سیما سعید :
ابتدا میں جان پہچان کے لوگوں یا دوست احباب کا واٹس ایپ نمبر آپ کے پاس صرف اس لیے ہوتا تھا کہ میسج کے ساتھ آواز و تصویر ( اگر ضروری ہو ) بھی پہنچ جائے، ایک دوسرے سے رابطہ میں رہا جاسکے ،
بندہ سامنے محسوس ہو بلو سائن اور ایموجیز سے۔ یہ بھلے دور کی باتیں ہیں۔
پھر وآٹس ایپ سے منسلک لوگوں پر برا وقت آیا۔ فیملی گروپ ، فرینڈز گروپ بننے لگے۔ اب خالہ خیرن
کی ضرورت نہیں رہی کہ جو ادھر کی ادھر کرنے کی ذمہ داری نبھاتی تھیں، اب لوگ صرف ایک کلک پر خود ہی باتیں ہر طرف پہچانے لگے۔
پھرمختلف تنظیموں، جماعتوں کے واٹس ایپ گروپس بھی بننے لگے ، سیاسی گروپوں کے بعد تاجروں نے بھی گروپ ، گروپ کھیلنا شروع کردیا مطلب خرید و فروخت شروع کردی۔ لاک ڈاؤن میں ان سب کا وآٹس ایپ نے بڑا ساتھ دیا۔
یہاں ان لوگوں کا ذکر نہ کرنا بڑی ناانصافی ہوگی جنھیں میسجز فارورڈ کرتے رہنے کی بیماری ہے ۔۔۔ گروپ کا ٹارچر سیل انھی کے دم قدم سے آباد رہتا ہے۔
یہاں تک تو سب کچھ کسی حد تک قابل برداشت تھا کہ آپ نہیں چاہتے ، پسند نہیں کرتے تو گروپ سے لیفٹ ہوجائیں یعنی گروپ چھوڑ دیں لیکن پھر براڈ کاسٹ لسٹ آگئی۔ لوگوں نے پوری فرینڈ براڈ کاسٹ پوری فرینڈ لسٹ میں شامل کردی۔ اب جب موڈ ہوتا ہے لسٹ میں اپنامنجن بیچنا شروع کردیتے ہیں۔ یوں ان کا ایک کلک تمام دوستوں ، رشتہ داروں ، عزیزوں کے ذہنوں پر ہتھوڑے برسانا شروع کردیتا ہے۔
کچھ لوگ اس قدر زیادہ فارغ ہوتے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر تصاویر ، اسٹیٹس شیئر کرتے رہتے ہیں ، چاہے دوسرے کے موبائل کا بھٹہ بیٹھ جائے۔
گروپس کی اذیت کم نہیں تھی کہ براڈ کاسٹ لسٹ نے اجیرن کردیا سکون ۔ آپ تعلق خراب نہ ہونے کے ڈر سے منع بھی نہیں کرسکتے کہ مجھے لسٹ سے نکال دیں اور بہتر ہے کہ اپنا یہ منجن اپنے وآٹس ایپ اسٹیٹس پر بیچ لیں، میرا مطلب ہے کہ اپنے اسٹیٹس ، وڈیوز ، پیغامات وہاں شیئر کرلیں، جس نے دیکھنا ہوگا، دیکھ لے گا۔
مہذب طریقہ تو یہ ہے کہ گروپ اور براڈ کاسٹ لسٹ میں شامل کرنے سے پہلے اجازت لے لی جائے۔ یہی حال میسنجر کا ہے۔
آپ فرینڈ لسٹ میں ہیں تو اپنے لائکس ، شیئرنگ اپنی حد تک رکھیے ، اپنی پسند کی پوسٹ وڈیوز زبردستی دوسروں کے ان باکس میں پھینکنے سے گریز کیجیئے۔ میڈیا کا استعمال کیجیے لیکن اپنے تعلقات کو دوسروں کے لیے اذیت کا باعث اور بوجھ نہ بنائیے۔