طہورہ شعیب :
کیا آپ کو خبر ہوئی ” تین میم “ کے قصے کی؟
ناز سے سہج سہج چلتی ہوئی، لپ اسٹک کی نفاست سے مزین ہونٹ بھینچے۔ ۔ستواں ناک پر چشمہ جمائے ۔۔۔بڑی بڑی روشن آنکھیں، چشمے کے اس پار سے جھانکتی گہری گہری نگاہیں اور پاٹ دار بارعب آواز۔۔۔۔
” یہ کیا ہورہا ہے؟؟ “
ارے نہیں ۔۔۔ آپ غلط سمجھیں ۔۔ واپس آجائیے ۔۔ آپ کمرہ امتحان میں انسپیکشن ٹیم کے روبرو نہیں ہیں!!
یہ میم (mam)۔۔۔انگریزی والی میڈم کی تلخیص تھوڑا ہی ہے جو احترام و اکرام کا بھی تخلص ہو کر میم رہ جاۓ!!
” یہ ہم ہیں ۔۔۔ یہ ہمارری گاڑی اور یہ پارٹی۔۔ی۔۔ی۔۔ ہورہی ہے!!“۔۔۔
اچھا اچھا یہ والی میم ۔۔ تو پھر باقی دو اور کون سی ہیں جو مجھ سے مس ہوگئیں؟
اف!!نہ پتہ چلا ان گمشدہ میمز کا تو کتنی سبکی ہوگی میرے حلقہ یاراں میں۔۔۔آخر کو سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کہلا رکھا ہے خود کو۔۔۔۔
ارے ارے ! کف افسوس نہ ملیے!!آپ کے اندیشے دور کیے دیتے ہیں ۔۔۔ یہ فیس بُک اور ٹک ٹاک پر گردش کرتی میمز کا تذکرہ نہیں ہے۔۔ وہ جن میں فن لطافت کا پہلو یوں بھی کافی تدبر کے بعد نکالنا پڑتا ہے اور فیصلہ مشکل کہ ہنسنا بھی ہے یا نہیں!
اب آتے ہیں مدعا کی طرف ۔۔۔ یوں بھی ہمیں گوارا نہیں کہ ہماری پیاری میم ۔۔ یعنی م×3 کو آپ اپنی تلخ و شیریں سوچوں کے گرداب میں دشت و صحرا کی سیر کرائیں۔۔۔۔۔۔
اللّٰہ بھلا کرے ان پیاری حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی بہنوں کا جنہوں نے تین میم کی تجدید و تذکیر کے لیے مہم منانے کا سوچا اور سماج کے اوپر رحم کھایا۔
گزشتہ چند برسوں سے بالخصوص مارچ کے مہینہ قریب آتے ہی جو ماحول بنایا جاتا ہے (مارچ ، ماحول اور مؤنث ۔ تین میم اتفاقیہ اکھٹے ہوئے ہیں)۔ اس سے محسوس ہوتا ہے گویا ہر مرد اور عورت زندگی کے اسٹیج پر ولن کا کردار ادا کرنے کے لیے مصر ہیں اگر انہیں اپنے خوابوں کی تکمیل کرتے رفیق سفر نہ ملے!!
اگرچہ حقائق اور اس سے جڑے مسائل اس سے یکسر مختلف ہیں لیکن اس مصنوعی ماحول کی مرہون منت چند باتیں مستقل ایک خاص طرز سے بار بار دہرائی جاتی ہیں گویا گراموفون کی سوئی کی طرح ہر بات کا زاویہ یوں ہی ٹہرتا ہے کہ مرد اور عورت اپنے اپنے دائرہ حیات میں مس فٹ ہیں۔اس تبدیلی کے بغیر خصوصاََ عورت کو حقوق ملنا ممکن نہیں۔۔۔
یوں محسوس کرایا جاتا ہے گویا چشم تصور میں ہر عورت کو اپنی پلکیں بند کرتے ہوئے ایک ایسے مرد کا تصور آتا ہے جو دفتر یا دوکان سے گھر واپسی پر چپکے چپکے انواع و اقسام کے کھانے طشت میں سجاتا جاتا۔۔۔اور شریک حیات و اولاد کی خوشی کا سوچ کر اس کے ہاتھ پہلے سے زیادہ تیزی و سلیقے کے ساتھ چلتے جاتے ہیں۔ اتنے میں دروازے کی گھنٹی بجنے پر رفیقہ حیات کا والہانہ استقبال اور ٹھنڈا جوس پیش کرنے کے بعد بچوں کا انتظار کرتے دوبارہ کچن میں جت جاتا، گھر کی سجاوٹ ، ساز و سامان سمیٹنے میں اپنےکپڑے، جوتے ، موزے خود ٹھکانے لگانے پر بیگم کا انہیں فاتحانہ نظروں سے دیکھنا۔۔۔اس کو فرط انبساط سے سرشار کردیتا ہے۔
دوسری جانب مرد جب وہ تصور کی وادی میں پہنچتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ بیگم آفس سے واپسی پر سپر مارکیٹ سے سودے کے بھاری بھرکم تھیلے اٹھاتی گاڑی میں رکھ کر ابھی بیٹھی ہی ہیں کہ انکشاف ہوا کہ ٹائر اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرچکا کہ سانس کی کوئی رمق اس میں باقی نہ تھی۔
جھٹ پٹ بیگم نے ڈگی سے اسپیئر ٹائر نکال کر اسٹپٹنی سے گاڑی فٹافٹ اوپر کی اور ٹائر تبدیل کرکے سبک رفتار سے روانہ ہوگئیں۔ راستے میں بڑھئی کا سامان، لکڑی کی وزنی شیٹس لیتی ہوئی گھر پہنچیں اور بڑھئی کو سامان فراہم کرکے ہدایات دے کر گھر کے فرنیچر کی سیٹنگ تبدیل کرانے لگیں جو نئے فرنیچر بننے کے باعث کرنا لازمی تھا۔
جیسے ہی استراحت کے لیے صوفے پر نیم دراز ہوئی تو بجلی چلی گئی ۔ اب جنریٹر چلانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ وہ آن کرکے پلٹی تو ہاکر بھی اسی وقت آکھڑا ہوا۔
” اف ۔۔۔ اٹھ بھی جائیں ، کتنا سوئیں گے ، منا رو رہا ہے، اس کو فیڈر دے دیں اور ہاں چینج بھی کرادیجے گا! گڑیا ناراض ہوئی بیٹھی ہے اس کو منا کر کھانا کھلانا ہے۔ اور ہاں ! پی ٹی ایم لازمی اٹینڈ کرنی ہے۔ 12 بجے بروقت ختم ہوجائے گی۔ کل پھر اسکول سے نوٹس آجانا ہے۔ مجھے آفس سے اتنے دن بعد آف ملا ہے۔ ڈٹ کے سونا ہے۔
اف ! کتنا حسین خواب دیکھ رہا تھا اور اس نے سارا مزا کرکرا کردیا۔
ارے ! آپ کیوں جھر جھری لے رہے ہیں؟ اگر آپ نے زندگی کو یوں نہیں سوچا ہے تو سانس نہ روکیں!
تفنن برطرف ، ہر وہ فرد جو واقعی زندگی کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے، ضروری ہے کہ تین میم کی حقیقت اس پر اور سماج پر واضح ہوجائے، وہ تین میم ہیں:
مضبوط خاندان
محفوظ عورت
مستحکم معاشرہ
یہ تین میم باہم جڑ کر تکون بنالیں تو سفر حیات آسان اور کامیاب ہوسکتا ہے۔ کوئی بھی میم کھو جائے تو زندگی کا دھڑن تختہ یوں ہی الٹ جائے گا جیسے سی سا جھولے پر جس کی ایک جانب بچہ بیٹھا ہو اور دوسری جانب سے دوسرا بچہ چپکے سے اتر جائے تو دھڑام سے سی سو اونچائی سے زمین پہ آگرتا ہے اور جس کو ساتھ لے کر گرتا ہے، اس ’ چوٹ ‘ کا ادراک تو اصل میں وہی کرپاتا ہے۔
زندگی تو بلا خیز موجوں کا سمندر ہے جس کے تلاطم میں سفینہ مرد وزن اشتراک سے نہ چلے تو طوفاں کے حوالے ہوجانا کوئی اچھنبے کی بات نہ ہوگی ۔ زندگی موزہ ڈھونڈنے اور کھانا گرم کرنے تک محدود نہیں ۔ اس کو گلزار بنانے کے لیے ہر دائرہ اپنی جگہ مکمل اور لچک والا ہونا ضروری ہے اور دائروں کی ترتیب بھی وہی رکھنی لازم جو اصلی اور فطری ہے، جو فطرت کے خالق نے خود بنائی ہے، ترتیب کے ہیر پھیر سے ذمہ داری کی شدت تو کم نہیں ہوتی، زندگی بے ہنگم ضرور ہوجائے گی۔
اب آتے ہیں خاندان والے ’ م ‘ کی طرف ۔ یعنی مضبوط خاندان ،اس پر کنوارے بھائی دل نہ پکڑیں ، نہ ٹھنڈی آہ بھریں۔ رونکھے ہونے کے بجائے جو آج ہے اس کی اور جو کل بننے والا ہے اس کی فکر کریں۔۔ ” آج والے خاندان “ کی ذمہ داری ادا کریں گے تو ” کل والے خاندان “ کے قابل ہوسکیں گے۔ خدائی زعم نہیں خدا ترسی ، جابرانہ رعب نہیں خدا خوفی کے ساتھ سرپرستی ، ٹھیکے دار نہیں ہمدم ، غم گسار، ہمراز بن کر جینا ہے!! قدرت نے جو اضافی صلاحیت اور رتبہ دیا ہے اسی میں آپ کی بہت بڑی آزمائش ہے!!
البتہ ہاتھ میں دیے، نہیں سوری فلیش لائٹس اور کلاں نما شیشہ (میگنفائنگ گلاس) لے کر چاند سی ، کم عمر ، سلیقہ مند ، نیمانی ، ڈھل جانے والی بہو ڈھونڈنے کی طویل مہم پر نکلی خاتون! اپنا سفر اتنا لمبا نہ کریں کہ بیٹوں کی زندگی میں خداناخواستہ چور کھڑکی کھل جائے ! فرنٹ ڈور وقت پر کھول دینا اور گھر کو اس قابل بنانا کہ باہر سے آتی تازہ ہوا کو فضامیں سمو لیا جائے آپ ہی کرنے کا کام ہے۔ باد صبا سے گھبرا کر دروازہ کھولنے سے جھجھکنا یا بادبان محافظ کے بجائے بادبان مخالف باندھ دینا رشتوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔۔خاندان اور سماج کے لیے بھی۔۔
اب مخاطب ہوتے ہیں صلاحیت،علم و ہنر سے مالا مال،خوب صورت و نیک سیرت شادی شدہ خاتون/لڑکی سے!!(آپ کی چوائس ہے!جو سمجھنا چاہیں خود کو) !آپ کو ستاروں پر کمند ڈالنے کی تمنا ہے۔۔آپ اپنی خدمات کا اعتراف چاہتی ہیں،اپنے لیے اکرام و اعزاز حاصل کرنا چاہتی ہیں۔۔اور یہ چاہت بجا ہے ۔ سراہے جانے کی خواہش ، صلاحیتوں کی قبولیت ، سند پسندیدگی کی تمنا ، یہ تو نسوانی سرشت میں ہے لیکن اس کے حصول کے لیے رشتوں اور فطری ذمہ داری سے فرار نہ ڈھونڈیں ۔ اور نہ ہی تمغہ جرات زبان و بیاں سجا کر اپنی ذات کا اعتراف چاہیں ۔ آپ کو بیاہ کر لے جانے والا آپ سے نباہ کی امید رکھتا ہے۔ چارہ ساز تو بننا ہوگا نہیں تو بے چارگی کی راہ پر قدم رکھ دیں گی جہاں انڈیپینڈنٹ (خود مختاری) نامی شان و شوکت کے پیچھے خود ترسی اور شکستہ دلی چھپ کر کھڑی ہے۔
جنابہ ! آپ کے لیے محفوظ والا میم ناگزیر ہے۔اس کے لیے رشتوں اور خاندان کو ایک محفوظ حصار سمجھنا ضروری ہے نہ کہ قید بامشقت ۔ اپنا آپ منوانے کے لیے اس نو نہال کی طرح نہ مچل جائیں جو ہر بجنے والی چیز کو جھنجھنا سمجھ کر کھیلنا اور بجانا چاہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عفت و عصمت اور مامتا کا احساس نسوانی زندگی کی سب سے بڑی متاع ہے جس کو کبھی بھی ایک باشعور لڑکی یا عورت دوسری ترجیح نہیں بنا سکتی۔اپنی ذات کے ادراک کے در کھولتے ہوئے یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ خود نمائی ، خود پرستی ، اظہار حسن کا دیوانہ وار شوق انتہائی غیر معتبر راستہ ہے۔ یہ دور کے سہانے ڈھول اور شہنائی جب سماعت میں قریب سے رس گھولتے ہیں تو گویا جنگ کا طبل اور نقارہ بجتا محسوس ہوتا ہے۔ بھلا فرار و بغاوت، رسہ کشی،اکھاڑہ بازی،تحکم اور غیر شائستہ رویوں سے کبھی کوئی حق حاصل اور فرض ادا ہوا ہے؟
تیسرا م ۔۔۔ یعنی مستحکم معاشرہ ، جو اسی صورت میں وجود میں آسکتا ہے جب اس کی بنیاد کے دو میم یعنی مذکر و مؤنث اس کا ساتھ دیں۔ مستحکم معاشرے کے یہ دو ناگزیر میم ۔۔ جب ایک اور میم ، مناکحت کے توسط سے معاشرت کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ اور خوش اسلوبی سے حقوق و فرائض سے عہد برآ ہوتے ہیں تو زندگی خوش رنگ و خوش ذائقہ ہوجاتی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اجتماعی زندگی مشرقیت کی پابند ہو یا مغربیت کے سائے تلے پروان چڑھی ہو۔۔۔سکون حیات کبھی حقوق وفرائض کی جنگ سے ہاتھ نہیں آیا۔ سو راستہ وہی ہے جو خالق کائنات نے خود متعین کیا۔ دوسری تہذیب،ثقافت و تمدن پر فریفتہ ہوتے مرد اور خواتین یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اب تو کوے بھی سیانے ہوگئے ہیں۔ ہنس کی چال نہیں چلتے۔ ہم تو اشرف المخلوقات بنائے گئے ہیں ۔ پھر بھی اپنی چال چھوڑنا کامیابی کی علامت گردانتے ہیں۔۔
آخر میں۔۔۔ایک اور میم معذرت کے لیے کہ میم کی اتنی تکرار ہے اس مضمون میں لیکن فی الواقع مذکورہ تین میم ہماری انفرادی اور اجتماعی بقا کے لیے معاون و مددگار ہیں۔۔ان کو حرز جاں بنانے سے بہت سے مسائل سے دامن چھوٹ سکتا ہے۔جاتے جاتے ایک میم مسکان کا بھی قبول کیجئے۔