مکمل کروایا گیا۔ اور حتی الامکان کاملیت (perfection) کا خیال رکھا گیا۔
جامعہ کی طرح گھر میں بھی وسیع و عریض گراسی پلاٹ اور خوشنما باغ لگوایا جس میں خوشنما پودوں، دلکش پھولوں اور خوبصورت پھلدار اور آرائشی درختوں اور بیلوں وغیرہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اب شیخ طاہر کی فیملی نے پاکستان منتقل ہونا تھا۔
” مسجد و مدرسہ کے اساتذہ، شیوخ اور ملازمین کی ایک سال کی تنخواہیں مجھے پیشگی دے دیں۔ ہم پاکستان جارہے ہیں اور یہ تنخواہیں میں ساتھ لے کر جانا چا ہتی ہوں تاکہ ہمیں ہر لحاظ سے آسانی رہے۔ اور آپ کو ادارہ کے حوالے سے کوئی مالی پریشانی نہ ہو۔ کیونکہ پاکستان منتقلی کے بعد ایک دفعہ تو ہمارے لیے مشکل دور ہوگا۔“ پاکستان واپس منتقلی سے پہلے عدیلہ نے شیخ طاہر کے سامنے ایک اور تجویز پیش کی۔
شیخ طاہر اس بات کے لیے بھی راضی ہو گئے اور انہوں نے ایک سال کی تنخواہیں اور اخراجات عدیلہ کو جمع کروا دیے۔
پھر وہ سیالکوٹ میں اپنے نئے گھر میں منتقل ہوگئے۔ پہلے روز جب عدیلہ نے کچن میں کام کرنے کے لیے آٹومیٹک چولہا جلایا تو ایک دم آگ بھڑک اٹھی جو آنا فانا پورے کچن میں پھیل گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے کچن سے نکل کر پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آگ کی اس لپیٹ میں عدیلہ بھی فوراً آگئیں۔ اور یہ آگ اس قدر تیز، خطرناک اور خوفناک تھی، اس کی شدت و حرارت اتنی زیادہ تھی کہ وہ وہیں موقع پر ہی دم توڑ گئیں۔ موت کا فرشتہ ان کے لیے وہاں منتظر و موجود تھا۔
” دراصل ہوا یہ تھا کہ گھر کی تعمیر کچھ عرصہ پہلے مکمل ہوگئی تھی۔ اس میں اے۔ سی سسٹم اور گیس سسٹم والوں نے اپنا فنی کام صحیح طریقے سے مکمل کرلیا تھا لیکن کچھ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں پائپوں سے گیس لیک ہونی شروع ہو گئی تھی جس کی وجہ سے کئی جگہ گیس اکٹھی ہوچکی تھی۔“ ماہرین نے جب سارا سسٹم چیک کیا تو آگ لگنے کی وجہ بیان کی۔
” جب عدیلہ نے آٹومیٹک چولہا جلایا تو جمع شدہ گیس نے فوری طور پر آگ پکڑ لی۔“ شیخ وسیم نے صورت حال کا تجزیہ کیا۔
” اور اس کی لپیٹ میں کچن اور رفتہ رفتہ پورا گھر آ گیا۔ خاص طور پر کچن اور پھر پورے گھر میں لکڑی کے کام اور لکڑی کے فرنیچر کی وجہ سے بھی اس آگ کا پھیلنا مزید ممکن ہوگیا۔“ انہوں نے مزید بتایا۔
تقدیر کا لکھا غالب آگیا اور عدیلہ نے اپنے نئے گھر میں پہلے دن ہی داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اہل خانہ، اہل علاقہ اور اہل جامعہ کی اس موقع پر رنج و الم، دکھ اور تکلیف کی کیا کیفیت ہوگی! کس قدر افسوس اور سوگ کی کیفیت ہر طرف چھا گئی ہو گی!
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو اداس کر گیا
” اتنی محنت سے، اتنا پیسہ اور اتنا وقت لگا کر یہ محل نما گھر تعمیر کیا گیا تھا۔ لیکن ایک دن بھی اس گھر کے اندر رہنا عدیلہ کے نصیب میں نہ ہوسکا تھا۔ اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا یہ گھر آنا فانا آتش زدگی کی لپیٹ میں آگیا تھا اور گھر کی تعمیر اور آرائش و زیبائش پر لگایا گیا یہ روپیہ دیکھتے ہی دیکھتے خاکستر ہوگیا تھا۔ اور پھر عدیلہ کو نہلا دھلا کر، کفن پہنا کر خالی ہاتھ اور خالی جیب قبر میں دفنا دیا گیا۔“ حافظ عبدالماجد صاحب نے داستان آگے بڑھائی۔
چھوڑ کے مال و دولت ساری دنیا میں اپنی
خالی ہاتھ گزر جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
لیکن ٹھہریے ! یاد کیجیے! عدیلہ نے تو زمین پر اپنا گھر بنوانے سے پہلے اللہ کا گھر بنوایا تھا۔ گویا انہوں نے اللہ کے ہاں جانے سے پہلے جنت میں اپنا گھر تعمیر کر لیا تھا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ:
ترجمہ: ” جس نے مسجد بنائی “، بکیر (راوی) نے کہا ” میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ” اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہو، تو اللہ تعالیٰ ایسا ہی ایک گھر جنت میں اس کے لیے بنائے گا۔“
(صحیح بخاری: 450)
یعنی جس نے اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنوائی‘ تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر تیار کرتے ہیں۔
سبحان اللہ! عدیلہ کس قدر خوش قسمت تھی جس نے جنت میں جانے سے پہلے اپنا محل تعمیر کر لیاتھا، جس نے فانی زندگی میں رہتے ہوئے ابدی زندگی کے لیے تیاری کرلی تھی، جس نے موت سے پہلے آخرت کو یاد رکھا تھا، جس نے دنیا میں رہ کر آخرت کی تیاری ساتھ ساتھ کرلی تھی! جو دنیا میں پیچھے اپنے لیے بہترین صدقہ جاریہ چھوڑ گئی تھی! ماشاءاللہ لا قوةالا باللہ!
” اللہ کی اس نیک طینت بندی عدیلہ نے ادارے کے اخراجات اور اساتذہ کی تنخواہوں کے لیے بھی ایک سال کا پیشگی بندوبست کیا ہوا ہے۔“ شیخ طاہر نےکچھ عرصے بعد جامعہ کے منتظمین کو بتایا۔
” یعنی نئے ادارے کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور اپنی اچھی شہرت (Repute) حاصل کرنے تک محترمہ عدیلہ نے اس کے ایک سال کے تمام مالی وسائل و ذرائع کا پیشگی انتظام کر رکھا تھا۔“ شیخ طاہر یہ بات سناتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔
” سبحان اللہ!“ شیخ مظفر کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔ اور عدیلہ کی وفات کا صدمہ ایک دفعہ پھر سب اساتذہ کے دلوں میں تازہ ہوگیا جو ان کے لیے ماں جیسی اہمیت رکھتی تھیں۔ اور اپنی نیکی اور تقویٰ کی وجہ سے ان کے لیے نہایت قابل احترام تھیں۔ اللہ تعالی عدیلہ کی مرقد پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ان کو کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے۔ آمین
شاہ جود و سخا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ:
ترجمہ: ” حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔“(صحیح بخاری: 73)
خواتین اسلام! ہم میں سے کون ہےجو عدیلہ جیسے حوصلے اور جگرے والی ہو جو اپنا گھر بنانے سے پہلے اللہ کا گھر بنانا چاہتی ہو؟ عدیلہ ” رول ماڈل “ بن کر ہمارے لیے روشن مثال چھوڑ گئی ہیں۔
عدیلہ نے مسجد و مدرسہ کی تعمیر کو اولیت دی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے رزق میں برکت دی۔ اور پھر بعد میں وہ اپنا بہترین گھر بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن اس گھر میں عدیلہ کو رہنا نصیب نہ ہو سکا۔
یقیناً صاحب ثروت تو بہت سے لوگ ہوتے ہیں لیکن اپنا مال اس طرح ” فی سبیل اللہ “ وقف کرنے والے شاذونادر ہوتے ہیں۔ کس قدر قابل رشک ہوتے ہیں یہ لوگ! کہ دین اسلام نے صرف انہی کو قابل رشک قرار دیا ہے۔ اور ان جیسا بننے کی آرزو کرنے کی اجازت دی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے کہ:
ترجمہ: ” جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: ایک صدقہ جاریہ ہے، دوسرا ایسا علم ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک و صالح اولاد ہے جو اس کے لیے دعا کرے۔“(صحیح مسلم:1631؛ جامع ترمذی:1376)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے جان و مال اپنی رضا کے لیے وقف کرنے کی ہمت وحوصلہ نصیب فرمائے اور ہمیں اپنے دین کی خدمت کرنے کے لیے منتخب فرمالے۔ آمین
4 پر “عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی” جوابات
ماشاءاللہ بہت خوب ایسی عظیم حواتین دنیا میں کم ہی نظر آتی ہیں مگر ایسی خواتین ہی رشک کے قابل ہوتی ہیں اگر ایسی عورتیں ہمارے معاشرے میں حنم لیں تو مسائل ختم ہی ہو کر رہ جائیں گے
اللہ تعالی اس عورت کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماۓ آمین ثم آمین
بہت عمدہ
الل تعالیٰ اس نیک خاتون کی مغفرت فرمائے . آمین
بہت پیاری تحریر ہے.
پڑھ کر بہت اچھا لگا.