شبانہ ایاز :
موجودہ دور میں خاندان ، عورت اور مسلمان امت بحیثیت مجموعی ایک بڑی تبدیلی کی زد میں ہے. خصوصاً خاندانی نظام بری طرح سے شکست و ریخت کا شکار ہورہا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان میں طلاقوں کی شرح میں 60 فیصد اضافہ لمحہ فکریہ ہے۔
2000 سے قبل دنیا کے اسلامی ممالک بشمول پاکستان میں طلاق کی شرح امریکہ اور یورپی ممالک کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھی ، مگر بدقسمتی سے مسلم ممالک میں یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں فیملی کورٹ ایکٹ 2015 میں منظور ہوا تھا، جس کے سیکشن 10 کی دفعہ 6 کے تحت قانونی طور پر طلاق و خلع کا عمل آسان تر کر دیا گیا تھا جو کہ طلاق کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں سال 2020 میں اعلیٰ تعلیم یافتہ و ملازمت پیشہ خواتین میں طلاق و خلع لینے کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھا۔
خود کمانے اورخود کفیل ہونے کے گھمنڈ ، معاشرتی بے راہ روی نے خاندانی نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ پاکستان میں مصالحتی کونسلوں کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی شرح طلاق میں اضافہ ہورہا ہے۔ قاضی اور منصفین کی ذمہ داری ہے کہ ان کے پاس آنے والے میاں بیوی کے جھگڑوں میں صلح صفائی کروائیں تاکہ طلاق کے خدشات زائل ہوں اور طرفین کے حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔
نکاح انسانیت کی بقا کے لئے ایک مضبوط شرعی معاہدہ ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کے رنگ تو یہ ہیں کہ مرد اور عورت اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ مرد معاش کی فکر کرے جبکہ عورت (بیوی) شوہر کی خدمت، گھر کے مال ومتاع کی حفاظت، نیز بچوں کی پرورش اور تربیت کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھے۔
لیکن جب دین سے دوری، حقوق و فرائض سے غفلت، اپنی تہذیب و ثقافت سے دوری، فلموں، ڈراموں اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید، موبائل فون، انٹرنیٹ، سماجی روابط کے ذرائع نے شہوانی جذبات اور ہوس کو اس حد تک ابھارا کہ ان جذبات کی تکمیل کے لیے نہ حلال دیکھا جاتا ہے نہ حرام۔
اپنی سفلی جذبات کی ادائیگی کے لیے ہر حد پھلانگ لی جاتی ہے جس کا نتیجہ عدم برداشت اور ذہنی تنائو کی صورت میں نکلتا ہے اور ہر وہ محرک جو اس ناجائز تعلق یا نا حق عیاشی سے روکے اسے بالائے طاق یا ختم کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔
یہاں تک کہ بیوی / شوہر جو بھی اپنی طرف سے عائلی ذمہ داری و حقوق ادا کر بھی رہے ہوں ، حرام کی لذت میں مگن مرد و زن طلاق جیسے گناہ کو بغیر سوچے سمجھے کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گھریلو و خاندانی تنازعات، نشہ،ذرائع ابلاغ، سماجی روابط اور موبائل فون کے زیادہ استعمال سے عدم برداشت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں طلاق کی شرح میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
مغربی تہذیب کے اثرات اور مادر پدر آزاد معاشرے کی اندھی تقلید سے ہمارے ہاں طلاق سماجی مسئلہ بن چکی ہے جوکہ ہمارے معاشرے میں موجود خاندانی نظام کو جڑوں سے کھوکھلا کر رہی ہے۔
آج کل کے ڈراموں میں طلاق اہم موضوع ہے مگر افسوس کہ ان ڈراموں میں طلاق سے بچنے سے زیادہ فوکس طلاقیں کرنے یا کروانے پر ہے۔ گھر بسانے اور مضبوط رکھنے کے حوالے سے رہنمائی کی بجائے طلاق کے لیے ماحول سازگار بنانے کی نئی تراکیب متعارف کروائی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے میڈیا کو اپنی روش درست کرنا ہوگی۔ کچھ اقدامات حکومتی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں سب سے بڑی کوشش آگاہی دینے کی ہو، حکومت کو چاہیے کہ اسلامی احکامات اور معاشرتی سکون کو بنیاد بنا کر لوگوں میں طلاق کے خلاف آگاہی پیدا کرے۔ ذرائع ابلاغ کو اس مسئلے سے نجات کے لئے موثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔
جماعت اسلامی نے پاکستانی معاشرت کو بچانے اور قرآن وسنت کے اصولوں پر ڈھالنے کے لیے بھرپور مہم منانے کا اعادہ کیا اور خاندان کے استحکام ، خواتین کے تحفظ اور نسلوں کی تعمیر کے لئے مضبوط خاندان، محفوظ عورت اور مستحکم معاشرہ کے عنوان سے 10 فروری تا 10 مارچ تک مہم منانے کا اعلان کیا ہے۔
جس کا آغاز امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق صاحب 10 فروری کو پریس کانفرنس کے ذریعے کرچکے ہیں ۔ اس مہم کے تحت پاکستان کے تمام صوبوں کے اضلاع میں سیمینارز، کانفرنسز، مشاورتی فورمز رکھے جائیں گے۔
” مضبوط خاندان، محفوظ عورت ، مستحکم معاشرہ “ کے سلوگن سے منائی جانے والی مہم کے مقاصد درج ذیل ہیں:
معاشرے میں استحکام خاندان کی اہمیت کو اجاگر کرنا.
اللہ کے نزدیک طلاق کی ناپسندیدگی واضح کرکے بڑھتی ہوئی شرح طلاق کو کم کرنا.
مردوں کو بحثیت قوام اور ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا اور ان کی رہنمائی کرنا.اس کے ساتھ عورت کو بھی استحکام خاندان میں اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا اور رہنمائی کرنا.
معاشرے میں تکریم نسواں کا شعور بیدار کرنا.
عورت پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اور داد رسی کرنا.
نکاح اور خاندان سازی کو ایک خوشگوار فریضہ کے طور پر متعارف کروانا.
نوجوانوں کی فکری اور عملی تربیت کرنا.
جماعت اسلامی خواتین ، عورت کی تکریم ، خاندان کے استحکام ، ماں کے کردار اور اولاد کی تربیت کی جدوجہد اور معاشرے میں خواتین کے حقیقی مقام کی بحالی کی کوششیں کر رہی ہے۔ عورت کی حیثیت اور حقوق کو متاثر کرنے والے غیر اسلامی رسوم و رواج کا خاتمہ کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔
خواتین کی تعلیم، حق ملکیت، کفالت، اور وراثت جیسے حقوق کے لیے تحقیق و تجزیہ اور سفارشات تیار کر رہی ہے جبکہ خواتین کی سیاسی، سماجی، معاشی، قانونی، طبی حقوق اور اس کے تحفظ کے لئے عملاً جماعت اسلامی کے مختلف ادارہ جات بھی مصروف عمل ہیں۔