مولانا محمد عبدالعزیز مولوی فاضل عربی ، جامعہ نظامیہ عثمانیہ ، حیدرآباد دکن کی کچھ باتیں
محمدعبدالملک :
چونکہ ہم برسی بطور رسم کے روادار نہیں، جس دن سے وہ رخصت ہوئے، میں پدرانہ شفقت، مستجاب الدعوات دعاؤں اور ان کے قیمتی مشوروں سے محروم ہوگیا، اب مجھے جو بھی رنگ، ڈھنگ، مزاج، مقصد، تعلقات، رشتہ داریاں، محبتیں اور سب سے بڑھ کر ” ترجیحات “ خود طے کرنی ہیں۔
ابا مجسم تحریک تھے، ان کی خوشی، ان کا غم سب کچھ جماعت اسلامی تھا، انہوں نے جو حلف اٹھایا تھا جو رکنیت کے قرطاس پر آج بھی ہے، قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین (سورۃ الانعام۔ 162)،
جب تک سکت باقی تھی مسجد میں جاکر باجماعت نماز پڑھتے،
قربانی یہ کہ کیرئر کی کبھی پرواہ نہیں کی، وہ ایم اے عربی کے مساوی تھے، کالج میں جاسکتے تھے لیکن جماعت اسلامی کے لیے کے ایم اے اسکول، دو شفٹوں میں پڑھاتے، ٹرین سے سٹی اسٹیشن جاتے اور وہاں سے پیدل کھارا در جاتے، بعد مغرب گھر پہنچتے، پھر جماعت اسلامی کے دفتر چلے جاتے اور رات دیر گئے واپس آتے، کھانا کھاکر کچھ ٹہلتے اور سو جاتے، تہجد کا التزام، اخبار کا مطالعہ، ترجمان القرآن، تفھیم القرآن، روز کی ڈائری، یہ ان کے معمولات تھے،
زندگی میں اگر بلک بلک کر روتے دیکھا تو ڈاکٹر نذیر احمد شھید کی شہادت کی خبر پڑھ کر روتے دیکھا، شاہ فیصل کالونی میں چند ارکان کے ساتھ مل کر ایک موثر جماعت کے وجود کو منوایا، حکمت،تدبر، کوشش اور توکل کے ذریعہ مسلسل بلاتکان کام کرتے، امی جان کہتیں کہ آپ ایسے کام کرتے ہیں، جیسے آنے والا دن اسلامی انقلاب ہوگا!
کڑیل بیٹے کو شھید کردیا گیا، کوئی رونا دھونا نہیں، کوئی بد حواسی نہیں، مجھے بلا کر کہا کہ تم تقریر کرو اور سورۃ بقرہ کی وہ آیات بتائیں کہ تمہیں ضرور آزمایا جائے گا، اور کہا کہ لوگوں سے کہو، تدفین پر امن کریں،
مشکل ترین حالات میں بالکل مجتمع رہ کر، پرعزم ہوکر کام کرنے کا راستہ نکال لیتے،
معاشی مشکلات پر کبھی پریشانی کا اظہار نہ کرتے اور اللہ کے بھروسہ پر، عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزارتے تھے،
اللہ نے سعادت مند بیٹے محمد عبداللہ مرحوم و مغفور کو نوازا وہ سعودی ائر لائن میں ملازم ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں سترہ، اٹھارہ برس تک ہر رمضان المبارک میں بیت اللہ اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری نصیب فرمائی،
انتقال سے چند دن قبل اپنے بیٹے محمد عبدالواسع کو بینک لے گئے، تقریباً ساری رقم نکال لی جو چند ہزار روپے تھے، پھر خود چل کر حلقہ کے ناظم امجد بھائی کو دو ماہ کی اعانت دی، اپنی زندگی میں بیٹےعبدالبصیر کی شہادت اور اکلوتی بیٹی کا غم اٹھایا، بیوی کی جدائی جس نے ساری زندگی گرم و سرد میں صبر و توکل کے ساتھ زندگی گزاری، اور پھر اپنے نوجوان پوتے محمد عبدالہادی کا غم اٹھایا، پھر تابعدار بیٹے عبداللہ کی جدائی کو بھی صبر جمیل کے ساتھ برداشت کیا۔ بغیر کوئی تکلیف دئیے، رات دیر سے سوئے اور فجر سے قبل ہی اپنے رب کے پاس چلے گئے،
تدفین پر میں نے عبدالقدوس کو بلاکر کفن لانے کے لیے پیسے دئیے تو ابا کے ہاتھ کی تحریر دکھائی جس میں سات، آٹھ ہزار روپے تھے اور تاکید تھی کہ اسی رقم سے میری تدفین کرنا اور اگر سعودی عرب میں موت آئے تو جنت البقیع میں دفن کرنا۔
امی جان کی وفات پر ایک شعر گنگنا رہے تھے جو ان پر بھی صادق آتا ہے،
سوئیں گے قیامت کہ سبکدوش ہوگئے
بار امانت غم زندگی سر سے اتار کے
یاایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیۃ فا دخلی فی عبادی وادخلی جنتی، صدق الله العظيم.إنا لله وإنا اليه راجعون ببالغ الحزن والاسى ننعى وفاة المرحومة الحاجة والدة الاست
انھوں نے جو حلف اٹھایا، اس کی پاسداری کی، معاملات میں امانت داری اور سچ بولنا۔ کم کھاتے، کم سوتےاور کم بولتے تھے، مضبوط قوت ارادی کے مالک تھے، اللہ پر بھروسہ ان کا سرمایہ تھا، دنیا کی چمک دمک انہیں بالکل مرعوب نہیں کرتی تھی، وہ اپنی زبان، لباس اور بودو باش سے اپنی وابستگی کا زبانی نہیں عملی اظہار کیا کرتے۔ وہ ایک جری انسان تھے حالانکہ جسمانی طور پر دبلے تھے، عزت نفس، ذہانت اور تفکر ان کا سرمایہ تھا،
انہیں اس بات کا قلق تھا کہ جدید اور قدیم تعلیم کی دوریاں، مسلمانوں کے زوال کا سبب ہیں، رشتہ داریاں نبھانا، کسی کے پاس آنا جانا اور لمبی نشستیں کرنا، ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا تھا، وہ مصروف انسان تھے، ان کی مصروفیت صرف جماعت اسلامی تھی،
تحریک کے وفادار کارکن اور مخلص انسان تھے، اگر انہیں وہ ماحول فراہم ہوتا جس کا راستہ جدید تعلیم سے گزرتا ہے تو وہ بڑا نام پیدا کرتے، وہ بہت نیکیاں اور خیر لے کر 15 جنوری 2021 کو اپنے خالق و مالک کے پاس چلے گئے،
جہاں میں گر کوئی تابندہ بودے
ابوالقاسم محمد زندہ بودے