دارالحدیث-الجامعہ-الکمالیہ-راجووال-،-ضلع-قصور،-پاکستان

کیا صورتیں تھیں کہ خاک میں پنہاں ہو گئیں ( دوسری اور آخری قسط )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

پہلے یہ پڑھیے :
کیا صورتیں تھیں کہ خاک میں پنہاں ہو گئیں ( پہلی قسط )

میرے سسر محترم مولانا محمد یوسف کی وفات کے آخری شب وروز اور ان کے معاملات میرے دل ودماغ میں گویا تازہ ہیں۔
یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو حالانکہ مسافر کو گئے سالوں بیت گئے ہیں!!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” ٹھک ٹھک ۔ ٹھک ٹھک ۔ ٹھک ٹھک “ رات کے تقریباً سوا ایک ڈیڑھ بجے ہمارے دروازے پر زوردار دستک ہوئی اور ہوتی چلی گئی۔ ہمارے گھر کے تمام مکین اندر بیڈروم میں دروازے مقفل کیے نرم گرم لحافوں میں دبکے گہری نیند سو رہے تھے۔

پہلے میری اور پھر ڈاکٹر محسن صاحب دونوں کی باری باری آنکھ کھل گئی لیکن تب تک دستک ختم ہو چکی تھی۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے خواب میں کوئی دروازے پر دستک دے رہا تھا!

میں دوبارہ غنودگی میں چلی گئی لیکن جلد ہی میرے تکیے کے نیچے رکھے موبائل فون کی بیل بجنے لگی۔
میں نے ہڑبڑا کر لیٹے لیٹے موبائل تکیے کے نیچے سے نکالا۔ دیکھا تو ساتھ والے گھر سے میرے جیٹھ حافظ احسن صاحب کی کال آرہی تھی۔
” یااللہ خیر! “ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا اور میں نےڈرتے ڈرتے کال اٹینڈ کی۔
” باجی! ابا جان۔۔۔۔۔ “حافظ احسن صاحب نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔

” کیا ہوا؟ اباجی ٹھیک تو ہیں؟“ میں نے جلدی سے پوچھا۔
” اباجی۔۔۔“ لیکن وہ رونے کی وجہ سے بات نہیں کر پا رہے تھے۔
” باجی! محسن بھائی کا موبائل بند ہے۔ انھیں جگائیں۔ اور آپ لوگ جلدی سے آکر اباجان کو دیکھیں۔ ان کا سانس تقریباً ختم ہو چکا ہے۔“ حافظ احسن صاحب نے روتے ہوئے بمشکل بات مکمل کی۔
ڈاکٹر محسن صاحب تب تک مکمل طور پر بیدار ہو چکے تھے۔
ہم دونوں جلدی سے اٹھے۔ انہوں نے دروازہ کھولا۔ بچے بے خبر گہری میٹھی نیند سورہے تھے۔

ہم بھاگم بھاگ ساتھ والے پورشن میں پہنچے جہاں امی جان اور ابا جان کے ساتھ حافظ احسن بھائی کا گھرانہ مقیم تھا۔ ایمرجنسی میں بلائے گئے فیملی ڈاکٹر بھی پہنچ چکے تھے۔
” باباجی کا انتقال ہو چکا ہے۔“ ڈاکٹر سرفراز صاحب نے بلند آواز میں بتایا۔ جنھوں نے اچھی طرح چیک اپ کرکے اباجی کی وفات کی تصدیق کر دی تھی۔

طویل علالت کے بعد رات کے تقریباً سوا ایک ڈیڑھ بجے اباجی کی وفات ہوچکی تھی۔ ان کے دل کی دھڑکنیں خاموش ہو چکی تھیں، نبض ڈوب چکی تھی اور ان کی روح اللہ رب العزت کے ہاں پہنچ چکی تھی!

ساری کاروائی میں اب رات کے تقریباً پونے دو بجے کا وقت ہو چکا تھا۔

گھر کے مردوں نے وفات کے بعد ابتدائی طور پر کرنے والے کام شروع کر دیے۔ میری ساس محترمہ امی جی بھی بڑی ہمت و حوصلے کے ساتھ میت کے پاس موجود تھیں اور مسلسل مغفرت کی دعائیں پڑھ رہی تھیں۔

اباجی کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ رات کے باوجود خبر ملتے ساتھ مردوں کی آمد و رفت شروع ہو گئی۔
امی جی نے اٹھ کر دوسرے کمرے میں جا کر وضو کرکے نیت باندھ لی اور نماز تہجد کی ادائیگی کرنا شروع کردی۔ یہ میرے سامنے میرے گھر کی روشن مثال موجود ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جب انسان حقیقی شعور اور دل و دماغ کی آمادگی کے ساتھ اللہ کے دین کے احکامات پر عمل پیرا ہو تو پھر اس کے لیے مشکلات اور آزمائشوں پر صبر کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابا جان عالم با عمل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سخی انسان اور مثالی مہمان نواز تھے۔ ان کی مہمان نوازی کی صفت معروف تھی۔
وہ درد دل رکھنے والے اور دکھی انسانیت کا ہاتھ تھامنے والے تھے۔

وہ دین کے طلبا سے والہانہ محبت کرتے تھے اور باپ کی طرح ان سے محبت و شفقت سے پیش آتے تھے۔ بوقت ضرورت نرمی و گرمی کا معاملہ رکھتے تھے۔

ادارہ میں پڑھنے والے طلبا سے کہتے تھے کہ ” میرے بیٹو ! تم سب اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر آئے ہو۔ میں تمھاری ماں بھی ہوں اور باپ بھی، یہاں پڑھنے آئے ہو تو تعلیم ادھوری نہیں چھوڑنی بلکہ مکمل کرکے عالم بن کر یہاں سے فارغ ہو کر جانا ہے۔“
اباجی مختلف طلبا کو اپنے پاس بلاتے اور ان سے مختلف سوالات کرتے۔ جو صحیح جواب دیتا، اسے انعام دیتے۔”

اباجی رات کو سونے سے پہلے مدرسہ میں آتے اور طالب علموں سے پوچھتے کہ ” آپ سب نے کھانا کھایا ہے؟ سب کے پاس بستر ہیں ؟کوئی مہمان تو نہیں آیا؟“
اگر کسی طالب علم کو کھانے وغیرہ کی ضرورت ہوتی تو اباجی سونے سے پہلے گھر سے کھانا پکوا کر اس کو کھلاتے۔ اگر کسی طالب علم کو بستر کی ضرورت ہوتی تو اسے بستر مہیا کرتے، پھر سوتے تھے۔

ایک دن ایک طالب علم کو اس کی کسی غلطی پر معمولی سزادی۔ پھر اگلے دن اس سے معذرت کی اور کہا کہ
” بیٹا! آپ کو سزا دینے کی وجہ سے خود مجھے بھی ساری رات مجھے نیند نہیں آئی۔ اس لیے آپ مجھے معاف کر دیں۔“

وہ بذات خود ایک تحریک تھے، وفادار اور روادار انسان تھے۔ انھوں نے ہر شعبہ میں کام کیا اور اپنے لیے صدقہ جاریہ کا سامان کیا۔ جس سے ناطہ جوڑا، اس کے ساتھ زندگی بھر معاملات اچھے رکھے اور یہ سب ’ لوجہ اللہ ‘ اور ’ رضائے الہٰی ‘ کے حصول کی خاطر کرتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دفعہ ایک معاون آدمی مدرسہ میں گندم کا تعاون کرنے کے لیے آیا تو اس نے کسی بات پر ایک طالب علم کو ڈانٹا۔ جب اباجی کو اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے ساتھی سے تعاون لینے سے انکار کر دیا۔
” پہلے آپ اس طالب علم کو راضی کریں اور اس سے معافی مانگیں، پھر میں آپ کا تعاون قبول کروں گا۔“ انہوں نے معاون سے مطالبہ کیا۔
چنانچہ اس نے طالب علم سے معافی مانگی، پھر ابا جی نے اس کا تعاون قبول کیا۔
” بچو! آپ لوگ مہمانوں کی عزت کیا کریں اور کسی نمازی یا مہمان کو شکایت کا موقع نہ دیا کریں۔“ وہ طلبہ کو بھی وہ سمجھاتے بجھاتے رہتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

بابا جی کی وفات سے تقریباً تین ہفتے قبل ڈاکٹر محسن صاحب بتارہے تھے کہ
” آج ابا جی کہہ رہے تھے کہ بیٹا ! فلاں شعروں کی کتاب اب جلدی شائع کریں۔ میں نے خواتین کو یہ کتاب پڑھانی ہے۔“ سبحان اللہ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برسبیل تذکرہ امی جی کا بھی ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔
ایک دفعہ جامعہ دارالحدیث میں پانی کے لیے سب مرسیفل پمپ لگوانا تھا۔ پرانا پمپ جل گیا تھا اور طلبہ و نمازی کافی تنگی محسوس کر رہے تھے۔
” امی جی! جامعہ میں پانی کی ضرورت کے لیے نیا سںب مرسیفل واٹر پمپ لگوانا ہے۔
آپ اللہ تعالٰی سے بہت زیادہ دعائیں کریں۔“
ڈاکٹر محسن صاحب نے امی جی سے کہا۔

” میرے پاس کچھ رقم جمع ہے۔ یہ پمپ میری طرف سے جامعہ میں لگوادیں۔“ انہوں نے کہا۔ پھر پچیس ہزار روپے فوراً ڈاکٹر محسن صاحب کو نکال کر دے دیے۔ پھر بعد میں بھی پمپ کے کام میں حسب توفیق تقریباً سارا تعاون کیا۔

عرصہ دس برس سے وہ پمپ کام کر رہا ہے۔ اور لگ بھگ پانچ سو فٹ گہرے بور والا پانی ماشآء اللہ بہترین ہے۔ طلبہ اور نمازیوں کے علاوہ عام لوگ بھی اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ دور دراز سے لوگ بھی پانی پینے کے لیے بھربھر کر لے جاتے ہیں۔ امی جی کا یہ صدقہ جاریہ بھی ان کے اعمال صالحہ کی ایک کڑی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عتیق بھائی رشتے میں ابا جی کے نواسے تھے اور آخری عمر میں ان کی خصوصی خدمت گزاری کرتے تھے۔ اباجی نے ڈاکٹر محسن صاحب کو تاکید کر رکھی تھی کہ
” محسن بیٹا! تم نے ماہانہ مخصوص رقم الگ رکھنی ہے تاکہ حافظ عتیق کی شادی میں بھرپور تعاون کر سکو۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔

اباجی کی وفات کے بعد صبح نماز فجر ڈاکٹر محسن صاحب نے بڑے رقت آمیز انداز میں پڑھائی۔ انہوں نے مختصر سورتیں پڑھانے پر اکتفا کیا کیونکہ وہ بڑی مشکل سے اور بھرائی ہوئے لہجے میں قرات کر رہے تھے۔ پھر انہوں نے دعائے قنوت نازلہ بھی کروائی۔ پھر نماز کے بعد نمازیوں کے سامنے باباجی یوسف کی چند نصیحتیں بیان کیں جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے :

1) مجھے نئی آبادی راجووال کے قبرستان میں دفن کریں۔
2) میرا جنازہ میرا بڑا بیٹا حافظ عبدالرحمٰن یوسف پڑھائے۔
3) اور میرے کفن کا اہتمام محمد علی جوہر کریں۔
4) میرے جنازے سے پہلے میری تعریف میں تقاریر نہ خود کرنی ہیں اور نہ دوسروں کو کرنے دینی ہیں۔ کیونکہ اس موقع پر سب سے بڑی عبرت خود میت ہوتی ہے ۔

5) میری وفات کی وجہ سے مدرسہ کی کلاسز کی چھٹیاں نہ کریں بلکہ تعلیم کا مسلسل جاری رکھیں تاکہ طلباء کی پڑھائی کا حرج نہ ہو۔ بس صرف چند گھنٹے پڑھائی کا تعطل (break) ہو تاکہ تمام طلبا میرے جنازے میں شریک ہو سکیں ۔

اباجی کی ان تمام نصیحتوں پر کما حقہ عمل کیا گیا۔ الحمدللہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اباجی کا جنازہ قرآن وسنت کی روشنی میں کی گئی ان کی وصیتوں کے مطابق پڑھایا گیا۔ اس موقع پر ہر قسم کی بدعات سے اجتناب کیا گیا۔ لوگوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے دودفعہ نماز جنازہ پڑھایا گیا۔
جنازہ کے بعد بھی بےشمار لوگ قافلہ در قافلہ پہنچے۔

اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے حرم مکی خانہ کعبہ میں بھی ان کا غائبانہ نمازِجنازہ ادا کیا گیا۔ اور ان کو راجووال کے مقامی قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔

دارالحدیث کے طلبہ کی پڑھائی روٹین کے مطابق جاری رہی۔ اساتذہ اپنی تدریسی ذمہ داریاں سر انجام دیتے رہے۔ اہل خانہ تعزیت کے لیے آنے والے مہمانوں سے ملتے رہے۔ بعد میں بھی اطلاع ملنے پر قرب وجوار سے لوگ تعزیت کے لئے آتے رہے اور تقریبا ڈیڑھ دو ماہ بعد تک مہمانوں کی آمد و رفت کا سلسلہ چلتا رہا۔

پانچ سال بعد امی جان کی وفات کے بعد ان کی قبر بھی اباجی کی قبر کے ساتھ بنائی گئی۔
اور دونوں نیک اور صالح نفوس قبر کی ہمسائیگی میں اکٹھے ہوگئے۔ سبحان اللہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح سویرے مارننگ واک کے لیے جاتے ہوئے قبرستان راستے میں آتا ہے۔ مین روڈ سے قریب واقع اباجی اور امی جی کی قبریں کبھی دھند میں لپٹی ہوئی اور کبھی واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ ان کے لیے مغفرت کی دعائیں کرنا میرے روزانہ کے معمول کا حصہ ہے۔

مارننگ واک کے علاوہ بھی اباجی اور امی جی کی قبروں پر جانا ہوتا ہے۔

اب بہار کی آمد آمد ہے۔ ہر طرف شگوفے پھوٹ رہے ہیں، کونپلیں اگ رہی ہیں، ٹنڈ منڈ درخت نئے پتوں کی پیراہن پہن کر بہار کا نمایاں حصہ بن رہے ہیں۔
شہر خموشاں کے بے ترتیب خود رو برگ و بار بھی خزاں کے بعد بہار کی نئی شکل و صورت اختیار کررہے ہیں۔
لیکن!!!
قبرستان کے مکینوں کا ان سب سے کیا تعلق؟؟؟
ان کی نجات کا دارومدار تو ان کے اعمال پر ہے!!!
اللہ تعالٰی ان کی قبروں کو جنت الفردوس کے باغات میں تبدیل فرمادے۔ آمین

اللہ تعالیٰ کی رحمت سے میں پرامید ہوں!!!
اباجی اور امی جی کے صدقات جاریہ دیکھ کر میرا دل گواہی دیتا ہے!!!
یقیناً وہ وہاں، یہاں کی حالت سے بہت بہتر ہو نگے!!! ان شاءاللہ۔

اللہ تعالیٰ انہیں اور ہم سب کو اپنی رحمت سے جنت الفردوس میں اکٹھا فرمادے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

5 پر “کیا صورتیں تھیں کہ خاک میں پنہاں ہو گئیں ( دوسری اور آخری قسط )” جوابات

  1. تعظیمہ امجد Avatar
    تعظیمہ امجد

    ماشاءاللہ لکھنے کا انداز اتنا عمدہ ہے کہ تحریر پڑھتے ہوۓ بابا جی یوسف کی یاد شدت سے آئی الفاظ کا چناؤ اتنا عمدہ تھا کہ آنکھیں اشکبار ہو گئیں
    باباجی یوسف کے جنازے پر بہت لوگ تھے کچھ ضعیف اور بزرگ لوگ خود کو بابا جی یوسف کے شاگرد بتارہے تھے راجووال میں عجب عالم تھا گاڑیوں اور بایئکس کا رش بہت تَھا
    وہ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
    اک شخص سارے زمانے کو ویران کرگیا
    اللہ تعالی بابا جی یوسف کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماۓ آمین ثم آمین

  2. احمد Avatar
    احمد

    ماشاء اللہ! بہت عمدہ!
    مرتب اور مدلل اور پر تاثیر انداز میں لکھے گئے مضمون نے دل پر اثر کیا. آنکھیں پرنم ہو گئیں. اپنے بزرگوں کی یاد آتی رہی.
    ایک بہو کا اس طرح اپنے ساس سسر کے بارے میں لکھنا بہت بڑی بات ہے!
    اللہ تعالیٰ باباجی یوسف اور ان کی اہلیہ کی مرقدوں پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے. آمین ثم آمین یا رب العالمین!

    1. سعید Avatar
      سعید

      سبحان اللہ!
      ایسے نیک بزرگ معاشرے کا حسن ہوتے ہیں. لیکن عموماً معاشرہ ان کی قدر ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد کرتا ہے.
      اللہ تعالیٰ مولانا صاحب کی مغفرت فرمائے. آمین

      1. طلحہ Avatar
        طلحہ

        ماشاء اللہ بہت عمدہ!
        بہت پیاری اور اثر انگیز تحریر ہے.

  3. سعید Avatar
    سعید

    Great and effective!