ڈاکٹر شائستہ جبیں :
[email protected]
میں صوبہ پنجاب کے ایک قدیم ضلع جھنگ کے مغرب میں واقع ایک گاؤں ہوں. یہ علاقہ دوآبہ کہلاتا ہے کیونکہ یہ دریائے چناب اور دریائے جہلم کے درمیان آباد ہے. محکمہ مال کے کاغذات کے مطابق مجھے 1879 میں آباد کیا گیا. جھنگ کے بانی سیال قبیلہ کی ایک ذیلی شاخ سدھانہ کے لوگ کاشتکار ہونے کی وجہ سے سبزے اور وافر چارے کی وجہ سے اس علاقے میں آن آباد ہوئے.
سید عبدالقادر گیلانی تبلیغ دین کے لیے اس علاقے میں تشریف لائے اور یہیں سکونت پذیر ہو گئے. ان دو اقوام کے لوگوں کی نسبت سے میرا نام ” پیر کوٹ سدھانہ “ ہے. رفتہ رفتہ آبادی میں اضافہ ہوا اور مختلف ہنر اور زراعت میں مددگار لوگ بھی یہاں آباد ہونا شروع ہوگئے.
میں مختلف مذاہب اور مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا مسکن رہا ہوں. ہندو، سکھ بڑی تعداد میں یہاں آباد رہے اور بڑے زمین دار اور تجارت پر قابض رہے. ایک طویل عرصے تک میں معاشی طور پر مضبوط اور خوش حال ہونے کی وجہ سے ہندو اور سکھ قوموں کا دست نگر رہا.
مسلمان اقوام غریب اور بدحال تھیں اور ہندو، سکھوں کے سودی شکر تلے دبی رہتی تھیں. سدھانہ اور سید برادری کے چند سرکردہ گھرانوں کے علاوہ باقی تمام مسلم آبادی معاشی طور پر بہت کمزور تھی. لیکن وقت یگانگت اور بھائی چارے کا تھا. امیر، غریب کے فرق کے علاوہ کوئی مذہبی تصادم یا بدامنی کا سوال ہی نہیں تھا.
ہندوؤں کی آبادی زیادہ ہوا کرتی تھی اور گاؤں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ان کا مرکزی مندر تھا (جو کہ قیام پاکستان کے بعد حکومتی لاپرواہی کے باعث تقریباً منہدم ہو چکا ہے، معمولی سا نشان باقی ہے.)، اس مندر میں ہندوستان بھر سے عقیدت مند مذہبی تہواروں کے موقع پر جوق در جوق آتے تھے. مندر کے پاس سے نہر گزرتی تھی جہاں وہ اشنان کر کے پوتر ہوتے تھے (شاہ جیونہ کے بااثر سیاست دانوں نے قیام پاکستان کے بعد بزور بازو اس نہر کا رخ اپنے علاقہ کی طرف کرا لیا، یوں میری زرعی زمین جو کبھی نہری ہوتی تھی، بارانی ہو گئی اور بیشتر علاقہ بنجر ہو گیا).
مندر کے پاس ہی ہندوؤں کا شمشان گھاٹ ہوتا تھا. ہندو چوں کہ چھوت چھات کے قائل تھے اس لیے اہل علاقہ کے تعلقات سکھوں کے ساتھ زیادہ دوستانہ تھے. اس سب کے باوجود کسی کے دل میں بغض، حسد، نفرت نام کو نہیں تھی.
مذہبی اور معاشرتی اختلافات اور تضادات کو کھلے دل و دماغ سے قبول کیا جاتا تھا اور سب مل جل کر ہنسی خوشی رہتے تھے. قیامِ پاکستان کے وقت بھی اس علاقے میں کوئی بدامنی نہیں ہوئی. ہندو، سکھ اپنے زیور اور رقوم امانتاً رکھوا کو بحفاظت ہجرت کر کے گئے اور حالات بہتر ہونے پر واپس آ کر اپنی امانتیں بعینہ واپس کے گئے. ان کے چھوڑے گھروں پر مختلف غریب اور ضرورت مندوں نے قبضہ کیا. اس کے علاوہ کسی جانی یا مالی نقصان کا کوئی واقعہ نہیں ہوا.
یہاں کے لوگ فطرتاً امن پسند اور صلح جو ہیں. اپنے کام میں مگن رہنے والے نیک نیت اور بے ضرر لوگ. میں اپنے قیام سے آج تک تقریباً ایک سو چالیس سال میں جتنی نسلیں اور واقعات دیکھ چکا ہوں. وہ میرے سینے میں دفن ہیں. اس علاقے میں زیادہ تر لوگ زراعت پیشہ ہونے کی وجہ سے جسمانی مشقت کے عادی ہیں اور اسی وجہ سے صحت مند اور طویل العمر ہیں.
اس وقت بھی یہاں سو سال سے زائد عمر کے بزرگ موجود ہیں جو مجھ پر بیتی اپنے مشاہدات کی روشنی میں بیان کرتے ہیں. میری تاریخ انہی بزرگوں کی سینہ بہ سینہ روایات کے ذخیرے پر ہی مشتمل ہے. میرے رہائشیوں کے پیشے زراعت اور تجارت ہیں. گندم، گنا، کپاس اور چاول یہاں کاشت ہونے والی بڑی فصلیں ہیں. علاقہ چوں کہ دو دریاؤں کے درمیان ہے تو تقریباً ہر سال سیلاب آتا ہے اور کپاس اور چاول کی فصل کو نقصان پہنچاتا ہے.
زمین سخت ہے جس کی وجہ سے پیداوار بہت اچھی نہیں ہوتی. تجارت پیشہ افراد زیادہ تر دکان دار ہیں اور کچھ خرید و فروخت، بیوپار سے منسلک ہیں. ملازمت پیشہ افراد کی تعداد نسبتاً کم ہے، لیکن اسی گاؤں کے گیلانی سید خانوادے کے چشم و چراغ ایس کے محمود ملک کے سیکرٹری خارجہ کے عہدے پر فائز رہے، قائداعظم کے معالج کرنل ریاض حسین کا تعلق بھی اسی خاندان سے ہے. پیر سید عبدالقادر گیلانی جو سندھ سے ہجرت کر کے دین کی خدمت کے لیے یہاں آباد ہوئے، ان کا خاندان پیر پگاڑا آف سندھ کا مرشد خانوادہ ہے، اسی خاندان کے گدی نشین جناب سید سراج احمد شاہ صاحب علاقے کی بہت مقبول و معروف روحانی شخصیت رہے ہیں.
میرے بہت سے ہونہار مرد و خواتین ملک کے ہر شعبے میں نمایاں عہدوں پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور میرے لیے قابلِ فخر بنے ہوئے ہیں. اس وقت میری آبادی پانچ سے سات ہزار نفوس پر مشتمل ہے. اردگرد لاتعداد چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں جن کا مرکز پیر کوٹ سدھانہ ہے. وقت اور حالات کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے سید اور سدھانہ برادریوں کی اکثریت شہروں کا رخ کر چکی ہے اور مجھ سے ان کا تعلق عید تہوار، خوشی غمی یا فصل اٹھانے کے مواقع تک محدود ہو کر رہ گیا ہے.
با مروت، بااخلاق، بلند کردار اور با حمیت لوگوں کی جگہ اب جلد باز، جوشیلی اور بظاہر پڑھے لکھے نوجوانوں نے لے لی ہے. لیکن اس مشینی نسل کے انداز و اطوار مجھے الجھن میں مبتلا کرتے ہیں اور میں ان کے ساتھ غیر آرام دہ محسوس کرتا ہوں.
اب تو یہاں لڑکے، لڑکیوں کا الگ الگ ہائی اسکول ہے، دیہی مرکز صحت ہے، بازار ہے، ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہے. موبائل اور ٹی وی ہر گھر میں ہے، سہولیات کی فراوانی اور اخلاقیات کی ارزانی ہے. پوری دنیا کے بدلتے حالات نے مجھ پر بھی اثر ڈالا ہے. جدید دنیا کی تیز رفتاری، افراتفری، زیادہ سے زیادہ کی حرص میں مبتلا نسل کو دیکھ کر میری الجھن بڑھ جاتی ہے اور میں وہ وقت یاد کرتا ہوں جب میرے باسیوں کے پاس بنیادی سہولیات تک نہ تھیں، لیکن وہ مطمئن، پرسکون اور خوش رہتے تھے. حسد، حرص نامی بیماریوں سے ناواقف تھے. شدید جسمانی مشقت کرنے کے بعد بھی پنج وقتہ نماز اور نفلی عبادات تک کا اہتمام کرتے تھے. بے معنی بھاگ دوڑ میں خود کو تھکاتے نہیں تھے.
میں اپنے ان مکینوں کو یاد کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ کاش ! اس تیز رفتار نام نہاد ترقی یافتہ دور کے لوگوں کو کوئی سمجھائے، ترقی جائز نا جائز کی پرواہ کیے بغیر من چاہی چیزوں کے حصول کا نام نہیں ہے، ترقی تو ہر ایک کے حقوق کا احساس کرتے ہوئے میانہ رفتار سے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے. گروہ میں سے ایک شخص کا دوڑ کر آگے نکل جانا جیت تو ہو سکتی ہے، لیکن کامیابی پورے گروہ کا ایک ساتھ سنگ میل حاصل کرنے کا نام ہے. کاش ! میرے اور اس دیس کے باسیوں کو کوئی یہ سمجھا دے.
9 پر “میں ایک گاؤں ہوں” جوابات
MashAllah…excellent
Buhhttt buhhttt achaa likha dr ap ny..hmary gaoun ki shaan bayan ki ap ny buhhhttt hi khubsurat andaz myn..Allah Pak hmarii new generation myn sarii vo qualities paida kry Jo hmary bazurgoun myn thin…ameenn..sum ameen
Bhtttt hi khoobsoorat…. Out of the words.. So good Dr…
بہت عمدہ پیرائے میں تصویر کشی کی ہے گاوں کی زندگی کے رنگ اور بھی حسین ہو جاتے ہیں جب اسکی تروتازگی صاف شفاف آب و ہوا لہلہاتے کھیت سونا اگلتی زمین نیلگوں آسمان اور رکھہ رکھاو والے سادہ دل کشادہ ذہنوں کےمالک
محبت کرنے والے لوگ تو گاوں میں رہنے کا اپنا ہی مزہ ہےبہت خوب ڈاکٹر صاحبہ
Very informative and relaxing article 🪔
Your depiction of that beautiful village is so outstanding…I can’t help praising you dear.
This article is a true reflection of village life.Beautiful 🌾
Highly appreciated to Dr,Sahiba.
Your article is excellent which scoop glorious life peoples of PKS village.
Keep it up
Ma Sha Allah 🌸🌸🌸
Very Nice