بنتِ شبیر :
آج کی عورت جانتی ہی نہیں کہ اسے الله تعالیٰ نے کتنا خاص بنایا ہے۔ عورت جسے صنف نازک کہا جاتا ہے، اپنے آپ میں ایک طاقت کا مرکز ہے، گہوارہ ہے۔ عورت میں ایسی طاقت ہے جس کا اسے خود بھی اندازہ نہیں۔
تقویٰ، عقل، حکمت، صبر، برداشت، احساس، محبت اور ہمدردی ۔۔۔ ان سب صفات کا مجموعہ ہے وہ مسلم عورت جس کا گھر جنت کا ٹکڑا بن جاتا ہے۔ عورت میں اتنی طاقت ہے کہ وہ ایک ساتھ اپنے شوہر، بچوں اور گھر کو سنبھال سکتی ہے۔ ایک مسلم متقی عورت ہی ہے جو اپنے تھکے ہارے، مایوس، نڈھال شوہر کو اپنی محبت سے سنبھال لیتی ہے۔
اپنے مہربان وجود سے اس کو راحت اور سکون بخشتی ہے۔ اس کے آرام و طعام کا خیال رکھتی ہے۔ اپنی حکمت اور علم سے اس کی پریشانیوں کا حل بتاتی ہے۔ مصیبت کے وقت میں اپنا مال و متاع بھی شوہر پر لٹا دیتی ہے۔ اپنے حسنِ اخلاق سے اس کی تسلی و تشفی کرتی ہے اور اس کی ہمت بڑھاتی ہے۔ اسے ہر دن نئے چیلینجز کے لئے تیار اور تازہ دم کر کے روانہ کرتی ہے۔ اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر بار، مال و متاع، عزت و آبرو اور اولاد کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کی اولاد کو اسلام کا سپاہی اور معاشرے کا با عمل فرد بناتی ہے۔
مسلم عورت کی زندگی ایک خاص نہج پر چلتی ہے۔ نکاح کے بعد جب ایک مسلم عورت کا شوہر اس سے خوش ہوتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے باعثِ اجر و ثواب ہے اور جب ایک متقی عورت ماں بننے کے مراحل سے گزرتی ہے تو حمل ٹھہرنے سے لے کر دودھ چھڑوانے کے آخری دن تک اس کے تمام گناہ دھل جاتے ہیں۔ گویا کہ وہ حج کر کے آئی ہے یا جہاد سے لوٹی ہے۔
نوزائیدہ بچے کی پرورش، اسے سرد و گرم سے بچا کر رکھنا اور بیماری کی حالت میں ایک ماں جس طرح اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر محبت و شفقت سے اپنے بچے کے لئے دن رات ایک کرتی ہے، اس پر اپنی مامتا نچھاور کرتی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں اور یہ کسی اور کے بس کی بات بھی ہرگز نہیں ہو سکتی۔
ماں کا رات کو بے چین ہو کر بچے کا کپڑا درست کرنا، محبت سے اس کا خیال کرنا بھی باعث اجر و ثواب ہے۔ پھر جو عورتیں زیادہ بچے پیدا کرتی ہیں، وہ تو ایسے ہیں کہ گویا کہ وہ مسلسل جہاد کی حالت میں ہیں۔ اولاد کی پرورش دینی اصولوں پر کرنا اور اسلام کا سچا علمبردار، مجاہد، مسلم معاشرے کا ایک باعمل فرد بنانا اور ایک متقی قوم بنانا یہ سب ایک ماں کی، ایک عورت ہی کی ذمّہ داری ہو سکتی ہے اور ایک متقی عورت ہی یہ سب کر سکتی ہے۔
ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد اپنے گھر کو باریک بینی، سمجھداری، حکمت اور محبت سے ایک پر سکون جنت کا گہوارہ بنانا بھی ایک عورت ہی کے ہاتھ میں ہے۔ جب ایک متقی عورت ان سب مراحل سے احسن طریقے سے گزرتی ہے تو انعام کے طور پر اس کے پاؤں تلے جنت رکھ دی جاتی ہے۔ پاؤں تلے جنت یوں ہی نہیں آ جاتی، اس کے لئے یقیناً بہت ہمت، حکمت، باریک بینی، دور اندیشی، تقوٰی اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے اور صرف ایک متقی عورت ہی یہ سب کر سکتی ہے۔
یہی وہ عظیم مقام ہے جو اسلام نے عورت کو آج سے تقریباً 1400 سو سال پہلے ہی دے دیا تھا۔ یہ ہی وہ عورت ہے۔ جس کی زندہ و جاوید مثال ہمیں امۃ المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی الله تعالیٰ عنھا کی شکل میں نظر آتی ہے جن کے لئے جبرائیل علیہ السلام آسمان سے اترتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہیں کہ خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنھا آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لئے کھانا لا رہی ہیں الله تعالیٰ کی طرف سے انہیں سلام پہنچا دیجیے۔ ان کے لئے آسمان سے سلام اترتا ہے۔ سبحان الله۔
یہ ہے اس عورت کی عظمت جو ایک مسلم گھرانے کی ملکہ اور شہزادی کہلاتی ہے۔ جن کی کوکھ سے اسلامی تاریخ کی عظیم شخصیات نے جنم لیا اور جن کی گود میں ان عظیم شخصیات نے پرورش پائی اور گوہرِ نایاب بن کر دنیا پر چھا گئے۔
اسلام کی تاریخ ایسی مسلم خواتین سے بھری پڑی ہے جو اپنے اپنے الگ انداز میں تاریخ کے صفحوں پر جگمگا رہی ہیں۔ چاہے وہ پیارے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹی حضرت فاطمتہ الزہرہ رضی الله تعالیٰ عنھا ہوں، یا اسلامی تاریخ کی سب سے پہلی معلمہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنھا، جن سے بہت سے صحابہ کرام، تابعین نے احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ علم کی شکل میں حاصل کیا۔ یہ ہے اسلام میں عورت کی طاقت اور عظمت جو ہمارے رحمان رب نے آج سے 1400 سال پہلے ہی عورت کو عطا کر دی تھی۔ سبحان الله و بحمدہ سبحان الله العظیم
آج کا دور بھی ان ماؤں کی تلاش میں ہے جو محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی جیسی شخصیات کو جنم دیں جن کی آج کے دور کے مظلوم مسلمانوں کو اشد ضرورت ہے۔ الله تعالیٰ سے دلی دعا ہے، کہ ہمیں وہ مائیں پھر سے عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین۔