قدسیہ مدثر :
کشمیر میں بھارتی ظلم و بربریت کا راج طویل سے طویل تر ہورہا ہے۔کشمیر کا نام آتے ہی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، بھارتی مظالم کی روح فرسا داستانیں گونجنے لگتی ہیں۔ عصمت دری سے لیکر زندہ بیوگی کا دکھ سہنے والیوں تک، سب کے غم ناک چہرے عالمی منصفوں سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے ہی ساتھ ایسا کیوں ہورہاہے ؟ بندوق کی نوک تلے پوری زندگی گزارنا تو دور کی بات سانس لینا بھی محال ہوتا ہے۔کون سا ظلم اب رہ گیا جو روا نہیں رکھا گیا !کالے قوانین سے نت نئے حربوں کے با وجود بھی کشمیری قوم کے حوصلے پست نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قوم حق اور سچ پر ہے۔
انسان تو آزاد پیدا ہوا پھر مقبوضہ وادی میں ظلم وبربریت کا راج کیوں؟ عورت بے اماں کیوں؟ بچے یتیم کیوں؟ سہاگ کیوں اجڑ رہے ہیں؟ نوجوان کیوں لاپتہ ہورہے ہیں؟ اجتماعی قبریں کیوں دریافت ہورہی ہیں؟ کیا دنیا کے منصف ان سوالات پر غور وفکر کریں گے؟ یا پھر یونہی قراردادیں پاس کر تے اور یادداشتیں پیش کرتے ہوئے وقت گزارتے رہیں گے ۔
اب تک مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو کیا کیا ظلم نہیں سہنے پڑے ، آئیے ! ایک نظر تازہ ترین اعدادوشمار پر ڈالتے ہیں۔ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق نئے اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔
جنوری 1989ء سے 31جنوری 2020 ءتک بھارت نے95,741 کشمیریوں کو شہید کیا۔7,163 قیدیوں کو زیر حراست قتل کیا۔ مجموعی طور پر161,407 شہریوں کو حراست میں لیا۔ 110,386 گھر مسمار کیے ۔ 22,924 عورتیں بیوہ ہوئیں۔107,813 بچے یتیم ہوئے اور 107،813 خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ یہ انسانیت سوز اعداد و شمار جنوری 1989سے اکتیس جنوری 2021ءتک کے ہیں۔
آٹھ جولائی 2016 ءمیں انڈین فوج کی جانب سے جموں کشمیر میں متحرک، بائیس سالہ آزادی پسند کمانڈر برہان وانی کو شہید کر دیا گیا تو مقبوضہکشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے۔ سری نگر سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر برہان وانی کے جنازے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔
جنازے کے بعد عوام کی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں شروع ہوئیں جس سے مزاحمت کا ایک نیا دور شروع ہوا اس کے نتیجے میں1349 کشمیریوں کو شہید کیا گیا، جن میں سے95 کشمیریوں کو حراست میں شہید کیاگیا۔29436 کشمیری نوجوان زخمی ہوئے، جن میں سے 11400 پلیٹس گنوں سے زخمی ہوئے،2000 افرادآنکھوں سے محروم ہوگئے۔26352 کشمیریوں کو حراست میں لیا گیا ۔ 4308 گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔107 عورتوں کو بیوہ ،243 بچوں یتیم اور 1041 عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔
یہ اعدادوشمار برہان وانی کی شہادت کے بعد ، اب تک کے ہیں۔ یہ اعدادوشمار دینے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ برہان وانی کے جنازے میں لاکھوں لوگوں کی شرکت سے بوکھلا کر بھارتی افواج نے ظلم و بربریت کی کیا کیا مثالیں قائم کیں۔
نریندر مودی نے برسراقتدار آنے کے بعد کشمیریوں کے ساتھ کیسے برتاﺅ کیا؟ آئیے ! اس کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ 2014ءمیں نریندر مودی (بھارتی جنتا پارٹی ) کی حکومت قائم ہوئی۔ جنوری 2015 ءسے 31جنوری 2021ءتک 1603 کشمیری شہید ہوئے، جن میں سے 137 کو دوران حراست شہید کیا گیا۔32,432 کشمیری نوجوانوں کو بدترین تشدد کرکے زخمی کیا گیا۔ 33,432 عام شہریوں کو حراست میں لیا گیا، 4356 گھروں کو نذرآتش کیا گیا ،11 افراد کو اغوا کیا گیا، 132 عورتیں بیوہ ہوئیں، 302 بچے یتیم ہوئے، ,05 11 خواتین کی عصمت دری کی گئی۔
5 اگست 2019 ءکو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا گیا ، اس کے بعد کشمیریوں کو دبانے کے لئے مختلف مہمات چلائی گئیں ، تب سے 31 جنوری2021ء تک 308 کشمیری شہید ہوئے، جن میں سےتین کشمیری دوران حراست شہید ہوئے، 1641 کشمیری بدترین تشدد کا شکار ہوکر شدید زخمی ہوئے۔ پیلٹس لگنے سے19 کشمیری ایک آنکھ جبکہ 144 دونوں آنکھوں سے محروم ہوئے۔987 گھروں کو جلایا گیا ، 16 خواتین بیوہ ہوئیں، 38 بچے یتیم جبکہ 97 خواتین کی آبرو ریزی کی گئی۔
ظلم و جور کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ صرف جنوری 2021 ءکے ایک ماہ کے دوران میں 3 کشمیری شہید ہوئے، تینوں کو دوران حراست قتل کیاگیا۔46 عام شہریوں کو حراست میں لیا گیا، 2 گھر جلا کر راکھ بنا دیے گئے، دو بچے یتیم اور ایک خاتون کی عصمت دری کی گئی۔
صرف کشمیری مسلمانوں پر ہی ظلم اور وحشت کے پہاڑ نہیں توڑے جارہے ہیں بلکہ نریندر مودی اپنے ملک بھارت میں بھی مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنا رہے ہیں۔ بی جے پی کے اس چلن سے بھارت کے سنجیدہ فکر طبقات پریشان ہیں۔ مودی سرکار ہر وہ کام کر رہی ہے جو سیکولر انڈیا کے چہرے پر دھبہ ہے۔
بھارت کی جانب سے اٹوٹ انگ کی رٹ مقبوضہ کشمیر کی سیاسی اور تاریخی حقائق کے یکسر منافی ہے تاہم اس سے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت نے خود اقوام متحدہ کی ان قراردادوں پر دستخط کر رکھے ہیں جن میں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کی بات کی گئی تھی۔ بھارت کے غیر ذمہ دارانہ بیانات اس کی پوزیشن اور بڑی جمہوریہ کے دعوے پر سوالیہ نشان ہیں ۔ کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینا اب ایک فرسودہ اور گھسی پٹی بات بن چکی ہے جسے پڑھ کر یا سن کر کراہت آتی ہے۔
اٹوٹ انگ کی رٹ لگانے سے ماضی میں کشمیر کی متنازعہ حیثیت تبدیل ہوسکی نہ ہی مستقبل میں اس کا اسٹیٹس متاثر ہوسکتا ہے۔ کشمیر بین الاقوامی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ بھارت ان قراردادوں پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہے جو کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت میں اقوامِ متحدہ نے پاس کی ہیں۔ بھارت غیر ذمہ دارانہ بیانات دے کر قوموں کے درمیان میں اپنی پوزیشن کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
کشمیر کسی کا اٹوٹ انگ ہوتا تو اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر موجود ہوتا نہ ہی اقوام متحدہ کی طرف سے فوجی یہاں تعینات کئے جاتے اور نہ ہی تاشقند معاہدہ وقوع پذیر ہوتا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سب سے بڑے عالمی ادارے نے بھارت اور پاکستان کی طرف سے دستخط شدہ دستاویزات میں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرکے کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دلانے کی کئی بار سفارش کی، تاہم ہر بار بھارت کی ہٹ دھرمی آڑے آئی ۔ اس کے غیر حقیقت پسندانہ رویے کی وجہ سے یہ تنازعہ ناسور بن کر آج بھی عالمی امن کے لیے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔
بھارتی حکمران ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے ۔ چھ ، سات دہائیوں سے جاری ان کی ہٹ دھرمی سے جموں کشمیر میں زمینی سطح پرکوئی تبدیلی واقع ہوئی نہ کشمیریوں نے اپنے مطالبہ حقِ خودارادیت کو ترک کیا ہے۔ وہ کل بھی بھارت کے قبضے کے خلاف آواز بلند کرتے تھے اور آج بھی اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
دہلی کے ارباب اقتدار کو اب روایتی بیان بازی کی بجائے سچ کا سامنا کرنا ہو گا ۔ اب کشمیریوں کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئے گئے وعدوں کی جلد تکمیل امن کے لیے ناگزیر ہوچکی ہے۔ کشمیر کا دیرینہ تنازعہ حل ہونا بھارت اور پاکستان کے استحکام اور ترقی کی طرف بھی ایک قدم ہوگا ۔ یوں دونوں ملکوں کے عوام خوشحالی کی طرف گامزن ہوں گے۔
ایک تبصرہ برائے “کشمیریوں پر بدترین مظالم ، یکم جنوری 1989ءسے 31جنوری 2021ءتک، ایک جائزہ”
قدسیہ مدثر کی بہت ہی معلوماتی تحریر ہے، بھارت کا مکرہ چہرہ اب کسی سے چھپا نہیں ہے،، اور اس کاوش میں حصہ ڈالنے والوں کو اللہ جزائے خیر عطا کرے اور ہمیں اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ ہمیشہ کھڑے ہونے کی توفیق دے۔آمین