دو روشن موم بتیاں اور کیک 15

ایک جگنو کے ساتھ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نصرت یوسف :

کیک پر دو موم بتیوں سے پندرہ لکھا تھا، پانچ کے جلنے سے قبل لائٹر کا شعلہ لرز کر بجھ گیا، ارسل شاہ نے دوبارہ شعلہ روشن کیا اور دھیمے سے بولا :
” سالگرہ مبارک ہنی“ تو سامنے کھڑی وہ ہنس پڑی،
”غلط وقت کہا، پہلے ان کو بجھاؤ پھر کیک کاٹتے ہوئے کہنا۔“

اثبات میں سر ہلاتے اس نے وہی کیا جیسا کہا گیا تھا، اب کے سالگرہ مبارک ہنی کی جگہ ” سالگرہ مبارک زندگی“ کہا تو وہ مسکراتے ہوۓ اس کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگی، ارسل شاہ کے اس کی جانب بڑھتے قدم منجمد ہوگئے. وہ اس سے کہنا چاہتا تھا کہ سب سمجھتے ہیں وہ زندہ ہے لیکن کسی کو نہیں پتہ کہ ارسل کی زندگی تو کہیں اور ہے، وہ اس کے ہاتھ تھام کر سوکھے پتوں پر چلتے چپکے سے گدگدی کرتے اس کو ہنستے دیکھنا چاہتا تھا لیکن نہ جانے وہ کہاں جابسی…
کمرہ جیسے برف بن چکا تھا، ارسل شاہ اور وہ اس میں کھڑے دو برف کے مجسمے لگتے تھے.

وہ ارسل شاہ کی پہلی اور آخری محبت تھی. اور محبت نہ ملے تو آس اور نراس دونوں بغل گیر ہوجاتے ہیں. پندرہ برس بعد جب وہ پچاس کے قریب پہنچنے لگا اور تنہائی میں سائے بننے لگے، تو ارسل شاہ نے ایک بار پھر نکاح کرکے منکوحہ سے دل لگا کر گھر بسانے کی کوشش کی، پچھلی اس کو غیر ذمہ دار اور سنکی کہہ کر چھوڑ چکی تھی، ارسل نے بھی اس کے جانے کا کوئی خاص غم نہ منایا، بچے کوئی ہوئے نہیں کہ دونوں کو باندھ کر رکھنے میں معاون بنتے، سو عورت بھی کب تک اور کہاں تک معمہ مانند میاں کو سنبھالتی، تنگ آکر چلی گئی.

ماں باپ کس کے سدا جیے، سو ارسل کے سر سے بھی سایہ آٹھ گیا، وہ بھی آخر وقت تک بیٹے کو اجاڑ سے پر بہار بنانے کی سعی کرتے رہے لیکن ارسل شاہ کا دل تو وہ چنچل لڑکی تھی.. جو شاید مل جاتی تو محبت، نوحہ نہ بنتی. لیکن وہ نہ ملی، محبت پانا مشکل نہ تھا، پا کر نبھانا اور لہلہاتے رکھنا آزمائش تھا. ایسی آزمائش جس میں دونوں ہی کی ناکامی واضح تھی.. سو مدت قبل وہ ایک روز ارسل شاہ سے بنا شکوہ کیے ہر رابطہ ہر ناطہ توڑ گئی..
” ارسل میں منکوحہ بننا محبوبہ بننے سے بہتر سمجھتی ہوں“

ارسل شاہ نے بس نظر بھر کر دیکھا ، خاموشی سے اس کی بات سنی، وہ اپنے خاندان کے طور طریقوں سے بہ خوبی واقف تھا، کسی اپسرا کو شاید وہ قبول کرلیتے لیکن ایسا نہ ہو تو مسائل کی ایک لا متناہی زنجیر تھی، جس کا اختتام ارسل کے اختیار میں نہ تھا.

اب تو خود بھی ادھیڑ عمری کی صف میں شامل ہونے ہی والا تھا لیکن قدرتی رنگ روپ نے وقت کے اثرات سخت نہ چھوڑے. عورتیں اس عمر میں بھی اس کا ہاتھ تھامنے کو تیار تھیں.. لیکن وہ بیوی کو دلربا نہیں بنا سکتا تھا… عورت اس کے لیے ضرورت تھی، محبت نہیں..

محبت تو آج بھی بس وہ تھی جس کے چہرے پر ہنستے ہوئے بھنور پڑتے تھے، جب وہ بولتی تو ارسل میر کے دل میں ساز بجتے، اسے اپنے دل کی دھڑکنوں کا شور کان میں محسوس ہوتا،لیکن وہ چلی گئی… اچھا ہوا وہ چلی گئی، اپنے آپ کو بے مول کیے بنا چلی گئی..

اب وہ ہر سال کسی بھی جگہ سالگرہ مناتا ہے، اس کے جنم دن کی تاریخ پر نہیں بلکہ اس کے جانے والے دن پر. جس دن وہ محبوبہ سے منکوحہ بننے گئی تھی، اس دن جب وہ روح کے اضطراب پر ارسل شاہ کو الوداع کہہ گئی تھی. پھر وہ روشن نقش بناگئی، لیکن ارسل شاہ کی روح کی جوالا دھیرے دھیرے اسے پھونکتی گئی، اب وہ ہر سال اس کی خوشبو اوڑھ کر بیٹھتا ہے اور یادوں کی دنیا بسا کر فنا کا انتظار کرتا ہے..


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں