بھارتی فوجیوں کے پیلٹ گنوں کے سبب آنکھوں سے محروم ہوجانے والے کشمیری

کشمیر پر قبضہ مضبوط کرنے کے لئے نریندر مودی کے حربے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قرۃ العین :

کرہ ارض پر موجود قدرت کا شاہکار ، جنت نظیر وادی کشمیرعشروں سے ہندو بنئے کے ظلم و جور کا شکار ہے۔ اہل کشمیر اپنا قیمتی لہو دے کر اس وادی کا قرض چکا رہے ہیں۔ یوں تو ظلم کی اس داستان کو شروع ہوئے نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر موجودہ صورتحال نہایت دگرگوں اور تشویشناک ہے۔نریندر مودی کی حکومت اپنے مخصوص عزائم کے ساتھ وادی میں سرگرم عمل ہے اور کشمیر کا جغرافیہ بدلنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ آئے روز نوجوانوں کی ہلاکت کی خبریں سامنے آ رہی ہیں، ان گنت اقدام ایسے ہیں جو سامنے نہیں آ رہے ۔

کشمیر تقسیم برصغیر سے لے کر آج تک بین الاقوامی طور پر مصدقہ ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کا ایک حصہ پاکستان کے زیر انتظام ہے اور دوسرے پر بھارت جبراً قابض ہے۔ اس قبضے کے باوجود کشمیر بین الاقوامی و کشمیری قوانین کے تحت ایک خصوصی اور انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔

5 اگست 2019 کو ہندوستان نے بھارتی آئین میں کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لئے آرٹیکل 370 کو کینسل کر دیا گیا، اسی اثناء میں کشمیر میں ممکنہ احتجاج سے بچنے کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ۔

اس آرٹیکل کا اجمالی تعارف یہ ہے کہ یہ کشمیر کی خودمختاری کا ضامن ہے۔ 1949میں بھارتی آئین سازی کے موقع پر کشمیر کی حیثیت کا مسئلہ ابھرا چنانچہ عارضی انتقال اور خصوصی معاملات سے متعلق نیا آرٹیکل 370 آئین میں شامل کیا گیا جس کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت کو برقرار رکھا گیا۔ اس دفعہ کا محرک مہاراجہ کے ساتھ ہوئے عہد میں درج تحفظ حقوق باشندگان ریاست کی شرائط ہیں۔

اس قانون کے مطابق وفاقی حکومت مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق کی بناء پر وادی میں بھارتی قوانین کا نفاذ نہیں کر سکتی۔ ریاست کے داخلی امور میں وفاقی عمل دخل نہیں ہو گا۔ مرکزی حکومت کوئی بھی انتظامی تبدیلی ریاستی اسمبلی کی اجازت سے ہی کر سکے گی۔ وفاق ریاست میں ایمرجنسی نافذ نہیں کر سکتا۔ اس دفعہ میں کوئی بھی ردوبدل ریاستی اسمبلی کی سفارش پر ہی ممکن ہو گا،مرکز اس کا مجاز نہیں ہو گا۔

اب آتے ہیں 35Aکی طرف۔۔
یہ حصہ ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق کی تعریف کے اختیارات دیتا ہے۔ اس کے تحت صرف کشمیر میں پیدا ہونے والا ہی کشمیری شناخت رکھ سکتا ہے۔ کوئی غیر کشمیری زمین نہیں خرید سکتا اور نہ ہی ووٹ کا حقدار ہو سکتا ہے۔ کوئی بھارتی کارپوریشن یا کمپنی قانونی جواز حاصل نہیں کر سکتی۔ ریاست کے اندر رہائشی کالونیاں بنانے،صنعتی کارخانے،ڈیم اوردیگر کارخانے لگانے کے لیے ریاستی اراضی پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔

اس آرٹیکل کے خاتمے بعد
بھارتی شہری ریاست میں اب جائیداد خرید سکتے ہیں۔35A کے تحلیل ہونے کا مطلب کشمیر میں اسرائیلی طرز کی نوآبادیوں کے قیام کی راہ ہموار کرنا ہے ۔ مودی نے اسی سال 15 اگست کی تقریر میں کہا کہ کشمیر پر اقدام سے ایک قوم ایک اکائی کا خواب پورا ہو گیا ہے۔اس خواب کے پس پردہ گھناؤنے عزائم ہیں، کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کو بسا کر مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی تیاری ہورہی ہے تاکہ کبھی نام نہاد ریفرنڈم کا ڈرامہ رچا کر من مانے نتائج حاصل کر کے اس قصے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے لیکن یہ بھارت کی بھول ہے۔

کشمیری عوام نے اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ، اس ظلم کے ساتھ ہی کرفیو لگا کر 80 لاکھ کشمیری اپنے گھروں میں قید کر لیے گئے۔45 ہزار فوج کا اضافہ پہلے ہی کر دیا گیاتھا۔ ہر چپے پر فوجی تعینات کردیے گئے۔ حریت قیادت حتیٰ کہ بھارت نواز تمام لیڈر شپ کو پابند سلاسل کردیا گیا۔ وادی میں موت کی سی خاموشی طاری ہو گئی ، سڑکیں اور گلیاں سنسان۔ مکمل میڈیا بلیک آوٹ،انٹرنیٹ منقطع اور ٹیلی فون خاموش کر دیے گئے۔اس جدید مواصلاتی دور میں کشمیر کو دنیا سے کاٹ دیا گیا۔سکول وکالج بند،شٹرڈاون کاروبار معطل،غرض زندگی اجیرن بنا دی گئی۔

نریندر مودی سمیت 6لاکھ ارکان پر مشتملRSS اپنے پیشوا مسولینی کی طرح اپنے حریف پر ہر طرح کے ظلم کو جائز سمجھتے ہیں۔ ریاست گجرات میں مسلم کش فسادات کے سرغنہ گریش چندر مومو کو جموں کشمیر کا گورنر نامزد کیا گیا ۔ مودی کے ساتھی اب بھی وادی میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔

شہادتوں میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ سرچ آپریشن اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ بھارتی وزیر مملکت برائے داخلہ نے نومبر2019 میں یہ انکشاف کیا تھا کہ اس اقدام کے بعد محض تین ماہ میں 5106 لوگ گرفتار ہوئے ۔ پکڑ دھکڑ اور غارت گری کا یہ سلسلہ مستقل جاری ہے ‘ بھارتی فورسز مقبوضہ خطے میں پبلک سیفٹی ایکٹ اور آرمڈ فورسز اسپشل پاور ایکٹ جیسے غیر انسانی قوانین کے تحت سرگرم ہیں۔ آئے روز معصوم لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے دورہ کے بعد پیش کئے گئے کچھ اعداد وشمار کے مطابق 5 اگست 2019 کو جب مودی حکومت کی جانب سے ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کیا گیا، اس کے بعد بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں 14 سال سے کم عمر 13000 سے زائد بچوں کو حراست میں لیا۔

ایل ایف او وی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال 2020میں ہندوستانی قابض افواج کی جانب سے 124 مسلح تصادم، 312 کارڈن اینڈ سرچ آپریشن میں 474 شہید، 657 رہائش گاہیں تباہ کی گئیں۔

کورونا کے سبب 2020 کو انسانی تاریخ میں ” زیرو سال “ کے طور پر ریکارڈ کیا جاسکتا ہے کیونکہ انفیکشن سے بچنے کی خاطر بیشتر شہریوں نے خود کو گھروں میں محصور کرلیا، تاہم ، بھارتی مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کی زندگیوں میں اس سال مزید پیچیدگیاں شامل ہوئیں ، بھارتی قابض افواج کے مظالم میں کوئی کمی نہیں آئی۔

ہندوستانی مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں لیگل فورم فار اپرسڈ وائسز آف کشمیر (ایل ایف او وی کے) کی تیار کردہ اس سالانہ رپورٹ میں یکم جنوری سے 30 دسمبر 2020 کے عرصہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔

سال 2020 میں بھارت نے کشمیر کے شہریوں پر ، رہائش گاہوں اور انسانی حقوق کے محافظوں ، صحافیوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے دفاتر پر دن دھاڑے چھاپے مارے اور کئی افراد کو زیر حراست لیا گیا۔

2019 کے کرفیو کو جزوی طور پر اٹھایا گیا تھا لیکن کورونا کے باعث حکومت کی طرف سے نافذ لاک ڈاؤن کے دوران کشمیری عوام سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔

میڈیا بلیک آوٹ کی وجہ سے اصل حقائق پوشیدہ ہیں۔ گورننگ اتھارٹیز نے میڈیا کی نئی پالیسی شروع کی جس میں اب اخبارات اور رسائل پر حکومت کا مکمل کنٹرول ہے۔

جموں وکشمیر میں کشمیریوں کے خلاف بھارت کی طرف سے معلومات تک رسائی پر پابندی میں اضافہ دیکھا گیا اور رواں سال کل 141 انٹرنیٹ بلاک آؤٹ دیکھے گئے۔

یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ رواں سال کورونا وائرس کی وجہ سے ڈاکٹروں اور صحت کے حکام کےلئے انٹرنیٹ کی فراہمی بہت ضروری تھی۔ 01 جنوری سے 30 دسمبر 2020 تک کے عرصے کے دوران ، بھارتی پیشہ ور فورسز کے ذریعہ 2773 افراد کو حراست میں لیا گیا اور انہیں ہندوستان بھر کی مختلف جیلوں میں بند کیا گیا۔ دوسری طرف بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی مستقل کوشش کر رہا ہے ۔

اپریل 2020 میں جموں کشمیر گرانٹ آف ڈومیسائل رولز کو لاگو کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے جاری گزٹ نوٹیفکیشن میں جموں و کشمیر کے ڈومیسائل (رہائشی) کی نئی تعریف مقرر کی گئی ہے اور ملازمت کے لیے کچھ نئے ضابطے بھی شامل کیے گئے ہیں۔

نوٹیفکیشن کے مطابق جو بھی شخص جموں و کشمیر میں پندرہ برس تک رہائش پذیر رہا ہو یا جس نے وہاں سات برس تک تعلیم حاصل کی ہو اور دسویں اوربارہویں جماعت کے امتحانات وہیں کے کسی ادارہ سے دیا ہو وہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا حق دار ہوگا۔ ایسا شخص سرکاری ملازمتوں کا اہل اور غیرمنقولہ جائیداد کا مالک بھی بن سکتا ہے۔ پہلے یہ فیصلہ 35 اے کے قوانین کے تحت ہوتا تھا اور صرف ڈپٹی کمشنر ہی ڈومیسائل اجراء کا مجاز ہوتا تھا۔اب یہ کام رجسٹرار کر سکتا ہے ۔

یہ ایک بہیمانہ سازش ہے جس کے تحت غیر کشمیری لوگوں کو کشمیری بنا کر رائے عامہ کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہےاور یہ سب ایک خاص منصوبے کے تحت سرانجام دیا جا رہا ہے۔ اہل عقل کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ بھارت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سر عام زمینی حقائق کو بدلنے کی جسارت کر رہا ہے۔

یہ سب تو ایک طرف اور دوسری طرف کشمیر کی اندرونی حالت یہ ہے کہ آج دنیا کے نقشے پر وہ سب سے بڑی جیل بنا ہوا ہے۔ اگرچہ انڈیا کی طرف سے باربار یہ باور کرایا جا رہا ہےکہ سب معمول کے مطابق ہے لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ جزوی طور سے کرفیو2019 اٹھایا گیا مگر کورونا لاک ڈاون کے سبب عمومی طور پر کاروبار زندگی معطل ہے۔

جہاں پوری دنیا کو صحت کے مسائل کا سامنا ہے وہاں اہل کشمیر کی حالت سب سے زیادہ ناگفتہ بہ ہے۔ اشیاءضرورت ناپید ہیں،خوف وہراس اور موت کے سائے چہار سو پھیلے ہوئے ہیں،عزت و آبرو ہر آن داؤ پر لگی ہےاور زندگی سسک رہی ہے۔ ایسے حالات میں دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے انڈیا نے گزشتہ دسمبر میں نام نہاد الیکشن کا ڈھونگ بھی رچایا۔اس میں بھی مودی نواز پارٹی کو بڑی طرح سے شکست کا سامنا ہوا تاہم حتمی نتائج ابھی تک واضح نہیں ہیں۔

جنت نظیروادی لہو لہان ہے،ہر طرف بم وبارود کی بدبو پھیلی ہوئی ہے۔ کشمیر آزاد نہیں ہے ،اہل کشمیر کے نہ ختم ہونے والے مصائب اور قید کی ایک ہلکی سی جھلک گزشتہ سال پوری دنیا نے کورونا کے باعث گھروں میں محصور ہو کر دیکھ لی۔ شاید یہ انہی کی سسکیوں اور آہوں کا شاخسانہ تھا جس کا انتقام لینے کے لئے دست قدرت استعمال ہوا ۔

جنت نظیر کشمیر کے سرسبزچنار جو کبھی اپنی وادی کےحسن پر نازاں جھومتےتھےاج خون آشام نظاروں میں لپٹی خزاں کی چادر اوڑھے مغموم کھڑے ہیں،انہیں بھی تا حد نگاہ کوئی ناصر نظر نہیں آتا۔ کشمیری بچے راہوں کو تکتے نابینا کر دیے گئے، کشمیری بہنوں کے آنچل گرد آلود ہو گئے۔ اتنی طویل لڑائی میں ایک بھی گھر ایسا نہیں جس نے اپنے خون اورعزت و آ برو سے اس مٹی کی زکوةادا نہ کی ہو۔

2020 بھی ختم ہوا اور 2021 کا سورج طلوع ہوئے بھی مہینہ گزر گیا لیکن کشمیریوں کے لیے کوئی نوید نہ آئی۔ مسیحا کا انتظار کرتے کرتے شاید اب انھوں نے بھی مایوسی سے آنکھیں موند لی ہیں۔ جس ملک کا پرچم ان کا کفن ہے ،جس کی محبت ان کی رگوں میں خون بن کہ دوڑتی ہےاس کی حکومت نے ان کی پکار کا جواب صرف تقریروں اور زبانی جمع خرچ سے دیا۔ جس ذی روح کی شہہ رگ پر چھرا چلایا جائے وہ کیسے سکون سے جی سکتاہے۔ کشمیر پاکستان کی ضرورت ہے جغرافیائی،دفاعی اورقدرتی مادی وسائل کے اعتبار سے کشمیر پاکستان کی بقاء کے لئے واقعی شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔

5فروری1990کواس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد صاحب کی تجویز پر کشمیر سے اظہارِ یکجہتی کے لیے خصوصی دن منایا گیا اور اس کے بعد ہر سال یہ دن منایا جاتا رہا ہے لیکن اس اظہار کے باوجود جب کشمیر کو ہماری اشد ضرورت تھی تب ہم زبانی جمع خرچ سے آ گے نہ بڑھ سکے۔

دیگرمسلم دنیا بھی خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہےاور بالعموم اپنے دینی بھائیوں کی مدد کے لیے کچھ نہیں کر رہی الٹا اغیار کا ساتھ دینے میں پیش پیش ہے۔ شاید سب نے کانوں میں انگلیاں دے رکھی ہیں تاکہ ان مظلوموں کی دلدوز چیخیں ان کی سماعت سے ٹکرا کر مردہ ضمیر کو کہیں جھنجھوڑ نہ دیں۔ لیکن خدا کے سوال سے وہ اپنی سماعت کو کیسے بچائیں گے جو پکار کر کہہ رہا ہے کہ

اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ
کی راہ میں جنگ نہیں کرتے ان لوگوں کی مدد کے لیے جو کمزور
پا کر دبا لیے گئے ہیں،کہتے ہیں وہ
اے ہمارے رب نکال ہمیں اس بستی
سے جس کے اہل ظالم ہیں اور بنا دے ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی
حمایتی اور مددگار۔۔۔النساء 75

دنیا میں بھلے ہی کانوں پر پردہ ڈالے رکھیں مگر روز محشر اللہ کی عدالت میں جب ہمارے بھائی یہ مقدمہ لے کر اٹھیں گے تب کوئی جائے فرار نہیں ہو گی۔

اس بار بھی یوم یکجہتی پر ہمارے پاس کوئی بلند وبانگ دعوے نہیں ہاں ندامت ضرور ہے اور یہ پیغام کہ پاکستانی عوام کے دل اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ صرف اجازت کے منتظر ہیں اپنا تن من ان پر وارنے کے لیے۔
اے مظلومان کشمیر ہم شرمندہ ہیں !

روتی ہے کشمیرکی دھرتی روتے ہیں انسان
شاید ہم کو بھول چکی ہے ارض پاکستان


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں