مہناز ناظم :
پاکستان کو بنے ہوئے تہتر سال بیت چکے ہیں مگر مسئلہ کشمیر اب تک حل طلب ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مسئلہ کی حیثیت واضح ہوکر کرسامنے آئی ہے۔ مسئلہ کشمیر تقسیم ہند کے ایجنڈے کا وہ حصہ ہے جو اب تک پورا نہیں ہوا ۔ اس کی تکمیل کے بغیر پاکستان مکمل نہیں ہو سکتا ۔ اس کا تعلق پاکستان کے وجود، شناخت، علاقائی حیثیت ، معاشی، نظریاتی ، سیاسی، تہذیبی استحکام اور ترقی سے ہے۔ جیسا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے زیارت میں قیام کے دوران اپنے معالج ڈاکٹر الہی بخش سے کہا تھا کہ
” کشمیر سیاسی اور فوجی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے ۔ کوئی خوددار ملک اور قوم اسے برداشت نہیں کر سکتی کہ وہ اپنی شہ رگ اپنے دشمن کی تلوار کے آگےکردے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے ایک ایسا حصہ جسے پاکستان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیر کا مسئلہ نہایت نازک مسئلہ ہے لیکن اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم اور ملک نظر انداز نہیں کر سکتا کہ کشمیر تمدنی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی، معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کا حصہ ہے۔ جب بھی اور جس زاویے سے بھی نقشے پر نظر ڈالی جائے، یہ حقیقت اتنی ہی واضح ہوتی چلی جاتی ہے“ ۔( قائداعظم کے آخری ایام، ڈاکٹر الہی بخش)
پاکستان اور بھارت کےدرمیان تعلقات اس وقت تک درست نہیں ہو سکتے جب تک بھارت کشمیر پر غاصبانہ قبضہ ختم نہیں کر دیتا۔ جنوبی ایشیا میں امن وامان کی فضا کا انحصار مسئلہ کشمیر کے حل پرہی منحصر ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کشمیری عوام کسی بھی طرح بھارت کے ساتھ رہنے پر تیار نہیں ہیں۔ خاص طور پر کشمیری مسلمان بھارت سے آزادی کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور بھارتی قبضے کے خلاف مسلسل قربانیاں دیتےچلے آ رہےہیں، اپنی جانیں اور اپنے مال اس راہ میں لگا رہے ہیں۔ یہ جذبہ پاکستانی عوام میں بھی کار فرما ہے۔ جو حصہ آزادکشمیر ،گلگت بلتستان کی شکل میں پاکستان سے منسلک ہے وہ کشمیری اور پاکستانی مجاہدین کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے جو انہوں نے بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لئے کیں۔ مقبوضہ کشمیر میں موجود اسی جذبے اور جدوجہد کے سبب بھارتی فوج بھاری تعداد اور ظلم و ستم کے باوجود عوام کو بھارت کےساتھ رہنے پر آمادہ نہیں کر پائی، کشمیری بھارت کی آمرانہ کاروائیوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر تیار نہیں ہیں۔
بھارت میں بی جے پی کی حکومت نے 5 اگست 2019 کے بعد جو اقدامات کیے ان کے نتیجے میں اس تحریک کی کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ عوامی مزاحمت میں وہ لیڈر بھی شامل ہوگئے ہیں جو پہلے بھارت سے کسی خیر کی توقع رکھتے تھے، ان میں محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ بھی شامل ہیں جو بھارت کو ڈاکو کہہ رہے ہیں اور پاکستان کی حمایت میں بیان دے رہے ہیں۔ بھارتی دانشور بھی صاف الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ جبر اور ظلم کے ذریعے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو نہیں دبایا جا سکتا۔ بھارت نے کشمیری عوام سے کیے گئے شفاف رائے شماری کے وعدے کو پورا نہیں کیا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دنیا کشمیر میں بھارت کےظلم اور ناانصافی کو دیکھ چکی ہے اور اس کی کارروائیوں کی مذمت کر رہی ہے۔ ترکی اور انڈونیشیا کی حکومتیں واشگاف الفاظ میں بھارت کی مذمت کر چکی ہیں۔
کشمیری عوام کا اصل اور بنیادی مسئلہ صرف ایک ہے، وہ ہے حق خود ارادیت۔ یہی پاکستان کا موقف اور اقوام متحدہ سے بھارت کا معاہدہ ہے۔ چناچہ اقوام متحدہ پاکستان اور بھارت کے معاہدے کے مطابق، کشمیری عوام کو اپنی آزاد مرضی سے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے کہ ا نہیں پاکستان میں شامل ہونا ہے یا بھارت میں۔ پاکستان اور کشمیر کے عوام کے لئے حق خودارادیت کے سوا کوئی حل نا قابل قبول ہے۔
کشمیر کے مسئلہ کا تعلق محض انتظامی اختیارات سے نہیں بلکہ جموں اور کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت اور بھارت کے تسلط سے آزادی حاصل کرنا ہے۔
بھارت نے کشمیر کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ وہاں کے عوام کے جان و مال، عزت و آبرو سب خطرے میں ہیں۔ آئے دن ہونے والی ہلاکتیں اس کا کھلا ثبوت ہیں۔ کشمیر کی جیلیں معصوم کشمیریوں سے بھری پڑی ہیں۔ ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، وہ اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں۔ ہزاروں کشمیری ماؤں، بہنوں اوربیٹیوں کی عزتیں پامال ہو چکی ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
پاکستانی حکومت کشمیریوں کی اخلاقی امداد جاری رکھے ہوئے ہے مگر بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی حد سے بڑھ چکی ہے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی اور معصوم نہتے عوام پر آئے روزبلا جواز فائرنگ معمول کا حصہ ہے۔
پانچ اگست 2019 کے بھارتی اقدامات کے بعد پاکستان کی حکومت کو عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے اور اس کے حل کی کوششوں تیز تر کرنے کی اشدضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی پالیسی اور موقف کو پوری وضاحت کے ساتھ ہر سطح پر بیان کیا جائے۔ کشمیر پر پاکستان کا اصولی موقف مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ
” ریاست جموں و کشمیر ایک مکمل ریاست ہے اس کا فیصلہ ایک وحدت کے طور پر کیا جانا چاہیے۔
کشمیر کے دو تہائی حصے پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے جسے کوئی دستوری ، قانونی اور اخلاقی جواز حاصل نہیں، ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
ریاست کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے جسے معلوم کرنے کے لئے اقوام متحدہ استصواب رائے کرانے کی پابند ہے۔
کشمیر کا مسئلہ نہ زمین کا مسئلہ ہے نہ سرحد کی نشان بندی کا معاملہ، نہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی تنازعہ ہے بلکہ اس کے تین فریق پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام ہیں جنھیں آخری فیصلہ کرنا ہے۔
پاکستان نے اپنے دستور میں دفعہ 251 صاف الفاظ میں یہ لکھا ہے کہ
” جب ریاست جموں کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کریں گے تو پاکستان اور اس ریاست کے درمیان تعلقات اس ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق طےکیے جائیں گے“۔
مسئلہ کشمیر کی بےپناہ اہمیت کے پیش نظر حکومت پاکستان کو چاہیے کہ اس مسئلہ کو اولین حیثیت دے کر اسے حل کرنے کے لئے موثرترین اقدام کرے۔
اول تو کشمیر پالیسی پر کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے، اس کے لیے پارلیمنٹ میں بحث کرائی جائے تاکہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک پالیسی پر متفق اور قائم ہوں تاکہ مل کر کام کر سکیں۔
تعلیمی نصاب سے لیکر میڈیا اور ہر سطح پر اسی پالیسی کو موثر انداز میں پیش کیا جائے۔
کشمیر کمیٹی کو فعال کیا جائے۔ عالمی سطح پر کشمیر کے ایشو کو ابھارا جائے اور اس کے لئے پرزور جدوجہد کی جائے۔
ہر پاکستانی سفارت خانے میں کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے متحرک اور تجربہ کار افراد ہونے چاہییں جو بیرون ملک پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کے افراد کے تعاون سے بھارت کےمذموم مقاصد اور کشمیر میں مظالم کو بے نقاب کر کے عالمی تائید حاصل کریں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے عالمی سطح پر اور خود بھارت میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی بنا پر بھارت کی حکومت تنقید کی زد میں ہے۔ خاص طور پر اقلیتی حقوق اور ہمسایہ ممالک کے خلاف جارحانہ کاروائیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ ،انسانی حقوق کے ادارے اور اہل فکرودانش حتیٰ کہ ایسے اخبارات ورسائل جو بھارت کے خلاف زبان نہیں کھولتے تھے کھلی تنقید کر رہے ہیں، اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری تحقیق اور دلیل کے ساتھ بھارتی عزائم کو بے نقاب کیا جائے، اس کا معاشی بائیکاٹ بھی کیا جائے تاکہ کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلایا جا سکے۔