بجھی ہوئی موم بتی

بیاد بیگم مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ ( حصہ دوم )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی :

پہلے یہ پڑھیے

بیاد بیگم مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ( حصہ اول )

16 جنوری 2019ء کو ” پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال “ جانے سے پہلے گھر میں امی جی کو دل میں سخت تکلیف ہو رہی تھی۔
” ہائے اللّٰہ! میں کیاکروں؟ میں کدھر جاؤں!“ وہ شدت تکلیف سے اپنے سر کو کبھی دائیں اور کبھی بائیں جانب موڑتی اور کہتی تھیں۔

وہ ہسپتال بالکل نہیں جانا چاہتی تھیں۔
” میں ہسپتال چلی جاتی ہوں۔ شاید میرے فرشتے نے ادھر آنا ہے!“ بالآخر وہ کہنے لگیں۔
میں انہیں حوصلہ دے کر مختلف سورتیں، حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت ایوب علیہ السلام کی قرآنی دعائیں اور دیگر آیات شفاء پڑھتی رہی۔ پھر میں نے انہیں قرآنی اور مسنون دعاؤں کا مفصّل دم کیا۔
” اب مجھے آرام آگیا ہے۔“ دَم کروانے کے بعد وہ واش روم جانے کے لیے اٹھیں تو کہنے لگیں۔

ہم خوش اور قدرے مطمئن ہو گئے۔ باتھ روم سے واپس آ کر انہوں نے پردے والی چادر اوڑھی۔ ہم نے سلام کیا اور دعاؤں کی بھی درخواست کی۔ ڈاکٹر محسن صاحب نے انہیں سہارا دیا اور احتیاط سے گھر سے باہر لے جا کر گاڑی میں بٹھا دیا۔ ہم ان کی صحت و تندرستی اور بخیر و عافیت گھر واپسی کے لیے دعا گو ہو گئے۔
پیچھے گھر خالی اور ویران و سنسان ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” یہ لوگ پہلے کی طرح چیک اپ کروا کر رات کو واپس آجائیں گے۔“ میں نے شمائلہ سے کہا۔ دل کو یہ تسلی سی تھی لیکن یہ معاملہ طویل ہو گیا۔

” ابھی صرف ایک دو ٹیسٹ ہوئے ہیں۔ اب رات ہم نے منصورہ آپ کی والدہ کے گھر ( میرے میکے میں) گزارنی ہے اور صبح دوبارہ ٹیسٹ وغیرہ مکمل کروانے ہیں۔ “ رات کو ڈاکٹر محسن صاحب کا فون آ گیا تھا۔
’ پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال ‘ میں ڈاکٹر سرفراز صاحب کا بیٹا ڈاکٹر حسان حیدر تعاون کے لیے موجود ہے۔ وہ اسی ہسپتال کے ڈاکٹرز ہاسٹل میں رہتا ہے۔“ ڈاکٹر محسن صاحب نے مزید بتایا۔

” رات پونے گیارہ بجے ہم لوگ منصورہ آپ کی والدہ کے گھر پہنچے تھے۔ ہلکا پھلکا کھانا کھانے اور قہوہ پینے کے بعد امی جی نے نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ، بھرپور نیند لے کر رات گزاری ہے۔ صبح ناشتے سے فراغت کے بعد پونے دس بجے ہم لوگ اب گھر سے ہسپتال جانے کے لیے روانہ ہوئے ہیں۔“ ڈاکٹر محسن صاحب نے فون پر رات کی اور پھر آج کی تازہ صورت حال بتائی۔

” ہسپتال میں امی جی کے مزید مختلف ٹیسٹ ہوئے ہیں اور ڈاکٹروں نے انہیں ایمرجنسی وارڈ میں داخل کر لیا ہے۔ امی جی کو تاحال دل کے درد سے آرام ہے۔ رات کو گھر میں قیام اور پر سکون نیند نے ان کی طبیعت اور اعصاب پر خوشگوار اثرات مرتب کیے ہیں۔“ ڈاکٹر محسن صاحب نے واٹس ایپ میسج میں بتایا۔

ہم لوگ فون اور واٹس ایپ میسجز کے ذریعے ان کے احوال سے مسلسل آگاہ ہو رہے تھے۔اور خوش اور قدرے ریلیکس تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سارا دن انہیں ہر قسم کے درد سے آرام رہا۔ شام ہو گئی اور پھر شام رات میں ڈھل گئی لیکن ڈاکٹروں نے انہیں چھٹی نہ دی۔ امی جی ہسپتال کے ماحول سے مانوس نہ ہو پا رہی تھیں اور گھر جانا چاہتی تھیں۔ ہوتیں بھی کیسے! ہسپتال کا مخصوص ماحول انہیں پریشان کر رہا تھا جہاں ایمرجنسی وارڈ میں ہر طرف دائیں بائیں، آگے پیچھے دل کے درد کے ہاتھوں مجبور ہر عمر کے مریض موجود تھے۔

دائیں ہاتھ والے بیڈ پر موجود خاتون عمر رسیدہ تھیں ان کا کافی مسئلہ سیریس تھا اور وہ مسلسل پریشان رہتی تھیں۔ اور ان کے تیماردار بھی کافی مشکل میں تھے۔

بائیں ہاتھ والے بیڈ کی خاتون پچاس پچپن کے پیٹے میں دکھائی دے رہی تھیں۔ ظاہراً صحت مند تھیں لیکن دو دن پہلے انہیں گھر میں ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ گزشتہ روز ان کا آپریشن ہو چکا تھا اور انہیں پٹیاں لگی ہوئی تھیں۔

وارڈ میں ہر طرف اسی قسم کا ماحول تھا۔ کہیں مریض ہائے وائے کر رہے تھے۔ کہیں مریضوں کو قے آ رہی تھی۔ کہیں انہیں انجیکشن یا ڈرپیں لگ رہیں تھیں۔ حسبِ حال مریضوں کی ہارٹ بیٹ چیک ہو رہی تھی۔ نرسیں اور ڈاکٹر وقتاً فوقتاً چکر لگا رہے تھے اور اگر کسی مریض کی حالت زیادہ سیریس ہوتی تو فوراً نرسیں اور ڈاکٹر اس کے گرداگرد اکٹھے ہو جاتے۔

ہسپتال میں زندگی اور موت کا یہ کھیل جاری تھا۔ ہر گھنٹے دو گھنٹے کے بعد ہسپتال سے کوئی نہ کوئی لاش نکل رہی تھی۔ ساتھ لواحقین خصوصاً خواتین اونچی آواز میں روتی پیٹتی، بین اور ماتم کر رہی ہوتیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کو تقریباً دس گیارہ بجے امی جی کا چھپا درد بیدار ہو گیا اور انہیں یکایک دل میں درد ہونا شروع ہو گئی۔ ساری رات اسی طرح تقریباً جاگتے گزر گئی۔ وارڈ کے دیگر مریضوں کی بیماریاں اور کنڈیشن دیکھ کر بھی ان کا دل مزید گھبرا رہا تھا اور (اپنے درد کے ساتھ ساتھ) اس وجہ سے بھی وہ آرام نہ کر پا رہی تھیں۔

ڈاکٹر محسن صاحب ان کے پاس مستقل موجود تھے۔ وارڈ کے باہر عتیق بھائی اور ڈرائیور عبداللّٰہ بھائی بھی موجود تھے۔ امی جی کے دل کا درد تھا کہ رکنے کا نام نہ لے رہا تھا۔ بس زیادہ اور زیادہ ہو رہا تھا۔

درد اتنا تھا کہ رات دل وحشی نے
ہر رگ جاں سے الجھنا چاہا

جمعرات کا چمکدار اور پر حرارت سورج نکل آیا تھا۔ امی جی کو اب درد دل کے ساتھ بخار بھی ہو چکا تھا۔ انجیکشن اور ڈرپیں لگ رہی تھیں۔ میں نے انہیں صبح تقریباً نو بجے فون کیا تو انہوں نے اٹھا لیا۔
” دل میں درد مسلسل ہو رہا ہے اور بخار بھی چڑھا ہوا ہے۔ سارے جسم میں بھی دردیں ہیں اور ڈاکٹر نے ہاتھ پر برنولا لگایا ہوا ہے۔ ابھی نجانے کتنی ڈرپیں یا انجیکشن لگنے ہیں۔“ میرے حال پوچھنے پر انہوں نے مختصراً بتایا۔

وہ پریشان ہونے کے باوجود باحوصلہ تھیں اور مسلسل دعاؤں اور اذکار پڑھنے کو اپنی روٹین بنائے ہوئے تھیں۔ میں فون بند کرکے معمول کے کام کرتے ہوئے سارا دن امی جی کے لیے پریشان رہی اور ان کی صحت یابی کیلیے دعائیں کرتی رہی۔

روشن دن ڈھل کر رات کی تاریکی میں بدل گیا تھا۔ رات کو بھی امی جی کی طبیعت مسلسل خراب تھی۔ ارد گرد کے بیمار لوگ اور ماحول ان کی طبیعت کو مزید پریشان کر رہے تھے۔ رات کو ڈاکٹر محسن صاحب نے واپس راجووال آنا تھا تاکہ وہ اگلے دن جمعے کی تیاری کر سکیں اور کالج پڑھانے کے لیے اپنی ڈیوٹی پر بھی حاضر ہوں لیکن امی جی کی طبیعت کے پیشِ نظر انہوں نے رات کو واپس راجووال آنے کا پروگرام منسوخ کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ کی صبح بھی امی جی کی طبیعت خراب تھی لیکن اب ڈاکٹرمحسن صاحب کے لیے الفیصل اسلامک سنٹر جھجھ کلاں میں سالانہ اجتماعی جمعہ پڑھانے کے لیے واپس گھر پہنچنا ضروری تھا۔ لہذا وہ امی جی کے پاس تیماردار کا بندوست کرکے وہاں سے روانہ ہوئے۔

” عبد الباقی بھائی! آپ امی جی کے پاس آجائیں۔ میں نے جمعہ پڑھانے راجووال واپس جانا ہے۔“ انہوں نے چھوٹی باجی کے میاں قاری عبد الباقی اعوان سے رابطہ کر کے انہیں امی جی کے پاس پہنچنے کی تلقین کی۔ جو امی جی سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں اور امی جی کو بھی ان سے گہرا قلبی لگاؤ تھا۔

وہ تقریباً صبح پونے نو بجے پتوکی سے ہسپتال پہنچ گئے۔ محسن صاحب نے ان کو سب باتیں اور معاملات سمجھائے۔ اور تقریباً سوا نو بجے وہاں سے راجووال آنے کے لیے ڈرائیور عبداللّٰہ بھائی اور عتیق بھائی کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ماہر ڈرائیور نے گاڑی احتیاط لیکن بڑی سپیڈ سے چلائی اور تقریباً سوا گیارہ بجے وہ لوگ خیریت سے گھر پہنچ گئے۔ ڈاکٹر محسن صاحب چہرے سے ہی مضمحل اور پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ امی جی کی پریشانی کے علاوہ گزشتہ رات کی بیداری کی تھکن بھی تھی۔

18 جنوری کو قریبی علاقے جھجھ کلاں میں ڈاکٹر محسن صاحب کا اجتماعی جمعہ تھا۔ ہماری فیملی جمعہ کی ادائیگی کے لیے ڈاکٹر محسن صاحب کے ہمراہ گئی۔ جمعہ کا موضوع ” دنیا کی بے ثباتی اور فکرِ آخرت “ تھا۔ انہوں نے باکمال انداز میں مثالوں کے ساتھ سمجھا کر اس موضوع کا حق ادا کر دیا۔ میرا دل پہلے ہی بے حد گُداز ہو رہا تھا۔

ڈاکٹر صاحب جس وقار سلاست و بلاغت اور اثر انگیزی کے ساتھ اپنی خطابت کے جوہر دکھا رہے تھے، اس کا سامعین کے ساتھ ساتھ خود ان کی اپنی ذات پر بھی بے حد گہرا اثر نمایاں ہو رہا تھا۔ وہ آبدیدہ ہو رہے تھے اور سامعین پر بھی اس کے گہرے اثرات نمایاں تھے۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

جمعہ کے بعد انہوں نے دعا میں اپنی والدہ کی صحت یابی کے لیے خصوصی دعائیں کروائیں۔ پھر کھانا کھانے کے بعد ہم لوگ راجووال گھر واپس آگئے۔ راستے میں بھی ہم اور معصوم بچے دعائیں کرتے رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب میں نے بھی ڈاکٹر محسن صاحب کے ساتھ ہسپتال جانا تھا۔ جانے سے پہلے میں نے دیسی مرغ کی یخنی اور سالن تیار کیا۔
باجی شمائلہ نے بھی گندم کا میٹھا اور نمکین دلیہ الگ الگ تیار کر کے ہمراہ دے دیا۔

” ہم دونوں بیٹیوں عائشہ اور عفرا کو گھر میں آپ کے پاس چھوڑ رہے ہیں اور دونوں بیٹوں سعد اور سعدان کو ہمراہ لے کر جارہے ہیں تاکہ ان کو لاہور میں ان کی نانی جان کے گھر چھوڑ دیں۔“ میں نے شمائلہ کو بتایا۔ پھر میں نے بچیوں کو ہدایات دیں۔ بروقت کھانا کھانے اور اتفاق سے رہنے کی تلقین کی۔

ہم لوگ سیدھا ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں امی جی کے پاس پہنچے۔ وہ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور ان کے چہرے پر رونق سی آ گئی۔ انہوں نے سلام کے جواب کے بعد میرے سر پر پیار دیا۔ انہیں تا حال بخار تھا اور ان کی رنگت زرد پڑی ہوئی تھی۔ بھائی عبدالباقی صاحب ان کے پاس موجود تھے۔

” مجھے بخار ہو رہا ہے لیکن درد صرف دل میں ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی دل کو اندر سے کھینچ رہا ہو۔ باقی جسم میں درد میں ہے۔ سارا درد بس دل کے اندر جمع ہو گیاہے۔ بچوں کا کیا حال ہے؟“ حال احوال پوچھنے پر انہوں نے مجھے بتایا۔ اور پھر بچوں کے بارے میں پوچھا۔

” عائشہ، عفراء، سعد، سعدان چاروں بچے ٹھیک ہیں۔ الحمد للّٰہ۔ آپ کے پاس آپ کی بیمار پرسی اور آپ سے ملنے کے لیے ہسپتال آنے کے لیے بےقرار تھے۔ اور بار بار ساتھ ہسپتال آنے کے لیے ہماری منتیں کررہے تھے لیکن ہسپتال میں تو کسی بچے کو اندر آئی سی یو میں جانے کی اجازت ہی نہیں ہوتی۔

ہم صرف سعد اور سعدان کو ساتھ لے کر آئے ہیں لیکن حسب توقع انہیں بھی آئی سی یو کے اندر آنے کی اجازت نہیں ملی۔ اب ڈرائیور انہیں منصورہ گھر چھوڑ آئے گا۔ بچے آپ کو بہت سلام کہہ رہے تھے اور دعاؤں کے لیے بھی کہہ رہے تھے۔“ امی جی کو میں نے بچوں کی کیفیت تفصیل سے بتائی تو وہ خوش ہوگئیں اور بچوں کے بارے میں پوچھنے لگیں۔

میں ان کے کندھے، سر، ٹانگیں اور بازو باری باری دباتی رہی۔ انہیں درد سے تھوڑا افاقہ ہوتا تھا لیکن دل کا درد تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ میں نے انہیں کچھ کھلانا چاہا۔

” نہیں۔ میں نے کچھ کھایا بھی نہیں ہے۔ اور نہ ہی اب کھانے کو دل کر رہا ہے۔ سارے دن میں صرف ایک دفعہ تھوڑا سا دلیہ کھایا تھا لیکن وہ بھی معدہ میں ٹھہر نہ سکا تھا۔ فوراً قے آگئی تھی۔“ کھانے کا پوچھنے پر انہوں نے مجھے بتایا۔
” میرا دل نہیں چاہتا۔“ میں نے تھوڑی سی یخنی پینے کے لیے اصرار کیا تو انکار کر دیا۔

روٹی سالن کھانا تو کئی دن پہلے کا چھوڑا ہوا تھا۔ پانی، جوس، پھل، دلیہ، کچھ بھی تو انہوں نے میری موجودگی میں چکھا تک نہ تھا۔ صرف ایک دفعہ دوائی چند گھونٹ پانی کے ساتھ لی تھی۔ درحقیقت ان کا دنیا سے آب و دانہ ختم ہو چکا تھا۔

قید حیات وبند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سےنجات پائے کیوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” میرے لیے بڑی اعزاز کی بات ہے کہ اللہ نے مجھے امی جی کی خدمت کا موقع دیا اور مجھے ان کی آخری دعائیں نصیب ہوئیں۔“ قاری عبد الباقی صاحب نے کہا۔
” جب میں جمعہ کے دن امی جی کے پاس موجود تھا تو دوپہر کو جمعہ کی اذان کی آواز سنائی دی۔“ قاری صاحب نے بتایا تو امی جی الرٹ ہو گئیں۔
” بیٹا تم قریبی مسجد میں جا کر نماز جمعہ ادا کرآؤ۔“ امی جی اذان کی آواز سن کر فرمانے لگیں۔
” میں ادھرہی نماز ادا کرلیتا ہوں۔“ قاری صاحب نے کہا
” نہیں۔آپ مسجد میں جاکر نماز ادا کریں۔“ امی جی نے پھر کہا۔
”آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے میں یہیں نماز پڑھ لیتا ہوں۔“ قاری صاحب نے ان کی طبیعت کے پیش نظر پھر کہا۔
” نہیں بیٹا میں ٹھیک ہوں۔ آپ مسجد میں ہی جاکرجمعہ کی نماز ادا کریں۔“ وہ تاکید کرتے ہوئے فرمانے لگیں۔
” مطلب یہ کہ اس حالت میں بھی انہیں ہماری نماز کی فکر تھی اور انہوں نے ہمیں اس کی طرف توجہ دلائی۔“ قاری صاحب نے بتایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کو تقریباً ساڑھے سات بجے عشاء کے بعد میری نند باجی فاطمہ بھی پہنچ گئیں۔ وہ اپنے میاں قاری عبیداللّٰہ احسن صاحب اور بڑے بیٹے حافظ وجہیہ الرحمان کے ہمراہ امی جی کی عیادت کے لیے آئی تھیں۔

تھوڑی دیر بعد میرے دونوں بھائی قاسم بھائی، ابوبکر بھائی، اقصیٰ بھابھی اور رافعہ باجی وغیرہ بھی امی جی کی عیادت کے لیے پہنچ گئے۔

ایمر جنسی وارڈ میں صرف ایک تیمار دار کو مریض کے پاس رہنے کی اجازت تھی۔ لیکن اللّٰہ کے کرم سے اور وارڈ کیپر کی ” مہربانی “ سے ڈاکٹر محسن صاحب اور میں دونوں مسلسل امی جی کے پاس موجود تھے۔ زنانہ وارڈ میں ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر محسن صاحب کو وقتاً فوقتاً باہر بھی جانا پڑتا تھا۔ آنے والے تیماردار عیادت اندر آنا چاہتے تھے۔ باجی فاطمہ آئیں تو عبید صاحب کو جانا پڑا۔ پھر دیگر تیمارداروں کو صرف دو تین منٹ کے لیے امی جی کے پاس جانے کی اجازت ملی۔

کافی دیر بعد رافعہ باجی اور پھر اقصیٰ بھابھی امی جی کے پاس عیادت کے لیے جا سکیں۔ بھائی عبیداللّٰہ احسن ، وجیہہ الرحمن، قاری عبدالباقی اعوان وغیرہ کو بھی وقتاً فوقتاً عیادت کا موقع ملتا رہا۔ میرے دونوں بھائی قاسم بھائی اور ابوبکر بھائی بھی مستقل ہسپتال میں موجود تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” امی جی کو ڈسچارج کروا کر گھر لے جائیں یا پھر انہیں کسی پرائیویٹ ہسپتال مثلاً ڈاکٹرز ہاسپٹل میں ایڈمٹ کروا دیں۔“ امی جی کی حالت دیکھ کر سب تیماردار ڈاکٹر محسن صاحب سے کہہ رہے تھے۔ وہ خود بھی انہیں ڈسچارج کروانا چاہ رہے تھے۔ لیکن ڈاکٹر امی جی ہسپتال سے ڈسچارج نہیں کر رہے تھے۔
” میں نے ہسپتال میں نہیں رہنا۔ مجھے گھر لے جائیں۔“ اب خود امی جی نے بھی کہنا شروع کر دیا تھا۔

بعض اوقات ڈاکٹر مریض کے معاملہ کو سمجھ کر ان کی ٹریٹ منٹ اور ڈیلنگ کررہے ہوتے ہیں لیکن اصلی صورت حال سے ناواقف تیماردار اور رشتہ دار مریض کی ہمدردی میں ڈاکٹروں کے معاملے میں مداخلت یا پرابلم پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔

اندازہ ہے کہ اس وقت شاید یہی صورتحال تھی۔ کیونکہ ڈاکٹر خصوصاً ڈاکٹر حسان حیدر امی جی کا صحیح خیال رکھ رہے تھے، گاہے بگاہے چکر لگا رہے تھے، حسب ضرورت ٹریٹمنٹ کررہے تھے لیکن امی جی کے دل کی درد کا مداوا نہیں ہوپارہا تھا۔ یہاں پھر ڈاکٹر اور تیماردار سب بے بس ہو گئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری والدہ محترمہ، بڑے بھائی حسن بھائی جان اور چھوٹی بہن مریم کا امی جان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے فون آیا۔

” ہم لوگ امی جی کے لیے فکر مند ہیں اور تیمارداری کے لیے آنا چاہتے ہیں۔“ وہ سب کہہ رہے تھے لیکن انہیں اس کا موقع نہ مل سکا۔

طبیعت کی اتنی خرابی کے باوجود امی جی نے کوئی نماز قضا نہ ہونے دی تھی ۔ مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرلی تھیں۔ انہیں پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کا مکمل خیال تھا۔ زبان سے انہوں نے کوئی شکوہ شکایت نہ کی۔

ایک دفعہ جب درد سے انہیں کسی پل قرار نہ تھا ، بے قراری سے اپنا سر کبھی دائیں، کبھی بائیں طرف موڑتی تھیں۔
” یا اللّٰہ! میں کیا کروں! میں کدھر جاؤں!“ وہ بے چین ہو کر کہہ اٹھتی تھیں۔

یہی بے قراری اور گھبراہٹ انہیں گھر سے ہسپتال میں آنے سے پہلے لاحق ہو رہی تھی اور اب پھر یہی کیفیت ان پر طاری تھی۔ وہ بےقرار ہو رہی تھیں۔

ڈاکٹرز وقتاً فوقتاً چیک اپ کر رہے تھے اور انجیکشن لگا رہے تھے۔ ایک دفعہ سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی تو سانس کی بحالی کے لیے نیبولایئزر سے نیبولایئز بھی کیا۔

وہ صابرہ و شاکرہ اور حوصلہ مند خاتون تھیں۔ ساری زندگی قرآن مجید پڑھنے پڑھانے والی خاتون کا سہارا اب قرآنی دعائیں اور اذکار تھے۔ ان کی زبان سے وقتاً فوقتاً اپنی آسانی کے لیے دعائیں نکل رہی تھیں۔

ایمرجنسی وارڈ میں امی جی کے پاس یا باجی فاطمہ ہوتی تھیں یا میں۔ کیونکہ وارڈ کیپر اب بہت سختی کر رہا تھا۔ کیونکہ ڈاکٹروں کے راؤنڈ لگانے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو ڈاکٹروں نے انہیں ICU وارڈ میں شفٹ کر دیا جس سے ہمارے لیے قدرے آسانی ہو گئی۔ وہاں ڈاکٹر حسان بھی مستقل موجود تھے۔ ڈاکٹرز نے ان کی نبض اور دل کی دھڑکن چیک کی۔ ایک انجیکشن بھی لگایا۔

امی جی کی طبیعت میں اب پھر بہت زیادہ بے قراری تھی۔ بیڈ کے ایک طرف ڈاکٹر محسن صاحب اور دوسری طرف میں کھڑے تھے۔ امی جی زور سے کبھی میرا ایک ہاتھ پکڑ لیتیں، کبھی دوسرا۔ میں ان کے ہاتھ سہلاتی، کبھی ان کی کمر دباتی، کبھی ٹانگیں دباتی۔

ایک دفعہ وہ بے اختیار کہنے لگیں کہ ” عفراء! (یہ میری چھوٹی بیٹی کا نام ہے) مجھے دبادو۔ مجھے بہت درد ہورہا ہے۔“ حالانکہ عفراء وہاں موجود ہی نہیں تھی۔
(بعد میں عفراء یاد کرتی ہے کہ میری دادی جان نے مجھے آخری وقت میں بھی یاد کیا تھا۔)

وہ بے قراری سے کبھی دائیں کروٹ بدلتیں تو مجھ سے زور سے لپٹ جاتیں یا جیسے جپھی ڈال دیتیں۔ کبھی بائیں کروٹ بدلتیں تو ڈاکٹر محسن صاحب کو زور سے پکڑ کر ان سے لپٹ جاتیں یا جپھی ڈال لیتیں۔

” محسن! تمہارا ہاتھ کتنا گرم ہے!“ ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب نے ان کا ہاتھ پکڑا تو بے ساختہ کہنے لگیں۔
” امی جی ! کیا خولہ کا ہاتھ بھی گرم ہے؟“ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا۔
” ہاں اس کا بھی بہت گرم ہے۔“ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگیں۔
امی جی کے ماتھے اور چہرے پر اب کافی پسینہ آگیا تھا۔ مجھے پسینہ دیکھ کر کافی پریشانی تھی۔
” اتنی سردی میں پسینہ چہ معنی؟ کون نہیں جانتا۔“ میری چھٹی حس مکمل بیدار ہو گئی تھی۔

میں نے اٹھ کر امی جی کا چہرا، ہاتھ ، بازو اور پیٹ ( کپڑے کے اوپر سے) ہاتھ لگا کر چیک کیا تو وہ ٹھنڈا تھا۔ میں نے گھبرا کر اپنا ہاتھ ان کے موزے پہنے پاؤں پر چیک کرنے کے لیے لگایا تو وہ ابھی نارمل تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے کچھ تسلی ہوئی۔ ( انسان کی روح پاؤں سے نکلنی شروع ہوتی ہے) ٹانگوں کو ہاتھ لگایا تو وہ بھی مجھے نارمل لگیں۔ لیکن مجھے امی جی کو پسینہ آنے کی بڑی تشویش لاحق ہو چکی تھی۔
” امی جی کو پسینہ کیوں آ رہا ہے؟“ میں نے دبی آواز میں ڈاکٹر محسن صاحب سے بار بار کہا۔
وہ جواب دینے کے بجائے فائل کور پکڑ کر امی جی کو ہلکا ہلکا پنکھا جھلنے لگے۔
” امی جی ! کیا گرمی لگ رہی ہے؟“ انہوں نے پوچھا۔
” ہاں ! گرمی لگ رہی ہے۔ “ ان کا جواب اثبات میں تھا۔
میں اور ڈاکٹر محسن صاحب مسلسل قرآنی آیات، دعائیں اور کلمہ پڑھ رہے تھے۔

مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ان کا نزع کا وقت شروع ہو چکا ہے لیکن اس کے بعد وہ جیسے ریلیکس ہونے لگیں۔ ان کی آنکھیں بند ہو گئیں جیسے ان کو نیند آ گئی ہے۔ ماتھے پر پسینہ ہنوز موجود تھا۔ جو ڈاکٹر محسن صاحب نے نرمی سے رومال سے خشک کر دیا۔ ان کے سینے سے مشکل سے سانس لینے کی بڑی واضح اور اونچی آوازیں نکل رہی تھیں۔

” امی جی کی طبیعت اس طرح کیوں ہو رہی ہے؟ کیا یہ ان کا نزع کا عالم ہے؟“ میں نے ڈاکٹر محسن صاحب سے پھر بے قراری سے پوچھا۔
” تھوڑی دیر پہلے ڈاکٹر نے جو انجیکشن لگایا تھا، اس کا اثر ہے، امی جی اب سو رہی ہیں۔“ وہ کہنے لگے تھے۔
” تو ان کا سانس اکھڑا ہوا کیوں ہے؟“ میں نے بے قراری سے پوچھا۔
” فکر کی کوئی بات نہیں۔ امی جی کو پہلے بھی کئی دفعہ رات کو سوتے ہوئے اس طرح مشکل سے سانس آتا ہے۔“ وہ جواب میں کہنے لگے۔

اب باجی فاطمہ امی جی کے پاس آ گئیں۔ وہ امی جی کے پاس رہنے کے لیے بےقرار تھیں۔ مجھے وارڈ سے باہر جانا پڑا۔ رات کے تقریباً بارہ بجنے والے تھے۔ باہر قاسم بھائی، ابوبکر بھائی، رافعہ باجی، اقصیٰ بھابھی ہنوز موجود تھے۔ وہ امی جی کی حالت سے پریشان تھے اور ہسپتال سے جانا نہیں چاہتے تھے۔

” آپ لوگ اب گھر چلے جائیں۔ امی جی کی طبیعت بہتر ہے۔ آدھی رات گزر چکی ہے۔“ ڈاکٹر محسن صاحب نے انہیں تسلی دی۔

” آپ بھی گھر چلی جائیں۔ باجی فاطمہ اب امی جی کے پاس رہیں گی۔ آپ نے وارڈ سے باہر انتظار گاہ (waiting room) میں بیٹھ کر کیا کرنا ہے! صبح آپ تازہ دم ہو کر آئیں۔ باجی نے تو پھر صبح چلے جانا ہے۔ آپ کم از کم تھوڑی بہت نیند لے لیں اور گھر میں بچوں کو بھی دیکھ لیں۔ بچے گھر میں کہیں پریشان نہ ہو رہے ہوں یا دوسروں کو پریشان نہ کر رہے ہوں۔ صبح ساڑھے چھ بجے آپ حسن بھائی کے ساتھ ہاسپٹل آ جائیے گا۔“ ڈاکٹر محسن صاحب نے مجھے بڑی تاکید سے کہا۔

” میں گھر جانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ میرا دل نہیں مان رہا۔امی جی کے ماتھے اور چہرے پر پسینے نے میرے دل میں اضطراب پیدا کر رکھا ہے۔“ میں نے انکار کر کہا۔

لیکن ڈاکٹر صاحب نے بار بار کہا۔ اور بچوں کے لیے خصوصاً کہا اور پھر میرے بھائیوں نے بھی کہا تو میں بادل نخواستہ جانے کے لیے تیار ہو گئی۔ کیونکہ بقول ڈاکٹر صاحب کے ” باہر انتظار گاہ میں بیٹھ کر بھی تو آپ امی جی سے دور ہوں گی۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” ڈاکٹر محسن صاحب اور باجی فاطمہ امی جی کو وہیل چیئر پر بٹھا کر واش روم لے کر جا رہے ہیں۔“
ویٹنگ روم سے اپنا پرس اور دیگر اشیاء اٹھائیں اور باہر نکلتے ہوئے میں نے وارڈ کی جانب نگاہ دوڑائی تو دیکھا، دل کو قدرے تسلی ہوئی۔
” امی جی کی حالت اب بہتر ہے۔“ میں نے بہن بھائیوں کو بتایا۔

راستے میں ہم بہن بھائی امی جی کے بارے میں ہی بات چیت کرتے رہے۔ گھر پہنچے ہی تھے کہ ابوبکر بھائی کو ڈاکٹر محسن صاحب کی کال آ گئی۔
” ابوبکر بھائی ! آپ فوراً ہاسپٹل آ جائیں۔“ انہوں نے بنا کسی تمہید کے کہا۔
” خیریت تو ہے نا محسن بھائی!“ انہوں نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔
” امی جی کی وفات ہو گئی ہے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔“ انہوں نے مختصر طور پر بتایا۔
” انا للہ وانا الیہ راجعون ۔“ ابوبکر بھائی نے بھی کہا اور فون بند ہوگیا۔

حسن بھائی بھی اوپر والی منزل سے نیچے آگئے۔ میں اور میرے تینوں بھائی جلدی سے گاڑی میں بیٹھے۔ ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی۔ خالی سڑکوں پر ماہر ڈرائیور نے سپیڈ سے گاڑی چلائی اور کچھ ہی دیر میں ہمیں ہاسپٹل پہنچادیا۔ باہر ایمبولینس کے پاس ڈاکٹر محسن صاحب اور دیگر رشتہ دار کھڑے تھے۔

” ہم حیران رہ گئے ہیں کہ ڈاکٹروں نے امی جان کی میت کو کتنی جلدی ورثاء کے حوالے کر دیا ہے۔“ قاسم بھائی نے کہا۔
درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسانیاں ہورہی تھیں۔

ایمبولینس تیار کھڑی تھی۔ امی جی کی میت کو ایمبولینس کے اندر رکھا جا رہا تھا۔ میں بھی ڈاکٹر محسن صاحب اور باجی فاطمہ کے ساتھ جلدی سے ایمبولینس میں بیٹھ گئی۔ انہوں نے ڈرائیور کو سعد اور سعدان کو لینے کے لیے منصورہ گھر بھیج دیا۔ باقی رشتہ دار اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے تاکہ اہل خانہ کو صبح ہمراہ لا سکیں۔

امی جی کی میت اور ان کا پرنور چہرہ دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں ان کی مغفرت کے لیے دعا کرنے لگی۔
” اللھم اغفرلھا وارحمھا و عافھا واعف عنھا “ (جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

3 پر “بیاد بیگم مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ ( حصہ دوم )” جوابات

  1. الیاس Avatar
    الیاس

    اللہ مولانا محمد یوسف کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے

  2. اسعد Avatar
    اسعد

    ماشاء اللہ بہت اعلیٰ!
    پڑھ کر آنکھیں نم ہوگئیں.

  3. اسعد Avatar
    اسعد

    پڑھ کر بہت اچھا لگا. بار بار پڑھا.
    دل پر اثر ہوتا رہا.