ڈاکٹر خولہ علوی :
”عافیہ! کدھر ہیں آپ؟“ پڑوسن صائمہ کھلے گیٹ سے آوازیں دیتے ہوئے اندر کچن میں آگئی جہاں عافیہ ناشتے کے برتن دھونے کے بعد کچن کی صفائی کررہی تھی۔ صائمہ کے ساتھ اس کی ایک اور پڑوسن اور کزن سفینہ بھی تھی۔
” کل میں نے آپ کو بتایا تھا کہ نضرہ اپنے گھر میں سیزن کے کپڑوں کا نیا سٹاک لے آئی ہے۔ اب چلیں اور اس کے گھر چل کر اپنی مرضی کے ڈیزائن اور پرنٹ پسند کرکے کپڑے خرید لیں۔ ورنہ اس کا مال تو ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ہے۔“ سلام دعا کے بعد صائمہ نے مدعا بیان کیا۔
” ٹھیک ہے۔ آپ لاؤنج میں بیٹھیں۔ میں ابھی کچھ دیر میں، اپنا تھوڑا سا باقی ماندہ کام مکمل کر لیتی ہوں۔ پھر اس کے گھر چلیں گے۔ میں نے رات کو اپنے شوہر سے اجازت لے لی تھی۔“ عافیہ نے انہیں اوپن کچن سے متصل لاؤنج میں بٹھاتے ہوئے کہا۔
” ہم دونوں عام استعمال والے کپڑوں کی اپنی، بچوں کی اور دیگر گھریلو اشیاء کی شاپنگ نضرہ سے کرتی ہیں۔“ سفینہ نے بتایا ۔
” نضرہ سے کپڑوں کی کون کون سی ورائٹی مل جاتی ہے؟“ عافیہ نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا۔
” ان میں ان سلے تھری پیس سوٹ، بچوں بڑوں کے ریڈی میڈ کپڑے، سنگل اور ڈبل بیڈ شیٹس، تولیے، جرابیں، موزے، شمیزوں کے کپڑے، بچیوں کے ٹراؤزر وغیرہ شامل ہیں۔ یعنی تقریباً وہ ساری ورائٹی اس کے پاس موجود ہوتی ہے، جو بازاروں میں کپڑوں کی دکانوں میں ہوتی ہے۔“ سفینہ نے جواب دیا۔
” آپ دونوں بازار جا کر شاپنگ کیوں نہیں کرتیں؟ بازار سے تو ہر طرح کی ورائٹی مل جاتی ہے۔“ عافیہ نے چائے کپوں میں ڈالی اور سلیقے سے بسکٹ ٹرے میں سجا کر پڑوسنوں کے سامنے رکھے۔
” اس تکلف کی کیا ضرورت تھی؟“ صائمہ نے کہا اور چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑ لیا۔
” ہم نضرہ سے کپڑے خریدنے میں آسانی اور سکون محسوس کرتے ہیں۔“ سفینہ نے بھی چائے پیتے ہوئے بتایا۔
” پہلی بات یہ ہے کہ اس سے خریدے گئے کپڑوں کی کوالٹی، ڈیزائن اور پرنٹ اچھے ہوتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ وہ امانت دار خاتون ہے اور اس سے مناسب قیمت میں اچھی چیز مل جاتی ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ بازار جا کر مرد دکان داروں سے بھاؤ تاؤ کرنے کے بجائے ہم عورت سے خریداری کر لیتے ہیں۔ بعض اوقات ریٹ کا تھوڑا بہت فرق بھی آجاتا ہے لیکن یہ بازار جا کر شاپنگ کرنے سے بہت بہتر ہے۔
یہاں سے جو آئٹم نہ ملے، وہ ہم نضرہ کو نوٹ کروا دیتی ہیں اور وہ کچھ عرصے بعد ہمیں ہماری مطلوبہ چیز لا دیتی ہے۔ اگر جلدی ہو تو پھر ہم مارکیٹ جا کر بازار سے خرید لیتے ہیں ورنہ ہم نضرہ کی مستقل گاہک ہیں۔“ صائمہ نے چائے پیتے ہوئے تفصیل سے بتایا۔
” ہم اس لیے بھی نضرہ سے خصوصی طور پر شاپنگ کرتی ہیں کہ وہ ہماری دور پار کی رشتہ دار بھی ہے۔ ہم صلہ رحمی کا خیال رکھتے ہوئے زیادہ تر اس سے خریدتے ہیں۔“ سفینہ نے ایک اور پہلو بتایا جو عافیہ کو بہت اچھا لگا۔
” بہت اچھی بات ہے۔ اب تو میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں بھی نضرہ سے شاپنگ کیا کروں۔“ عافیہ نے اختتامی کام کرتے ہوئےکہا۔
بالکل! آپ کا یہ تجربہ اچھا رہے گا۔ ان شاءاللہ۔“ صائمہ نے اس کی بات کو سراہا۔
” نضرہ کون ہے۔ مجھے اس کے بارے میں زیادہ علم نہیں۔ آپ سے ہی میں نے اس کا نام اور اس کے کام کے بارے میں سن رکھا ہے۔“ چند منٹ بعد راستے میں عافیہ نے صائمہ سے نضرہ خاتون کے بارے میں استفسار کیا۔
” نضرہ گھریلو سطح پر کپڑوں کی فروخت کا کام کرتی ہے۔ وہ اسی کالونی کی رہائشی ہے۔ اس کا میکہ، سسرال اور پھر اب اس کا ذاتی گھر بھی اسی علاقے میں واقع ہے۔ میں نے آپ کو بتایا ہے نا کہ اس سے ہماری دور پار کی کچھ رشتہ داری بھی بنتی ہے۔
عافیہ! آپ دراصل دوسرے شہر سے شادی کے بعد یہاں آئی ہیں۔ پھر آپ کا گھر سے باہر نکلنا اور دوسرے گھروں میں آنا جانا بالکل کم ہے۔ اس لیے آپ کو اس کے بارے میں اتنا علم نہیں ہے۔ ہم تو جدی پشتی اسی علاقے کے رہائشی ہیں۔ ہمارے میکے بھی یہیں اور سسرال بھی یہیں ہے۔“ سفینہ بولی۔
” جب نضرہ سیزن کے مطابق نیا مال لے کر آتی ہے، تو گاہک خواتین اس کے انتظار میں ہوتی ہیں۔ لہٰذا اس کے گھر میں بہت زیادہ رش ہو جاتا ہے۔ اور اس کا لایا ہوا مال چند دنوں میں فروخت ہو جاتا ہے۔ جس سے اسے خاصا منافع حاصل ہوتا ہے۔ اس کے بعد خواتین کی نئے مال اور کپڑوں کی ڈیمانڈ شروع ہو جاتی ہے۔“ صائمہ نے بتایا۔
” پھر نضرہ اپنی جمع شدہ رقم اور کچھ واقف کار خواتین سے مزید رقم اکٹھی کرکے یعنی ان سے قرض لے کر نیا مال لے آتی ہے۔“ سفینہ نے بتایا۔
” نضرہ خود اپنے گھر میں کپڑوں کی فروخت کا کام کیوں کرتی ہے؟ کیا گھریلو مالی تنگی کی وجہ سے؟ کیونکہ عموماً مرد دکانوں پر خرید وفروخت کرتے ہیں۔“ عافیہ نے پوچھا ۔
” جی ہاں۔ کچھ مالی پریشانیوں کی وجہ سے، کچھ شوہر کی غیر ذمہ دارانہ طبیعت کی وجہ سے لیکن سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ اسے خود اپنا اور اپنے خاندان کا معیار زندگی بہتر کرنے کی خواہش تھی۔ اس لیے اس نے یہ کام شروع کردیا تھا۔“ صائمہ نے کہا۔
وہ موجودہ حالات کو تبدیل کرنے کا مصمم ارادہ رکھتی تھی تاکہ وہ اپنے بچوں کو بہتر صحت، خوراک اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرکے اپنے دیگر رشتہ داروں کی طرح زندگی کا معیار مزید بہتر بنا سکے۔“ سفینہ نے بتایا۔
” نضرہ سے شاپنگ کیسی رہی؟“ بعد میں واپس آتے ہوئے صائمہ نے پوچھا۔
” صاف ستھرے ماحول میں امانت دار خاتون سے خریداری بہت اچھی رہی۔ نضرہ کی ڈیلنگ بھی اچھی ہے۔“ عافیہ نے مختصر اور جامع تبصرہ کیا۔
” نضرہ کے بچے کیا کرتے ہیں؟ وہ کہاں پڑھتے ہیں؟“ عافیہ نے نضرہ کے شوہر کے مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے پوچھا۔
” اس کے پانچوں بچے اچھے سکول میں پڑھتے ہیں۔ ماں کا احساس کرتے ہوئے اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ گھر میں وقت ملنے پر ماں کا تھوڑا بہت ہاتھ بھی بٹاتے ہیں۔ چھوٹی بچیاں اپنی عمر کے حساب سے گھر کے کام کاج کرلیتی ہیں۔ بچے باپ کی صورت حال اور اس کی غیر ذمہ دارانہ طبیعت سے بخوبی واقف ہیں۔“
” کیا وہ خود کپڑوں کا سٹاک خرید کر لاتی ہے؟“ عافیہ نے پوچھا۔
” جی۔ وہ کچھ عرصہ بعد حسب ضرورت لاہور، فیصل آباد اور پشاور سے اپنے میاں کے ساتھ جاکر مال خرید کر لاتی اور اپنے گھر میں فروخت کر دیا کرتی ہے۔“
” اس کا کام شروع سے ایسا چل رہا ہے؟“ عافیہ نے پوچھا۔
” جی ۔اس کی مستقل محنت اور امانت داری کی وجہ سے اس علاقے میں نضرہ کا کپڑوں کی فروخت کا گھریلو سطح کا کاروبار اچھے اور نسبتاً منظم طریقے سے چل رہا ہے۔ وہ اپنے کام کا سارا تحریری حساب کتاب رکھتی ہے۔“
” نضرہ کا شوہر کیا کام کرتا ہے؟” عافیہ نے سوال پوچھا۔
” پہلے وہ زمین داری کرتا تھا۔ لیکن وہ بنیادی طور پر کاہل اور ہڈ حرام قسم کا انسان ہے۔ نضرہ کو اس سے شکایات ہی رہتی ہیں۔ اب تو وہ بیوی کی کمائی کی وجہ سے مزید لاپرواہ ہو چکا ہے۔
نضرہ کی اچھی آمدنی کی وجہ سے اس کے شوہر نے اب کھیتی باڑی کا آبائی کام کرنا چھوڑ دیا ہوا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کے کام سے برائے نام منسلک ہو گیا ہے۔“ عاصمہ نے بتایا۔
” نضرہ کی دیکھا دیکھی اس کی گلی اور علاقے میں دیگر کئی خواتین نے بھی یہ کام شروع کر دیا ہے۔“ چند ماہ بعد صائمہ نے عافیہ کو بتایا۔
” اچھا۔ بڑی بات ہے۔“ عافیہ نے کہا۔
” لیکن ان کے کام کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو نضرہ کے کاروبار کو حاصل ہوچکی ہے۔“ کچھ عرصہ بعد عافیہ کو صائمہ نے مزید بتایا۔
صائمہ اور سفینہ گھر بیٹھے بھی عافیہ کو نضرہ کے کاروبار سے باخبر رکھتی تھیں۔ عافیہ اب کپڑوں کی زیادہ خریداری ان دونوں کے ساتھ نضرہ سے کرتی تھی۔
” نضرہ نے اپنے کاروبار کو ترقی دینے کے لیے کالونی کی کئی خواتین سے کاروبار میں پارٹنرشپ کر لی ہے۔“ صائمہ نے بتایا۔
” لیکن کاروبار بڑھانے سے اس کی طبیعت اور رویہ اب بدل سا گیا ہے۔“ سفینہ بولی۔
” کیسے؟“ عافیہ نے پوچھا۔
” اس کے پہلے کی طرح کے معاملات نہیں ہیں بلکہ اس میں لالچ سا آگیا ہے۔“
” ایسا کیوں ہوا ہے؟ نضرہ تو اتنے اخلاق والی تھی۔“ عافیہ نے کہا۔
” دراصل نضرہ کی پارٹنر شپ کی شکل یہ تھی کہ خواتین اسے پچاس ہزار، ایک لاکھ، دو لاکھ وغیرہ کی رقم قرض دیتی تھیں۔ نضرہ تین یا چھ ماہ بعد اصل رقم واپس کر دیتی تھی اور اس کے ساتھ مقررہ تعداد کے مطابق مزید چند اچھے سوٹ یا بیڈ شیٹس وغیرہ بھی معاہدے کے مطابق ان کو فری دیا کرتی تھی۔ یا ہر مہینے کچھ اضافی رقم دیا کرتی تھی جو واضح طور پر سود ہوتا تھا۔“ صائمہ نے کہا۔
” دراصل اس پارٹنرشپ میں سودی معاملات شامل ہو گئے ہیں۔“ عافیہ نے رائے دی۔
” پھر صرف ڈیڑھ سال بعد اچانک سب نے سنا کہ نضرہ کا اتنا اچھا کاروبار ڈاؤن ہو رہا ہے۔“
اور پھر کچھ عرصہ بعد یہ بھی معلوم ہوا کہ ” اس کا کاروبار بالکل ختم ہوگیا ہے۔“
پھر کچھ ہی عرصے بعد مزید سننے میں آیا کہ نضرہ یہاں سے چلی گئی ہے۔
” نضرہ پر اتنا قرضہ چڑھ گیا ہوا ہے کہ قرض خواہوں نے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کر کر کے اس کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اس وجہ سے وہ علاقہ چھوڑ کے کسی اور شہر میں شفٹ ہوگئی ہے۔“ صائمہ نے بتایا۔
” یہ بڑی حیرانی کی بات تھی کہ نضرہ اپنا ذاتی گھر، سسرالی اور میکے کا علاقہ چھوڑ کر دوسرے شہر میں منتقل ہو رہی ہے لیکن جب وہ دوسرے شہر میں واقعی شفٹ ہوگئی تو لوگوں کو یقین آ گیا ہے۔“ سفینہ نے بتایا۔
” دراصل قرض کی کثرت کی وجہ سے قرض خواہوں نے اسے اتنا تنگ کر رکھا تھا کہ اسے اپنا ذاتی گھر بھی رہن رکھنا پڑ گیا تھا۔ اس لیے اس نے اپنا گھر اور آبائی علاقہ چھوڑ دیا ۔“
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے مرگ مفاجات
” نضرہ وہاں کیا کرتی ہے؟“
” دوسرے شہر میں جا کر نضرہ نے کرائے پر گھر لے لیا اور دوسروں کے گھروں میں کام کاج کرنے لگی۔ “
” اس کا شوہر کیا کرتا ہے؟“ عافیہ نے پوچھا۔
” اس کے شوہر کو آرام طلبی اور فارغ بیٹھ کر بیوی کی کمائی کھانے کی جو عادت پڑ گئی ہے، وہ اس کوترک کرکے دوبارہ کمائی کی محنت و مشقت کرنے کے لیے تیار نہیں۔“
” نضرہ جب کئی گھروں میں کام کرکے شام کو کھپ کھپا کر گھر واپس آتی ہے اور اپنے گھر میں شوہر کو آرام کرتا بلکہ عیش کرتا دیکھتی تو اسے بہت تکلیف ہوتی اور اسے غصہ بھی آتا۔ جس کی وجہ سے ان دونوں کی آپس میں خوب لڑائی ہوتی ہے۔“ سفینہ نے بتایا۔
” بچوں کی کیا صورت حال ہے؟“
” پہلے پہل تو بچے ان کی لڑائی کے وقت ڈر کر خاموش رہتے اور دبک جاتے۔ وہ حالات کی وجہ سے سہمے ہوئے رہتے تھے۔
لیکن پھر انہوں نے ماں باپ کو خاموش کروانے کے لیے کچھ مداخلت شروع کی تو بھی وہ اس لڑائی میں پستے۔ اگر وہ ماں کی سائیڈ لیتے تو باپ ناراض ہو جاتا۔ اور اگر وہ باپ کی سائیڈ لیتے تو سارا دن کی تھکی ہاری ماں ناراض ہو جاتی۔ اگر وہ خاموشی اختیار کرتے تو ماں باپ دونوں ان سے ناراض ہو جاتے کہ یہ کیسے بے حس بچے ہیں جنہیں کسی بات کی پروا ہی نہیں ہے۔
اور واقعی رفتہ رفتہ بچے بے حس ہو بھی گئے۔“ صائمہ نے بتایا۔
” پھر حالات سے تنگ آکر نضرہ نے اپنے شوہر اور بچوں کو گھر چھوڑ کر ایک بوڑھی بیمارخاتون کے پاس چوبیس گھنٹے کی اس کی تیمارداری کی ملازمت شروع کردی جس کی وجہ سے اسے نسبتاً بہتر تنخواہ حاصل ہوجاتی تھی۔“ سفینہ نے بتایا۔
” بوڑھی بیمارخاتون کے ہاں ملازمت کا یہ سلسلہ کچھ دیر تو جاری رہا لیکن اب قرض خواہ نضرہ کے میکے اور سسرال کے بعد پھر اس کے نئے شہر والے گھر پہنچ کر ا س کے شوہر کو قرض کی واپسی کے لیے تنگ کرتے تھے۔
کچھ عرصہ تو اس کے شوہر نے یہ صورتحال برداشت کی۔ پھر اس نے قرض خواہوں کے مطالبوں سے تنگ آ کر اسے طلاق دے دی۔“ سفینہ نے بتایا۔
” کیوں؟ نضرہ کے شوہر نے اس پر اتنا ظلم کیوں کیا؟“ عافیہ نے بے چین ہو کر پوچھا۔
” اس کے شوہر کا کہنا تھا کہ جب نضرہ میری اور میرے بچوں کی خدمت نہیں کرتی، اس کی کمائی بھی قرضوں کی ادائیگی میں استعمال ہو جاتی ہے تو پھر ہمیں اس کا کیا فائدہ ہے؟ الٹا قرض خواہ ہمیں مسلسل پریشان کرتے رہتے ہیں۔“ صائمہ نے جواب دیا۔
” درحقیقت نضرہ نے کاروبار میں سود شروع کرکے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری تھی اور اپنے راستے میں سود کے کانٹے بوئے تھے۔ اگر وہ رزق حلال پر قناعت کر لیتی اور اپنے کاروبار کو اتنی ترقی نہ دیتی تو شاید صورتحال بہتر ہوتی۔“ عافیہ نے اس کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا۔
” سودی کانٹے اب خار دار فصل بن کر اس کو شدید تکلیف اور نقصان پہنچا رہے ہیں۔“
صائمہ نے نہایت افسوس سے کہا۔
3 پر “کانٹوں کی فصل” جوابات
سبق آموز تحریر
سبق آموز
سود والے پر اللہ کی لعنت