منیبہ مختار :
دیکھتی کیا ہوں، ایک بہت ہی خوبصورت وسیع و عریض جنت ہے، اس جنت کی خوبصورتی میرے چہرے پر کھلکھلاہٹ لا رہی تھی کہ اچانک میری نظر اسی جنت میں موجود ایک دریا پہ پڑی جس کا رنگ سرخ تھا ۔ اس نہر کے کنارے ایک بوڑھی عورت بیٹھی رو رہی تھی، اس کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو اس خونی دریا میں شامل ہو رہے تھے۔ شاید اس کی بہت قیمتی چیز اس دریا میں کھو گئی تھی۔
آگے بڑھی تو دیکھا اسی دریا کے کنارے کچھ معصوم بچے بیٹھے ہیں اور اپنی ہتھیلیوں کی انگلیوں کو اسی خونی دریا میں ڈبو کر دریا کے کنارے کچھ لکھ رہے ہیں ۔ میں حیران و پریشاں تھی کہ آخر میں کس جگہ پر ہوں اور یہ سب کیا ہورہا ہے۔ ہمت کر کے جب کچھ آگے بڑھی تو دیکھا ، وہ بچے اپنی انگلیوں سے اس خونی دریا کو سیاہی بنا کر ” کشمیر بنے گا پاکستان “ لکھ رہے تھے۔ اور مجھے اپنے سارے سوالوں کے جواب مل گئے کہ میں کہاں پر ہوں اور یہ سب کیا ہو رہا ہے۔
میں مقبوضہ کشمیر میں موجود تھی اور وہ دریا معصوم کشمیریوں کا لہو تھا اور وہ بوڑھی عورت اپنے لخت جگر کے خون کو ڈھونڈ رہی تھی ۔ اتنا خوفناک منظر دیکھ کر میرا سر شدت غم سے پھٹ رہا تھا کہ اتنے میں کچھ لوگ آئے، انہوں نے بھارتی وردیاں زیب تن کر رکھی تھیں، بھارتی فوج معلوم ہوتی تھی۔ انہوں نے اپنی بندوقوں کے وار سے ان بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جو اس خونی دریا کے کنارے بیٹھ کر خون کی سیاہی سے ” کشمیر بنے گا پاکستان “ لکھ رہے تھے۔
میں سب کچھ دیکھتے ہوئے جان بوجھ کر خاموش تماشائی بنی رہی ۔ میں نے ظلم کے خلاف جان بوجھ کر آواز نہیں اٹھائی ، صرف اس ڈر سے کہ کہیں میں بھی اپنی جان سے ہاتھ۔ نہ دھو بیٹھوں۔ صرف اس ڈر سے میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ظلم ہوتے دیکھا اور ظلم روکنا تو دور کی بات ظلم کے اوپر لب کشائی بھی نہ کر سکی۔
ذرا آگے بڑھی تو میرے چاروں اطراف میں لاشوں کے انبار تھے گویا قربانی کے جانور زبح ہوئے ہوں، قریب جا کر دیکھا تو پتا چلا کہ یہ کوئی گائے بھینسوں کی لاشیں نہیں بلکہ مظلوم کشمیریوں کو حیوانوں کی طرح زبح کیا گیا ہے۔
یہ سب کچھ دیکھنے بعد مجھ میں ہمت نہیں بچی تھی کچھ اور دیکھنے کی لیکن ابھی سب سے ہولناک منظر باقی تھا۔ میں نے وہاں حوا کی بیٹی کو سرعام لٹتے دیکھا ، چمن دیکھا تو اجڑا ہوادیکھا ، وہاں کے خوبصورت باغوں میں آگ لگی دکھائی دی۔ گویا ایک مدت سے وہاں پر بہار نے رخ نا کیا ہو ، پرندوں نے ایک مدت سے نغمے نہیں گائے ہوں ، کوئل نے گانا گایا بھی تو درد سے بھرپور آواز میں۔
وہاں کے لوگ بینائی سے محروم تھے، کسی کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی تو کسی کا سر پھٹا ہوا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھنے بعد میں زور و قطار رو پڑی مجھ پہ ندامت اور شرمندگی کا غلبہ چھانے لگا۔ اللہ رب العزت سےچیخ چیخ کے التجا کرنے لگی کہ مجھے کوئی ایسی طاقت دے ، جس کی مدد سے میں اس ظلم کو روک سکوں۔
اتنا کہنا تھا کہ میں نیند سے بیدار ہو گئی ۔اس قدر بھیانک خواب میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پھولے ہوئے سانس کے سا تھ میرے ذہن کے گرد میرا خواب گردش کرنے لگا ۔اور یوں میرا خواب اختتام کو پہنچا۔
کشمیر کی بیٹیاں ہم سے زیادہ نازک اور بابا کی پیاری ہیں۔ وہ وہاں تکلیف میں ہیں۔ کشمیر کے بچے ہم سے زیادہ لاڈلے ہیں ، وہ وہاں ذبح ہورہے ہیں ۔ آئو پھر بتا دیں اس بار کشمیر کو کہ
کشمیر اکیلا نہیں بلکہ ہم کشمیر کے ساتھ ہیں ۔ میں اہلیان لاہور کی ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں ، بچوں ، بزرگوں سب کو دعوت دیتی ہوں کہ 5 فروری کو اپنے گھروں سے نکل کر اس جہاد میں اپنا حصہ ڈالیں ورنہ کل اپنے اللہ کے حضور جب پیش ہوں گے تو اپنے رب کو کیا جواب دوگے۔
ہوسکتا ہے آپ کا یہ جہاد آپ کو قیامت کی شرمندگی سے بچا لے۔ کشمیر کے درد میں لگایا ہوا ایک نعرہ ہی آپ کو اپنے رب کے حضور شرمندگی سے بچا لے۔