پنیر کا ٹکڑا اور پھندے

فتنے کا مفہوم اور موجودہ دور

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر میمونہ حمزہ :

(فتنہ ایک وسیع المعانی لفظ ہے، اس کے کئی پہلو اور متعدد جہتیں ہیں،اس کا احاطہ ایک مضمون میں نا ممکن ہے، میں نے اس پر فقط اک طائرانہ نگاہ ڈالی ہے۔)

فتنہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی پرکھنے اور آزمائش کرنے کے ہیں۔ جیسے سونے کو آگ میں ڈال کر اس کو پرکھا جاتا ہے۔ یعنی فتنہ سے مراد ایسی آزمائش ہے جس میں پرکھ کا طریقہ بہت شدید ہے، جیسے آگ پر تپا کر پرکھنا، کہ خالص اور کھوٹ نکھر کر و اضح ہو جائے۔

قرآن مجید میں فتنہ کا مفہوم بیس سے زائد معنی میں استعمال ہوا ہے؛ کہیں آزمائش اور کہیں سزا کے معنی میں، کہیں کفر اور کہیں فساد کے معنی میں، اورکہیں شرک اور مسلمانوں کو اذیت دینے کے معاملے میں اور ہر آیت اپنے اندر ایک موضوع لئے ہوئے ہے، چند آیات کا ذکر کرتی ہوں؛ اللہ تعالی نے فرمایا:

’’ تم ان سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور دین اللہ ہی کے لئے ہو جائے‘‘۔ (البقرۃ،193)
یعنی یہاں پر فتنے سے مراد وہ حالت ہے، جس میں دین اللہ کے بجائے کسی اور کے لئے ہو، اور لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ یہ فتنہ ختم ہو جائے اور دین صرف اللہ کے لئے ہو۔ (تفہیم القرآن، ج 1، ص151)

مزید فرمایا:
’’ اور قتل اگرچہ برا ہے مگر فتنہ اس سے بھی برا ہے‘‘۔ (البقرۃ، 191) یہاں فتنے سے مراد کسی گروہ یا شخص کو محض اس بنا پر ظلم و ستم کا نشانہ بناناکہ اس نے باطل کو چھوڑ کر حق کو قبول کر لیا ہے۔
علامہ سیوطی نے اپنی تفسیر میں ابن ِ عمرؓ کا قول درج کیا ہے کہ یہاں فتنے سے مراد شرک ہے، جسے قتل سے شدید کہا گیا ہے۔

محض دین ، مذہب، یا نظریہ کے اختلاف کے سبب کسی پر تشدد کرنا دراصل حیاتِ انسانی کی مقدس قدر پر دست درازی ہے، اس لئے اسے قتل سے بھی زیادہ گھناؤنا جرم قرار دیا ہے۔ اس میں محض ہراساں کرنا بھی آتا ہے اور عملاً تشدد بھی اس میں شامل ہے۔ اور ایسے حالات پیدا کر دینا بھی فتنہ ہے جن میں لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہو، انہیں اللہ کے مقررکردہ نظامِ زندگی سے دور کرنا بھی فتنہ ہے۔ مسلمانوں کے لئے کفر کو مرغوب بنانا اور اسلام سے انہیں دور کرنا ، ان کے اخلاق کو خراب کرنا ، یہ سب فتنے کی تعریف میں داخل ہے۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر الآیۃ)

قرآن کریم میں فتنہ قتل کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے:
ان الذین فتنوا المؤمنین والمؤمنات ثمّ لم یتوبوا فلھم عذاب جہنم ولھم عذاب الحریق۔ (البروج،10)
’’جن لوگوں نے مومن مردوں اورعورتوں پر ستم توڑا اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے، یقیناً ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے جلائے جانے کی سزا ہے‘‘۔

سیدھے راستے سے روکنا اور گمراہ کرنا بھی فتنہ ہے۔ ارشاد الہی ہے:
’’اے محمدؐ! ان لوگوں نے اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کہ تمہیں فتنے میں ڈال کر اس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے، تاکہ تم ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑو‘‘۔(بنی اسرائیل،73)

کفارِ مکہ نے اپنی سی کوشش کر دیکھی کہ کسی نہ کسی طرح آپؐ کو مجبور کر دیں کہ آپؐ ان کے شرک اور رسومِ جاہلیت سے کچھ نہ کچھ مصالحت کرلیں۔ اس غرض کے لئے انہوں نے آپؐ کو فتنے میں ڈالنے کی ہر کوشش کی۔ فریب بھی دیے، لالچ بھی دلائے، دھمکیاں بھی دیں، جھوٹے پروپیگنڈے کا طوفان بھی اٹھایا، ظلم و ستم بھی کیا، معاشرتی مقاطعہ بھی کیا، اور وہ سب کچھ کر ڈالا جو کسی انسان کے عزم کو شکست دینے کے لئے کیا جا سکتا تھا۔ (تفہیم القرآن، ج 2، ص633)

یعنی فتنہ کار ہر دور میں کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح آپ کو سیدھی راہ سے بھٹکا دیں، اور ہر دور میں جدید سے جدید ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، کہیں ترغیب کے ذریعے اور کہیں خوف اور لالچ سے۔

آزمائش اور اذیت میں مبتلا کرنا بھی ، فتنہ ہے۔
یہ آزمائش ایسی ہوتی ہے کہ جس میں مبتلا ہونے والوں کی پرکھ کر لی جاتی ہے، ناپاک کو پاک سے جھانٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ’’ ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاں کہ ہم ان سب لوگوں کی آزمایش کر چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں‘‘۔ (العنکبوت، 2 ، 3)

اللہ تعالی اہلِ ایمان کو سمجھا رہا ہے کہ اللہ کے وعدے محض زبانی دعوائے ایمان پر نہیں ملتے بلکہ ہر مدعی کو لازماً آزمائش کی بھٹیوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے، اللہ کی جنت اتنی سستی نہیں کہ وہ محض ایمان کے اقرار پر مل جائے، اس کے لئے تو امتحان شرط ہے۔ آزمائش ہی وہ کسوٹی ہے جس سے کھوٹا اور کھرا پرکھا جاتا ہے، کھوٹا خود بخود اللہ تعالی کی راہ سے ہٹ جاتا ہے، اور کھرا چھانٹ لیا جاتا ہے، اور انعام اکرام کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

یہ ایسی کشمکش کا ظہور بھی ہے، جس میں کسی کی رائے یا دین تبدیل کروانے کے لئے اسے عذاب میں مبتلا کیا جائے۔
یہ لوگوں کے اعمال کی ایسی آزمائش بھی ہے جس کے سبب وہ فتنے میں مبتلا ہو جائیں۔
’’ ونبلوکم بالشرّ والخیر فتنۃ‘‘۔ (الانبیا، 35)

’’ ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں‘‘۔
اور کسی شخص کا ایسے فتنے کا شکار ہونا بھی ہے جس میں اس کی عقل اور مال کا نقصان ہو جائے۔ فتنہ عموماً مسلمانوں کی باہمی خلفشار کے لئے استعمال ہوتا ہے، غیر مسلموں کے ساتھ محاذ آرائی کو فتنہ نہیں کہا جاتا۔

انفرادی فتنے
1۔ اختبار اور امتحان:
آخری زمانے میں دجال کا سامنا کرنا بہت بڑا امتحان ہے، اس فتنے سے بچنے کی دعائیں رسول ِ کریم ﷺ نے بھی مانگی ہیں۔

اللھم اکفنا فتنۃالمسیح الدجال۔(اے اللہ مسیح دجال کے فتنے میں ہماری طرف سے کافی ہو جانا‘‘۔
دنیا کی نعمتیں اموال اور اولاد بھی فتنے ہی کی ایک قسم ہیں۔
’’واعلموا انّما امولکم واولادکم فتنۃ‘‘۔ (الانفال،28)
(اور جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش ہیں۔)

یعنی یہ مال اور اولاد جن کی محبت میں تم گرفتار ہوکر عموماً راستی سے ہٹ جاتے ہو، در اصل دنیا کی امتحان گاہ میں تمہارے لئے سامان ِ آزمائش ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ تم ان چیزوں کا اس حد تک حق ادا کرتے ہو، جس قدر اللہ تعالی نے ان کے حقوق تم پر مقرر کئے ہیں۔

2۔ ضلال و گمراہی:
جن لوگوں کے دل گمراہ ہو چکے، اللہ تعالی انہیں گندگیوں میں پڑا رہنے دیتا ہے،قرآن کریم میں ارشادہوا:
’’۔۔ جسے اللہ ہی نے فتنے میں ڈالنے کا ارادہ کر لیا ہو، اس کو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لئے تم کچھ نہیں کر سکتے،‘‘۔ (المآئدہ، 41)

اللہ کی طرف سے فتنے میں ڈالے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے اندر اللہ تعالی کسی قسم کے برے میلانات پرورش پاتے دیکھتا ہے، اس کے سامنے پے در پے ایسے مواقع لاتا ہے جن میں اس کی سخت آزمائش ہوتی ہے، اگر اس کا میلان بدی کی جانب ہو چکا ہے تو ایسے ہر موقع پر اس کی نیکی اس کی بدی سے اندر ہی اندر شکست کھاتی چلی جاتی ہے، اور ایسے ہر موقع پر وہ اور زیادہ بدی کے پھندے میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ یہی اللہ تعالی کا وہ فتنہ ہے جس سے کسی بگڑتے ہوئے شخص کو بچا لینا اس کے کسی خیرخواہ کے بس میں نہیں ہوتا۔ اور اس فتنے میں صرف افراد ہی نہیںڈالے جاتے بلکہ قومیں بھی ڈالی جاتی ہیں۔(دیکھئے: تفہیم اقرآن، ج 1، ص471)

’’جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے ، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں‘‘۔ (آل عمران، 7)

متشابہات ایسی آیات ہیں جن کے مفہوم میں اشتباہ کی گنجائش ہے۔ ما بعد الطبیعی مسائل کے بیان میں قرآن کے اندر ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ہے، اور متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں یہ زبان استعمال ہوئی ہے۔ اس زبان کا زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی فائدہ ہو سکتا ہے کہ آدمی کو حقیقت کے قریب پہنچا دے، یا اس کا دھندلا سا تصور پیش کر دے۔ پس جو طالبِ حق ہیں وہ ذوقِ فضول نہیں رکھتے، وہ اسی دھندلے تصور پر اکتفا کر لیتے ہیں جو کام چلانے کے لئے کافی ہے ، اور اپنی تمام تر توجہ محکمات پر صرف کرتے ہیں، مگر جو بو الفضول یا فتنہ جو ہوتے ہیں، ان کا تمام تر مشغلہ متشابہات ہی کی بحث و تنقیص ہوتا ہے۔ (تفہیم القرآن، نفس الآیۃ)

3۔ اضطراب
حق کو یکسوئی سے قبول نہ کرنے والے فتنہء اضطراب میں مبتلا ہوتے ہیں:
فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ
’’جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہت کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، اور ان کو معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔ (آل عمران،7)

قرآن ِ کریم ایک سچی کتاب ہے، اور یہ پوری سچائی کے ساتھ اتاری گئی ہے، اور نہ کسی پہلو سے بھی باطل اس پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ ٹیڑھے دل والے اس میں سے متشابہات کے پیچھے اس لئے پڑے رہتے ہیں کہ وہ ان کے ذریعے سے فتنے پیدا کرتے ہیں، اور ایسی تاویلات پیدا کرتے ہیں، جس سے اسلامی تصورِ حیات کے اندر شکوک پیدا کئے جا سکیں، حالاں کہ متشابہات کی تاویل صرف اللہ جانتا ہے۔

دنیا میں فتنہء و فساد کو ہوا دینے والے آخرت میں بھی ذلیل و خوار ہوں گے، اور سخت سزا پائیں گے، ارشادِ باری تعالی ہے:
’’جس روز یہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے۔ (ان سے کہا جائے گا:) اب چکھو مزا اپنے فتنے کا‘‘۔ (الذاریات، 13، 14)

فتنے کا لفظ یہاں دو معنی میں استعمال ہو رہا ہے:
1۔ ایک یہ کہ اپنے اس عذاب کا مزا چکھو۔
2۔ دوسرے یہ کہ اپنے اس فتنے کا مزا چکھو جو تم نے دنیا میں برپا کر رکھا تھا۔ عربی زبان میں اس لفظ کے ان دونوں مفہوموں کی یکساں گنجایش ہے۔ (تفہیم القرآن، ج5،ص 137)

اجتماعی فتنے
سب سے بڑا اجتماعی فتنہ یہ ہے کہ اللہ کے خلیفہ اللہ تعالی کے احکام و ہدایات کے مطابق زندگی بسر نہ کریں، وہ زبانی طور پر اللہ کی فرمانبرداری کا دعوی کریں ، اور عملی طور پر کافرانہ عادات و خصائل اور اعمال اختیار کر لیں یا وہ زبان سے بھی کفر کریں اور عملی طور پر بھی شیطان کے کارندے بن کر رہیں، یا اس سے بھی بڑھ کر وہ اللہ کے باغی بن جائیں اورلوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے لگیں، اور جو لوگ دین کو اختیار کرنا چاہیں ان کو بدترین اذیت اور عقوبت میں مبتلا کر دیں۔

قانون ِ الہی سے روگردانی کا فتنہ
دنیا میں اللہ تعالی کے دیے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کرنا بھی ایک بہت بڑا اجتماعی فتنہ ہے، جس کے اثرات بھی بہت بڑے ہیں اور سزا بھی!
’’پس اے محمدؐ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو، اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنے میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرّہ برابر منحرف نہ کر پائیںجو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔۔‘‘۔(سورۃ المائدۃ ، 49)

یہ تنبیہ بہت ہی شدید ہے، اور بہت ہی مفصل بھی! یہ صورت ِ حال کی حقیقی تصویر کشی ہے، اس لئے کہ یہ ایک عظیم فتنہ ہے، جو لوگ اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے نہ کریں ، تو پھر یہ لوگ اللہ کے عذاب کے لئے تیار رہیں۔

ظلم کے خلاف مزاحمت نہ کرنے کا فتنہ
ارشاد الہی ہے:
’’اور بچو اس فتنے سے ، جو تم میں سے انہیں لوگوں تک نہ پہنچے گا جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہو گا‘‘۔ (الانفال، 25)

اس سے مراد وہ اجتماعی فتنے ہیں جو وبائے عام کی طرح ایسی شامت لاتے ہیں جس میں صرف گناہ کرنے والے ہی گرفتار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں جو گناہ گار سوسائٹی میں رہنا گوارا کرتے ہیں۔ جب معاشرے میں گندگی پھیلتی ہے تو شروع میں اس کا اثر محدود رہتا ہے لیکن پھر گندے ماحول میں رہنے والے سب ہی لوگ اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔یہی حال اخلاقی نجاستوں کا ہے، کہ معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو کمزور کر دیتی ہیں، اور پھر وہ فتنہء عام برپا ہوتا ہے جس میں چنے کے ساتھ گھن بھی پِس جاتا ہے۔فتنہء عام کی آفت ان افراد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جو اس معاشرے میں موجود ہوں، خواہ انہوں نے عملاً برائی کرنے یا اس کو پھیلانے میں حصّہ نہ لیا ہو، بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھلائی ہی لئے ہوئے ہوں۔(دیکھئیے : تفہیم القرآن، ج۲)

حدیثِ نبویؐ میں فتنہ کا مفہوم
رسول اللہﷺ کی احادیث میں فتنے کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے، یہ امتحان، ابتلاء اور پرکھ کے معنی میں استعمال ہواہے، اسی طرح حدیث میں زیادہ تر فتنے کو باہمی فساد، خانہ جنگی اور باہمی کشمکش کے مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے۔اور دور ِ فتن سے متعلق کئی احادیث وارد ہوئی ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنی دعاؤں میں فتنوں کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے اور ان سے اللہ کی پناہ مانگی ہے، جیسے:
’’اللھم انّی اعوذبک من عذاب القبر وفتنۃ المسیح الدجال، واعوذبک من فتنۃ المحیا والممات‘‘۔ (بخاری، باب الدعا، 832)
(اے اللہ ، میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور مسیح دجال کے فتنے سے، اور میں زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔)

’’اللھم انّی اعوذبک من فتنۃ النّار وعذاب النّار، واعوذبک من فتنۃ القبر ومن عذاب القبر، واعوذبک من فتنۃ الغنی واعوذبک من فتنۃ الفقر، واعوذبک من فتنۃ المسیح الدّجّال‘‘۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب استعاذۃ من فتنۃ الغنی، 6076)

( اے اللہ، میں آگ کے فتنے اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ میں آتا ہوں، اور میں قبر کے فتنے اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ میں آتا ہوں، اور میں امیری (تونگری) کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں، اور میں فقر کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں، اور میں مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔)

امام ابن الحجر اس کی تشریح بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دعا میں فتنہء قبر اور عذاب قبر اور اور فتنہء نار (آگ) اور عذاب ِ نار سے الگ الگ پناہ مانگی ہے؛ تو فتنہء قبر سے مراد منکر و نکیر کے سوالات کے جوابات ہیں، اور فتنہء آگ سے مراد جہنم کے داروغے کے سوال ہیں، جن کا ذکر سورۃ الملک میں آیا ہے:

’’ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا، اس کے کارندے ان لوگوں سے پوچھیں گے، ’’کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا؟‘‘۔ (الملک، 8)

زندگی کے فتنوں سے مراد اس دنیا میں پیش آنے والی آزمائشیں ہیں اور موت کے فتنے سے مراد خاتمہ کے وقت اور آئندہ کے مراحل کی آزمائشیں ہیں۔ رہا مسیح دجال کا فتنہ تو ہم اللہ سے سلامتی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں ، کیونکہ وہ اتنا شدید فتنہ ہے گویا ایک شخص کولوگوں کے سامنے دو حصّوں میں کاٹ دیا جائے اور وہ ان کے درمیان اٹھ کھڑا ہو، اور چلنے لگے، اور دجال کے پاس جنت بھی ہو گی اور آگ بھی اور وہ دونوں اپنی حقیت کے خلاف ہوں گی، اور وہ زمین کے خزانے نکالے گا، اور یہ سب سے بڑا فتنہ ہو گا جس سے لوگ آزمائے جائیں گے۔ (فتح الباری، ابن ِ حجر،۲،۳۱۸)

رسول اللہ ﷺ نے ایسے فتنوں کا بھی ذکر فرمایا ہے جن کا ظہور آخری زمانے میں ہو گا، آپؐ نے فرمایا:
’’عنقریب ایسے فتنے ظاہر ہوں گے جن میں بیٹھنے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہو گا، اور اس میں کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہو گا، اور اس میں چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا، جو اس میں جھانکے گا فتنہ بھی اسے اچک لے گا، اور اس وقت جسے جہاں بھی پناہ مل جائے ، وہ اسے پکڑ لے، تاکہ اپنے دین کو فتنوں سے بچا سکے‘‘۔ (بخاری، 3601)

فتنوں کے ظہور کے حوالے سے رسول کریم ﷺ نے بیان فرمایا کہ وہ آخری زمانے میں ہوں گے، فرمایا: ’’وہ زمانہ قریب ہے، جب عمل کم ہو جائے گا، بخیلی کی جائے گی، فتنے ظاہر ہوں گے، اور ھرج زیادہ ہو جائے گا‘‘۔ (بخاری، 7021)

زمانے بھر کے فتنے
آپؐ نے ایسے فتنوں کا بھی ذکر فرمایا جو ہر زمانے میں لوگوں کو پیش آتے ہیں، فرمایا:
’’میں نے اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں سے زیادہ ضرر رساں فتنہ نہیں چھوڑا‘‘۔ (بخاری، کتاب النکاح، 596 )

فتنہ جمال کا بھی ہوتا ہے، جیسے کسی کا حسن و جمال ایسا ہو کہ دوسرا فتنے (گناہ کی رغبت) کا شکار ہو جائے، پس عورتوں کا حسن، ان کی زیب و زینت کا اظہار اور ان کا باہر نکلنا فتنے کا باعث بن سکتا ہے۔
اور فتنے کے مفہوم کو اس حدیث ِ رسول ﷺ سے بھی سمجھا جا سکتا ہے، آپؐ نے ہدایت فرمائی:

’’جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جن کا اخلاق اور دین تمہیں پسند ہو تو ان سے شادی کر دو، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پھیلے گا‘‘۔ (سنن الترمذی، 1084)

جب حلال راستے بند ہوں تو حرام کاموں میں اضافہ ہو جاتا ہے، جیسے نکاح سے محرومی معاشرے میں فواحش اور زنا کو عام کرتی ہے۔

1۔ فتنے میں پڑنے والوں کا انجام:
رسول اللہ ﷺ حوضِ کوثر پر اپنے امتیوں کو پانی پلائیں گے، اور کچھ لوگوں کو (ان کے امتی ہونے کے باوجود) دور کر دیا جائے گا، آپؐ فرمایں گے: یہ میرے امتی ہیں۔ کہا جائے گا: آپؐ نہیں جانتے، یہ الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔ (بخاری، 7048)

ایک حدیث میں اس کا سبب یہ بتایا کہ: ’’آپؐ نہیں جانتے، آپؐ کے بعد انہوں نے کیا نئی چیزیں گھڑ لیں‘‘۔ (بخاری، 4049)

2۔ ناپسندیدہ امور (فتنے کا سبب بنتے ہیں)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے بعد تم دیکھو گے کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی، اور ایسے کام کئے جائیں گے جنہیں تم ناپسند کرو گے‘‘، پوچھا: ایسے وقت آپؐ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: ’’ان کے (بالاتر افراد کے) حقوق ادا کرو، اور اپنا حق اللہ سے مانگو‘‘۔ (بخاری،7052)

امت کو دو طرح کے فتنوں کا سامنا کرناپڑتا ہے، ایک جانب کھلے دشمنوں کی عداوت، ان کا فریب، مکر اور ان کی چالیں ہیں، اور دوسری جانب منافقین کا گروہ ہے جو رسولِ کریم ﷺ کے زمانے سے آستین کے سانپ کا کردار ادا کر رہا ہے۔یہ مسلمانوں کے عقائد، ان کے اتحاد اور یگانگت، اور اتفاق پر اور دینی احکام پر اندر سے حملے کرتے ہیں۔

فتنے دنیا میں ہر جانب پھیلے ہوئے ہیں، کہیں سمجھ میں آنے والے اور کہیں مسلمانوں کے گروہوں میں اختلاف اور انتشار کو بڑھانے والے ہیں۔ ہمیں ہر زمانے کے فتنوں سے اللہ کی پناہ حاصل کرنی چاہئے، اور ان فتنوں سے بچنے کی دعا مانگنی چاہئیے، جن سے حضرت محمد ﷺ نے پناہ مانگی، اور ہمیں ایسے فتنوں سے اجتناب کرنا چاہیے جو ہمارے دین کو نقصان پہنچانے والے ہیں، اور فتنوں کے اس دور میں اللہ رب العالمین سے دعا مانگنی چاہیے:

اللہم ارنا الحق حقّاً وارزقنا اتباعہ، وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ۔ آمین

اے اللہ ہم پر حق کو آشکار کر دے اور اس کی پیروی کی توفیق عطا فرما، اور ہمیں باطل کو باطل کی حیثیت سے دکھا دے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں