ڈاکٹر خولہ علوی :
5 فروری یوم یک جہتی کشمیر ہے۔ اس دن وطن عزیز پاکستان میں سرکاری طور پر کشمیریوں سے یک جہتی کا مختلف طریقوں سے اظہار کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں 5 اگست 2020ء کو صبح دس بجے ” یومِ سیاہ “ مناتے ہوئے سرکاری سطح پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے لیکن اس کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟
کافروں پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے؟ کشمیریوں کو اس سے کیا فائدہ پہنچتاہے؟ خود پاکستانی قوم کا اس سے دوسروں کو کیا پیغام ملتا ہے؟
ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کے بجائے کشمیر کی آواز کھل کر، علی الاعلان دنیا تک پہنچائیں۔
آزادی کے انتظار میں ہر لمحہ جیتے، ہر لمحہ مرتے ان مظلوموں کے لیے خواتین گھروں میں نمازوں میں سچے دل سے دعائیں مانگیں۔ مساجد میں مرد حضرات اجتماعی نمازوں کے بعد قنوت نازلہ کا اہتمام کریں۔
الیکٹرانک، پرنٹ اور خصوصاً سوشل میڈیا پر تقریری و تحریری طور پر مظلوم کشمیریوں کا ساتھ دیں۔ فیس بُک، انسٹاگرام، ٹیلی گرام، واٹس ایپ اور ٹوئٹر وغیرہ پر اپنے قلم کو متحرک کرتے ہوئے خود تحریریں لکھیں، دوسروں کی لکھی گئی متعلقہ تحریریں ہر جگہ فارورڈ کریں اور سٹیٹس لگائیں۔
کشمیریوں کی موجودہ صورت حال کی اس قدر تشہیر کریں کہ دنیا کے گوشے گوشے میں کشمیریوں کا پیغام پہنچ جائے۔ امت مسلمہ کے غیرت مند مسلمان کی حیثیت سے اپنا فریضہ سر انجام دیں۔
5 اگست 2019ء کو انڈیا نے آئین میں ترمیم کرکے جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کر دی تھی۔ اور 80 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل یہ خطہ متنازع طور پر تقسیم کردیا تھا اور اس میں کرفیو لگا دیا تھا۔ تب سے وہاں تعلیمی ادارے بند ہیں، کھانے پینے کی اشیاء کی کمی ہے، ادویات کی قلت ہے، بجلی و پانی کے مسائل درپیش ہیں۔
انٹرنیٹ اور کیبل کی سروس بند ہے۔ موبائل فون کی سروس بھی عدم دستیاب ہے۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر موجود نہیں بلکہ ہسپتال صرف برائے نام ہسپتال ہیں اور ہسپتال نام کی لاج رکھنے سے قاصر ہیں۔ زندگی نہیں بلکہ موت قابض اور غالب نظر آتی ہے۔ خوف و ہراس کی کیفیت کا دلوں پر غلبہ ہے۔ وادی میں ہر طرف بھارتی فوج ڈیرے ڈالے نظر آتی ہے اور اسلحہ کی فراوانی دکھائی دیتی ہے جسے نہتے اور مجبور کشمیریوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ ان مسائل کی صرف ایک جھلک ہے جو وادی میں کرفیو کے نام پر قید مجبور و مظلوم کشمیری مسلمانوں کو مسلسل کچھ عرصہ سے پیش آرہے ہیں۔ وگرنہ کشمیریوں کی قربانیوں کی یہ داستان بہت عظیم اور طویل عرصے پر محیط ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا کو یہ معلوم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے نام پر ظلم و جبر کا نیا سلسلہ تقریباً گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری و ساری ہے۔
5 اگست 2019ء سے تاحال کشمیری مسلمان انتہائی تکالیف اور مصائب کا سامنا کررہے ہیں اور اس جنت نظیر خطے میں ہر طرف ظلم و بربریت کی گھنگور گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں۔ کیا ہم مسلسل کرفیو اور اس ظالمانہ ماحول میں زندگی گزارنے کا تصور کر سکتے ہیں، جس کا سامنا ہمارے یہ مظلوم کشمیری مسلمان بہن بھائی کر رہے ہیں؟
امت مسلمہ کے غیور مسلمانو! اپنے دلوں کے اندر احساس پیدا کرو اور اس ظالمانہ اور معاشرتی بائیکاٹ پر مبنی اور کرفیو کے نام پر گھروں میں مقید کشمیریوں کو نجات دلانے کے لئے بھرپور کوششیں کرو۔
آزادکشمیر بھی کشمیری اور پاکستانی مجاہدین کی کوششوں اور جہاد کا ہی نتیجہ ہے جو انہوں نے بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کی تھیں۔
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور مظلوم مسلمانوں کو مکہ مکرمہ میں مسلمان ہونے اور دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری کرنے کی پاداش میں ظالم مشرکین مکہ کی طرف سے تین سالہ معاشرتی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں انہوں نے بھوک و افلاس، بیماری، قطع رحمی اور ہر قسم کے مسائل کا سامنا کیا تھا لیکن دین پر استقامت کا رویہ اختیار کر کے اللہ اور رسول کی اطاعت کی تھی۔ بالآخر انہی مشرکین مکہ میں سے چند لوگوں نے ان مظلوم مسلمانوں کی حمایت کرکے انہیں اس ظالمانہ طرز زندگی سے نجات دلائی تھی۔
آج تقریباً ڈیڑھ سال سے گھروں میں کرفیو کے نام پر قید اور معاشرتی بائیکاٹ میں مبتلا کشمیری مسلمانوں کو پوری دنیا کے مسلمانوں اور خصوصاً پاکستانی مسلمانوں کی مدد اور تعاون کی بھرپور ضرورت ہے۔ تحریری، تقریری، جانی و مالی، عملی ہر قسم کا تعاون درکار ہے۔ سفارت اور صحافت کے میدان میں پوری دنیا تک کشمیر کی صورتحال پہنچانے اور پھر عملی اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔
ترکی کے غیرت مند مسلمان حکمران طیب اردگان کا تمام مظلوم مسلمانوں کی حمایت کے لیے آواز اٹھانا اور حتی الامکان عملی اقدامات کرنا نہایت خوش آئند ہے۔ پاکستان اس سے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرے گا ان شاءاللہ۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے، ایٹمی ملک ہے اور یہ ان شاءاللہ امت مسلمہ کے نشاۃ ثانیہ کا علمبردار ثابت ہوگا۔
کشمیر پاکستان کا حصہ ہے جس کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ اس کا نقشہ بھی کشمیر کے بغیر نامکمل ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے زیارت میں قیام کے دوران اپنے معالج ڈاکٹر الہی بخش سے کشمیر کے بارے میں کہا تھا کہ
” کشمیر سیاسی اور فوجی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی خوددار ملک اور قوم اسے برداشت نہیں کر سکتی کہ وہ اپنی شہ رگ اپنے دشمن کی تلوار کے آگے کردے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ ایک ایسا حصہ جسے پاکستان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔“ (قائداعظم کے آخری ایام، ڈاکٹر الہی بخش)
اس شہ رگ کے بغیر پاکستان کے وجود کی بقا ممکن نہیں۔ اگر شہ رگ کو علیحدہ کر دیا جائے تو باقی دھڑ بے حس و حرکت رہ جاتا ہے۔ اس وجود کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
کشمیر پاکستان کے لیے جغرافیائی لحاظ سے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ پاکستان کے تمام دریا کشمیر کے پہاڑوں سے نکلتے ہیں۔ یعنی یہ پاکستان کے پانیوں کا منبع ہیں۔ خدا نخواستہ اگر انڈیا کا کشمیر پہ قبضہ ہو جائے تو وہ پاکستان کا پانی روک کر پاکستان میں قحط سالی کی صورت پیدا کر سکتا ہے یا وہ جب چاہے، پاکستان میں سیلاب بھیج سکتا ہے۔
کشمیر کے بری راستے بھی فطری طور پر پاکستان سے متصل ہیں۔ جبکہ انڈیا کا ان کشمیری راستوں کو نئی اور طویل شاہراہیں بنا کر اپنے ملک سے ملانا غیر فطری ہے۔ جس کا نتیجہ طویل، پیچیدہ اور بسا اوقات خطرناک راستے ہیں۔ کشمیر کے لیے ناگزیر ہے کہ ہندوستان جیسے مستقل اور نہایت کمینہ دشمن کی موجودگی میں اس کا الحاق پاکستان سے ہو اور یہی اس کی سلامتی کا ضامن ہے۔ اور پاکستان کو بھی اپنی بقا کے لیے کشمیر کی نہایت ضرورت ہے۔
قائد اعظم نے مزید فرمایا تھا کہ
” کشمیر کا مسئلہ نہایت نازک مسئلہ ہے لیکن اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم اور ملک نظر انداز نہیں کر سکتا کہ کشمیر تمدنی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی، معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کا حصہ ہے۔ جب بھی اور جس زاویے سے بھی نقشے پر نظر ڈالی جائے، یہ حقیقت اتنی ہی واضح ہوتی چلی جاتی ہے۔“
(قائداعظم کے آخری ایام، ڈاکٹر الہی بخش)
مذہبی اعتبار سے بھی کشمیر پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ کشمیریوں اور پاکستانیوں دونوں کی غالب اکثریت کا مذہب اسلام ہے۔ جبکہ ہندوستان میں غالب اکثریت ہندومت کے پیروکاروں کی ہے اور اسلام اور ہندومت کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ جبکہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور مشکل میں اس کے لیے اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرنا فرض ہے۔
بھارت نے کشمیری عوام سے کیے گئے شفاف رائے شماری کے وعدے کی پاسداری نہیں کی۔ بلکہ جنت نظیر خطہ کشمیر کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے۔ جہاں عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو سب کچھ غیر محفوظ ہیں۔
کشمیری مسلمان مدد کے لیے پاکستانی حکمرانوں اور پاکستانی عوام کی طرف دیکھ رہےہیں لیکن فی الحال ہمارے حکمران بے حسی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔
یاران جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی
وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے جاری کردہ نئے نقشے کی خبر نہایت خوش آئند اور بہار کے جھونکے کی مانند روح افزا ثابت ہوئی تھی۔ جس میں نہ صرف جموں و کشمیر کا مقبوضہ علاقہ شامل تھا بلکہ سر کریک کا متنازعہ علاقہ بھی شامل کر دیا گیا تھا۔ کاش یہ خواب جلد از جلد حقیقت بن جائے!!!
گرچہ کاشمیر میں ستم کی گھور رات ہے
نہ غم کرو مجاہدو، خدا تمہارے ساتھ ہے
اللہ رب العزت بہت جلد وہ وقت دکھائے جب ہم یہ خوشخبری سنیں کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بن گیا ہے۔ نہ صرف نقشے میں بلکہ عملی طور پر بھی اور مقبوضہ و آزاد کشمیر اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اور بنگلہ دیش بھی دوبارہ پاکستان کے ساتھ شامل ہو گیا ہے اور پاکستان کا وجود مکمل ہو گیا ہے۔
کشمیر بنے گا پاکستان،
پاکستان کا مطلب کیا ” لا الہ الا اللہ “،
پاکستان زندہ باد، کشمیر پائندہ باد
3 پر “حصول کشمیر۔۔۔ پاکستان کے لیے ناگزیر” جوابات
بہت اعلیٰ!
کشمیر کی صورتحال کی حقیقت کھو ل کر بیان کی گئی ہے.
ماشاءاللہ بہت اچھی تحریر ہے اللہ تعالی آپکو اجر عظیم دیں آمین ثم آمین
یہ بات بلکل ٹھیک ہے کہ پانچ فروری کو ترانے پڑھنا جوشیلی تقاریر کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے بلکہ اس دن دعائیں مانگیں بچوں کو اس دن کے بارے میں بتائیں تا
کہ بچوں کے اندر نوجوان نسل میں یہ شعور پیدا ہو کہ کشمیر کو ہاکستان کا حصیہ بنایئں گے انشاءاللہ
ماشاءاللہ بہت اچھی تحریر ہے اللہ تعالی آپکو اجر عظیم دیں آمین ثم آمین
یہ بات بلکل ٹھیک ہے کہ پانچ فروری کو ترانے پڑھنا جوشیلی تقاریر کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے بلکہ اس دن دعائیں مانگیں بچوں کو اس دن کے بارے میں بتائیں تا
کہ بچوں کے اندر نوجوان نسل میں یہ شعور پیدا ہو کہ کشمیر کو ہاکستان کا حصیہ بنایئں گے انشاءاللہ