ساجدہ ابصار :
پاکستان اس وقت بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ عوام سیخ پا ہیں کہ ان کو ایک بار پھر دھوکا دیا گیا ہے۔ کرپشن ختم کرنے کے نعرے لگا کراقتدار میں آنے والوں نے کرپشن میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ہیرو پرست ، مفاد پرست اور حقیقت سے نظریں چرا نے والے کارکنان کے علاوہ سبھی اس بات پر نادم ہیں کہ پی ٹی آئی کو ووٹ کیوں دیاتھا؟
دیگر جماعتیں بھی شور مچا رہی ہیں کہ حکومت عوام الناس پر عذاب بن کر مسلط ہے،مہنگائی اور کرپشن بڑھ گئی ہے،مگر افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ وقت کے سب سے اہم مسئلے ’ مسئلہ کشمیر ‘ کی طرف نہ حکومت کی توجہ ہے، نہ اپوزیشن جماعتیں اس کے لیےفکر مند ہیں، اسی لیےعوام کی اکثریت اس مسئلے کے بارے میں آگاہ ہی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ پاکستان کی سالمیت اور بقا کا مسئلہ ہے ۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو بجا طور پرملک کی شہرگ قرار دیا تھا لیکن ہماری حکومت اورسیاسی گروہ اپنی شہ ر گ سے شرم ناک سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
گزشتہ برس کے شروع میں کورونا کی وجہ سے پوری دنیا میں لاک ڈائون ہے،مگر کشمیری اگست 2019ء سے ہی سفاکانہ لاک ڈائون میں مبتلا ہیں۔ بھارتی حکومت نےایک سال پہلے ہی مقبوضہ کشمیر کے ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کو لاک ڈائون کا نشانہ بنا رکھا تھا، مگر ہم ان کی حالت زار دیکھ کرٹس سےمس نہیں ہوئے۔ اس کے بعد کورونا کا لاک ڈائون شروع ہو گیا۔ تب بھی ساری دنیا کورونا کے بارے میں حساس ہو گئی ، مگر کشمیر کی مصیبت سے کوئی آگاہ نہیں۔
کشمیر میں نوجوانوں کا قتل عام جاری ہے، کشمیر اوربھارت کی جیلیں کشمیری مسلمانوں سے بھری پڑی ہیں، خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات معمول بن چکے ہیں ۔اب توعالمی میڈٰیا اورادارے بھی کشمیری مسلمانوں کے خلاف جاری بھارتی مظالم کی مذمت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس صورت حال میں حکومت کی جانب سے محض بیان بازی کرتے رہنا اور کوئی عملی قدم نہ اٹھانا مجرمانہ غفلت ہے۔
اُدھر مقبوضہ کشمیرکو ہندوستان میں ضم کرنے کی تیاریاں جاری ہیں اورادھر ہمارے ریاست مدینہ کا دعویٰ کرنے والے کشمیری مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے لیے بھارتی اداکاروں کے پاکستان میں موجود آبائی گھروں کو میوزیم بنانے کے لیے کروڑوں روپے مختص کررہے ہیں ۔ یہ سب کچھ دیکھ کر معلوم ہوتا ہےکہ وزیر اعظم صاحب کو جنرل اسمبلی میں تقریر کے لیے الگ مواد دیا گیا تھا اور عملی منصوبہ بندی دوسری ہے ۔ اگر ایسا نہیں تو اس متضاد رویے سے ہم کیا سمجھیں؟؟
اصل بات یہ ہےکہ مسئلہ کشمیر اس وقت فیصلہ کن مرحلے میں ہے۔ پچھلے ستر سالوں میں مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اتنی اہمیت نہیں ملی جتنی گزشتہ ایک سال میں ملی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ظلم جب اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ ہمیں بھارت کی سفاک حکومت کے اقدامات کا توڑ کرنے کے لیےاجتماعی فیصلے کرنے چاہیے تھے،خصوصاً موجودہ صورت حال سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا۔
کل تک عالم یہ تھا کہ جو لوگ بھارت کے کشمیر پر غاضبانہ قبضے کہ بارے میں بات کرتےہوئے کتراتے تھے،آج وہ بر ملا اس کے مظالم کی مذمت کر رہے ہیں۔ اسلامی کانفرنس،ترکی اور چین نے کھل کر کشمیر کی تحریک آزادی کی حمایت کی ہے۔ اب توبھارتی عوام کے اندر بھی کشمیر کی صورت حال پر تشویش نظر آتی ہے ۔ حکومت پاکستان کوبھی مجرمانہ خاموشی کے بجائے کھل کر کشمیری کاز کے لیے کام کرنا چاہیے۔
حال ہی میں حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کے بارے میں کچھ اقدامات کا عندیہ دیا ہے۔ ہمیں ایسےفیصلے کرنے سے حکومت کو روکنا ہو گا جو مسئلہ کشمیر کے معاملے میں ہمارے موقف کو کمزور کردیں ،شمالی علاقوں کو صوبائی وحدت بنانا بھارت کے کشمیر ہڑپ کرنے کے کام کو آسان کر دے گا۔ ایسے فیصلےہر گز درست نہیں کہے جا سکتے۔ بھارت کو خوش کرنے کے بجائے ہمیں سنجیدگی سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے یکسو ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہماری وزارت خارجہ کو چاہیے تھا کہ بھارت کو کشمیریوں پر ظلم ڈھانے سے روکنے کے ہر ممکن کوشش کرے ۔ ساری قوم کو کشمیر کے معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے متحد ہونے پر آمادہ کیا جائے۔ باصلاحیت اور مخلص افراد پر مشتمل وفود دوسرے ممالک میں بھیجے جائیں جوعالمی برادری کو بتا سکیں کہ پاکستان کشمیر کے مسئلے میں غیر جانب دار نہیں رہ سکتا، وہ اس مسئلے کا ایک فریق ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کو بھی اس مسئلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ کشمیر کا مسئلہ روزمرہ مسائل جیسا نہیں،یہ پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے۔
اس مسئلے کے لیےہمیں اپنے اختلافات کو بالا ئے طاق رکھ کر یکسوئی اختیار کرنی چاہیے اور ایسے اقدامات کرنے چاہیں ، تاکہ ایک طرف عالمی سطح پر کشمیر کا مسئلہ بھرپور انداز میں اجاگر ہو سکے اور دوسری جانب کشمیری عوام کو یہ تاثر ملے کہ حکومت پاکستان اور پاکستان کے عوام نہ صرف ان کے دکھ درد میں عملاً شریک ہیں، بلکہ مکمل طور پر ان کے پشتی بان بھی ہیں ۔