شاہنواز شریف :
بچوں سے متعلق ہم بہت کچھ پڑھتے رہتے ہیں بلکہ آج کل parenting کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جارہا ہے موٹیویشنل سپیکرز بہت کچھ اس پر بول رہے ہیں، وی لاگرز vlogers اس پر بہت سی ویڈیوز بنارہے ہیں لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ پھر بھی والدین بچوں کی تربیت کے حوالے مسائل کا شکار ہیں۔ دیکھا جائے تو ان مسائل کی دو بڑی وجوہات ہیں:
ایک: والدین کی بہت بڑی تعداد ان ذرائع کی پہنچ سے دور ہے،
دوسرا : جن والدین کو آگہی ہے بھی تو وہ اس پہ عمل کرتے نظر نہیں آتے۔
آج ہم ان مسائل اور ان سے وابستہ وجوہات کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے۔
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے والدین کو مسائل کا ادراک ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے پریشان نظر آتے ہیں۔ اور ان کی پریشانی کا سبب ہوتا ہے عمل اور ارادے کا فقدان۔
اس پریشانی کی جہاں بہت سی وجوہات ہیں وہاں سب سے بڑی اور اہم وجہ ہے ہمارے تعلقات ہیں. جی ہاں !اپنے بچوں،اپنی اولاد ،اپنے جگر کے ٹکڑوں سے ہمارا تعلق وہ اہم ترین بنیاد ہے،ہمارے بچوں کی صحیح تربیت ، صحیح نشو نما ، صحیح آبیاری کے لئے ،آگر آج ہمارے تعلقات اپنے بچوں کے ساتھ اس نوعیت کے ہوں گے کہ وہ ہمیں بحیثیت والدین کسی ہاسٹل کا وارڈن، کسی چوکی کا تھانیدار سمجھنے کے بجائے اپنا دوست،اپنا ساتھی،اپنا ہمدرد،اپنا غم گسار ،اپنی خوشیوں کا شریک سمجھنے لگیں تو ان کا ناصرف بچپن بلکہ پوری زندگی میں آسودگی، چاشنی،اپنا پن اور سب سے بڑھ کر کامیابی کا احساس غالب رہے گا ۔
لیکن ان احساسات کو حصہ کرنے کے لئے ہمیں اپنی زندگی کو بحیثیت والدین یکسر تبدیل کرنا ہوگا جیسا کہ عنوان میں کہا گیا ” ہمارے بچے ہمارے دوست“
ہم اکثر سنتے اور پڑھتے ہیں کہ چھوٹا بچہ پانچ سے سات سال تک اپنی ماں کو آئیڈیالائز کرتا ہے ، سات سے بارہ سال تک باپ اس کا سپر ہیرو ہوتا ہے لیکن ہمیں اکثر شکایات عمر کے اسی حصے میں ملتی ہے جب آپ کا یہ فالور ، آپ کو سپر ہیرو ماننے والا اپنی من مانی کرنا شروع کر دیتا ہے۔
وہ angry young man کی طرح ردعمل دیتا ہے، اسے ہر چیز کو اپنے زاویے سے دیکھنا اور اپنے مطابق کرنا ٹھیک لگتا ہے اور یہی وہ کٹھن وقت ہے جب بحیثیت والدین ہمیں اپنے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ یا تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے ان کے ساتھ دوستوں جیسا سلوک کرنا ہوگا کیوں کہ یہ وہ وقت ہے جب بچوں کی نہ صرف مینٹل اپروچ چینج ہورہی ہوتی ہے بلکہ بلوغت کی وجہ سے جسمانی تبدیلیاں بھی رونما ہورہی ہوتی ہیں۔ ان تمام ہارڈ ٹارگٹز کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں کچھ اصول مرتب کرنا ہوں گے۔
گھر کے ماحول کو دوستانہ بنائیں۔ بچے بڑوں سے سیکھتے ہیں تو آج ہی سے پلان کریں کہ ہمیں بحیثیت والدین اور بحیثیت میاں بیوی کے کیسے ری ایکٹ کرنا ہے۔ اگر میاں بیوی کے درمیان محبت عزت اپنائیت رواداری کے معاملات ہوں گے تو بچے بھی نہ صرف گھر میں بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ کریں گے۔
اگر میاں بیوی اپنے مسائل اپنی خوشیاں شئیر کریں گے تو بچے بھی ایسا کریں گے اگر میاں بیوی کو اور بیوی میاں کو عزت دے رہی ہوگی اور ایک دوسرے کی بات کو اہمیت دے رہے ہوں گے تو بچے بھی ایسا کریں گے۔
ماں بیٹیوں کے ساتھ اور باپ بیٹوں کے ساتھ اس طرح کا تعلق بنائیں کہ ان کو احساس ہو کہ میری ماں یا میرا باپ ہی میرا سب سے اچھا دوست ہے۔
بالخصوص جب بچہ بلوغت کو پہنچنے والا ہو تو صحابہ اور صحابیات رضوان اللہ اجمعین کی زندگی کئی حوالے سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے متعلق بتائیں کیونکہ اگر آپ انہیں اس بات کا ادراک نہیں دیں گے تو وہ کہیں اور ممکنہ غلط ذرائع سے غلط معلومات حاصل کریں گے جو آگے چل کر ان کی شخصیت کے لئے نقصان دہ ہو گا
*اسی طرح ان کی ذات اللہ کی امانت ہے ،اور اللہ نے ان کے لئے ان کا جسم کے جن حصوں کو چھپانے کا حکم دیا ہے ان حصوں کی حفاظت ان پہ لازم ہے۔ اور یہ ان کا انتہائی ذاتی معاملہ ہے چاہے قریبی رشتہ دار بھی چاہیں تو ان حصوں کو دیکھ نہیں سکتے ، چھو نہیں سکتے۔۔
*اسی طرح محرم اور نا محرم کا فرق بچوں اور بچیوں کو ازبر ہونا چاہیے ،چچا زاد ،خالہ زاد اور تمام کزنز کے متعلق بتایا جائے کہ کس سے پردہ کرنا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی بتائیں کہ دوسروں کی عزت کرنی ہے اور دوسروں سے کس طرح اپنی عزت کروانی ہے۔
*خاص کر بچوں کو اس بات کا ضرور بالضرور بتائیں کہ جس طرح ہماری ماں بہن بیٹی ہیں،اسی طرح ہمارے گھر سے باہر موجود خواتین بھی کسی کی ماں بہن بیٹیوں ہیں تو جس طرح ہم اپنے گھر کی خواتین کو قابل احترام سمجھتے ہیں بلکہ اسی طرح ہمیں ان تمام کی بھی عزت اور احترام کرنا ہے۔
نگاہیں نیچی رکھنے کا جو حکم قرآن مجید فرقان حمید میں ہے اس کو ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھنا ہے ۔۔بالکل اسی طرح مائیں اپنی بچیوں کو یہ بتائیں کہ اپنے باپ ،بھائی اور دیگر محرم افراد کے علاوہ جو مرد حضرات ہیں وہ نامحرم ہیں اور ان سے فاصلہ ان سے پردہ کرنا بچیوں کا دینی اور معاشرتی تقاضا ہے ،جیسا کہ قرآن میں اللہ سوری احزاب میں فرماتے ہیں :
اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے ۔ سورہ احزاب آیت 59
یقین جانیے ان دو کاموں کی بدولت ہم اپنے معاشرے کوعریانی فحاشی کے سیلاب سے بچا سکتے ہیں ،اپنے گھروں کے بہت سے مسائل کو ٹھیک کر سکتے ہیں ۔ اپنے معاشرے میں بڑھتے ہوئے طلاق کے رجحان پہ قابو پاسکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ زنا کے متعلق ضرور بتائیں کہ اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ زنا کے قریب بھی نہ جائو اور اس کے مسائل،اس کی سزائوں اور اس کے تباہ کاریوں کے بارے میں بتائیں۔
اسی طرح نکاح کی ضرورت اہمیت افادیت کا بتائیں یہ کتنا لطیف بابرکت اور پر کشش رشتہ ہے۔ اللہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رشتہ کتنا پسند ہے اور اس کی وجہ سے زندگی کتنی پرسکون ہو جاتی ہے۔ اس کا بتائیے اور ساتھ ہی ساتھ لڑکے کو بیوی اور لڑکی کو شوہر اور اس سے متعلقہ افراد کی عزت و تکریم اور اور ان کے حقوق و فرائض سے آگاہ کریں۔
سن بلوغت کے وقت فوری طور پر پاکی نا پاکی سے متعلق مسائل ناخن اور بالوں کے کاٹنے سے متعلق معلومات احسن طریقے سے فراہم کریں۔
ہفتے میں یا کم از کم ایک دن گھر میں گروپ ڈسکشن رکھیں جس میں بچوں کو اپنی بات رکھنے کا پورا موقع دیں۔
لطیفوں اور شارٹ اسٹوریز اپنے دوستوں اسکول اور محلے میں رونما ہونے والے واقعات کو ڈسکس کریں تاکہ نہ صرف بچوں کی سوچ کو جانا جا سکے بلکہ غلط سمت کی صورت میں انُ کو اسی دوستانہ ماحول میں تصحیح کی جا سکے۔
اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اپنے بچپن کے واقعات اور خاص کر اپنی غلطیوں اور پھر اس کو صحیح کرنے کی کوشش کا بتائیں تاکہ انہیں اس بات کا ادراک ہو کہ ہماری غلطی کی صورت میں واپسی کا راستہ موجود ہے۔
توبہ کی افادیت سے روشناس کریں کہ اگر کچھ غلط ہوجائے تو سچی توبہ سے ہم اپنے رب کو منا سکتے ہیں۔
دوست بن کر ہم اپنے بچوں کی پسند نا پسند کو جان سکتے ہیں جس کے ذریعے ہم ان کی آئندہ زندگی کے لئے بہتر فیصلے کرسکتے بلکہ ان کی ایسی ذہنی پرورش کرسکتے ہیں کہ وہ خود اپنے فیصلے کرسکیں مثلاً اگر ہمارا بچہ یا بچی ڈاکٹر یا انجینئر کی بجائے لٹریچر یا فلاسفی کو پسند کرتا ہے تو ہم اس کی پسند کو سراہیں اسے باور کرائیں کہ اس کی پسندیدہ فیلڈ بھی میڈیکل یا انجینئرنگ سے کم نہیں۔ کامیابی یہ نہیں کہ آپ میڈیکل یا انجینئرنگ کی فیلڈ میں ہوں کامیابی یہ ہے کہ آپ جس بھی فیلڈ میں ہوں اس میں ماہر ہوں ۔
بچوں کو اس بات کا ضرور بتائیں کہ اصل کامیابی اللہ کی رضا ہے اگر ہم وہ حاصل کرلیں تو اللہ جو ’ کن فیکون ‘ سے سب کچھ کرنے پر قادر ہے۔
کسی بھی کامیابی کے پیچھے تین چیزیں کار فرما ہوتی ہیں :
علم، محنت اور دعا اگر یہ تینوں چیزیں کی جائیں تو اللہ ضرور کامیاب کرتا ہے۔
بچوں کو یہ بتائیں کہ ہماری زندگی اتنی بیکار نہیں کہ بے سروپا کاموں میں اسے برباد کردیں بلکہ یہ زندگی تو ہمیں اس لئی عطا کی گئی کہ ہم اللہ کی عبادت کریں اور درحقیقت فرائض کے بعد سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ ہم دوسروں کے کام آئیں ، چاہے وہ ڈاکٹر بن کے ہو استاد یا سائنس دان بن کے لیکن ہمارے ذہن میں ہونا چاہئے کہ جو بھی کرنا ہے اللہ کی رضا کے حصول کے لئے کرنا ہے۔
ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ جو بات اہم ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کا دوست تو بننا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انہیں اچھے برے کی تمیز دینا ہے تاکہ وہ صحیح اور غلط کو پہچان سکیں ، صراط مستقیم کی روشن راہ پر چلنے والا بنانا ہے تاکہ وہ اور ہم انعام یافتہ لوگوں میں شامل ہو سکیں ، انہیں بھٹکے ہوئے اور معتوب لوگوں کا بتانا ہے تاکہ وہ ان افعال سے باز رہیں۔
جنت اور دوزخ جیسی دو مختلف جگہوں کا ادراک بروز قیامت اللہ کو جواب دہی کا احساس وہ بنیادی عوامل ہیں کہ اگر انسان اس کو سمجھ لے تو وہ اپنی زندگی کو بہت پرسکون کرسکتا ہے۔
ہم نے بحیثیت والدین انہیں اچھے کاموں پر سراہنا ہے ، انعام و اکرام سے نواز نا ہے اور اسی طرح برے کاموں پر ناراضگی کا بتانا ہے سزا کے متعلق آگہی دینی ہے۔
فرائض کی ادائیگی بالخصوص نماز کی پابندی کے لئے خود رول ماڈل بن کے ان سے بھی تقلید کرنے کی چاہت کرنی ہے۔
اللہ ہمیں اور ہماری اولاد کو صراط مستقیم پر چلنے والا بنادے تاکہ ہم اللہ کی رضا حاصل کرسکیں اور جس طرح دنیا میں ہم ساتھ ہیں جنت میں بھی ایک دوسرے کے ساتھی ہوں ۔ ان شاء اللہ ۔